• 9 مئی, 2025

’’اس وقت اتحاد اور اتفاق کو بہت ترقی دینی چاہئے‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’اس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے۔ یہ خانۂ خدا ہوتا ہے۔ جس گاؤں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہو گئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی۔ اگر کوئی ایسا گاؤں ہو یا شہر جہاں مسلمان کم ہوں یا نہ ہوں اور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو ایک مسجد بنادینی چاہیے۔ پھر خد اخود مسلمانوں کو کھینچ لاوے گا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ قیامِ مسجد میں نیت بہ اخلاص ہو۔ محض لِلّٰہ اُسے کیا جاوے۔ نفسانی اغراض یا کسی شرکو ہرگز دخل نہ ہو۔ تب خد ابرکت دے گا‘‘۔

(ملفوظات جلد4 صفحہ93 ایڈیشن 2003ء)


یہ اقتباس مَیں پہلے بھی کئی دفعہ پیش کر چکا ہوں لیکن اس میں بیان کردہ باتیں اتنی اہم ہیں کہ ہر احمدی کو بار بار اُنہیں سامنے رکھنا چاہئے۔ پہلی بات یہ کہ یہ خانۂ خدا ہے۔ خانۂ خدا کے لئے جو باتیں ہمیں پیشِ نظر رکھنی چاہئیں ان کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ اگر یہ یقین ہے کہ خدا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر احمدی اس یقین پر قائم ہے کہ خدا ہے تو پھر اُس کے گھر کے احترام، عزت اور اُسے آباد کرنے کی طرف بھی توجہ دینی ہو گی۔ اور جب خدا تعالیٰ کی خاطر اُس کے گھر کو آباد کرنے کی طرف توجہ ہو گی تو پھر عبادت کے ساتھ ساتھ خدا تعالیٰ کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ ہو گی۔ آپس میں پیارو محبت سے رہنے کی طرف بھی توجہ کرنی ہو گی۔

اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مسجد کے حوالے سے ہی فرماتے ہیں کہ:
’’جماعت کے لوگوں کو چاہئے کہ سب مل کر اسی مسجد میں نماز با جماعت ادا کیا کریں‘‘۔ فرمایا ’’جماعت اور اتفاق میں بڑی برکت ہے۔ پراگند گی سے پھوٹ پید اہوتی ہے اور یہ وقت ہے کہ اس وقت اتحاد اور اتفاق کو بہت ترقی دینی چاہئے اور ادنیٰ ادنیٰ باتوں کو نظر انداز کر دینا چاہیے جو کہ پھوٹ کا باعث ہوتی ہیں‘‘۔

(ملفوظات جلد4 صفحہ93 ایڈیشن 2003ء)

پس پہلی بات جو خانۂ خدا کے حوالے سے یاد رکھنی چاہئے کہ یہ خانۂ خدا ہے اور ہر احمدی نے جو اس علاقے میں رہتا ہے، اس میں باجماعت نمازوں کی طرف توجہ کر کے اس کا حق ادا کرنا ہے۔ اور باجماعت عبادت کا حق پھر اس طرف توجہ دلانے والا ہو کہ ہم نے محبت اور پیار اور اتفاق سے رہنا ہے۔

فرمایا کہ ’’اس وقت اتحاد اور اتفاق کو بہت ترقی دینی چاہئے‘‘۔ یہ بات آج سے تقریباً ایک سو آٹھ سال پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمائی۔ اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ کی تربیت جس طرح ساتھ ساتھ ہو رہی تھی اور اُن کا تقویٰ جس معیار پر تھا وہ آج سے انتہائی بلند تھا۔ خدا کا خوف اُن میں زیادہ تھا۔ نمازوں کی توجہ اُن میں بہت بڑھ کر تھی۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے والے وہ لوگ تھے جن کا خدا تعالیٰ سے ایک خاص تعلق تھا۔ لیکن نبی کا کام ہے کہ تقویٰ کی تمام باریکیوں کو اپنے ماننے والوں کے سامنے رکھ کراُن کو اعلیٰ معیار کی طرف رہنمائی کرے۔ اس لئے آپ نے ہر امکان کو کھول کر اپنے ماننے والوں کے سامنے رکھ کر نصیحت فرمائی کہ اس طرف بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ آپ علیہ السلام کو فکر تھی کہ یہ ابتدائی دور ہے۔ اگر اس میں معیارِ تقویٰ بلندنہ ہوا تو آئندہ آنے والوں کے سامنے ایسے نمونے نہیں ہوں گے جس سے وہ تقویٰ کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ میں نے صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے واقعات کا جو سلسلہ شروع کیا تھا، اس میں بہت زیادہ تشنگی رہ گئی ہے کیونکہ تمام صحابہ کے واقعات ہمارے سامنے نہیں آئے اور جو آئے وہ بھی بہت کم اور مختصر تھے۔ لیکن جو سامنے آئے وہی ایسے معیار کے ہیں جو صحابہ کے لئے دعاؤں کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ اور اُن صحابہ کی نسل میں سے جو بعض شاید یہاں سپین میں بھی رہنے والے ہوں، اُن کو خاص طور پر اپنے بزرگوں کے لئے دعاؤں اور اُن کے نمونوں پر چلنے کی طرف متوجہ ہونا چاہئے اور یہاں اس ملک میں توہم نے ابھی بے انتہا کام کرنا ہے۔ اُس کھوئی ہوئی ساکھ کو دوبارہ قائم کرنا ہے جو آج سے کئی صدیاں پہلے کھوئی گئی۔ یہاں رہنے والوں کو دوبارہ دینِ اسلام کی خوبیاں بتا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانا ہے اور اس کے لئے سب سے اہم چیز اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنا، اُس سے مدد مانگنا اور ایک اکائی بن کر تبلیغ کا کام کرنا ہے۔

(خطبہ جمعہ 5؍اپریل 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

انسانیت کی مدد، دنوں یا ہندسوں کی محتاج نہیں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 مئی 2022