دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ)
قسط 28
خدا تعالیٰ نے دعا اور کوشش دونو کی تاکید فرمائی ہے
تقویٰ کا مرحلہ بڑا مشکل ہے اسے وہی طے کر سکتا ہے جو بالکل خدا تعالیٰ کی مرضی پر چلے۔ جو وہ چاہے وہ کرے اپنی مرضی نہ کرے۔ بناوٹ سے کوئی حاصل کرنا چاہے تو ہرگز نہ ہوگا۔ اس لئے خدا کے فضل کی ضرورت ہے اور وہ اسی طرح سے ہوسکتا ہے کہ ایک طرف تو دعا کرے اور ایک طرف کوشش کرتا رہے۔ خدا تعالیٰ نے دعا اور کوشش دونو کی تاکید فرمائی ہے۔ اُدۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ میں تو دعا کی تاکید فرمائی ہے۔ اور وَالَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا میں کوشش کی۔ (العنکبوت: 70) جب تک تقویٰ نہ ہوگا اولیاء الرحمٰن میں ہرگز داخل نہ ہوگا اور جب تک یہ نہ ہوگا حقائق اور معارف ہرگز نہ کھلیں گے۔ قرآن شریف کی عروس اسی وقت پردہ اٹھاتی ہے جب اندرونی غبار دور ہو جاتا ہے۔
(ملفوظات جلد6 صفحہ227)
انبیاء کا آخری حربہ دعا ہوتی ہے
میں سمجھتا ہوں کہ دعا سے آخری فتح ہوگی اور انبیاء علیہم السلام کا یہی طرز رہا ہے کہ جب دلائل اور حجج کام نہیں دیتے تو ان کا آخری حربہ دعا ہوتی ہے جیسا کہ فرمایا وَاسۡتَفۡتَحُوۡا وَخَابَ کُلُّ جَبَّارٍ عَنِیۡدٍ (ابراہیم: 16) یعنی جب ایسا وقت آجاتا ہے کہ انبیاء و رسل کی بات لوگ نہیں مانتے تو پھر دعا کی طرف توجہ کرتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے مخالف متکبر و سرکش آخر نامراد اور ناکام ہوجاتے ہیں۔
(ملفوظات جلد6 صفحہ323)
عیسائیت کے مہلک فتنہ کی نسبت آپ نے فرمایا کہ بہت غور اور فکر کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اب صرف قلموں اور کاغذوں کا ہی کام نہیں ہے کہ وہ اس فتنہ کو فرو کرسکےکتابیں ہم نے لکھیں تو اس کے مقابل پر انہوں نے بھی لکھدیں۔ لوگ اپنے اپنے نفس کی فکر میں اس قدر مصروف ہیں کہ ان کو مقابلہ کرنے کی فرصت ہی نہیں ہوتی اور جب انہوں نے مقابلہ ہی نہ کیا تو پھر حق کیسے کھلے۔ اس لئے اب میرا ارادہ ہے کہ ایک لمبا سلسلہ دعا اور انقطاع کا شروع کیا جاوے۔ نرے وعظ اور تبلیغ سے کیا ہوتا ہے۔ انبیاء بھی جب وعظ اور تبلیغ سے تھک گئے اور دیکھا کہ ابھی فتنہ برقرار ہے تو پھر انہوں نے دعاکی طرف توجہ کی تاکہ توجہ باطنی سے فتنہ کو پاش پاش کیا جاوے جیسے کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے وَاسۡتَفۡتَحُوۡا وَخَابَ کُلُّ جَبَّارٍ عَنِیۡدٍ (ابراہیم: 16) یعنی جب رسولوں نے دیکھا کہ وعظ اور پند سے کچھ فائدہ نہ ہوا تو انہوں نے ہر ایک بات سے کنارہ کش ہو کر خداتعالیٰ کی طرف توجہ کی اور اس سے فیصلہ چاہا تو پھر فیصلہ ہوگیا”
(حاشیہ ملفوظات جلد6 صفحہ323)
دعا جیسی کوئی چیز نہیں
گناہوں سے پاک ہونے کے واسطے بھی اللہ تعالیٰ ہی کا فضل درکار ہے جب اللہ تعالیٰ اس کے رجوع اور توبہ کو دیکھتا ہے تو اس کے دل میں غیب سے ایک بات پڑجاتی ہے اور وہ گناہ سے نفرت کرنے لگتا ہے اور اس حالت کے پیدا ہونے کے لئے حقیقی مجاہدہ کی ضرورت ہے۔
وَالَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا
(العنکبوت: 70)
جو مانگتا ہے اس کو ضرور دیا جاتا ہے۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ دعا جیسی کوئی چیز نہیں۔
(الحکم جلد8 نمبر8 مورخہ 10مارچ 1904ء صفحہ7)
دعائیں اللہ تعالیٰ کو راضی
کرنے کے واسطے کرنی چاہئیں
دنیا میں دیکھو کہ بعض خر گدا ایسے ہوتے ہیں کہ وہ ہر روز شور ڈالتے رہتے ہیں۔ ان کو آخر کچھ نہ کچھ دینا ہی پڑتا ہے اور اللہ تعالیٰ تو قادر اور کریم ہے جب یہ اَڑ کر دعا کرتا ہے تو پالیتا ہے کیا خدا انسان جیسا بھی نہیں۔
یہ قاعدہ یاد رکھو کہ جب دعا سے باز نہیں آتا اور اس میں لگا رہتا ہے تو آخر دعا قبول ہوجاتی ہے مگر یہ بھی یاد رہے کہ باقی ہر قسم کی دعائیں طفیلی ہیں اصلی دعائیں اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے واسطے کرنی چاہئیں۔ باقی دعائیں خود بخود قبول ہوجائینگی۔ کیونکہ گناہ کے دور ہونے سے برکات آتی ہیں۔ یوں دعا قبول نہیں ہوتی جو نری دنیا ہی کے واسطے ہو۔ اس لئے پہلے خدا تعالیٰ کو راضی کرنے کے واسطے دعائیں کرے اور وہ سب سے بڑھ کر دعا اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ (الفاتحہ: 6) ہے۔ جب یہ دعا کرتا رہے گا تو وہ منعم علیہم کی جماعت میں داخل ہوگا جنہوں نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی محبت کے دریا میں غرق کردیا ہے۔ ان لوگوں کے زمرہ میں جو منقطعین ہیں داخل ہو کر یہ وہ انعامات الٰہی حاصل کرے گا جیسے عادت اللہ ہمیشہ سے جاری ہے۔ یہ کبھی کسی نے نہیں سنا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اپنے ایک راستباز۔ متقی کو رزق کی ماردے بلکہ وہ تو سات پشت تک بھی رحم کرتا ہے۔
(ملفوظات جلد6 صفحہ385-386)
انسان کی ضرورتوں اور خواہشوں کی تو کوئی حد نہیں اور بعض لوگ انہی کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں اور ان کو خدا کو راضی کرنے اور گناہ سے بچنے کی دعا کا موقعہ ہی نہیں پیش آتا لیکن اصل بات یہ ہے کہ دنیا کے لئے جو دعا کی جاتی ہے وہ جہنم ہے۔ دعا صرف خدا کو راضی کرنے اور گناہوں سے بچنے کی ہونی چاہیئے۔ باقی جتنی دعائیں ہیں وہ خود اس کے اندر آجاتی ہیں۔
(البدر جلد3 نمبر11 صفحہ4)
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ بڑی دعا ہے۔ صِرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ گویا خدا کو شناخت کرنا ہے اور اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِم کل گناہوں سے بچنا ہے اور صالحین میں داخل ہونا ہے۔ (البدر حوالہ مذکور)
(حاشیہ ملفوظات جلد6 صفحہ386)
دعا ہر مشکل کو آسان کر دیتی ہے
سچا مسلمان بننا اور اونٹ کا سوئی کے ناکے سے نکلنا ایک ہی بات ہے۔ جب تک یہ نفس اونٹ کی طرح موٹا ہے یہ اس میں سے نکل نہیں سکتا۔ لیکن جب دعا اور تضرع کے ساتھ نفس کو مار لیتا ہے اور وہ جسم جو عارضی طورپر اس پر چڑھا ہوا ہوتا ہے دور ہوجاتا ہے تو یہ لطیف ہو کر اس میں سے نکل جاتا ہے اس کے لئے ضرورت ہے دعا کی۔ پس ہر وقت دعا کرتا رہے کیونکہ دعا تو ایک ایسی چیز ہے جو ہر مشکل کو آسان کر دیتی ہے۔ دعا کے ساتھ مشکل سے مشکل کام بھی آسان ہوجاتا ہے۔ لوگوں کو دعا کی قدروقیمت معلوم نہیں وہ بہت جلد ملول ہوجاتے ہیں اور ہمت ہار کر چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ حالانکہ دعا ایک استقلال اور مداومت کو چاہتی ہے۔ جب انسان پوری ہمت سے لگا رہتا ہے تو پھر ایک بدخلقی کیا ہزاروں بدخلقیوں کو اللہ تعالیٰ دور کردیتا ہے اور اسے کامل مومن بنا دیتا ہے لیکن اس کے واسطے اخلاص اور مجاہدہ شرط ہے جو دعا ہی سے پیدا ہوتا ہے۔
(ملفوظات جلد6 صفحہ404)
اگر دعا اپنے اختیار میں ہوتی تو انسان جو چاہتا کرلیتا۔ اس لئے ہم نہیں کہہ سکتے کہ فلاں دوست یا رشتہ دار کے حق میں ضرور فلاں بات ہوہی جاوے گی۔ بعض وقت باوجود سخت ضرورت محسوس کرنے کے دعا نہیں ہوتی اور دل سخت ہوجاتا ہے۔چونکہ اس کے سِرّ سے لوگ واقف نہیں ہوتے اس لئے گمراہ ہوجاتے ہیں۔ اس پر ایک شبہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر جف القلم والی بات (یعنی مسئلہ تقدیر جس رنگ میں سمجھا گیا ہے) ٹھیک ہے۔ لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ خدا کے علم میں سب ضرور ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ خدا تعالیٰ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ فلاں کام ضرور ہی کر دیوے۔ اگر ان لوگوں کا یہی اعتقاد ہے کہ جو کچھ ہونا تھا وہ سب ہوچکا اور ہماری محنت اور کوشش بیسود ہے تو درد سر کے وقت علاج کی طرف کیوں رجوع کرتے ہیں۔ پیاس کے لئے ٹھنڈا پانی کیوں پیتے ہیں؟ بات یہ ہے کہ انسان کے ترددپر بھی کچھ نہ کچھ نتیجہ ظاہر ہوتا ہے۔ (تردد بمعنے کوشش جدوجہد، مرتب)
(ملفوظات جلد6 صفحہ422-423)
(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)