میں تجھے جب خط لکھوں خود کو سنبھالوں تو لکھوں
پاک صاف و باوضو دل کو بنا لوں تو لکھوں
اشک ہوویں روشنائی اور قلم یہ دل بنے
پھر خیال و خواب کے کاغذ بچھا لوں تو لکھوں
چل رہا ہے رات دن اک الجھنوں کا سلسلہ
جان اپنی ان جھمیلوں سے چھڑا لوں تو لکھوں
دل گھٹا جاتا ہے اپنی حالتوں کو دیکھ کر
بار ہے دل پر بہت اس کو ہٹالوں تو لکھوں
نور وہ جس سے منور ہیں ترے قلب و نظر
روح کو اس نور سے روشن کرا لوں تو لکھوں
سانس یوں رکتی ہے جیسے اک گھٹن ہو ہر طرف
اس فضا سے جان کچھ اپنی بچا لوں تو لکھوں
ہے مقابل پر جو دشمن وہ مرا ہی نفس ہے
پہلواں یہ ہے قوی اس کو گرا لوں تو لکھوں
مستحق میں بن سکوں تیری دعائے خاص کا
اشکِ گریہ میں ذرا خود کو بہا لوں تو لکھوں
کیا مری اوقات ہے؟ کیا ہے مجھے خود کی خبر؟
جب کبھی یہ آئینہ خود کو دِکھا لوں تو لکھوں
(ابن الواحد)