• 17 مئی, 2024

خدا ہو مہرباں تم پر کہ میرے مہرباں تم ہو شکرو سپاس

خدا ہو مہرباں تم پر کہ میرے مہرباں تم ہو
شکرو سپاس

’’الفضل آن لائن‘‘ ہر صبح میری آنکھ کھلنے سے پہلے میرے موبائل پر آ چکا ہوتا ہے، چاہے وہ رات کے تین بجے ہوں، چارہوں، یا پانچ اور یہ متواتر ایسے ہی ہر صبح ہوتا ہے اور میں کبھی تو ایڈیٹر صاحب کو اسی وقت ’’جزاکم اللہ‘‘ کہہ دیتی ہوں اور کبھی اس لئے نہیں کہتی کہ شائد ہمارے ایڈیٹر صاحب آرام نہ فرما رہے ہوں اور میرے پیغام سے بے آرام نہ ہو جائیں۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے شب و روز کام کرنے والے محنتی مزدور ہیں۔

پھر میں ہر روز تقریباً 17 یا 18 لوگوں کوواٹس ایپ پر بھیجتی ہوں جن لوگوں کو میں یہ الفضل بھیجتی ہوں اُن سے پہلے اجازت لی تھی، کیونکہ اب یہ سہولت سب کے پاس اپنے موبائل پر موجود ہے۔ کبھی کبھی اپنے پسندیدہ مضامین ٹویٹر Twitter پر بھی ڈالتی ہوں۔ اس طرح بڑی تعداد تک اس مؤقر روزنامے کا تعارف ہوجاتا ہے۔

کہہ سکتے ہیں کہ میرا رشتہ اس ’’الفضل آن لائن‘‘ کے ساتھ بہت گہرا ہے۔ اور اس رشتہ کو قابل تشکر اور فخر سمجھتے ہوئے نیز مزید مضبوط کرنے کے لئے اس سفر کی کچھ روداد لکھوں گی۔

31 جولائی 2001ء کو میرے میاں سامی صاحب کی وفات ہوئی۔ سامی صاحب اپنی جماعت احمدیہ میں ہمیشہ بہت سر گرم رُکن رہے، چاہے وہ کراچی ہو، پشاور، یا پھر یہاں لندن۔ اُن کی زندگی کا ہر وقت یہی مقصد ہوتا کہ زیادہ سے زیادہ جماعتی کاموں میں حصہ لیں انہوں نے قریباً 14 سال محترم عطاء المجیب راشد صاحب امام مسجد لندن کے ساتھ کام کیا اور ساتھ ہی وہ لندن کے اخبار احمدیہ کے ایڈیٹر بھی رہے، اسی طرح اور بھی کئی عہدوں پر کام کرتے رہے، گھر کی نسبت مسجد میں زیادہ وقت گزرتا۔ ہمیشہ کہتے میں صرف کار میں بیٹھتا ہوں کار خود بخود مسجد پہنچ جاتی ہے۔

ایک دفعہ بیمار ہوئے کینسر تشخیص ہؤا تین ماہ ہوسپیٹل میں اس اذیت ناک بیماری کا مقابلہ صبر سے کیا۔ جماعت کے ہر ممبر نے دعاؤں سے مدد کی پیارے خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کو رپورٹ بھی کرتی رہی اُن کی دعائیں بھی ملیں۔ محترم امام صاحب ہر جمعہ کو دعا کا اعلان کرتے لیکن وہ اللہ تعالیٰ کو زیادہ پیارے تھے۔ الله نے اپنے پاس بلا لیا۔ پیارے حضور ؒنے جنازہ پڑھایا۔ ماتھے پر شفقت بھرا ہاتھ رکھا۔ دعائیں دیں اور سامی صاحب کو پیارے ربّ کے حولے کر دیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ

ظاہر ہے مشکل وقت تھا کچھ عرصہ بعد میرے دل میں بہت خواہش ہوئی کہ سامی صاحب کے متعلق کوئی کچھ لکھے کیونکہ سامی صاحب عمو ماً مرحومین کے متعلق ضرور اپنے اخبار احمدیہ اور الفضل وغیرہ میں دعا کے لئے کچھ نہ کچھ لکھتے تھے۔ میری خواہش تھی کہ کوئی میرے سامی کے لئے بھی کچھ لکھے۔ میری بات محترم مولانا لئیق احمد طاہر صاحب سے ہوئی (کیونکہ سامی صاحب آخری دنوں میں مولانا موصوف کے ساتھ جماعت احمدیہ کی تاریخ کا کام کر رہے تھے) میں نے محترم سے درخواست کی کہ آپ سامی صاحب کے لئے کچھ لکھیں، اُن کا جواب تھا کہ آپ اُن کی بیگم ہیں آپ سے زیادہ اُن کے متعلق کون اچھا لکھ سکتا ہے۔ میرا جواب تھا کہ میں تو اس میدان میں بالکل اناڑی ہوں۔ مجھے تو ٹھیک سے اپنا نام بھی لکھنا نہیں آتا میں کیسے لکھ سکتی ہوں اُن کا جواب تھا۔ جیسا بھی لکھ سکتی ہیں لکھ دیں میں ٹھیک کر دوں گا۔

اب میں تھوڑا اپنے متعلق بتاتی چلوں کہ میں کیا تھی، میں سکول پڑھنے ضرور گئی ہوں چھ سات جماعتیں پڑھی بھی ہوں لیکن مجھے اپنا پاس ہونا کبھی یاد نہیں۔ مجھے شروع سے گھر داری اور مشکل کام کرنے کا شوق تھا سارا دن گھر کے کاموں میں لگی رہتی کبھی نہیں تھکتی تھی، ہاں شوق تھا پڑھنے کا الفضل کے علاوہ دوسرے اخبار۔ حور رسالہ، زیب النساء۔ اور جو بھی ناول یا رسالے ان کو میں چاند کی روشنی میں بھی اور دیئے کی لَو میں بھی پڑھتی تھی۔ یہی میری زندگی کے شوق تھے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ شادی ایک قابل قلمکار محترم بشیر الدین سامی صاحب سے ہو گئی۔ میں ایک معمولی سی گھریلو لڑکی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے میرے بھاگ کھول دیئے۔ پڑھا لکھا، ادیب عالم منشی فاضل، گریجو ایٹ، جماعت احمدیہ میں خدمات بجا لانے والا نوجوان میری زندگی میں آیا۔ شادی کے بعد اردو ایم اے بھی کر لیا، ظاہر ہے مَیں بہت خوش تھی۔ لیکن با لکل نہیں جا نتی تھی کہ وہ کیسے بن بتائے میری تربیت کرتے رہے، میری ذات جو بکھری بکھری تھی اُس کو سمیٹتے ہوئے مجھے سنوارتے رہے، میری اوقات سے زیادہ مجھے پیار دیا، عزت دی، خود اعتمادی دی۔ مَیں نے اپنے شوہر کی زندگی میں بہت مزے کی زندگی گزاری میرے اُوپر کوئی ذمہ داری نہیں تھی، کہاں سے خرچ ہوتا ہے کیا بِل ہیں زندگی کے تمام باہر کے کاموں سے میں انجان تھی، ہاں گھر کی اور بچوں کی تمام ذمہ داریاں میری تھیں جیسے کہ ہمارے گھروں کی روایت ہے۔ بچے پڑھ لکھ کر بڑے ہوئے بچوں کی شادیاں کیں اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ بہت اچھی اور خوش گوار زندگی گزری۔ اس دوران یہ خیال ہی نہ آیا کہ کچھ لکھنا بھی سیکھ لوں۔ ضرورت ہی نہیں محسوس کی کبھی کبھار جب اپنی امی جان یا کسی رشتے دار کو خط لکھنے کی نوبت آتی تو دو چار لائنیں مشکل سے لکھتی پھر ہفتوں خط پڑا رہتا آخر سامی نیچے دو چار حرف لکھ کر پوسٹ کر دیتے لکھنے سے میری جان جاتی تھی اور سامی ہمیشہ میری مدد کردیتے اور ساتھ کہتے کوشش کیا کرو لکھنے کی لیکن اُن کی زندگی میں یہ کام نہ کر سکی۔

واپس آتی ہوں اُسی طرف کہ محترم مولانا لئیق احمد طا ہر صاحب نے کہا کہ آپ سامی صاحب پر جو دل میں آئے لکھ دیں میں ٹھیک کردوں گا۔ کمپیوٹر تو ہمارے گھر میں تھا سامی صاحب اُس پر کام کرتے تھے۔ میں نے بھی اُس پر لکھنے کی کوشش کی۔ سامی صاحب نے کی بورڈ پر (الف، ب، سب لکھ کر لگائے ہوئے تھے میں نے جب بھی کچھ لکھنے کا ارادہ کیا ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگتے، سامی کی یاد بے چین کردیتی۔ روتے روتے کچھ الفاظ لکھتی۔ بڑی مشکل سے جو لکھا محترم لئیق احمد طاہر صاحب کو پوسٹ کر دیا دوسرے دن ہی میں جواب آ گیا کہ یہ تو آپ نے سامی صاحب کی میڈیکل رپورٹ لکھ دی ہے۔ پھر محترم نے مجھے سمجھایا کہ کیا لکھنا ہے اور کیسے لکھنا ہے پھر کوشش کرنے لگی قریباً ایک دو سال کا عرصہ لگ گیا بہت مشکلوں سے لکھا ہوا مضمون میں اپنے ماموں زاد بھائی جا ن محترم عبد الباسط شاہد کے پاس لے کر گئی اور کہا کہ میرے سامنے نہیں میرے بعد پڑھیں کیونکہ یقین تھا کہ وہ کہیں گے کیا بے کار ہے۔ لیکن یقین نہیں آیا کہ اُ نہوں نے کچھ نوک پلک ٹھیک کر کے مضمون پاس کر دیا اور میں نے یہ مضمون محترم نصیر احمد قمر صاحب کو الفضل انٹر نیشنل لندن میں چھپنے کے لئے بھیج دیا اور وہ چھپ بھی گیا (الفضل انٹر نیشنل 26 نومبر 2004 تا 2دسمبر 2004ء)، آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ میں کتنا روئی اور حیران پریشان کہ زندگی بھر جو ایک لفظ نہیں لکھ سکی نکمی سی صفیہ کا مضمون اخبار میں چھپ گیا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔

اُس کے بعد میرے بچوں نے کمپیوٹر پر کمپوز کرنا سکھایا۔ میری بہت مدد کی میں نے اپنے والدین پر مضمون لکھے اور مختلف مضامین محترم عبدالسمیع خان صاحب ایڈیٹر الفضل ربوہ کو بھیجے انہوں نے میری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے روزنامہ الفضل ربوہ میں شائع کئے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ پھر ایک بہت ہی قابل خاتون جو کہ میری ماموں زاد بہن امة الباری ناصر صاحبہ نے میرا ہاتھ تھام لیا اور قلم چلانے کاشعور سکھایا اور ہر قدم پر اُن کی راہنمائی ہمیشہ میرے ساتھ رہی۔

میرے پوتے، پوتیوں، نواسے نواسیوں نے مجھے ای میل اور سکین کرنا سکھایا۔ آج بھی میرے کمپیوٹراور تمام فون وغیرہ کے پاس ورڈ کینیڈا میں میرے بیٹے منیر شہزاد کے پاس ہیں کوئی مسئلہ ہو تو وہ وہاں سے حل کردیتا ہے۔ میں نے جب کمپیوٹر شروع کیا سب سے پہلے سامی صاحب کے لگائے ہوئے الف ب والے سٹکر اُتارے اور خود سے کی بورڈ پر الف ب لکھنا سیکھامیری بہو عروج نے مجھے ایک چھوٹا ساکمپیوٹر کا کورس کروایا، آہستہ آہستہ میں اپنے کیمپوٹر سے مانوس ہوتی گئی۔ امة الباری صاحبہ نے ’’زندہ درخت‘‘ کتاب لکھی اور مجھے بھی اب لکھنے کی عادت ہوچکی تھی اُن کی راہنمائی میں ’’میری پونجی‘‘ کتاب میں نے لکھی جس پر میری سب سے پہلے حوصلہ افزائی محترم بشیر رفیق صاحب (مرحوم) سابق امیر جماعت لندن نے کی، جو میرے لئے بہت بڑے اعزاز کا باعث تھی میرے محسن محترم لئیق احمد طاہر صاحب جنہوں نے میرے ہاتھ میں قلم پکڑایا، اُنہوں نے اپنی بیگم نوری صاحبہ (مرحومہ) کی شدید بیماری کے دوران ’’میری پونجی‘‘ کی پروف ریڈینگ کی اور میری حوصلہ افزائی فرمائی، بھائی جان باسط صاحب اور سب سے زیادہ میرا اپنا بھائی محمد اسلم خالد جس نے اُمی اباجان پر لکھا ہوا مواد مجھے مہیا کیا اِن سب کی قدم قدم پر معاونت میرے ساتھ رہی۔

میری کتاب ’’میری پونجی‘‘ جب شائع ہو کر آئی تو کچھ دنوں ڈرتے ہوئے گھر میں ہی چھپائے رکھا کہ جانے لوگ کیا کہیں گے، پھر آہستہ آہستہ لوگوں کی طرف سے اچھی خبریں ملنی شروع ہوئیں تو ’’میری پونجی‘‘ پیارے حضور کی خدمت میں پیش کی جہاں سے بہت اچھی اور حوصلہ افزا خبر ملی، پیارے حضور کے ساتھ ملاقات ہوئی تو آپ نے فرمایا ’’میں نےچیدہ چیدہ کتاب پڑھی ہے فر مایا میرے نواسے مجھ سے پوچھتے ہیں‘‘ میری پونجی ’’کا کیا مطلب ہے۔ اور ساتھ ہی فر مایا میں نے تمہاری کتا ب جامعہ احمدیہ کی لائبریری میں دے دی ہے‘‘ اور فرمایا تمہیں میرا خط بھی مل جائے گا۔ کچھ دنوں بعد کتاب پر لکھا ہوا پیارے آقا کا خط بھی مل گیا۔ میرے لئے یہ سعادت ہے کہ ’’میری پونجی‘‘ آن لائن الاسلام پر جگہ پاسکی۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ

دوسری کتاب ’’من کے موتی‘‘ پر کام کا کریڈٹ بھی امة الباری ناصر کو جاتا ہے کہ اُنہوں نے اور پبلشر محتر م خورشید صاحب (انڈیا قادیان) نے مجھے حوصلہ دیا۔ اس طرح میں دو کتابوں کی مصنفہ ہو گئی۔

یہ سب باتیں میرے لئے بہت معنی رکھتی ہیں، بفضلِ خدا دعاؤں کا خزانہ بھی میرے ساتھ ساتھ رہا۔ محترم عطاء المجیب راشد صاحب امام مسجد لندن اور اُن کی بیگم محترمہ قانتہ راشد صاحبہ خدا کے فضل سے ہمیشہ میرے محسن اور راہبر رہے جب بھی مجھے کسی مشورے کی ضرورت پڑی اُنہوں نے قیمتی مشوروں سے مجھے نوازا میں خود بھی کبھی لندن سے باہر جاتے ہوئے واپس آ کر پہلے امام صاحب کو رپورٹ کرتی ہوں، یہ 20 سالوں کی روٹین ہے۔ محترم ڈاکٹر افتخار صاحب اور اُن کی بیگم صاحبہ بھی میرے محسن ہیں جو ہمیشہ مجھے اپنی بہن کہہ کر مجھے اور میری فیملی کو دعاؤں میں یاد رکھتے ہیں۔ محترم لئیق احمد طاہر صاحب اور اُن کی بیگم (نوری صاحبہ مرحومہ) یہ سب میرے محسن ہیں اور بھی اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ بہت ایسے ہیں جو مشکل حالات میں میرے ساتھ رہے اُن سب کی دعائیں میرے ساتھ رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے یہ سب کرم مجھ پر سامی صاحب کی وجہ سے ہیں۔

میں جب بھی کوئی مضمون یا کچھ بھی لکھوں امة الباری صاحبہ کے بغیر شائد ایک قدم بھی نہ چل سکوں وہ ہمیشہ میری ڈکشنری بھی ہے اور میری استاد بھی ہے۔ میری ایک آواز پر جواب دیا ہمیشہ ہر قدم پر ساتھ دیا دن ہو یا رات حاضر ہو جاتی ہے۔ اسی طرح میری بھانجی صدیقہ سلطانہ صاحبہ اور میرا بھائی محمد اسلم خالد بھی میری راہنمائی کرتے اور ساتھ رہتے ہیں۔ جَزَاہُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَآء

واپس ’’الفضل آن لائن‘‘ کی طرف آتی ہوں۔ ایک بار میں نے ’’الفضل آن لائن‘‘ میں ایڈیٹر صاحب کی طرف سے یہ پڑھا کہ ہمارے پاس کمپوز کرنے والے بہت کم لوگ ہیں۔ میں پہلے سے ہی امة الباری صاحبہ کے لئے کمپوزنگ کا کام کررہی تھی۔ اس لئے میں نے اپنی بہن باری سے کہا کہ میرا نام اُن کو دے دیں۔ میں اخبار کے لئے کمپوز کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ ایڈیٹر صاحب کا مجھے فون آیا اور ازراہ کرم اُنہوں کچھ کام کرنے کو کہا جو میں نے کیا۔ لندن سے آن لائن شائع ہونے لگا تو دوبارہ مجھے ایڈیٹر صاحب کا کام کے لئے فون آیا جو میرے لئے سعادت تھی۔ قریباً 2020ء کے شروع کی بات ہے۔ تب سے اب تک میں محترم حنیف محمود صاحب جو ہمارے بہت محنتی ایڈیٹر صاحب ہیں کے ساتھ کام کر رہی ہوں، بعض اوقات بہت مشکل بھی لگا خاص طور پر جب بار بار یہ سننے کو ملا کہ غلطیاں ٹھیک کریں، ایڈیٹر صاحب نے بہت بار میرا لکھا ہوا واپس بھی کیا کہ دوبارہ ٹھیک کریں، اچھا نہیں لگتا تھا۔ سوچتی تھی بس اب یہ کام میں چھوڑ ہی دیتی ہوں مجھ سے کہاں ہوگا۔ لیکن میں نہیں چھوڑ سکی یہ محترم ایڈیٹر صاحب کی برداشت تھی شاید انہیں میری عمر کا لحاظ آجاتا تھا کہ یہ نہیں کہا جزاک اللہ ہمیں آپ کی خدمات کی ضرورت نہیں بلکہ اصلاح کرتے رہے۔ اب میں کافی بہتر کمپوزنگ کر لیتی ہوں اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔

بہت سے لوگوں کا کمپوزنگ کا کام کر رہی ہوں۔ مَیں نے اپنی کتابوں کی تمام کمپوزنگ خود کی، اور اپنے ملنے والے ہیں اُن کی کتاب کے کچھ حصہ کی کمپوزنگ بھی مَیں نے کی۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ

اس سب میں میری کوئی قابلیت یا کمال نہیں ہے۔ ہماری جماعت احمدیہ کی برکتیں ہیں۔ پیارے حضور کی دعائیں ہیں اور میرے محسنوں کا ساتھ ہے، جنہوں نے مل کر مجھے اس قابل بنایا کہ میں آج جماعت احمدیہ کے سب سے بڑے اخبار ’’الفضل آن لائن کی ٹیم کی ایک ادنیٰ سی ممبر ہوں اور میں نے اپنے ایڈیٹر صاحب سے یہ درخواست بھی کی ہے کہ مجھے تھوڑا کام دیں یا زیادہ مجھے اپنی ٹیم میں شامل رکھیں۔ اللہ سے دعا مانگتی ہوں میرا انجام ایک کارکن کی حیثیت سے ہو اور میرا جنازہ پڑھاتے ہوئے حضور انور فرمائیں کہ وہ جماعت کی خدمت گزار تھی۔

میری زندگی کے تین دور رہے ہیں۔ پہلے میں نے اپنے پیارے مہربان والدین بہنوں اور بھائی کے پیار محبت اور شفقت بھرے سایہ میں وقت گزرا۔ ہماری خوب ناز برداریاں کیں۔ ہمیں جینے کا شعور دیا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ

پھر شادی کے بعد مہر بان شوہر بچے بہت ہی خوشگوار زندگی جنہوں نے مجھے جینے کے گُر سکھائے، پل پل میرا سہارا بنے۔ ہم نے اپنے بچوں کی شادیاں کیں۔ اور بھر پور زندگی گزاری۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ

سامی صاحب کی وفات کے بعد سوچتی تھی کہ آخری زندگی کیسے گزرے گی۔ میرے بچوں نے میرا بہت خیال رکھا بچوں نے مجھے کبھی اکیلے نہیں چھوڑا تمام پوتے پوتیاں نواسے نوا سیاں سب نے مجھے بہت محبت اور پیار دیا۔ ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ

پھر اللہ نے مجھے ایسے محسنوں سے ملا دیا کہ تنہا نہیں رہی۔ دو کتابوں کی مصنفہ بن گئی۔ بقول بھائی جان باسط صاحب میں حادثاتی لکھاری بن گئی۔ بہت سے مضمون لکھنے کا موقعہ ملا۔ لجنہ کی بہت سی بہنوں کے مضمون کمپوز کرنے کی توفیق ملی، لجنہء اماء اللہ کے میگزین کے لئے کام کرتی ہوں۔ اس طرح اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اور بہت سے کام ہیں۔ کام کرتے ہوئے بھول جاتی ہوں کہ میری عمر کیا ہے، دنیا جہاں کے غم بھول کر اپنی تمام جسمانی تکلیفیں بھول کر مگن رہتی ہوں اپنے کام میں مزا لیتی ہوں مضمون پڑھنے کا اور اُن کو کمپوز کرنے کا اسی کام میں مجھے اب سکون ملتا ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ

امة الباری میری بہن نہیں استاد مدد گار ہیں۔ مکرم حنیف محمود صاحب ایڈیٹر الفضل آن لائن نے مجھ پر اعتماد کیا، مجھے بہت کچھ سکھایا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔ میں جو ایک لفظ بھی نہیں لکھ سکتی تھی اسی کمپیوٹر پر جس کو دیکھ کرمیں ڈر جاتی تھی کہ میں کیسے کچھ لکھ سکتی ہوں خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے اردو، تھوڑی بہت انگلش اور کچھ نہ کچھ عربی بھی لکھ لیتی ہوں۔ اگر آرام سے کام کروں تو تقریباً 1500 اور ضروری ہو تو 2000 ہزار الفاظ ایک دن میں لکھ سکتی ہوں۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ

محترم مولانا لئیق احمد طاہر صاحب نے قلم پکڑایا۔ امة لباری ناصر صاحبہ نے قلم چلوایا۔ اور محترم ایڈیٹر صاحب الفضل آن لائن نے اپنے اخبار ’’الفضل آن لائن‘‘ کے لئے کمپوزر بنایا۔ بہت خوش نصیب ہوں۔ جَزَاکُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَآء

ایک بار پھر اپنے تمام محسنوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہوں گی۔ جن سب کی بدولت میں آج ’’الفضل آئن لائن‘‘ کا حصہ ہوں۔ 83 سال کی عمر میں ہوں آپ سب سے دعا کی درخواست کرتی ہوں جب تک جان ہے اللہ مجھے محتاج نہ کرے اور دین کی خدمت لیتا رہے اور انجام بخیر کرے، بخشش فر مائے۔ اپنی رحمت کی چادر میں لپیٹ لے۔ اگلے جہان میں بھی مجھے آپ سب کی دعائیں ملتی رہیں۔ آمین

چلتے چلتے ایک بات بتا دیتی ہوں قلم سے آج بھی دستخط غلط کر جاتی ہوں چاہے وہ انگلش میں ہوں چاہے اردو میں

دستخط کرنے سے پہلے دو تین بار مشق کرتی ہوں پھر سائن کرتی ہوں۔

چلیں یہ بھی بتا دیتی ہوں کہ اس مضمون کی نوک پلک بھی باری نے ٹھیک کی ہے۔

شکریہ از ایڈیٹر:۔ میں بحیثیت ایڈیٹر قارئین کے خطوط اور تبصروں پر تو نوٹ لکھ دیتا ہوں لیکن کسی کے مضمون پر الفضل میں تبصرہ نہیں کرتا لیکن اس مضمون کو ایڈیٹر کے نام خط تصور کر کے کچھ لکھنے کے جسارت کر رہا ہوں کیونکہ یہ مضمون بھی مکرمہ صفیہ بی بی کی پونجی ہی تو ہے جس میں خاکسار اضافہ کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

الفضل آن لائن کی دنیا بھر میں پھیلی مرد و زن کی 38 افراد پر مشتمل فعال و مستعد ٹیم میں سے مکرمہ صفیہ بی بی سب سے زیادہ عمر رسیدہ خاتون ہیں اور بڑی محنت اور مستعدی و دیانت داری سے کمپوزنگ اور پروف کا کام کرتی ہیں۔ اللہ عمر دراز کرے۔ فَجَزَاہَا اللّٰہُ تَعَالٰی وَ بَارِکْ فِی سَعْیِہَا۔

(صفیہ بشیر سامی۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ بابت مختلف ممالک وشہر (کتاب)

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ