• 3 مئی, 2024

غزل

صحرا صحرا بات چلی ہے، نگری نگری چرچا ہے
رات کے غم میں سورج سائیں بادل اوڑھے پھرتا ہے

جھونکا جھونکا تیری خوشبو مجھ سے لپٹ کر گزری ہے
ریزہ ریزہ تیری خاطر میں نے جسم گنوایا ہے

دن بھر بادل چھم چھم برسا، شام کو مطلع صاف ہوا
تب جا کر اک قوسِ قزح پر تیرا پیکر اُبھرا ہے

تو نے جس کی جھولی میں دو پھول بھی ہنس کر ڈال دیے
ساری عمر وہ کاغذ پر خوشبو کی لکیریں کھینچتا ہے

تم کیوں تیز نوکیلے نیزے تان کے مجھ پر جھپٹے ہو
میرا مقدر، تند بگولو! یوں بھی تو بجھ جانا ہے

میں نے اپنے گرد بنا لی زخموں کی دیوار نئی
ایک پرانا غم لیکن رہ رہ کر مجھ پر ہنستا ہے

جلتے جلتے میں بجھ جاؤں یا تو اگنی روپ میں آ
تیرا میرا میل ہو کیسے، میں سورج تو سایہ ہے

سب کہسار، سمندر، صحرا گھومیں اس کے گرد، رشؔید!
وہ اک شخص جو دنیا بھر میں تنہا تنہا رہتا ہے

(رشید قیصرانی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 مارچ 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ