• 5 مئی, 2024

آیتِ استخلاف ۔۔۔یعنی وہ آیت جس میں مومنین سے خدا تعالیٰ نے خلافت کا وعدہ کیا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔

ان آیات (سورۃالنور آیات 54 تا 57) کا ترجمہ یہ ہے:
اور انہوں نے اللہ کی پختہ قسمیں کھائیں کہ اگر تو انہیں حکم دے تو وہ ضرور نکل کھڑے ہوں گے۔ تو کہہ دے کہ قسمیں نہ کھاؤ۔ دستور کے مطابق اطاعت کرو۔ یقینا اللہ جو تم کرتے ہو اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔

کہہ دے کہ اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو۔ پس اگر تم پِھر جاؤ تو اُس پر صرف اتنی ہی ذمہ داری ہے جو اُس پر ڈالی گئی ہے اور تم پر اتنی ہی ذمہ داری ہے جتنی تم پر ڈالی گئی ہے۔ اور اگر تم اُس کی اطاعت کرو تو ہدایت پا جاؤ گے۔ اور رسول پر کھول کھول کر پیغام پہنچانے کے سوا کچھ ذمہ داری نہیں۔ تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور ان کے لئے اُن کے دین کو، جو اُس نے ان کے لئے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اُس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔ اور نماز کو قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو اور رسول کی اطاعت کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔

یہ آیات جو میں نے پڑھی ہیں، ان میں سے ایک آیت جیسا کہ ہم جانتے ہیں اور ترجمہ بھی آپ نے سُنا، آیتِ استخلاف کہلاتی ہے۔ یعنی وہ آیت جس میں مومنین سے خدا تعالیٰ نے خلافت کا وعدہ کیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی مختلف کتب میں اس آیت کی تفصیل بیان فرمائی ہے۔ اور تفصیل بیان فرماتے ہوئے مختلف طریق پر اُس کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی ہے۔ لیکن اپنی ایک مختصر سی کتاب یا رسالہ ’’الوصیت‘‘ میں اس حوالے سے اپنے بعد جماعت احمدیہ میں نظامِ خلافت جاری ہونے کی خوشخبر ی عطا فرمائی۔ یہ رسالہ آپ نے دسمبر 1905ء میں تصنیف فرمایا جس میں تقویٰ، توحید، اپنے مقام، خلافت اور قربِ الٰہی کے حصول کے لئے جماعت کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرنے کے لئے، مالی قربانی کے جاری رکھنے کے لئے وصیت کا عظیم الٰہی منصوبہ بھی پیش فرمایا جو درحقیقت حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا ایک ایسا نظام ہے جس کے سامنے تمام معاشی نظام بے حقیقت ہیں کیونکہ وہ تقویٰ سے عاری اور صرف چند لوگوں یا چند ظاہری پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں۔ بہر حال اس کی تفصیلات اور جزئیات تو بہت سی ہیں لیکن میں آپ علیہ السلام کے اپنے الفاظ میں، جو آپ نے اس رسالہ میں بیان فرمائے تھے، کچھ اقتباسات آپ کے سامنے رکھوں گا۔

وصیت کا نظام تو جیسا کہ میں نے کہا کہ 1905ء میں جب یہ کتاب لکھی گئی تھی، اُس وقت سے جاری ہو گیا تھا۔ لیکن آیتِ استخلاف کے حوالے سے جو بات آپ علیہ السلام نے اس کتاب میں بیان فرمائی ہے یعنی خلافتِ احمدیہ۔ وہ اس رسالے کے لکھے جانے کے تین سال بعد آج سے ایک سو تین سال پہلے آپ علیہ السلام کے وصال کے بعد آج کے روز 27؍مئی 1908ء کو جاری ہوئی۔ اور یہ نظامِ خلافت وہ نظام ہے جو چودہ سو سال کی محرومی کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمایا ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ آپ کے سامنے رکھوں یا اقتباسات پیش کروں، اِن آیات کی مختصر وضاحت پیش کروں گا تا کہ نظامِ خلافت سے متعلقہ قرآنی احکام بھی سامنے رہیں۔ اِن آیات میں اللہ اور رسول کو ماننے والوں کے لئے اور خلفاء کی بیعت کرنے والوں کے لئے بھی ایک مکمل لائحہ عمل سامنے رکھ دیا ہے۔ اور پہلی بات اور بنیادی بات یہ بیان فرمائی کہ اطاعت کیا چیز ہے اور اس کا حقیقی معیار کیا ہے؟ اطاعت کا معیار یہ نہیں ہے کہ صرف قسمیں کھا لو کہ جب موقع آئے گا تو ہم دشمن کے خلاف ہر طرح لڑنے کے لئے تیار ہیں۔ صرف قسمیں کام نہیں آتیں۔ جب تک ہر معاملے میں کامل اطاعت نہیں دکھاؤ گے حقیقت میں کوئی فائدہ نہیں۔ کامل اطاعت دکھاؤ گے تو تبھی سمجھا جائے گا کہ یہ دعوے کہ ہم ہر طرح سے مر مٹنے کے لئے تیار ہیں حقیقی دعوے ہیں۔ اگر اُن احکامات کی پابندی نہیں اور اُن احکامات پر عمل کرنے کی کوشش نہیں جو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول نے دئیے ہیں تو بسا اوقات بڑے بڑے دعوے بھی غلط ثابت ہوتے ہیں۔ پس اصل چیز اس پہلو سے کامل اطاعت کا عملی اظہار ہے۔ اگر یہ عملی اظہار نہیں اور بظاہر چھوٹے چھوٹے معاملات جو ہیں اُن میں بھی عملی اظہار نہیں تو پھر دعوے فضول ہیں۔ إِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ کہہ کر یہ واضح فرما دیا کہ انسانوں کو دھوکہ دیا جا سکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ جو ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے، ہر مخفی اور ظاہر عمل اُس کے سامنے ہے، اس لئے اُس کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ پس ہمیشہ یہ سامنے رہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر وقت دیکھ رہا ہے۔ اور ایک حقیقی مومن کو اس بات کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھنا چاہئے۔ اور جب ایک انسان کو اس بات پہ یقین قائم ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے تو پھر صرف قَسمیں ہی نہیں رہتیں بلکہ دستور کے مطابق اطاعت کا اظہار ہوتا ہے۔ ہر معروف فیصلے کی کامل اطاعت کے ساتھ تعمیل ہوتی ہے۔ اللہ اور رسول کی اطاعت بجا لانے کے لئے انسان حریص رہتا ہے۔ اُس کے لئے کوشش کرتا ہے۔ أَطِیْعُوا اللّٰہ وأَطِیْعُوا الرّسُول کے ساتھ وَاُوْلِی الْأَمْرِ مِنْکُمْ بھی یعنی امیر اور نظامِ جماعت کی اطاعت بھی ضروری ہو جاتی ہے۔ خلیفہ وقت کی اطاعت بھی ضروری ہو جاتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو جو یہ کامل اطاعت نہیں دکھاتے اور اپنی مرضی کرتے ہیں، فرماتا ہے کہ تمہارے ان احکامات پر عمل نہ کرنے اور پھر جانے کا گناہ جو ہے، یہ بَار جو ہے یہ تم پر ہے اور تمہی اس کے بارے میں پوچھے جاؤ گے۔ رسول سے اس کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا جائے گا۔ اللہ کے رسول پر اس کی ذمہ داری نہیں ہو گی۔ جو احکامِ شریعت تھے وہ اللہ کے رسول نے پہنچا دئیے اور پھر رسول کی اتباع میں خلیفۂ وقت نے اللہ اور رسول کے احکام پہنچا دئیے۔ پس نصیحت کرنے والے، شریعت کے احکام دینے والوں نے تو اپنا کام کر دیا۔ اُن پر عمل نہ کر کے عمل نہ کرنے والے جوابدہ ہیں۔ یہاں جو مَیں رسول کے ساتھ خلیفہ کی بات بھی جوڑ رہا ہوں تو ایک تو مَیں نے بتایا ہے قرآنِ کریم میں اُوْلِی الْأَمْرِ مِنْکُمْ آتا ہے۔ دوسرے خلافتِ راشدہ جو ہے وہ رسول کے کام کو ہی آگے بڑھانے کے لئے آتی ہے اور یہی نبوت کا تسلسل ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ نصیحت فرماتے ہوئے فرمایا کہ میری سنت پر چلنا اور پھر خلفاء راشدین کے طریق پر چلنا۔ یہ آپ نے اس لئے فرمایا کہ خلفاء راشدین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور سنت اور شریعت کو لے کر ہی آگے بڑھنے والے ہیں۔ یہ جو حدیث ہے یہ پوری اس طرح ہے۔

حضرت عبدالرحمٰن بن عمرو سُلَمیؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ایک بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسا پُر اثر وعظ کیا کہ جس کی وجہ سے آنکھوں سے آنسو بَہ پڑے، دل ڈر گئے۔ ہم نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول! یہ تو ایسی نصیحت ہے جیسے ایک الوداع کہنے والا وصیت کرتا ہے۔ ہمیں کوئی ایسی ہدایت فرمائیے کہ ہم صراطِ مستقیم پر قائم رہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میں تمہیں روشن اور چمکدار راستے پر چھوڑے جا رہا ہوں۔ اس کی رات بھی اُس کے دن کی طرح ہے۔ سوائے بدبخت کے اس سے کوئی بھٹک نہیں سکتا۔ یعنی یہ بڑے واضح راستے ہیں۔ اور تم میں سے جو شخص رہا وہ بڑا اختلاف دیکھے گا۔ (ساتھ انذار بھی کر دیا کہ باوجود اِن واضح راستوں کے اختلافات پیدا ہو جائیں گے۔) ایسے حالات میں تمہیں میری جانی پہچانی سنت پر چلنا چاہئے اور خلفاء ِ راشدین مہدیّین کی سنت پر چلنا چاہئے۔ تم اطاعت کو اپنا شعار بناؤ خواہ حبشی غلام ہی تمہارا امیر مقرر کر دیا جائے۔ اس دین کو تم مضبوطی سے پکڑو۔ مومن کی مثال نکیل والے اونٹ کی سی ہے۔ جدھر اُسے لے جاؤ وہ اُدھر چل پڑتا ہے اور اطاعت کا عادی ہوتا ہے۔

(خطبہ جمعہ 27؍ مئی 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 مئی 2021