• 30 اپریل, 2024

روز نامہ الفضل سے میری وابستگی

روزنامہ الفضل آج سے 109 سال پہلے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی اجازت اور دعاؤں کے ساتھ 18جون 1913ء کو شروع فرمایا تھا۔ اس وقت سلسلہ کو ایک اخبار کی ضرورت تھی۔ حضرت مصلح موعودؓ الفضل کے اجراء کا پس منظر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’بدر‘‘ اپنی مصلحتوں کی وجہ سے ہمارے لئے بند تھا ’’الحکم‘‘ اول تو ٹمٹماتے چراغ کی طرح کبھی کبھی نکلتا تھا اور جب نکلتا بھی تھا تو اپنے جلال کی وجہ سے لوگوں کی طبیعتوں پر جو اس وقت بہت نازک ہوچکی تھیں۔ بہت گراں گزرتا تھا۔ ’’ریویو‘‘ ایک بالا ہستی تھی جس کا خیال بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ میں بے مال و زر تھا۔ جان حاضر تھی مگر جو چیز میرے پاس نہ تھی وہ کہاں سے لاتا۔ اس وقت سلسلہ کو ایک اخبار کی ضرورت تھی جو احمدیوں کے دلوں کو گرمائے۔ ان کی سستی کو جھاڑے۔ ان کی محبت کو ابھارے۔ ان کی ہمتوں کو بلند کرے اور یہ اخبار ثریا کے پاس ایک بلند مقام پر بیٹھا تھا۔ اس کی خواہش میرے لئے ایسی ہی تھی جیسے ثریا کی خواہش، نہ وہ ممکن تھی نہ یہ۔آخر دل کی بے تابی رنگ لائی۔ امید بر آنے کی صورت ہوئی اور کامیابی کے سورج کی سرخی افق مشرق سے دکھائی دینے لگی۔‘‘

(انوارالعلوم جلد8 صفحہ369)

اخبار کے اجرا سے قبل آپؓ نے استخارہ کیا اور حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی خدمت میں اجازت کے لئے عرض کیا تو آپؓ نے فرمایا:۔
’’ہفتہ وار پبلک اخبار کا ہونا بہت ہی ضروری ہے جس قدر اخبار میں دلچسپی بڑھے گی خریدار خود بخود پیدا ہوں گے۔ ہاں تائید الہٰی حسن نیت اخلاص اور ثواب کی ضرورت ہے زمیندار، ہندوستان، پیسہ اخبار میں اور کیا اعجاز ہے؟ و ہاں تو صرف د لچسپی ہے اور یہاں دعا، نصرت الہیہ کی امید بلکہ یقین تَوَکُّلاً عَلَی اللّٰہِ کام شروع کردیں

(انوار العلوم جلد1 صفحہ441)

الفضل کا نام بھی حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے عطا فرمایا۔ الفضل 1914ء کے ایک اداریہ میں درج ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے فرمایا:۔
مجھے رؤیا میں بتایا گیا ہے کہ الفضل نام رکھو۔

(الفضل 19 نومبر 1914ء صفحہ3)

چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اس مبارک انسان کا رکھا ہوا نام ’’الفضل‘‘ فضل ہی ثابت ہوا۔

(انوارالعلوم جلد8 صفحہ371)

اس طرح روزنامہ الفضل 18جون 1913ء کو قادیان سے جاری ہوا اورقیام پاکستان کے بعد لاہور سے بھی شائع ہوتا رہا۔جلسہ سالانہ 1954ء کے ایام میں لاہور سے ربوہ منتقل کر دیا گیا اور 31دسمبر 1954ء سے ضیاء الاسلام پریس ربوہ میں چھپنے لگا۔ اس طرح قریباً سات برس کے بعد دوبارہ مرکز احمدیت سے نکلنا شروع ہوا۔اس پرمسرت موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ نے قارئین کے نام ایک پیغام دیا جس کا متن یہ تھا۔

’’… اخبار قوم کی زندگی کی علامت ہوتا ہے۔ جو قوم زندہ رہنا چاہتی ہے۔ اسے اخبار کو زندہ رکھنا چاہئے اور اپنے اخبار کے مطالعہ کی عادت ڈالنی چاہئے۔اللہ تعالیٰ آپ کو ان امور پر عمل کرنے کی توفیق بخشے۔‘‘

(الفضل 31دسمبر 1954ء)

اسی طرح ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
’’اب میں تحریک کرتا ہوں کہ ہمارے دوست اخبارات کو خریدیں اور ان سے فائدہ اٹھائیں۔ اس زمانہ میں اخبارات قوموں کی زندگی کی علامت ہیں کیونکہ ان کے بغیر ان میں زندگی کی روح نہیں پھونکی جا سکتی۔‘‘

(انوارالعلوم جلد4 صفحہ142)

دور حاضر میں سیدنا و امامنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مؤرخہ 13دسمبر 2019ء بروز جمعۃ المبارک اپنے دستِ مبارک سےمسجد مبارک اسلام آباد ٹلفورڈ برطانیہ میں روزنامہ الفضل لندن کے آن لائن ایڈیشن کا اجراء فرمایا۔ اس طرح حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مبارک الہام ’’دیکھو میرے دوستو! اخبار شائع ہو گیا‘‘ ایک مرتبہ پھر پوری شان و شوکت کے ساتھ پورا ہوا۔

خاکسار حضور انور کا وہ بصیرت افروز پیغام جو حضور انور نے الفضل آن لائن کے اجراء کے موقع پر 13 دسمبر 2019ء دیا تھا استفادہ عام کے لئے درج کرنا چاہے گی۔ آپ نے اس اخبار کے مقاصد بتاتے ہوئے فرمایا:
’’یہ جماعت کا اہم اخبار ہے اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے احمدیت کی تعلیمات پیش کی جائیں گی۔ خلیفہ وقت کے خطبات اور خطابات بھی شائع ہوا کریں گے اور اس کے ذریعہ احباب جماعت کے اندر خلافت سے محبت اور وفا کا تعلق مزید تقویت پائے گا۔ اسی طرح اس میں مختلف ممالک سے جماعتی ترقی اور اہم تقریبات کی رپورٹس وغیرہ بھی شامل ہوا کریں گی۔ اس کے ذریعہ قارئین کو تاریخ احمدیت اور جماعتی عقائد سے آگاہ کیاجائے گا، یہ دینی معلومات میں اضافہ کا باعث ہوگا اور دینی اور روحانی تربیت کے سامانوں سے آراستہ ہوگا۔ پس یہ اخبار ان شاء اللہ بہت مفید معلومات کا مجموعہ ہوگا۔‘‘

(خصوصی پیغام 13 دسمبر 2019ء)

خاکسار بھی الفضل کے اجراءکے موقع پر اس اخبار سے اپنی وابستگی کے حوالے سے کچھ بیان کرنا چاہے گی۔ یوں تو ہم قارئین کی اکثریت خاص کر وہ نسل جو پاکستان کی پروردہ ہے ان کی شعور ی زندگی میں جن اخبارات و رسائل کا مطالعہ معمولات زندگی کا حصہ ہوا کرتا تھا اس میں الفضل اخبارسر فہرست تھا۔ اس اعتبار سے اس اخبار سے ہم سبھی کا رشتہ بہت پرانا اور مضبوط ہے۔ ذاتی حیثیت میں اخبار بینی اور مطالعہ کا شوق مجھے ورثے میں ملا ہے۔ پھر دیار غیر میں یہ نعمت الفضل انٹرنیشنل کی صورت میں میسر رہی، یوں اخبار بینی کا شوق اور مطالعہ کی عادت برقرار رہی۔ کچھ لکھنے لکھانے سے شغف اور طبعی رجحان ہےجس کی بدولت خدا کےفضل سے ان اخبارات میں قلمی معاونت اور مضمون نگاری کے مواقع بھی میسر آجاتے ہیں یوں یہ تعلق اور رشتہ اور زیادہ مضبوط بنیادوں پر استوار ہوچکا ہے۔ توصیفی اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو ادبی دنیا کے روحانی افق پر ’’الفضل‘‘ کی حیثیت ایک جھومر کی سی ہے اور اس کا ہر شمارہ روحانی ترقی کا وہ زینہ ہے جس پر قدم رکھ کر ہم اپنی روحانی حالت کو سنوار کر روحانیت کی معراج کو پا سکتے ہیں۔ جو ہمیں اور ہماری نسلوں کو دربار خلافت سے براہ راست جوڑنے کا ذریعہ بھی ہے۔ جو خلافت احمدیہ کی آواز ہے۔ جس نے پوری دنیا کی جماعتوں کو وحدت، اخوت، اخلاص و وفا اور محبت و یگانگت کی لڑی میں پرو دیا ہے۔ جس کے ذریعے ہم اللہ تعالیٰ اور پیارے رسول حضرت محمد ﷺ کے ارشاداتِ مبارکہ، کلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز کے خطبات، پیغامات، ارشادات، ہدایات، دروس، کلاسز کے روحانی مائدہ سے مستفید ہوتے ہیں۔

اس اخبار کی ایک اہم خوبی یہ بھی ہے کہ یہ اپنے اندر اپنائیت سموئے ہوئے ہے اور اس کی بدولت افرادِ جماعت کی خبروں اور دلی جذبات سے آگاہی ہوتی ہے۔ خاکسار تقریبا ً گزشتہ ایک برس سے قارئین کی جانب سے موصول ہونے والی روزانہ کی ڈاک و اعلانات کو تیار کر کے مدیر صاحب کو بھجواتی ہے جس کی اصلاح اور مزید د رستی کے بعد اسے اخبار میں شامل کرلیا جاتا ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اس سارے عمل میں مدیر محترم کی رہنمائی اور سرپرستی میں خاکسار کو بہت سی نئی باتیں سیکھنے کو ملی ہیں جن کی بدولت نہ صرف معلومات میں اضافہ ہوا ہے بلکہ صحافت کے کئی اسرار و رموز بھی آشکار ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے مجھے محترمہ امة باری ناصر کا مضمون ’’خدا کا فضل، روز نامہ الفضل لندن‘‘ یاد آگیا اس کا ایک اقتباس پیش کرنا چاہوں گی جو خاکسار کی ان کیفیات کا ترجمان بھی ہے وہ لکھتی ہیں ’’… جن کو پروف ریڈنگ سے واسطہ نہیں پڑا وہ اندازہ نہیں کرسکتے کہ یہ کتنا مشکل اور ظالم کام ہے۔ …ظالم کا لفظ اس لئے لکھا ہے کہ پوری آنکھیں کھپا کر پروف ریڈنگ کرنے پر بھی جو غلطی میری آخری نظر سے اوجھل رہ جاتی دوسروں کی پہلی نظرمیں آجاتی۔‘‘ (بحوالہ ۱لفضل آن لائن 28جنوری 2020ء) یہی سب میرے ساتھ اکثر ہوا کرتا ہے۔ اگرچہ میں ابھی خود کو طفل مکتب ہی متصور کرتی ہوں لیکن ان خوش نصیبوں میں ضرور شامل ہوں جن کو کئی روحانی اساتذہ کا ساتھ میسر ہے۔ جن میں مدیر محترم اور امة الباری ناصر صاحبہ کے نام سب سے نمایاں ہیں۔

ان کے علاوہ بھی کچھ نام اور باقاعدہ تبصرہ نگار ایسے ہیں جن سے عجیب سی انسیت محسوس ہوتی ہے کیونکہ ان سے میرا لفظوں کا رشتہ استوار ہوچکا ہے۔ اور میں ان کے احساسات اور جذبات کو سمجھ کر ان کے دل کی مراد کو احسن رنگ میں بیان کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ اب اس کوشش میں مجھے کس قدر کامیابی ملتی ہے یہ تو قارئین ہی بہتر طور پر بتا سکتے ہیں۔ لیکن اتنا ضرور کہوں گی کہ بار ہا ایسا محسوس ہوا کہ میرے احساسات کو کسی اور نے الفاظ کی زبان عطا کردی ہو۔ خاص کر ہمارے بعض مستقل تبصرہ نگاروں کے تبصرے، خطوط و آراء اپنی ذات میں علم و عرفان کا ایک خزانہ محسوس ہوتے ہیں اور کئی ایسی معلومات ان خطوط اور تبصروں میں پڑھنے کو ملتی ہیں جو عام طور پر کتب بینی میں نظروں سے اوجھل رہ جاتی ہیں۔ یوں ان تبصروں، آرا اور خطوط سے خاکسار کئی بار مستفیض ہونے کے ساتھ ساتھ ان سے خاص حظ اٹھاتی ہے۔ پھر موصول ہونے والے اعلانات کو اخبار کے فارمیٹ کے حساب سے جب سیٹ کرکے بھجوایا جاتا ہے تو وہاں بھی ہر بار ایک نیا احساس اور کیفیت محسوس ہوتی ہے جس میں کبھی افسردگی، کبھی تشویش، کبھی رشک اور کبھی خوشی کا رنگ غالب ہوتاہے۔

آج اللہ کے فضل و کرم سے روزنامہ الفضل علمی، ادبی، تاریخی، سائنسی، طبی، اقتصادی و جغرافیائی معلومات کا ذخیرہ ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخ احمدیت کا بنیادی ماخذ بھی ہے۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو بھی اس اخبار سے وابستہ کریں تاکہ وہ بھی اس علمی، اخلاقی، تربیتی نہر سے مستفید ہوکر روحانی پاکیزگی حاصل کریں۔ اور اس اخبار کے توسط سے نئی نسل کا نظام خلافت سےتعلق مزید مضبوط ہو۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ نئی نسل کو نظام خلافت سے جوڑنے کا اہم ترین وسیلہ ہے۔ اس لئے چاہیئے کہ پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے زریں ارشادات پڑھ کر ہم خود بھی صدق دل سے عمل کریں بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ ہمارے بچے بھی ان کو پڑھیں اور ان کو حرزِ جان بناکر آپ کی کامل اطاعت کریں۔ تبھی ہم برکات خلافت حاصل کرسکیں گے۔

اس اخبار کی بدولت علم و عرفان اورمعرفت کے نئے سے نئے اسرار کھلتے ہیں اور مضامین کو ایک نئے زاویہ نگاہ سے دیکھنے کا فن روز نامہ الفضل نے عطا کیا ہے۔ اسی حوالے سے ایک تبصرہ نگار کا نایاب تبصرہ پیش کرنا چاہوں گی۔ وہ لکھتے ہیں ’’الفضل اخبار کو جوبرکت اور اہمیت حاصل ہے وہ کسی اور اخبار کو نہیں۔ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی نظر اس پر پڑتی ہے۔ اس میں شائع ہونے والا ہر مواد کسی نہ کسی رنگ میں فائدہ مند ہوتا ہے۔ اس لئے یہ اخبار قدر کی نگاہ سے دیکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ یہ وہ اخبار ہے جس میں ہم کو بیک وقت ارشاد باری تعالیٰ، فرمانِ نبویﷺ، ملفوظات حضرت مسیح موعودؑ، خلفا٫ کرام کے خطابات و خطبہ جمعہ، اور حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی شب و روز کی دینی مصروفیات، تعلیمی، تربیتی، تبلیغی، تنظیمی، سیاسی، سماجی، معاشرتی اور طبی امور پر مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں۔ یہ اخبار ایک روحانی خزانہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک پیشگوئی کے مطابق وہ دنیا میں مال کو لٹائے گا۔ آج الفضل ہی روحانی طور پر مال لٹا رہا ہے۔ اور پھر ہم اپنے گھر میں بیٹھ کر معلومات میں اضافہ اور اپنے اہل و عیال کی تربیت کر لیتے ہیں۔‘‘

اسی طرح گزشتہ دنوں ایک تبصرہ نگار نے الفضل کو اپنے زمانے کا منی گوگل قرار دیا اور واقعی دیکھا جائے تو ایک وقت میں اخبار کی حیثیت آج کے دور کے گوگل کے مترادف ہی تھی۔ کیونکہ اخبار ہی معلومات عامہ کا ذریعہ متصور کیا جاتا تھا۔ پھر اسی طرح ایک اور تبصرہ نگار نے اپنی رائے کا اظہار یوں کیا ’’الفضل، خدا کا فضل‘‘ ہے اور یہ فضل آج اس اخبار کی صورت میں بھی ہمارے گھروں میں آرہا ہے۔‘‘

روزانہ موصول ہونے والی ڈاک میں بیسیوں ایسے خطوط اور آراء ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں مگر ان سب کا بیان تو ممکن نہیں نمونے کے طور پر چند ایک آرا ءاور تبصرے آپ کے سامنے پیش کئے ہیں۔

سب سے بڑی بات اور اہم بات کہ اب یہ اخبار کسی خاص خطے یا ملک کا اخبار نہیں بلکہ پوری دنیا کا نمائندہ اخبار ہے جس کی سرپرستی براہ راست خلیفۂ وقت کرتے ہیں اور ان کی نظر شفقت اور قیمتی آراء اس اخبار کے حسن کو مزید چار چاند لگا رہے ہیں۔ اسی اخبار کی بدولت تمام لکھاری، قارئین اور قلمی معاونت کرنے والے کارکنان خلیفۂ وقت کی دعاؤں سے اور سلامتی کے تحفوں سے فیضیاب ہوتے ہیں۔ ذراغور کریں کہ آج دنیا کا کونسا ایسا اخبار ہے جس کے توسط سے اس کے قارئین اور اس اخبار سے وابستہ افراد کو دعائیں اور سلامتی کے تحفے مل رہے ہوں۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس اخبار کے پہلے پرچہ میں اخبار کے مقاصد تحریر فرماتے ہوئے یہ دعائیہ فقرے بھی تحریر فرمائے کہ
’’اے میرے مولا ……لوگوں کے دلوں میں الہام کر کہ وہ الفضل سے فائدہ اٹھائیں اور اس کے فیض لاکھوں نہیں کروڑوں پر وسیع کر اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی اسے مفید بنا۔ اس کے سبب سے بہت سی جانوں کو ہدایت ہو۔‘‘

(الفضل 18جون 1913ء صفحہ3)

میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ، آپ ؓ کی دعائیں قبول فرمائے اور الفضل ہمیشہ ترقی کی نئی سے نئی منازل طے کرتا چلا جائے اور یہ بھی خلیفۂ وقت کےلئے ایک حقیقی سلطان نصیر کا کردار ادا کرنے والا بنے۔ آمین

(درثمین احمد۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

جماعت احمدیہ ڈنڈی، اسکاٹ لینڈ کا عید ملن پروگرام

اگلا پڑھیں

روزنامہ الفضل کو جاری ہوئے 109 سال مکمل