حضرت ڈاکٹر اقبال علی غنی صاحبؓ ولد مولوی عبدالغنی صاحب قریبًا 1887ء میں پیدا ہوئے، آپ حضرت ڈاکٹر فیض علی صابر صاحب رضی اللہ عنہ (ولادت: 1876ء۔ بیعت: 1900ء۔ وفات: 14؍جنوری 1955ء) کے چھوٹے بھائی تھے۔ اس خاندان میں سب سے پہلے حضرت ڈاکٹر فیض علی صابر صاحبؓ نے ہی اپنے بڑے بھائی حضرت ڈاکٹر علی اظفر صاحب کے ساتھ مشرقی افریقہ میں ملازمت کے دوران احمدیت قبول کی تھی۔ بعدازاں جب حضرت ڈاکٹر صاحب ؓ واپس اپنے گھر امرتسر آئے تو اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کو بھی سلسلہ احمدیہ سے وابستہ کیا اور اپنے دونوں چھوٹے بھائیوں حضرت ڈاکٹر اقبال علی غنی صاحبؓ اور حضرت شیخ منظور علی شاکر صاحبؓ کو قادیان کے سکول میں داخل کرانے کا اظہار کیا، شروع میں تو آپ کی والدہ نے انکار کیا کہ میں اکیلے بچے قادیان میں نہیں چھوڑ سکتی لیکن حضرت ڈاکٹر صاحبؓ کے سمجھانے پر راضی ہوگئیں چنانچہ آپ کی بہن حضرت مراد خاتون صاحبہ اہلیہ حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب رضی اللہ عنہ اس پہلے سفر قادیان کی روداد بیان کرتے لکھتی ہیں کہ ’’…. دوسرے دن اقبال علی اور منظور علی دونوں بھائیوں کو سکول میں داخل کرا کے ہم واپس امرتسر چلے گئے۔‘‘ (الحکم 28؍ستمبر 1934ء صفحہ10 کالم1) اس طرح آپ کو حضرت اقدس علیہ السلام کی زیارت اور صحبت کا شرف حاصل تھا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد آپ نے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی۔
آپ کی شادی حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی نواسی محترمہ امۃ الرحمٰن صاحبہ بنت حضرت مفتی فضل الرحمٰن صاحب رضی اللہ عنہ یکے از 313 صحابہ کے ساتھ ہوئی، نکاح خود حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے مورخہ 26؍اگست 1910ء کو پڑھا جس کی خبر اخبار الحکم میں یوں درج ہے: ’’بعد عصر آپ کی نواسی کا نکاح ہونے والا تھا مگر مفتی فضل الرحمان صاحب کی وقتی غیر حاضری کی وجہ سے بعد نماز مغرب پانچ سو روپیہ مہر پر ڈاکٹر محمد اقبال صاحب سے ہوا۔‘‘ (الحکم 28؍اگست 1910ء صفحہ 13) اس خبر پر لطیفہ یہ ہوا کہ بعض لوگوں نے ڈاکٹر محمد اقبال سے علامہ اقبال سمجھ لیا یہاں تک کہ خود علامہ اقبال نے بذریعہ ’’پیسہ اخبار‘‘ اس کی تردید شائع کرائی کہ ’’اخبار الحکم قادیان مورخہ 28؍اگست 1910ء کے صفحہ 13 پر مندرجہ ذیل خبر ….. سے میرے اکثر احباب کو غلط فہمی ہوئی اور انھوں نے مجھ سے زبانی اور بذریعہ خطوط استفسار کیا ہے۔ سب حضرات کی آگاہی کے لیے بذریعہ آپ کے اخبار کے اس امر کا اعلان کرتا ہوں کہ مجھے اس معاملے سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ جن ڈاکٹر محمد اقبال صاحب کا ذکر ایڈیٹر صاحب الحکم نے کیا ہے وہ کوئی اور صاحب ہوں گے۔‘‘
(کلیات مکاتیب اقبال جلد اول صفحہ 217 مرتبہ سید مظفر حسین برنی ۔ اردو اکادمی دہلی۔ اشاعت چہارم 1993ء)
حضرت ڈاکٹر اقبال علی غنی صاحبؓ بعد ازاں ملازمت کے سلسلے میں اتر پردیش میں رہے، آپ نے بطور اسسٹنٹ سرجن انچارج کیمپ گورنر یوپی بھی کام کی توفیق پائی۔ آپ سلسلہ احمدیہ سے اخلاص رکھنے والے تھے۔ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب رضی اللہ عنہ ایک جگہ آپ کی مخلصانہ کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ڈاکٹر اقبال علی صاحب احمدی انچارج شفاخانہ بارہ بنکی یو پی نے ہمدردی اور اخلاص کا قابل تقلید نمونہ دکھایا ہے جو بہت قابل شکریہ ہے۔ کسی جگہ لوہے کی چارپائیاں نیلام ہو رہی تھیں، تین چارپائیاں اس نیت سے خرید کر لیں کہ نور ہاسپٹل کو بھیجی جائیں گی چنانچہ سینکڑوں میلوں سے وہ چارپائیاں بذریعہ ریل بھیج دیں۔ احباب اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے ہاسپٹل کے لیے مختلف اشیاء جو وقتًاً فوقتًاً الفضل سے معلوم ہوتی رہتی ہیں، بھیجنے کی کوشش فرمایا کریں۔‘‘
(الفضل 8؍جولائی 1927ء صفحہ2 کالم1)
آپ نے 1950ء میں قریبًا 63 سال کی عمر میں وفات پائی، حضرت ڈاکٹر فیض علی صابر صاحبؓ نے خبر وفات دیتے ہوئے لکھا: ’’میرے بھائی ڈاکٹر اقبال علی غنی 4؍جنوری 1950ء کی شام کو کراچی میں حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے فوت ہوگئے ہیں۔ مرحوم صحابی اور موصی تھے۔ مرحوم کی بلندی درجات کے لیے احباب کی خدمت میں دعا کی درخواست ہے۔ ڈاکٹر فیض علی صابر مہاجر قادیان۔ ایف 105 ماڈل ٹاؤن لاہور‘‘
(الفضل 7؍جنوری 1950ء صفحہ6)
آپ کی اہلیہ محترمہ امۃ الرحمٰن صاحبہ بھی موصیہ (وصیت نمبر 7598) تھیں۔ (الفضل 17؍اکتوبر 1944ء صفحہ6 کالم4) آپ کے ایک بیٹے مکرم ذوالفقار علی غنی صاحب کا نکاح حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے رقیہ بیگم صاحبہ بنت جناب میاں محمد شریف صاحب ریٹائرڈ ای اے سی کے ساتھ پڑھا۔ (الفضل 20 جنوری 1942ء) ایک بیٹے ڈاکٹر عطاء الرحمٰن غنی صاحب تھے جو دی گئی تصویر میں ساتھ کھڑے ہیں۔
(از غلام مصباح بلوچ)