• 19 اپریل, 2024

غار حرا کی زیارت

مکّہ مکرمہ کے نواح میں کوئی اڑھائی میل کے فاصلہ پر بہت ہی بابرکت اور نوروں نہلایا ایک پہاڑ ہے جس پر تقریباً پندرہ سوبرس قبل خدا کے نور کی خاص تجّلی کا ظہور ہوا۔ پہاڑ کو عربی زبان میں جبل کہتے ہیں جب سے اس پہاڑ پر اس تجّلی کا ظہورا ہوا تب سے اس مقّدس پہاڑ کو جبلِ نور کے مبارک نام سے یاد کیا جارہا ہے۔ جبلِ نور کی مقدس کوکھ میں ایک ایسی تاریخ سازغار ہے جس کا نام نامی ’’غارِ حرا‘‘ ہے۔ جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جبل طور میں جمالی شریعت تورات کا نزول ہواتھا، اسی طرح ’’غارِ حرا‘‘ بھی تقدس اور تبریک ہے، جس میں عالمی اور دائمی شریعت قرآنِ مجید کے نزول کا آ غاز ہوا تھا۔ ہمارے آقا ومولیٰ، حبیبِ کبریا، سّیدنا حضرت محمد ّ مصطفیٰ احمدِ مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اس عظیم امانت کا بار گراں اُٹھانے سے قبل اس غار میں دنوں، ہفتوں، عشروں اور مہینوں تن تنہا خدائے واحد کی عبادت میں مشغول رہتے تھے۔ انہی بابرکت لمحات میں حضرت جبرئیل امین (اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ) کا زبانی پیغام لے کر حاضر ہوئے۔ کٹھن، پتھریلے رستے اور اندھیری غار کی تنہائی سے تو عرب کا یہ دُرّیتیم نہ گھبرایا مگر جبرئیل علیہ السلام کے لائے گئے پیغام کے بوجھ کو سینے سے لگا کر انہی قدموں سے پہاڑ سے اُترا اور گھبراتا ہوا سیدھا اپنی ہمدرد غمگسار زوجہ مطہرہ کے پاس جا پہنچا۔

اس غار کی زیارت کی تمّنا ہر مسلمان کی طرح ہمارے دل میں بھی کب سے چٹکیاں لے رہی تھی۔ چند ماہ قبل یہ دلی تمنا رنگ لائی خاکسار اپنے اس مقدس سفر کے لمحات کو قارئین کے ساتھ شیئر کرنا چاہے گی جس نے اس دین کو نور کے فوارے بنا کر سارے عرب اور پھر تمام دنیا پر پھوار کرڈالی۔

برسوں پرانی خواہش کی تکمیل

ہمیشہ سے ہماری بھی ایک خواہش اور حسرت تھی کہ کبھی ہمیں بھی موقعہ ملے اور ہم بھی ان راہوں پر قدم رکھتے ہوئے وہاں تک جائیں جس جگہ کے متعلق سنتے آ ئیں ہیں کہ وہاں سے نور نبوت پھوٹا تھا۔ گو کہ اس سے پہلے بھی الحمدللہ تین مرتبہ مکّہ معظمہ جانے کی سعادت نصیب ہوئی تھی۔ دو مرتبہ عمرہ اور طواف کعبہ کی ادائیگی کی اوّلین ترجیح کے بعد ارادہ اور پروگرام تو یہی تھاکہ سب سے پہلے غار حرا جانا ہے۔ مگر کامیابی نہ ہوسکی اور اس ناکامی کا سہرا ہمارے پاکستانی اور عربی ٹیکسی ڈرائیوروں کے سر رہا جنہوں نے اپنی دیانتداری کا ثبوت دیتے ہوئے ہمیں دونوں مرتبہ دھوکے میں رکھا۔ تیسری مرتبہ کا سفر، سفر حج تھا جس میں مناسک حج کی مصروفیات کی وجہ سے ہمارے لئے جبلِ نور کا سفر ممکن نہیں تھا۔ اس مرتبہ یعنی فروری 2020ء میں جب کہ ہمارے قافلے میں چار افراد شامل تھے ہم نے دل میں مصمّم ارادہ کر لیا کہ اس مرتبہ دھوکہ نہیں کھائیں گے۔ ہم گزشتہ تجربات کے ڈسے ہوئے تھے پروگرام یہ بنایا کہ مکّہ پہنچتے ہی سب سے پہلے روز ایک عمرہ کریں گے پھر اگلے روز غار حرا کے سفر کو روانہ ہو جائیں گے تاکہ اس مرتبہ اگر کسی ڈرائیور بھائی نے ہمیں اپنی مومنانہ شان دکھاتے ہوئے دھوکہ دے دیا تو کم از کم مزید دن تو ہمارے پاس ہوں گے جنہیں ہم دوبارہ کوشش کےلئے استعمال کر سکتے ہیں۔ اس مرتبہ ہم نے ٹیکسی بلائی اور اس پر خوب اپنے جغرافیائی علم کا رعب ڈالا کہ ہم مکہ کے آس پاس تمام مبارک زیارات کو پہچانتے ہیں۔ بس ہمیں تم شاہراہ نور تک لے جاؤ۔ یہ والا طریق چل گیا ویسے بھی وہ بھلا مانس ڈرائیور تھا۔ ہمیں شاہراہ نور تو کیا اس سے بھی آگے جہاں سے پہاڑ کی چڑھائی شروع ہوتی ہے وہاں تک لے گیا۔ لیکن وہی نہیں اور بھی گاڑیاں تھیں جو تنگ، ڈھلوانی اور پھسلنی گلیوں پر سے ادھر سے اُدھر ایک دوسرے سے بچ بچا کر بالکل پہاڑ کے نیچے تک مسافروں کو اتار رہیں تھیں۔ خیر! ہم بھی اُترے قریبی دوکانوں سے ٹھنڈے پانی کی بند بوتلیں خریدیں۔اور پہاڑ کی طرف چل پڑے پہاڑ کے نیچے کھڑے ہو کر کچھ خوشی، خوف، یقین، اور کچھ پالینے کاعزم پیہم اورمنزل تک پہنچنے کے جذبے کے ملے جلے احساسات سے جبلِ نور کی بلند قامتی، طوالت، اور وقار ماپنے کی ناکام کوشش کی اور ایک دوسرے کو پہلے آپ پہلے آپ کہتے ہوئے چڑھائی کی طرف چل پڑے۔ پہلے پندرہ منٹ تو رقّت بھرے لہجے سے دُنیا کے سب سے حسین اور اس راہ کے شاید سب سے پہلے مسافر پر درود بھیجتے ہوئے گزر گئے۔ کچھ دور جاکر سیڑھیاں شروع ہو گئیں۔ ایسے لگا بس اب تو یہ بہت آسان ہے کچھ منٹ سیڑھیاں آسان لگیں۔ مگر چند منٹ بعد گنتی بھول گئی کیونکہ سانسیں بھی تو اپنا تواز ن بھول رہیں تھیں۔

ابھی کتنی سیڑھیاں باقی ہیں

ایک دوسرے کو تسلی اور قریب ہی ہے کا دلاسہ دیتے ہوئے قدم قدم سیڑھیاں چڑھتے رہے۔ کچھ اورآ گے بڑھے تو ایسے لگا جیسے اب پہاڑ ختم ہو گیا ہے بس تھوڑا سا فاصلہ ہی اور ہو گا کیونکہ آگے پہاڑ کی اونچائی نظر نہیں آ رہی تھی۔ دل میں اطمینان سا ہو گیا۔ اتنے میں واپس آ تے ہوئے کچھ لوگ پاس سے گزرے اُن سے پوچھا کہ بس اب توتھوڑا سفر رہ گیا ہے نا؟وہ مسافر مسکرائے اور بولے نہیں جی! ابھی بہت آگےجانا ہے۔ سوال کیا کہ پہاڑی تو ختم ہو گئی ہے اب نظر نہیں آ رہی۔ جواب ملا۔ آگے پہنچو! خود معلوم ہو جائے گا۔

یہ تسّلی نہیں تھی۔ بلکہ تسلّی کے علاوہ اور بہت کچھ تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ سے ہم نے بھی امید لگا رکھی تھی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے حبیب کے صدقے اتنی طاقت ضرور دے گا کہ ہم اوپر تک پہنچ جائیں۔اونچائی کی طرف بڑھتی ہوئی لمبی سیڑھیوں میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ ایسے لگتا تھا جیسے کہیں سے ٹوٹی کہیں سے ثابت یہ سیڑھیاں جو لحظہ بہ لحظہ ہماری توانائی کو ناتوانی میں بدل رہیں تھیں کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہیں۔ زائرین کی ایک اچھی خاصی تعداد سیڑھیوں کے دونوں اطراف میں اترائی اور چڑھائی کے عمل میں مصروف تھی۔ کہیں کہیں لیموں کا رس یعنی ٹھنڈی ٹھار اسکنجبین بک رہی تھی۔ دوکاندار تازہ رس نکال کر دیتا تھا۔ ہر جگہ رُک کر پینا بھی بہت ضروری تھا۔ پرندوں کا دانہ بیچنے والے بھی راہ میں دانے کی پوٹلیاں لیے بیٹھے تھے۔ چند ایک سوالی بھی تھے جو محض زائرین کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ یاد کرانے کے لئے بیٹھے تھے۔ ان کے پاس زائرین کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا واسطہ دینے کی خوبصورت لفّاظی موجود تھی۔ ان تین قسم کے تاجروں کے علاوہ نور کی اس راہگزر پر ایک اور تجارت بھی ہو رہی تھی۔ جس کی تفصیل بیان کرنا بہت ضروری ہے۔ ایسی تجارت جسے چلانے والے خدمت خلق کا نام دیتےتھے۔سب سے پہلے جب ہم ہمیں سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے ایک سیڑھی آدھی نئی سیمنٹ سے بنی ہوئی نظر آ ئی ہم زرا سا رکے کہ سیمنٹ کہیں گیلا تو نہیں۔ پاس کھڑے ایک مزدور نما شخص جس کے ہاتھ میں سیمنٹ لگانے والا کھرپہ اور پاس ہی ایک تغاری میں تھوڑا سا گیلا سیمنٹ تھا نے کہا کہ گزر جائیں یہ آپ کے لئے ہی بن رہا ہے۔ کچھ دیر وہاں کھڑے ہوئے تو معلوم ہوا کہ سیمنٹ سے سیڑھیاں مرمت کرنے والے ہر زائر کو یہ کہتے کہ ہم نے نور کے اس راستے میں جہاں ہمارے پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہوتا تھا اُن کے پیروکاروں اوراُن کی محبت میں آنے والے زائرین کے لئے راستے کو آسان بنانے کی خدمت شروع کر رکھی ہے۔ ہم نے کچھ حیرت اور کچھ تجسس سے پوچھا کہ کیا آپ مزدور ہو اور اس وقت اپنی جاب پر ہو اور؟ جواب ملا نہیں۔ ہم یہ محض خد مت خلق کر رہے ہیں۔ تاکہ زائرین کو سیڑھیاں چڑھنے میں آسانی ہو ساتھ ہی مرمّت کرنے والا مزدور یہ بھی کہ دیتا کہ ایک بوری سیمنٹ کی اتنے درہم کی آتی ہے (رقم خاکسار کو یاد نہیں رہی) اگر کوئی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ایک بوری سیمنٹ کی رقم دے دے تو انہیں یقیناً ثواب ملے گا۔ ایک صاحب نے اپنا نام محمد طفیل بتایا۔ ہم نے جناب محمد طفیل صاحب سے تھوڑی سی بحث کی کہ یہ کام تو گورنمنٹ کا ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ گورنمنٹ نے ایک مرتبہ بنا دیا ہے اب وہ نہیں توجہ دے رہی تو ہم تو خدمت خلق کریں نا۔وہاں نذرانہ دے کر کچھ آ گے بڑھے تو ایک اور صاحب محمد علی بھی اسی پوزیشن میں کھڑے تھے۔ سب سے اوپر جب ہم بالکل کچھ تھکاوٹ اور زیادہ اس سوچ کے بوجھ کے نیچے دبے ہوئے منزل تک پہنچنے کے قریب تھے کہ آخر ہمارے پیارے آقا کس طرح اس پتھریلے پہاڑ پر بغیر سیڑھیوں کے اوپر جاتے ہوں گے۔ بالکل آخری سیڑھی پر ایک اور صاحب بھی آدھی سیڑھی بنا کر باقی آدھی کے سیمنٹ کا معاوضہ وصول کرنے کے انتظار میں تھے۔ دو تین اور بھی تھے جن سے ہم مخاطب نہ ہو سکے کیونکہ وہ کسی اور کے ساتھ مصروف تھے۔ ہر تھوڑی دیر بعد ہم لوگ سانس لیتے اوپر پہاڑ کو دیکھتے مگر پہاڑتو ماشاء اللہ ختم ہی ہونے میں نہیں آ رہا تھا۔ بہت اوپر جاکر پھر نیچے کی طرف سیڑھیاں اُترنا شروع ہوئیں کچھ موڑ آ ئے پھر دوبارہ پہاڑ کی چڑھائی شروع ہو گئی۔

جب بھی تھک کر کچھ دیر کو رکتے پہاڑکے چاروں طرف کے نظارے دیکھتے۔ دل میں بار بارایک ہی خیال آتا جو سوال بن کر زباں پر آجاتا، جس کا شاید ہمیں کبھی بھی جواب نہیں ملے گا۔ کہ آخر کیا وجہ ہو گی کہ مکّہ کی قریبی پہاڑیاں اور غاریں چھوڑ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت کے لئے یہ جگہ منتخب کی جہاں گہری خاموشی اور تنہائی تھی۔جبکہ اس وقت نہ کوئی میوزک کا شور تھا اور نہ ہی کثرت افراد اور ہجوم کی گہماگہمی تھی۔ ایسے میں شہر سے دور آکر ایک اندھیری تاریک غار میں کئی کئی دن گزارنا۔عبادت کسی قریبی پہاڑ ی پر بھی ہوسکتی تھی۔ مگر اللہ تعالیٰ کے بھید وہی جانے اس میں اللہ تعالیٰ کی کیا حکمت تھی یہ تو وہی جانتا ہے۔

حبیبِ کبریاؐ کا غارِ حرا تک کا سفر

تاریخِ اسلام میں نبّوت کے بعدکے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی شجاعت وجرأت کے بہت سے واقعات لکھے ہیں جوخارق عادت تصور کئے جاتے ہیں مگر غارحرا کی گھمبیرخاموشی اورتاریکی میں راتیں گزارنے کا یہ واقعہ تو نبوت سے پہلے کا ہے۔ کوئی تو ایسی طاقت تھی جو آپ کو نبّوت سے پہلے بھی عطا کردہ تھی۔ اس کے ساتھ ہی تاریخ اسلام سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی بعض دفعہ کھانا دینے یا کسی اور کام سے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غارِ حرا میں آ ئےتھے (واللہ اعلم یہ بات کہاں تک درست ہے !تاریخ کی کتب میں حضرت خدیجہ ؓ کے متعلق بھی لکھا ہے کہ وہ بھی ایک آدھ مرتبہ غارِ حرا میں تشریف لائیں تھیں) آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تو یقیناً نبّوت سے پہلے بھی کوئی خاص خدا کی طرف سے طاقت ہو گی مگر ان کے غلام اور زوجہ مطہرہ کے ساتھ بھی خدا کی طرف سے کوئی خاص مدد ضرورشامل حال تھی۔ اللہ اکبر۔ جب سے تاریخ اسلام پڑھنے اور سمجھنے کا شعور ملا ہےغار ثور اور غار حرا والے واقعات کو پڑھتے اور سنتے ہوئے انسان ایک لمحے کو ٹھٹکتا ضرور ہےکہ کیسے کوئی انسان رات کی تاریکی میں ان غاروں میں جاکر رہ سکتا ہے۔ اب غار حرا تک پہنچ کر یہ خیال شدّت سے آیا کہ غارِ ثور میں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کے یارِ غار حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ بھی تھےدن کے وقت حضرت عبداللہ ؓ بھی آتے رہے، عامر بن فہیرہ بھی بکریاں چرانے کے بہانے آئے۔ مگر غار حرا تو بالکل ایسی جگہ پر ہے جہاں کی آواز بھی کسی آبادی والی جگہ پر نہ جا سکتی تھی یہاں ایک اکیلا شخص کیسے آکر کئی کئی دن رہ سکتا ہے۔ ہم سیڑھیاں چڑھتے اور اللہ تعالیٰ کے معجزات کو یاد کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔

سیڑھیاں چڑھتے اور اللہ تعالیٰ کےمعجزات کو یاد کرتے ہوئےآ خر کار منزل آ گئی ہم سانسیں اور اپنے جذبات مجتمع کرتے ہوئے لوگوں کے ہجوم کی طرف بڑھے جہاں ایک چائے خانہ ہے ایک تھڑا سا نماز پڑھنے کے لئے بنا ہو اہے۔ ہماری نظریں غار کو تلاش کر رہیں تھیں کچھ اور آ گے بڑھے تو بہت سے لوگ لوہے کے ایک جنگلے پر جھکے ہوئے نظر آئے۔ ابھی تک تو ہمارے لئے اشتیاق ہی تھا کہ اس غار کے تقدّس کو ہم کیسے دیکھیں گے جہاں سے اسلام کا نور پھوٹا تھا۔ کیا ہم وہاں نوافل ادا کر سکیں گے یا نہیں ؟ اس جنگلے تک پہنچے تو عجب منظر نظر آ یا۔ جنگلے سے نیچے زائرین کا ایک جمِ غفیر تھا۔ جو غار کےمنہ کے آگے اپنے نوافل کی ادائیگی کے انتظار میں کھڑا تھا۔ جن میں بڑی عمر کے عورتیں، مرد اور نوجوان لڑکے لڑکیاں بھی تھیں۔ ہم لوگ جنگلے کے ساتھ بیٹھ گئے اور نیچے اس محبت اور جذبے سے پُر جوش ہجوم کو دیکھتے رہے۔ جنگلے کے ساتھ اس لئے بیٹھ گئے کہ ٹھیک ہے رسولِ خدا سے محبت تو ہمیں بھی ہے ! ہم بھی خرابئ صحت، گھٹنوں اور پیروں کی تکالیف کے باوجود یہاں آ نے کی تمنا لئے پہنچے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ یہاں پہنچنے میں ہمارا کوئی ہاتھ یا بہادری نہیں یہ تو ہمارے خالق ومالک نے ہمارے بزرگوں کی کوئی نیکی قبول کر لی ہے اور ہمارے گناہوں کی پردہ پوشی کرتے ہوئے یہاں تک لے آیا ہے۔ ورنہ اپنے میں تو کوئی ہمّت نہیں تھی۔ چڑھائی چڑھتے ہوئے راستے میں بار بار سوچا کہ بس کردوں یہیں بیٹھی رہوں۔ میرے ساتھی ہمّت والے ہیں وہ جائیں میں یہیں بیٹھ کر حبیبِ کبریا پر درود بھیجتی رہتی ہوں۔ شاید اللہ تعالیٰ میرا آج کا درود قبول کر لے۔ راستہ تو وہی ہے نا جہاں سے محمد مصطفیٰ ؐ آیا اور جایا کرتے تھے۔ اور جہاں سے نبّوت کا وہ بوجھ جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
’’اگر میں یہ بوجھ پہاڑوں پر ڈالتا تو وہ ریزہ ریزہ ہوجاتے‘‘ تنِ تنہا اُٹھا کر اُترے تھے۔ جبرئیل تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بوجھ ڈال کر چلے گئے تھے۔ پہاڑسے واپس بھی تو آنا تھا۔ بات ہو رہی تھی غار حرا کے باہر کے ہجوم کی۔ بہر حال بہت سے لوگ ایسے تھے جن کو پسند نہیں تھا کہ اتنی دھکم پیل کر کے اندر جایا جائے۔ کیونکہ یہاں بھی حجر اسود والا حال ہو رہا تھا۔ ہم نے وہیں بیٹھے بیٹھے غار کے دھانے کو اپنی نظروں میں سمایا اور درود شریف پڑھتے رہے۔ جب واپس جانے کے ارادے سے اُٹھ کر کھڑے ہوئے توسامنے کھڑی ایک خاتون نے مجھے پہچانا میں نے ان کو پہچانا اور پوچھا کہ یہاں پہنچ گئی ہو۔ اُنہوں نے فاتحانہ انداز سے سر ہلایا وہ جس جذبے سے سرشار تھیں اُنہیں دیکھ کر مجھے رشک آ رہا تھا یہ کیسے یہاں پہنچ گئی ہیں۔ اس خاتون کا معاملہ یہ تھا کہ چڑھائی چڑھتے ہوئے رستے میں میں نے ان کو اُلٹیاں کرتے دیکھا۔ میں ان کے پاس گئی انہیں جوس پلایا، ذرا ان کے ہو ش بحال ہوئے تو انہیں بہت سمجھایا کہ بس اب اور اوپر مت جانا کیونکہ آپ کی طبیعت بہت خراب ہے۔ لگتا تھا کہ اُن خاتون نے میری بات مان لی ہے اور اب یہ مزید چڑھائی نہیں چڑھیں گی۔ لیکن اب انہیں دیکھ کر سخت حیران ہوئی اور مجھے سوچنا پڑا کہ یہ خاتون مجھ سے زیادہ رسولِ خدا سے محبت کرتی ہیں۔ پھر اس پر طرّہ یہ کہ وہ غار کی طرف چل پڑیں۔ جہاں ہم جانے سے گھبرا رہے تھے۔

غارِ حرا کی چھت پر

غار کی طرف جانے والی سیڑھیاں الگ ہیں کیونکہ جہاں سےہم غار دیکھ رہے تھے اس سے دس پندرہ سیڑھیاں اور نیچے کی طرف تھیں اس کے بعد غار کی طرف رستے کا رُ خ مڑتا تھا۔ وہ خاتون مجھ سے کہنے لگیں کہ تم نیچے نہیں گئی میں تو جارہی ہوں۔ میں نے ذرا آگے ہو کر دیکھا کہ چند سیڑھیاں ہیں جو نیچے جارہی ہیں۔ اور کچھ بوڑھی بوڑھی خواتین غار کی زیارت کر کے واپس اوپر کو چڑھ رہی ہیں۔ اتنے میں میری ساتھی واپسی کی طرف مڑ گئی تھیں۔ مجھے میرا تجسس سیڑھیوں کی طرف لے گیا۔ کچھ اور آگے بڑھی۔ کچھ اور۔ غار تک پہنچنا تو مجھ عاجز کے بس میں نہیں تھا نہ ہی ارادہ تھا، ویسے بھی غار تک جانے کا رستہ تین بڑے بڑے گول پتھروں سے ڈھکا ہوا ہے، جو انتہائی تنگ رستہ ہے۔ اب یہ بات ہمیں کون بتائے کہ کیا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی یہ رستہ ایسے ہی تھا یا وقت نے چھت کے پتھر سرکا کر رستہ تنگ کر دیا ہے (واللّٰہ اعلم) اس جگہ ایک تخت رکھا تھا جہاں ایک زائر خاتون نوافل ادا کر رہی تھیں۔ میرے حساب سے یہ جگہ بالکل غار کا پیچھے کا حصہ بنتی تھی۔ اب مجھے کچھ یاد نہیں رہا کہ میرے ساتھ میرے ساتھی بھی ہیں۔ ایک جذب کی کیفیت میں میں وہیں کھڑی تھی جہاں ایک تنگ رستہ تھا اور زائرین غار تک جارہے تھے۔ یہ غار سارا پہاڑ گزار کر بالکل کونے میں پہاڑ کے پہلو میں تین بڑے بڑے پتھروں کے درمیان واقع ہے۔ اس تک پہنچنے کے لیے ساٹھ ستر میٹر نیچے مغرب کی سمت جانا پڑتا ہے۔ نشیب میں اتر کر راستہ پھر بلندی کی طرف جاتا ہے جہاں پر یہ غار واقع ہے۔ غار پہاڑ کے اندر نہیں بلکہ اس کے پہلو میں تقریباً خیمے کی شکل میں اور ذرا باہر کو ہٹ کر ہے۔بادی النظر میں دیکھنے سے ایسے لگتا تھا جیسے تین چٹانی تختے ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح ٹکے ہوئے ہیں کہ مثلث جیسے منہ والا غار بن گیا ہے۔ ایک بات بعد میں معلوم ہوئی کہ غار کا رخ ایسا ہے کہ سارےدن میں سورج اندر نہیں جھانک سکتا۔ خاکسار نے بھی سوچا غار نہ سہی اس جگہ بھی تو آ نحضور ﷺ کھڑے ہوتے ہی ہونگے نا۔ یا گزرتے ہونگے۔ یہ خیال آتے ہی ہم نے بھی ان خاتون کے ساتھ نوافل ادا کرنا شروع کر دیے۔ نفل پڑھ کر گردن گھمائی تو ایک مہربان ساتھی میرے انتظار میں میرے کھڑی تھی۔ میں نے اس سے کہا اب یہاں تک آ گئے ہیں، غار کے دھانے تک جانا بوجہ رش ہمارے لئے ممکن نہیں تو کیوں نہ چھت پرچڑھ کر دیکھیں۔ اس سوچ کے ساتھ ہی میں نے اپنے سامنے کے پتھروں پر قدم رکھے اور چند قدم آگے بڑھے تو دیکھا کہ دو اڑھائی میٹر کی چٹان تھی جس پر آسانی سے چڑھا گیا۔۔

ذرا آ گے ہو کر دیکھا تو سامنے غار کے دھانے پر کھڑا ہجوم نظر آ گیا۔ گویا اب خاکسار غار حرا کی چھت پر تھی۔ غار حرا کی وہی چھت جس پر جبرئیل اترے تھے اور جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت کا پیغام دیا تھا جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو لفظ اقراء پڑھنے کو کہا اور پھر پڑھ کر سنایا تھا۔ اُس چھت پر میرے جیسی گناہگار، کم ہمّت، کمزور، اور خطاؤں سے بھری ہوئی جھنگ کی مٹّی میں پیدا ہونے والی کھڑی تھی۔ میرے جیسی کم مائیہ ہستی کے لئے یہ بہت بڑا معجزہ تھا۔ (سنا ہے کہ غار میں قبلہ رُخ ایک دراڈ سی ہے جہاں سے خانہ کعبہ نظر آتا ہے) یہ بات کہاں تک درست ہے جو اندر گئے ہوں گے انہیں زیادہ علم ہوگا۔ ہو سکتا ہے ایسا ہو ! کیونکہ غار تک پہنچ کر تو مسجدالحرام کے مینارے نظر آ نا شروع ہو جاتے ہیں کچھ عرصہ پہلے تک جب اس کے گرداونچی اونچی عمارتیں نہیں تھیں تب خانہ کعبہ بھی صاف نظر آ تا تھا۔

غارِ حرا سے واپسی

اب واپسی کا سفر شروع ہوا۔ یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ واپسی آسان ہے۔ ہر گز نہیں۔ ہاں سفر قدرے تیز ہے۔ مگر اُترنا آسان نہیں ! اُترتے ہوئے گھٹنے زیادہ پریشان کرتے ہیں۔ اوپر جاتے ہوئے کچھ چیزیں نظروں میں نہیں سمائیں یا شاید منزل پر پہنچنے کا بوجھ ذہن پر سوار تھا۔ اس لئے کچھ چیزیں جن کا مشاہدہ ہونا چاہئے تھا وہ مشاہدے میں نہیں آ ئیں۔ اترائی.اترتے ہوئے ذہن پرکوئی بوجھ نہیں تھا، محض ایک خوشی، تشکر کا احساس تھا۔ اس لئے اب بہت سی چیزیں نظر آ رہی تھیں جو چڑھائی چڑھتے ہوئے محسوس نہیں ہو ئیں۔ ان میں سے ایک چیز بہت ہی بھلی لگی۔ یہ ایک بڑی پرات کے جتنا بیضوی شکل کا مٹی گارے سے لپا ہوا ایک ننھا سا چھوٹا سا حوض دو چار جگہوں پر بنا ہوا تھا اور ان میں پانی بھی تھا۔ یہ چھوٹے چھوٹے حوض بہت ہی اچھے لگ رہے تھے۔ پوچھنے پر معلوم ہواکہ لوگوں نے پرندوں کے پانی پینے کی جگہیں بنا رکھی ہیں۔ ہم انہیں مٹی کی ننھی ننھی سبیلیں بھی کہہ سکتے ہیں جو انسانوں کے لئے نہیں پرندوں کے لئے تیار کی گئیں تھیں۔ سب پہاڑ کے بہت اوپر بلکہ بالکل آخری حصے پر بنائی گئی تھیں۔ شاید اس لیے کہ شروع کا رستہ تنگ ہے بالکل آ خر میں جاکر پہاڑ قدرے چوڑا ہو جاتا ہے۔ جہاں لوگوں کے بیٹھنے کی بھی جگہ تھی۔ یقیناً مقامی لوگوں کے لئےکوئی اپنی سوچ اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں مخلوق خدا کے لئے کچھ نہ کچھ کرنے کا موقعہ بنتا رہتا ہوگا۔ غار حرا تک پہنچنے کا سار ا سفر، وہاں رکنا، نوافل ادا کرنا، جگہ جگہ سانس لینا، تصاویر لینا، نماز ظہر اور عصر ادا کرنا اور پھر واپس اسی راستے سے نیچے آنے تک پورے چار گھنٹے لگ جاتے ہیں۔

ایک بات جو بڑی شدت سے محسوس کی گئی اور اب بھی کبھی ذہن اس طرف چلا جائے تو ایک خیال آتا ہے۔ کہ چڑھائی چڑھتے ہوئے اور اُترتے ہوئے تمام وقت میں ہم نے محسوس کیا کہ دو سے تین لوگ غالباً مشرقی یورپ کے باشندے تھے۔ اس کے علاوہ ننانوے فیصد زائرین پاکستان کے دیہاتی علاقوں کے تھے۔ عمامے پہننے والے بھی ہم نے وہاں نہیں دیکھے۔ ہاں پاکستان کی ایسی خواتین تھیں جو وہاں بھی چادریں ہی لیتی ہوں گیں، یہاں آنے والی بھی زیادہ تر چادروں میں ہی لپٹی ہوئی تھیں۔ ان زائرین میں بہت کم لوگ ایسے تھے جو پاکستان کے ماڈرن یا تعلیم یافتہ شہری کہلائے جاتے ہیں۔

دیباچہ تفسیرالقرآن صفحہ 113 میں حضرت مصلحِ موعودؓ اس غار کے متعلق لکھتے ہیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر جب تیس سال سے زیادہ ہوئی تو آپ کے دل میں خدا تعالیٰ کی عبادت کی رغبت پہلے سے زیادہ جوش مارنے لگی آخر آپ شہر کے لوگوں شرارتوں، بدکاریوں اور خرابیوں سے متنفّر ہو کرمکّہ سے دو تین میل کے فاصلہ پر ایک پہاڑی کی چوٹی پر پتھروں سے بنی ہوئی ایک چھوٹی سی غار میں خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے لگ گئے۔ حضرت خدیجہؓ چند دن کی غذا آپ ؐ کے لئے تیار کر دیتیں۔ آپ وہ لے کر حرا میں چلے جاتے تھے اور اُن دو تین پتھروں کے اندر بیٹھ کر خدا تعالیٰ کی عبادت میں رات اور دن مصروف رہتے تھے۔ آگے لکھتے ہیں۔ چالیس سال کے ہوئے تو آپ ؐ نے ایک کشفی نظّارہ دیکھا کہ ایک شخص آپؐ کو مخاطب ہو کے کہتا ہے ’’پڑھئے‘‘ آپ نے فرمایا میں تو پڑھنا نہیں جانتا۔ اس پر اُس نے دوبارہ اور سہ بارہ کہا اور آخر پانچ فقرے اس نے آپ سے کہلوائے۔ یہ وہ قرآنی ابتدائی وحی ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اس کا مفہوم یہ ہے کہ تمام دُنیا کو اپنے رب کے نام پر جس نے تجھ کو بھی اور سب مخلوق کو بھی پیدا کیا ہے پڑھ کر آسمانی پیغام سنا دے۔

(نبیلہ رفیق فوزی۔ ناروے)

پچھلا پڑھیں

(کتاب) دعاؤں کا تحفہ مناجات رسولؐ

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ