• 14 جولائی, 2025

ربط ہے جانِ محمد ؐسے مری جاں کو مدام (قسط 16)

ربط ہے جانِ محمد ؐسے مری جاں کو مدام
وطن سے محبت
قسط 16

لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنۡ کَانَ یَرۡجُوا اللّٰہَ وَ الۡیَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا

(الاحزاب: 22)

یقیناً تمہارے لئے اللہ کے رسول میں نیک نمونہ ہے ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور کثرت سے اللہ کو یاد کرتا ہے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے وطن سے بہت محبت کرتے تھے۔وطن کی محبت انسان کی فطرت میں گوندھی گئی ہے۔اور شرعی طور سے جائز بلکہ لازم محبت ہے۔ اسی محبت سے ملک کی رونق آبادی اور ترقی ہوتی ہے۔ اس تحریر میں آپؐ کی اپنے وطن سے محبت کے بارے میں چند واقعات درج ہیں۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نزولِ وحی کا سلسلہ شروع ہوا تو ذمہ داری کے احساس سے آپؐ گھبرا گئے۔ اس انوکھے واقعہ سے آپ پر کپکپی طاری ہوگئی۔ حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو سارا واقعہ سنایا آپ ایک زیرک معاملہ فہم مدبر خاتون تھیں۔ آپؐ کی صداقت پر کامل یقین تھا تاہم آپؐ کی جمعیتِ خاطر اور اطمینان قلب کے لئے آپؐ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔جو دین کے بہت بڑے عالم تھے۔ ورقہ بن نوفل نے سارا واقعہ سنا تو بائبل میں موجود پیش گوئیوں کے مطابق پہچان گئےکہ نوشتوں کا لکھا پورا ہونے والا ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نزولِ وحی کی تفصیلات سن کر کہا۔

آپ کی قوم آپ کو جھٹلائے گی آپ کی تکذیب ہوگی۔ آپ ؐ یہ سن کر خاموش رہے۔

پھر اس نے کہا آپ کوتکلیف اور اذیت دی جائے گی۔ آپؐ یہ سن کر بھی خاموش رہے۔

پھر بتایا کہ آپ کو اپنے وطن سے نکال دیا جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حیرت سے فرمایا:
أَوَ مُخْرِجِيَّ ھم؟ کیا وہ مجھے میرے وطن سے نکال دیں گے؟

ہاں تیری قوم تجھے نکال دے گی کیونکہ آج تک کوئی شخص اُس تعلیم کو لے کر نہیں آیا جس تعلیم کو تو لے کر کھڑا ہوا ہے مگر اُس کی قوم نے اس کی ضرور دشمنی کی ہے اگر مجھے وہ دن دیکھنا نصیب ہوا جب تم اپنی قوم کے سامنے اس تعلیم کا اعلان کروگے اور قوم تیری شدید مخالفت کرے گی یہاں تک کہ وہ تجھے اس شہر میں سے نکال دے گی تو میں تیری مدد کروں گا

(بخاری کتاب بدء الوحی)

اِس خبر پر آپؐ کا حیران ہونا آپ ؐکی اپنے وطن سے شدید محبت پر دلیل ہے اور یہ کہ اپنے وطن سے جدائی کا تصور آپؐ کے لئے کتنا گراں تھا۔

وہ بابرکت مقام جہاں اللہ تعالیٰ کا حرم ہے۔ جو حضرت آدم ؑ کے زمانے سے بیت اللہ تھا۔ جسے ابوالانبیا حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیلؑ نے دعائیں پڑھتے ہوئے از سر نو تعمیر کیا جہاں آپ ؐ پیدا ہوئے اس محبوب مقام سے نکالے جانے کی خبر جھٹلائے جانے اور اذیت دئے جانے سے بھی گراں گزری۔ جس کا بے ساختہ اظہار اس بے یقینی سے ہوا ۔کیا وہ مجھے وطن سے نکال دیں گے؟۔

وطن سے بے لَوث محبت کا اظہار اس وقت بھی ہوا جب آپ ؐکو نبوت پرسرفراز ہوئے تیرہ سال ہو گئے تھے۔ پیغام توحید پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی مگر قریشِ مکہ نے بھی مخالفت میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی مظالم کی انتہا ہو گئی تھی تنگ آکرمسلمان خاموشی سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے لگے اکثر مسلمان جا چکے تو رسول اللہ ﷺ کو بھی ہجرت کی اجازت مل گئی رات کے وقت جبکہ کفار مکہ نے آپؐ کے گھر کا محاصرہ کیا ہوا تھا آپؐ سورہ فتح پڑھتے ہوئے اپنے گھر سے نکلے۔ غار ثور میں مختصر قیام کے بعد اگلی منزل کے لئے روانہ ہونے لگے تواونٹنی پر بیٹھے ہوئے بوجھل دل کے ساتھ مڑ کر اپنے مکہ مکرمہ کی طرف دیکھا اور حسرت سے اپنی بستی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا

مَا أَطْيَبَکِ مِنْ بَلَدٍ وَأَحَبَّکِ إِلَيَّ، وَلَوْلَا أَنَّ قَوْمِي أَخْرَجُوْنِي مِنْکِ مَا سَکَنْتُ غَيْرَکِ

(سنن الترمذی، 5: 723، رقم: 3926، صحيح ابن حبان، 9: 23، رقم: 3709، المعجم الکبير للطبرانی، 10: 270، رقم: 10633)

تُو کتنا پاکیزہ شہر ہے اور مجھے کتنا محبوب ہے! اگر میری قوم تجھ سے نکلنے پر مجھے مجبور نہ کرتی تو میں تیرے سوا کہیں اور سکونت اختیار نہ کرتا۔

حضرت عبدللہ بن عدی ؓ کی روایت ہے آپؐ نے فرمایا ’’تو اللہ کی بہترین سر زمین ہے اور اللہ کی سب سے پسندیدہ زمین ہے اگر میں زبردستی تجھ سے نہ نکالا جاتا تو کبھی یہاں سے نہ نکلتا۔‘‘

(مستدرک کتاب المناقب، مناقب عبدللہ بن عدی حدیث نمبر 5827)

حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے آبائی وطن مکہ کی طرح مدینہ منورہ بھی بہت عزیز تھا۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

إِنَّ النَّبِيَّ صلی اللّٰه عليه وآله وسلم کَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ، فَنَظَرَ إِلٰی جُدُرَاتِ الْمَدِيْنَةِ، أَوْضَعَ رَاحِلَتَهِ، وَإِنْ کَانَ عَلٰی دَابَّةٍ، حَرَّکَهَا مِنْ حُبِّهَا

(صحيح البخاري، 2: 666، رقم: 1787، مسند أحمد بن حنبل، 3: 159، رقم: 12644، سنن الترمذي، 5: 499، رقم: 3441)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سفر سے واپس تشریف لاتے ہوئے مدینہ منورہ کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی اونٹنی کی رفتار تیز کر دیتے، اور اگر دوسرے جانور پر سوار ہوتے تو مدینہ منورہ کی محبت میں اُسے ایڑی مار کر تیز بھگاتے تھے۔

حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے:

وَفِی الْحَدِيثِ دَلَالَةٌ عَلٰی فَضْلِ اةِ، وَعَلٰی مَشْرُوعِيَةِ حُبِّ الْوَطَنِ وَالْحَنِيْنِ إِلَيْهِ

(فتح الباری، 3: 621)

یث مبارک مدینہ منورہ کی فضیلت، وطن سے محبت کی فرضیت و جواز اور اس کے لیے مشتاق ہونے پر دلالت کرتی ہے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ خیبر کی طرف نکلا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کرتا رہوں۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خیبر سے واپس لوٹے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُحد پہاڑ نظر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

هٰذَا جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ

یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم بھی اس سے محبت رکھتے ہیں۔

اس کے بعد اپنے دستِ مبارک سے مدینہ منورہ کی جانب اشارہ کر کے فرمایا:

اَللّٰهُمَّ! إِنِّي أُحَرِّمُ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا کَتَحْرِيمِ إِبْرَاهِيمَ مَکَّةَ. اللّٰهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي صَاعِنَا وَمُدِّنَا

(صحيح البخاري، 3: 1058، رقم: 2732، صحيح مسلم، 2: 993، رقم: 1365)

اے اللہ! میں اس کی دونوں پہاڑیوں کے درمیان والی جگہ کو حرم بناتا ہوں جیسے ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کو حرم بنایا تھا۔ اے اللہ! ہمیں ہمارے صاع اور ہمارے مُدّ میں برکت عطا فرما۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنے وطن کی خیرو برکت کے لیے دعا محبت کی واضح دلیل ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب لوگ پہلا پھل دیکھتے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوتے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے قبول کرنے کے بعد دعا کرتے: اے اللہ! ہمارے پھلوں میں برکت عطا فرما۔ ہمارے (وطن) مدینہ میں برکت عطا فرما۔ ہمارے صاع میں اور ہمارے مد میں برکت عطا فرما۔ اور مزید عرض کرتے:

اللّٰهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ عَبْدُکَ وَخَلِيلُکَ وَنَبِيُّکَ، وَإِنِّي عَبْدُکَ وَنَبِيُّکَ وَإِنَّهُ دَعَاکَ لِمَکَّةَ وَإِنِّي أَدْعُوکَ لِلْمَدِينَةِ بِمِثْلِ مَا دَعَاکَ لِمَکَّةَ وَمِثْلِهِ مَعَهُ

(صحيح مسلم، 2: 1000، رقم: 1373)

اے اللہ! ابراہیم علیہ السلام تیرے بندے، تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے اور میں بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں۔ انہوں نے مکہ مکرمہ کے لیے دعا کی تھی۔ میں ان کی دعاؤں کے برابر اور اس سے ایک مثل زائد مدینہ کے لیے دعا کرتا ہوں (یعنی مدینہ میں مکہ سے دوگنا برکتیں نازل فرما)۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی چھوٹے بچے کو بلا کر وہ پھل دے دیتے۔

وطن سے محبت کا ایک اور انداز یہ بھی ہے کہ حضور نبی اکرم نے فرمایا کہ وطن کی مٹی بزرگوں کے لعاب اور رب تعالیٰ کے حکم سے بیماروں کو شفا دیتی ہے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں:

إِنَّ النَّبِيَّ صلی اللّٰه عليه وآله وسلَّم کَانَ يَقُولُ لِلْمَرِيضِ: بِسْمِ اللّٰہِ تُرْبَهُ أَرْضِنَا، بِرِيقَةِ بَعْضِنَا يُشْفٰی سَقِيمُنَا بِإِذْنِ رَبِّنَا

(صحيح البخاري، 5: 2168، رقم: 5413، صحيح مسلم، 4: 1724، رقم: 2194)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مریض سے فرمایا کرتے تھے: اﷲ کے نام سے شروع، ہماری زمین (وطن) کی مٹی ہم میں سے بعض کے لعاب سے ہمارے بیمار کو، ہمارے رب کے حکم سے شفا دیتی ہے۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ کوئی شخص مکہ مکرمہ سے آیا اور بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس سے پوچھا کہ مکہ کے حالات کیسے ہیں؟ جواب میں اُس شخص نے مکہ مکرمہ کے فضائل بیان کرنا شروع کیے تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں آنسؤوں سے تر ہوگئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لَا تُشَوِّقْنَا يَا فُلَانُ

اے فلاں! ہمارا اِشتیاق نہ بڑھا۔

جب کہ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے فرمایا:

دَعِ الْقُلُوْبَ تَقِرُّ

(شرح الزرقانی علی الموطا، 4: 288، السيرة الحلبية، 2: 283)

دلوں کو قرار پکڑنے دو مکہ کی یاد دلا کر مضطرب نہ کرو۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وطن سے محبت کا ثبوت اہل دطن کی خیرخواہی سے بحسن و خوبی ملتا ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام بھی قدرتی طور پر اسی رنگ میں رنگین تھے آپ کے اقوال اور افعال بعینہ اپنے محبوب رسول خدا کے اسوہ حسنہ کا عکس تھے۔ اس بستی میں وہ الہٰی نور برسا کہ کہ قادیان زیر غار نہ رہی ایسا رجوعِ جہان ہوا کہ مرجع خواص بن گئی۔ قادیان سے محبت اس لئے بھی تھی کہ اس خطۂ زمین کو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی بشارتوں کے ساتھ مسیح کی آمد ثانی کے لئے چنا تھا۔ ایک حدیث مبارکہ ہے حضرت رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا ’’تین مساجد کے علاوہ کسی طرف رخت سفرنہ باندھیں اس مسجد یعنی مسجد نبوی مدینہ منورہ، مسجدِ حرام اور مسجد اقصی‘‘

(صحیح مسلم کتاب الحج باب لا تشد الرحال الاالیٰ ثلاثہ مساجد)

مسجد اقصیٰ کا ذکر قرآن پاک میں بھی ہے۔

سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ

(بنی اسرائیل: 2)

پاک ہے وہ جو رات کے وقت اپنے بندے کو مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ کی طرف لے گیا جس کے ماحول کو ہم نے برکت دی ہے

حضرت اقدس مسیح موعود ؑ نے اس آیت کی تشریح میں فرمایا ’’معراج مکانی اور زمانی دونوں پر مشتمل ہے اور بغیر اس کے معراج ناقص رہتا ہے پس جیسا کہ سیرِ مکانی کے لحاظ سے خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو مسجد الحرام سے بیت المقدس تک پہنچا دیا تھا ایسا ہی سیرِ زمانی کے لحاظ سے آنجناب کو شوکتِ اسلام کے زمانہ سے جو آنحضرت ﷺ کا زمانہ تھا برکاتِ اسلامی کے زمانہ تک جو مسیح موعود کا زمانہ ہے پہنچا دیا پس اس پہلو کے رُو سے جو اسلام کے انتہاءِ زمانہ تک آنحضرت ﷺ کا سیر کشفی ہے مسجد اقصیٰ سے مراد مسیح موعود کی مسجد ہے جو قادیان میں واقع ہے جس کی نسبت براہین احمدیہ میں خدا کا کلام یہ ہے

مبارک و مبارک و کل امر مبارک یجعل فیہ‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ54-55 حاشیہ)

وطن سے محبت کے انداز دیکھئے فرماتے ہیں

خدا کا تم پہ بس لطف و کرم ہے
وہ نعمت کون سی باقی جو کم ہے
زمینِ قادیاں اب محترم ہے
ہُجُومِ خَلق سے اَرضِ حَرَم ہے
ظُہُورِ عون و نُصرت دَمبَدَم ہے
حَسد سے دشمنوں کی پُشت خَم ہے
سنو اب وقتِ توحیدِ اَتم ہے
سِتَم اب مائلِ مُلکِ عدم ہے
خدا نے روک ظلمت کی اُٹھا دی
فَسُبحَانَ الَّذِی اَخزَی الَّاعَادِی

ہمىں تو قادىان کى دھوپ بھى اچھى لگتى ہے

اس دارالامان کے لئے اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا انی احافظ کل من فی الدار (تذکرہ صفحہ 379)۔ یہاں فرشتوں کا نزول ہوتا۔ آسماں سے برکات نازل ہوتیں۔ خدیجہ جیسی نعمت اور موعود مبشر اولاد ملی جاں نثار جماعت بنی، بارش کے قطروں سے زیادہ نعماء جو گنی نہ جاسکیں۔ منارۃ المسیح، بیت الذکر، بیت الدعا، وسعت پذیر مساجد، بہشتی مقبرہ، مبارک مقدس مقامات، گلیاں، محلے، اینٹ پتھر، ڈھاب، بازار، ہوا، فضا ہر ذرہ حسین پیار کے قابل پھر پیار کیوں نہ ہوتا

سىدۃ النساء حضرت ام المومنین رضى اللہ تعالىٰ عنہا اور خاندان کے اراکىن علىوال کى نہر پر سىر کے واسطے تشرىف لے گئے۔ جہاں سے شام کے قرىب واپسى ہوئى۔ بٹالہ ىا علىوال کے سرسبز درختوں کا گھنا ساىہ دىکھ کر واہ واہ کہتے ہوئے کسى خادمہ کى زبان سے نکلا۔

’’کىسا پىارا منظر اور ٹھنڈى چھاؤں ہے‘‘

حضور (علىہ الصلوۃ والسلام) نے ىہ الفاظ سن کر فرماىا۔

’’ہمىں تو قادىان کى دھوپ بھى اچھى لگتى ہے‘‘

(سىرت المہدى جلد دوم تتمہ صفحہ377)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قادیان سے محبت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو محبت تھی اور کس طرح آپ دیکھا کرتے تھے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’جن مقاموں کے ساتھ خدا تعالیٰ کا تعلق ہوتا ہے وہ ہمیشہ کے لئے متبرک بنا دئیے جاتے ہیں۔ قادیان بھی ایک ایسی ہی جگہ ہے۔ یہاں خدا تعالیٰ کا ایک برگزیدہ مبعوث ہوا اور اس نے یہاں ہی اپنی ساری عمر گزاری اور اس جگہ سے وہ محبت رکھتا تھا۔ چنانچہ اس موقع پر جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور گئے ہیں۔ اور آپ کا وصال ہو گیا ہے۔ ایک دن مجھے آپ نے ایک مکان میں بلا کر فرمایا کہ محمود دیکھو یہ دھوپ کیسی زرد سی معلوم ہوتی ہے۔ چونکہ مجھے ویسی ہی معلوم ہوتی تھی جیسی کہ ہر روز دیکھتا تھا میں نے کہا کہ نہیں اسی طرح کی ہے جس طرح ہر روز ہوا کرتی ہے۔ آپؑ نے فرمایا نہیں یہاں کی دھوپ کچھ زرد اور مدھم سی ہے۔ قادیان کی دھوپ بہت صاف اور عمدہ ہوتی ہے۔ چونکہ آپ نے قادیان میں ہی دفن ہونا تھا اس لئے آپ نے یہ ایک ایسی بات فرمائی جس سے قادیان سے آپ کی محبت اور الفت کا پتا لگتا تھا۔ کیوں کہ جب کہیں سے جدائی ہونے لگتی ہے تو وہاں کی ذرا ذرا سی چیز سے بھی محبت اور الفت کا خیال آتا ہے تو اس جگہ کی چھوٹی سے چھوٹی چیز سے بھی خدا کے مسیح کو وہ الفت تھی جس کا ثبوت اس واقعہ سے ملتا ہے۔

(ماخوذ ازانوار خلافت، انوار العلوم جلد3 صفحہ175)

اللہ تبارک تعالیٰ نے متعدد بار اس کی ترقی کی پیش خبریاں عطا فرمائی تھیں

خدا نے اس ویرانہ یعنی قادیان کو مجمع الدیار بنا دیا کہ ہر ایک ملک کے لوگ یہاں آکر جمع ہوتے ہیں۔

(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد21 صفحہ95)

’’ایک دن آنے والا ہے جو قادیان سورج کی طرح چمک کر دکھلادے گی کہ وہ ایک سچے کا مقام ہے۔‘‘

(دافع البلاء، روحانی خزائن جلد18 صفحہ231)

’’مجھے دکھایا گیا ہے (کہ) یہ علاقہ اس قدر آباد ہوگا کہ دریائے بیاس تک آبادی پہنچ جائے گی۔‘‘

(تذکرہ ایڈیشن ششم صفحہ666)

ہم نے کشف میں دیکھا کہ قادیان ایک بڑا عظیم الشان شہر بن گیا اور انتہائی نظر سے بھی پَرے تک بازار نکل گئے۔ اونچی اونچی دو منزلی یا چو منزلی یا اس سے بھی زیادہ اونچے اونچے چبوتروں والی دوکانیں عمدہ عمارت کی بنی ہوئی ہیں اور موٹے موٹے سیٹھ۔بڑے بڑے پیٹ والے جن سے بازار کو رونق ہوتی ہے، بیٹھے ہیں اور ان کے آگے جواہرات اور لعل اور موتیوں اور ہیروں، روپوں اور اشرفیوں کے ڈھیر لگ رہے ہیں اور قسما قسم کی دوکانیں خوب صورت اسباب سے جگمگا رہی ہیں یکے، بگھیاں، ٹمٹم، فٹن، پالکیاں، گھوڑے، شکر میں، پیدل اس قدر بازار میں آتے جاتے ہیں کہ مونڈھے سے مونڈھا بھڑ کر چلتا ہے اور راستہ بمشکل سے ملتا ہے۔

(تذکرہ ایڈیشن ششم صفحہ 343)

اب ہم اس کمرہ کو نہیں کھولیں گے

حضرت اقدس علیہ السلام کی قادیان سے محبت میں ایک عجیب واقعہ ہے جو حضرت اماں جی حرم حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ’’جب 1908ء میں حضرت مسیح موعود ؑ آخری دفعہ لاہور تشریف لے جانے لگے اور اسی سفر میں آپ کی وفات ہوئی تو مَیں دیکھتی تھی کہ آپ اس موقع پر قادیان سے باہر جاتے ہوئے بہت متأمل تھے اور فرماتے بھی تھے۔ کہ میرا اس سفر پر جاتے ہوئے دل رکتا ہے مگر چونکہ حضرت ام المؤمنین اور بچوں کی خواہش تھی اس لئے آپ تیار ہوگئے۔ پھر جب آپ روانہ ہونے لگے تو آپ نے اپنے کمرہ کو جو حجرہ کہلاتا تھا خود اپنے ہاتھ سے بند کیا اور جب آپ اس کے دروازہ کو قفل لگا رہے تھے تو میں نے سنا کہ آپ بغیر کسی کو مخاطب کرکے یہ الفاظ فرما رہے تھے کہ ’’اب ہم اس کمرہ کو نہیں کھولیں گے‘‘ جس میں گویا یہ اشارہ تھا کہ اسی سفر کی حالت میں آپ کی وفات ہو جائے گی۔

(سیرت المہدی حصہ اول صفحہ 779)

سب ہم نے اُس سے پایا شاہد ہے تُو خدایا
وہ جس نے حق دِکھایا وہ مہ لقا یہی ہے

(امۃ الباری ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 مارچ 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ