• 4 مئی, 2024

خدا تعالیٰ کے فضل اور فیضان کو حاصل کرنا چاہتے ہو

’’خدا تعالیٰ کے فضل اور فیضان کو حاصل کرنا چاہتے ہو
تو کچھ کر کے دکھا ؤ ورنہ نکمّی شئے کی طرح تم پھینک دئیے جاؤ گے‘‘
(حضرت مسیح موعود ؑ)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’غرض نری باتیں کام نہ آئیں گی۔ پس چاہئے کہ انسان پہلے اپنے آپ کو دکھ پہنچائے تا خدا تعالیٰ کو راضی کرے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تواللہ تعالیٰ اس کی عمر بڑھا دے گا۔ اللہ تعالیٰ کے وعدوں میں تخلّف نہیں ہوتا۔ اس نے جو وعدہ فر مایا ہے کہ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِیْ الْاَرْضِ (الرعد: 18)‘‘ یعنی جو چیز لوگوں کو نفع دینے والی ہو وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔ ’’یہ بالکل سچ ہے۔ عام طور پر بھی قاعدہ ہے کہ جو چیز نفع رساں ہو اس کو کو ئی ضائع نہیں کرتا۔ یہانتک کہ کو ئی گھوڑا بیل یا گائے، بکری اگر مفید ہواور اس سے فائدہ پہنچتا ہو، کون ہے جو اس کو ذبح کر ڈالے لیکن جب وہ ناکارہ ہو جاتا ہے اور کسی کام نہیں آسکتا تو پھر اس کا آخری علاج ہی ذبح ہے۔‘‘ پس یہ غور کرنے والے فقرات ہیں۔ فرمایا کہ ایسا ذبح ہی ہو جاتا ہے اور پھر جو ذبح کرنے والا سمجھ لیتا ہے، مالک سمجھ لیتا ہے کہ اور نہیں تو دو چار روپے کی کھال ہی بِک جائے گی اور گوشت کام آجائے گا۔ ’’اسی طرح پر جب انسان خدا تعالیٰ کی نظر میں کسی کام کا نہیں رہتا اور اس کے وجود سے کو ئی فائدہ دوسرے لوگوں کو نہیں ہو تا تو پھر اللہ تعالیٰ اس کی پروا نہیں کرتا بلکہ خس کم جہاں پاک کے موافق اس کو ہلاک کر دیتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ611-612 ایڈیشن 2003ء)

پس ہر ایک کو، ہر احمدی کو، ہر عہدیدار کو یہ سوچنا چاہئے کہ میں نے زیادہ سے زیادہ دوسرے کو کس طرح فائدہ پہنچانا ہے اور فائدہ پہنچانا ہی ہر ایک کے پیشِ نظر ہونا چاہئے۔ یہ اعزاز، یہ عہدہ، یہ خدمت کافائدہ تبھی ہے جب دوسرے کو فائدہ پہنچانے کی سوچ ہو، نیک نیتی ہو، اپنے اعمال کی اصلاح کی طرف توجہ ہو اور سچائی پر قائم رہنے والا انسان ہو، تقویٰ پر چلنے والا ہو۔

فرمایا: ’’غرض یہ اچھی طرح یاد رکھو کہ نری لاف وگزاف اور زبانی قیل وقال کو ئی فائدہ اور اثر نہیں رکھتی جب تک کہ اس کے ساتھ عمل نہ ہو اور ہاتھ پاؤں اور دوسرے اعضاء سے نیک عمل نہ کئے جاویں۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ شریف بھیج کر صحابہؓ سے خد مت لی۔ کیا انہوں نے صرف اسی قدر کا فی سمجھا تھا کہ قرآن کو زبان سے پڑھ لیا یا اس پر عمل کر نا ضروری سمجھا تھا؟ انہوں نے تو یہاں تک اطاعت و وفا داری دکھا ئی کہ بکریوں کی طرح ذبح ہو گئے اور پھر انہوں نے جو کچھ پایا اور خدا تعالیٰ نے ان کی جس قدر قدر کی وہ پوشیدہ بات نہیں ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ612 ایڈیشن 2003ء)

پس یہ اللہ تعالیٰ کی قدر ہے جس کی ہمیں تلاش کرنی چاہئے۔

آپ فرماتے ہیں: ’’خدا تعالیٰ کے فضل اور فیضان کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو کچھ کر کے دکھا ؤ ورنہ نکمّی شئے کی طرح تم پھینک دئیے جاؤ گے۔ کو ئی آدمی اپنے گھر کی اچھی چیزوں اور سونے چاندی کو باہر نہیں پھینک دیتا بلکہ ان اشیاء کو اور تمام کار آمد اور قیمتی چیزوں کو سنبھا ل سنبھال کر رکھتے ہو۔ لیکن اگر گھرمیں کو ئی چوہا مرا ہوا دکھا ئی دے تو اس کو سب سے پہلے باہر پھینک دوگے۔ اسی طرح پر خدا تعا لیٰ اپنے نیک بندوں کو ہمیشہ عزیزر کھتا ہے۔ ان کی عمر دراز کرتا ہے اور ان کے کاروبار میں ایک بر کت رکھ دیتا ہے۔ وہ ان کو ضائع نہیں کرتا اور بے عزتی کی موت نہیں مارتا۔ لیکن جو خدا تعالیٰ کی ہدایتوں کی بے حرمتی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو تباہ کر دیتا ہے۔ اگر چاہتے ہو کہ خدا تعالیٰ تمہاری قدر کرے تو اس کے واسطے ضروری ہے کہ تم نیک بن جاؤ تا خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل قدر ٹھہرو۔ جو لوگ خدا سے ڈرتے ہیں اور اس کے حکموں کی پابندی کرتے ہیں وہ اُن میں اور اُن کے غیروں کے درمیان ایک فر قان رکھ دیتا ہے۔ یہی راز انسان کے برکت پا نے کا ہے کہ وہ بدیوں سے بچتا ر ہے۔ ایسا شخص جہاں رہے وہ قابل قدر ہو تا ہے کیو نکہ اس سے نیکی پہنچتی ہے۔ وہ غریبوں سے سلوک کرتا ہے، ہمسایوں پر رحم کرتا ہے، شرارت نہیں کرتا، جھوٹے مقدمات نہیں بناتا، جھوٹی گو اہیاں نہیں دیتا، بلکہ دل کو پاک کرتا ہے اور خدا کی طرف مشغول ہو تا ہے اور خدا کا ولی کہلاتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ612 ایڈیشن 2003ء)

اللہ تعالیٰ ہمیں تقویٰ کی راہوں پر چلتے ہوئے سچائی پر قائم رہنے والا بنائے۔

(خطبہ جمعہ 21؍جون 2013ء بحوالہ الاسلام)

پچھلا پڑھیں

جماعت احمدیہ ڈنڈی، اسکاٹ لینڈ کا عید ملن پروگرام

اگلا پڑھیں

روزنامہ الفضل کو جاری ہوئے 109 سال مکمل