• 14 جولائی, 2025

محترم چوہدری فضل کریم مرحوم

احمدیت کا ورثہ
میرے والد محترم چوہدری فضل کریم مرحوم
دلچسپ خودنوشت حالات، قربانیاں اور افضال الہٰی

خاکسار کے والد محترم چوہدری فضل کریم صاحب،کریم میڈیکل ہال فیصل آباد، اپنے خاندان میں سے اکیلے احمدی ہوئے اور جماعت کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے بے شمار انعامات ہمارے خاندان پر فرمائے۔

1997ء میں اباجان میرے پاس پو لینڈ چند ہفتوں کے لئے تشریف لائے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خاکسار نے اباجان سے یہ عرض کی کہ آپ ہمیں اپنے احمدی ہونے کے حالات سے آگاہ فرمائیں وہ ان کی زبانی بیان کرتا ہوں۔

میری پیدائش 1918ء میں چک 281 ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی ہے۔ میرے والد کا نام حاجی عمر الدین صاحب اور والدہ کا نام امام بی بی تھا۔ ہم دو بھائی تھے بڑے بھائی کا نام محمد علی جو وفات تک احمدی نہیں ہوئے لیکن مخالفت بھی کبھی نہیں کی بلکہ میرے ساتھ بہت پیار کا سلوک کرتے رہے وہ سندھ میں بھر یاروڈ میں آباد ہو گئے تھے۔ میری عمر ایک سال سے کم تھی جب میری والدہ کا انتقال ہو گیا۔ ہمارے گاؤں میں پرائمری اسکول تھا وہاں پانچویں کلاس تک پڑھا، مڈل پکا انّا اسٹیشن اسکول سے کیا، میٹرک کے لئے دسوہہ کے ہائی سکول میں داخل ہوا لیکن نویں کلاس میں تعلیم ختم کردی اور اپنے والد صاحب کے ساتھ زمینداری کا کام دو سال کیا۔ چونکہ ز مینداری کا کام مشکل تھا اس لئے گاؤں میں ایک درزی کے پاس سلائی کا کام ایک سال تک سیکھا یہ وہ زمانہ تھا جب زمینداروں کے بچے بھی دوسرے ہنر سیکھنا شروع کر چکے تھے۔ درزی کا کام نسبتاً آسان خیال کیا جاتا تھا۔ 1931ء میں نویں کلاس میں داخل ہوا۔ 1933ء میں لائل پور (فیصل آباد) چلا گیا۔ دو سال تک چنیوٹ بازار میں درزی کا کام سیکھا اس طرح راجہ چوک ریل بازار میں بھی دو سال تک یہ کام کیا۔ گاؤں میں مجھے احمدیت کا تعارف ہو چکا تھا اس لئے لائل پور کی بیت احمدیہ سے رابطہ ہو گیا۔1934 ء میں بیت احمدیہ لائل پور میں جماعت نے بہت بڑے بڑے جلسے کئے۔ میں نے1936.37ء میں لائل پور بیت احمدیہ میں جا کر بیعت کی۔

بیعت کے وقت خا کسار کی عمر 18۔19 سال تھی جب میں نے بیعت کرلی تو میرے استاد درزی نے ہمارے گاؤں میں میرے والد صاحب کو پیغام بھجوایا کہ آپ کا لڑکا احمدی ہو گیا ہے، اس کو سمجھائیں، اس پر گاؤں سے میرے والد صاحب ان کے دوست مستری علی محمد صاحب اور چند اور افراد مجھے سمجھانے کے لئے لائل پور آئے۔ میں نے عرض کیا کہ قرآن کریم کے ذریعے مجھے سمجھائیں۔ میں سمجھنے کو تیار ہوں۔ بعد میں میرے استاد نے مجھے احمدی ہونے کی وجہ سے رہائش سے نکال دیا البتہ کام ان کے پاس ہی کرتا رہا۔ بیت احمدیہ والوں نے مجھے بیت الذکر آ کر رہنے کی دعوت دی۔ اس پر ایک سال کے لئے بیت احمدیہ میں ٹھہرا۔

لائل پور کے گول بازار میں ایک سبزی فروش تھا جو زمیندار تھا بالکل ان پڑھ تھا لیکن بہت مخلص احمدی تھا اس کے تعلقات گو گھو کھووال میں مکرم چوہدری عبد الستار احمدی کے ساتھ تھے۔ اس سبزی فروش نے میری شادی کے لئے یہ خاندان تجویز کیا۔ میں نے عرض کیا کہ میرے والدین شامل ہوں تو میں شادی کے لئے تیار ہوں اس پر چوہدری عبد الستار صاحب جو میرے خسر محترم بنے اور چوہدری غلام نبی صاحب نمبر دار گوکھووال سے ہمارے گاؤں گئے اس وقت میں بھی اپنے گاؤں میں موجود تھا۔

میرے والد صاحب متعصب نہیں تھے، وہ پیروں فقیروں کو مانتے تھے، اس لئے مجھ پر زیادہ تشدد نہیں کیا۔ جب میں ابھی پانچ چھ ماہ کا بچہ تھا اس وقت میری منگنی میری والدہ نے میری ماموں زاد سے کر دی تھی لیکن جب میں احمدی ہو گیا تو میرے ماموں نے یہ رشتہ دینے سے انکار کر دیا۔ میرا رشتہ دیکھنے کے لئے میری سوتیلی والدہ گوکھووال گئیں۔

میری منگنی مکرم چوہدری عبدالستار صاحب آف گو کھووال کی بیٹی امتہ الشریف صاحبہ کے ساتھ ہو گئی۔ 1938ء میں ہماری شادی ہو گئی۔ دوا کھڑی سے بارات تیار ہو کر بذریعہ ٹرین اور تانگوں پر گو کھوال آئی۔ مکرم سید عنایت حسین شاہ صاحب نے میرا نکاح پڑھا۔ ہمارے گاؤں میں مکرم شاہ صاحب کا بہت اچھا اثر و رسوخ تھا۔ شادی کے بعد لائل پور بیت کی پچھلی گلی منشی محلّہ میں ایک مکان تین روپے کرایہ پر حاصل کیا۔ بعد میں ڈگلس پورہ محلّہ میں ایک چوبارہ بازار میں کرایہ پر لیا۔

میری پہلی بیٹی امتہ اللہ لائل پور میں محمد پورہ میں پیدا ہوئی۔ یہ مکان بہت بڑا تھا جس میں مل کر تین خاندان رہتے تھے۔ بعد میں میرے خسر محترم نے گو کھوال بلا لیا۔ چنانچہ گوکھوال میں ایک بہت بڑے احاطے میں تین خاندان مل کر رہنے لگے۔

1942ء میں حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی تحریک پر کثرت سے احمدی نوجوان فوج میں بھرتی ہو گئے۔ میں نے فیروز پور میں فوجی ٹریننگ حاصل کی۔ چھ ماہ تک فوج کے سپلائی کے محکمہ میں ڈیوٹی دیتا رہا۔ ٹریننگ کے بعد آسام بھجوا دیا گیا۔ کل ساڑھے چار سال فوج میں رہا۔ وہاں سے بذریعہ جہاز برما بھجواگیا۔ رستہ میں چٹاگانگ اتر کر فوجی جیپوں کے ذریعے برما گیا۔ دوسری جنگ عظیم برما میں لڑے۔

میری دوسری بیٹی سعیدہ پیدا ہوئی جو پانچ سال کی عمر میں فوت ہو گئی۔ بعد میں ایک بیٹا 1947ء میں راشد پیدا ہوا جو گرم ابلتے ہوئے پانی میں گر کر جل گیا اور پندرہ بیس دن بعد فوت ہو گیا۔ سعیدہ اور راشد دونوں گوکھوال میں فوت ہوئے۔ راشد کی عمر سوا دو سال تھی۔ 1945ء- 1950ء میں اپنا مکان گوکھوال میں تعمیر کیا۔ اس وقت اینٹ 25 روپے فی ہزار تھی۔ تقسیم ملک سے پہلے لائل پور میں ایک ہندوؤں کی دوکان پر میں کام کرتا تھا۔ جان محمد اس وقت بیت احمدیہ لائل پور کی دکان میں ٹیلرنگ کا کام کرتے تھے۔ یہ میرے شاگرد تھے۔

1944ء میں حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے یہ تحریک بھی فر مائی کہ سابق فوجی واپس آ کر وقف کریں۔ میں نے آ کر رپورٹ کی۔ حضور نے فر مایا کہ میں تحریک جدید میں چوہدری عبد الکریم صاحب کو رپورٹ کروں۔ اس تحریک کا نام حضور نے وقف تجارت رکھا تھا۔ عبد الکریم صاحب نے کہا کہ آپ اپنے طور پر تجارت کریں۔ آپ کا یہی وقف شمار ہوگا۔ چنانچہ میں واپس لائل پور آکر کار خانہ بازار میں ایک ہندو کی کپڑے کی دکان میں سلائی کا کام شروع کیا۔ میرا ایک شاگرد جان محمد میرے ساتھ بھی کام کرتا تھا۔ کام اچھا چل پڑا۔

فوج سے واپس آکر وقف کی غرض سے جب حضور کی خدمت میں حاضر ہوا تو ایک دور بین جو فوج سے ساتھ لایا تھا حضور کی خدمت میں تحفتہً پیش کی جو حفاظت مرکز میں منارة المسیح پر استعمال میں آتی رہی۔

حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے پاکستان روانگی پر قادیان کے امیر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو مقرر فر مایا۔ حضور کی روانگی کے بعد پہلے قافلے میں حضرت مولوی شیر علی صاحب، خاندان کی بعض مستورات اور تفسیر انگریزی بھجوائی گئی۔ آ خری قافلہ دسمبر 1947ء میں خاکسار کے ساتھ پاکستان آیا۔

میں نے اپنے کپڑے وغیرہ سامان لائل پور میں ہندوؤں کی دکان پر رکھا تھا اور حفاظت مرکز کے لئے خود قادیان چلا گیا تھا۔ واپس آیا تو ہندوؤں کی دکان مسلمانوں کو الاٹ ہو چکی تھی۔ چنانچہ میرا سارا سامان ضائع ہو گیا۔ میں نے واپس آ کر لوگوں کو ان کا نقصان رقم کی صورت میں ادا کیا۔ میری مشینیں گھر میں تھی اس لئے بچ گئی۔ سب سے پہلے بیت احمدیہ لائل پور کی دکان کرایہ پر لی۔

1948ء میں ساڑھے تین روپے ماہانہ کرایہ تھا۔ کچھ کپڑا خرید لیا اور ساتھ کاریگر رکھ لئے اور دکان شروع کر دی۔ فوج سے چار پانچ ہزار روپیہ مجھے ملا تھا اس رقم سے یہ کاروبار شروع کیا کام اچھا چل پڑا۔

حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فر مایا کہ نوجوان اور خاص طور پر سابق فوجی فرقان فورس میں کشمیر ڈیوٹی پر جائیں۔ چار پانچ ماہ میں نے دکان چلائی کپڑا اور مشین گھر رکھ کر فرقان فورس چلا گیا۔ پہلے سرائے عالمگیر، بھمبھر، سوکھا تالاب گئے۔ چار پانچ ماہ تک وہاں ڈیوٹی دی۔ میرے ساتھ مکرم میر داؤد احمد پرنسپل جامعہ احمدیہ ربوہ، مکرم میر مسعود احمد اور صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب وہاں ڈیوٹی دیتے تھے اور یہ سارے میرے ساتھ ایک ہی سیکشن میں تھے۔ مجھے آخر پر کمپنی کمانڈر یا امام کمانڈر بنا دیا گیا۔

مکرم مولانا محمد احمد ثاقب پروفیسر جامعہ احمد یہ ربوہ میرے نائب کے طور پر کام کرتے تھے۔ ہماری کمپنی میں ایک نوجوان منظور احمد بہاولپور کے تھے اس جگہ شہید ہوئے۔ ایک دو زخمی بھی ہوئے، زیادہ بمباری ہمارے علاقے میں ہی ہوتی تھی۔ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب (خلیفة المسیح الثالث) ایک دن معائنے کے لئے تشریف لائے ہوئے تھے۔ ایک رات انہوں نے کافی فائرنگ کروائی۔ ہمارے نوجوان بہت بہادری سے پٹرولنگ پر جاتے تھے دشمنوں کے علاقوں میں ہو کر آتے تھے۔ اس وقت بکرا بہت سستا ہوتا تھا۔ چھ سات روپے میں بکرا آ جاتا تھا۔ ہم سب مل کر رقم اکٹھی کر کے بکرا خرید لیتے اور ذبح کر لیتے۔ ہمارے لئے جو سپلائی خچروں پر آتی تھی وہ رستے میں بعض اوقات پانی میں بہہ جاتی تھی۔ ہماری کمپنی کا نام C کمپنی تھا۔

1948ء میں ہی فرقان فورس سے واپس آ گیا۔ لائل پور بیت احمدیہ کی دکان میں جو کپڑا رکھ گیا تھا اس سے دوبارہ کارو بار شروع کیا۔ جو کپڑا تین چار ہزار روپے کا خریدا تھا اس کی قیمت آدھی رہ گئی تھی۔ ملوں کا کپڑا انڈیا سے آنا شروع ہو گیا۔ پورے پاکستان میں صرف ایک ہی کاٹن کی مل ہوتی تھی جو لائل پور میں تھی۔ اس وقت چینی تین آنے سیر اور گھی ایک روپے کا سیر ہوتا تھا۔ چنانچہ دوبارہ بزنس شروع کیا کاریگر ساتھ رکھ لئے۔

1953ء میں حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فر ما یا کہ ہر احمدی ایک ہنر ضرور سیکھے۔ اس وقت میں خدام الاحمدیہ لائل پور کا قائد اور سیکرٹری تحریک جدید تھا۔ یہ ڈیوٹی بہت لمبا عرصہ تک انجام دیتا رہا۔ حضور کی اس تحریک پر میں نے لائل پور کے اللہ جوائی ہسپتال میں مکرم ڈاکٹر شمس الدین صاحب کے پاس ڈسپنسری کی ٹریننگ لینا شروع کردی۔ 1957ء میں ملتان میں ڈسپنسر کا امتحان دیا۔ تھیوری میں پاس ہو گیا۔ لیکن پریکٹیکل میں فیل ہو گیا کیونکہ مجھے ٹریننگ کے لئے وقت بہت تھوڑا ملا تھا۔ 1958ء میں لاہور کنگ ایڈوڈ کالج میں دوبارہ امتحان دیا اور پاس ہو گیا۔

اس دوران دکان میں مزید کپڑا خرید کر رکھا اور اس دکان کے ایک کونے میں ایک میز رکھ کر دوائیاں رکھ لیں۔ ڈاکٹری کا کام آہستہ آہستہ چل پڑا۔ بیت احمدیہ لائل پور کے سامنے بھائی شیخ غلام محمد صاحب کی دکان میں نصف دکان خرید لی۔ اس طرح اس کے ساتھ ایک دکان مشتاق سلائی مشین والوں سے خرید لی۔ گویا میری ڈیڑھ دکان ہو گئی۔ بھائی غلام محمد صاحب والی دکان میں درزی بٹھا دئے اور ساتھ والی دکان پر ادویات کا کارو بار شروع کر دیا اللہ تعالیٰ کے فضل سے ادویات کا کاروبار بہت اچھا ہو گیا بعد میں بیت احمدیہ والی دکان کرایہ پر لے کر جان محمد اور محمد شریف کو وہاں شفٹ کر دیا۔ اپنی دکان پر اسٹور کے لئے گیلری بنائی۔ اپنی بیوی کے نام 14 ہزار روپے سے مکان خریدا۔ 1962ء میں کریم نگر والی زمین خریدی نیز ماسٹر محمد شفیع کی دکان جو ہمارے ساتھ لگتی تھی۔ اس کا پچھلا حصہ 80 ہزار روپے میں خریدا۔ اگلے سال اس دکان کا اگلا حصہ میں نے ایک لاکھ آٹھ ہزار روپے میں خریدلیا۔ گویا اس وقت ہمارے پاس ڈھائی دکانیں تھیں۔ بیت احمدیہ کی دکان ہمارے پاس 32۔33 سال کرایہ پر رہی۔

ہماری رہائش چونکہ گوکھوال میں تھی اور روزانہ آنا جانا پڑتا تھا ایک احمدی دوست شیخ محمد حنیف جو کہ کریسنٹ ملز میں ہیڈ اکاؤنٹنٹ تھے انہو ں نے خاکسار کو تحریک کی کہ یہ زمین (کریم نگر) برائے فروخت ہے۔ آپ جماعت میں تحریک کریں۔ خاکسار نے امیر صاحب لائل پور کی خدمت میں عرض کیا امیر صاحب نے خوشنودی کا اظہار فر مایا۔ ابتدا ء میں 14 احمدیوں نے پلاٹ خریدے۔ میرے دو پلاٹ 5.5 مرلے کے تھے۔ اس وقت 250 روپے فی مرلہ قیمت تھی اور کونے والے پلاٹ پر 50روپے بیت فنڈ کے طور پر مقرر کیا گیا۔ 1963ء میں مکان بنانا شروع کیا۔ شروع میں بلڈنگ میٹیریل لانا کافی مشکل کام تھا۔ کیونکہ اردگرد سارے کھیت تھے اور پانی کے کھالے بند کرنے پڑتے تھے اور پھر دوبارہ انہیں بنانا پڑتا تھا۔ میرے بڑے بھائی محمد علی صاحب نے سندھ سے آکر تعمیر مکان کاکام اپنی نگرانی میں کروایا۔

گوکھوال سے شہر والے مکان میں 1970ء میں شفٹ ہوئے شروع میں مکان مکمل کروا کر کرایہ پر دیا۔ کریم نگر کا نام حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب امیر جماعت احمدیہ لائل پور نے تجویز فر مایا۔ حضرت امیر صاحب ہمارے محلّہ میں کسی احمدی کے مکان کی افتتاحی تقریب میں تشریف لائے تھے۔ اس موقع پر یہ نام رکھا گیا۔ شروع میں رجسٹری کروانے میں کافی مشکلات ہوتی رہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ساری مشکلات دور فر مادیں۔ میں قریباً شروع سے اپنے محلہ کا صدر جماعت رہا ہوں۔ در میان میں ایک بار شیخ عبد القادر صاحب اور حافظ محمد اکرم صاحب تھوڑے عرصہ کے لئے صدر مقرر ہوئے تھے۔ خاکسار فیصل آباد میں ایک لمبے عرصہ سے ناظم ایثار بھی رہا۔

جماعت احمدیہ کے خلاف پاکستان میں کلمہ کیس سب سے پہلے ہمارے محلے میں ہوا۔ شروع میں 22 احمدیوں کے خلاف یہ کیس رجسٹر ہوا اور بعد میں 35 افراد کے خلاف ہو گیا۔ عید الفطر، عید الاصحیٰ اور جمعۃ الوداع کے موقع پر ہمارے خلاف کیس ہوئے جس میں خا کسار، میرے بیٹے رافع کریم، اور رافت کریم بھی شامل تھے۔ 1985ء میں خا کسار کو اپنے بچوں سمیت چار پانچ دن اسیر راہ مولیٰ بننے کا شرف حاصل ہوا جس میں 10۔12 احمدی اور بھی تھے۔ جیل میں ہم نے ایک کاتب سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشعار جیل کی دیواروں پر بہت خو بصورت اور موٹے الفاظ میں لکھوائے تھے۔

اللہ تعالیٰ نے احمدیت کے صدقے خاکسار پر بے انتہا انعامات فر مائے۔ مال دیا، کثرت سے اولاد دی ایک بیٹے حامد کریم کو وقف کرنے کی توفیق دی۔ اللہ تعالیٰ اس کا وقف قبول فر مائے۔ بے شمار پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں بھی اللہ تعالیٰ نے عطا کئے۔

خاکسار کی فیملی میں کسی اور کو احمدی ہونے کی توفیق نہیں ملی اور اگر ان کا ہمارے خاندان سے جو احمدی ہیں مقابلہ کیا جائے تو ہر لحاظ سے اللہ تعالیٰ ٰکے انعا مات ہم پر زیادہ ہیں۔

میرے والد صاحب نے تین بار حج کئے اسی طرح والدہ صاحبہ نے بھی حج کیا۔ والد صاحب نے احمدیت کی مخالفت کبھی نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد کو احمدیت کے نور سے منور فر مائے۔ شروع سے لے کر آج تک خلیفہ وقت کی ہر تحریک میں شامل ہونا باعث بر کت سمجھتا رہا ہوں۔ تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں بھی شامل ہوں اور یہ ساری برکات خلافت سے وابستگی کے نتیجہ میں حاصل ہوئیں۔ الحمد للّٰہ

(حامد کریم محمود۔ مبلغ سلسلہ ہالینڈ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 مارچ 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ