• 16 مئی, 2024

آج یہ ذمہ داری ہم احمدیوں پر سب سے زیادہ ہے کہ …

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
آج یہ ذمہ داری ہم احمدیوں پر سب سے زیادہ ہے کہ علم کے حصول کی خاطر زیادہ سے زیادہ محنت کریں، زیادہ سے زیادہ کوشش کریں۔ کیونکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی قرآن کریم کے علوم و معارف دئیے گئے ہیں۔ اور آپؑ کے ماننے والوں کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ میں انہیں علم و معرفت اور دلائل عطا کروں گا۔ تو اس کے لئے کوشش اور علم حاصل کرنے کا شوق او ر دعا کہ اے میرے اللہ! اے میرے رب! میرے علم کو بڑھا، بہت ضروری ہے۔ گھر بیٹھے یہ سب علوم و معارف نہیں مل جائیں گے۔ اور پھر اس کے لئے کوئی عمر کی شرط بھی نہیں ہے۔ تو سب سے پہلے تو قرآن کریم کا علم حاصل کرنے کے لئے، دینی علم حاصل کرنے کے لئے ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو بے بہا خزانے مہیا فرمائے ہیں ان کو دیکھنا ہو گا۔ ان کی طرف رجوع کریں، ان کو پڑھیں کیونکہ آپؑ نے ہمیں ہماری سوچوں کے لئے راستے دکھا دئیے ہیں۔ ان پر چل کرہم دینی علم میں اور قرآن کے علم میں ترقی کر سکتے ہیں اور پھر اسی قرآنی علم سے دنیاوی علم اور تحقیق کے بھی راستے کھل جاتے ہیں۔ اس لئے جماعت کے اندر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب پڑھنے کا شوق اور اس سے فائدہ اٹھانے کا شوق نوجوانوں میں بھی اپنی دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہونا چاہئے۔ بلکہ جو تحقیق کرنے والے ہیں، بہت سارے طالب علم مختلف موضوعات پر ریسرچ کر رہے ہوتے ہیں، وہ جب اپنے دنیاوی علم کو اس دینی علم اور قرآن کریم کے علم کے ساتھ ملائیں گے تو نئے راستے بھی متعین ہوں گے، ان کو مختلف نہج پر کام کرنے کے مواقع بھی میسر آئیں گے جو اُن کے دنیادار پروفیسر ان کو شاید نہ سکھا سکیں۔ اسی طرح جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ بڑی عمر کے لوگوں کو بھی یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ عمر بڑی ہو گئی اب ہم علم حاصل نہیں کر سکتے۔ ان کو بھی اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب پڑھیں اس بارے میں پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں یہ سوچ کر نہ بیٹھ جائیں کہ اب ہمیں کس طرح علم حاصل ہو سکتا ہے۔ اب ہم کس طرح اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ حضرت مصلح موعود ؓ نے تو لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا جو سکھائی گئی، جب یہ آیت اتری آپؐ کی عمر پچپن، چھپّن سال تھی تو کہتے ہیں کہ یہ اس لئے ہے کہ مومنوں کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے کہ ہمارے لئے بھی ہے۔ کسی بھی عمر میں علم حاصل کرنے سے غافل نہیں ہونا چاہئے اور مایوس نہیں ہونا چاہئے پھر اس کی تشریح کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں کہ ’’دنیا میں عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بچپن سیکھنے کا زمانہ ہوتا ہے، جوانی عمل کا زمانہ ہوتا ہے اور بڑھاپا عقل کا زمانہ ہوتا ہے۔ لیکن قرآن کریم کی رو سے ایک حقیقی مومن ان ساری چیزوں کو اپنے اندر جمع کر لیتا ہے۔ اس کا بڑھاپا اسے قوت عمل، اور علم کی تحصیل سے محروم نہیں کرتا۔ اس کی جوانی اس کی سوچ کو ناکارہ نہیں کر دیتی بلکہ جس طرح بچپن میں جب وہ ذرا بھی بولنے کے قابل ہوتا ہے ہر بات کو سن کر اس پر فوراً جرح شروع کر دیتا ہے اور پوچھتا ہے کہ فلاں بات کیوں ہے اور کس لئے ہے اور اس میں علم سیکھنے کی خواہش انتہا درجہ کی موجودہوتی ہے۔ اسی طرح اس کا بڑھاپا بھی علوم سیکھنے میں لگا رہتا ہے۔ اور وہ کبھی بھی اپنے آپ کو علم کی تحصیل سے مستغنی نہیں سمجھتا۔ اس کی موٹی مثال ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس ذات میں ملتی ہے، آپ کو پچپن، چھپّن سال کی عمر میں اللہ تعالیٰ الہاماً فرماتا ہے کہ ’’قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا‘‘۔ یعنی اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیرے ساتھ ہمارا سلوک ایسا ہی ہے جیسے ماں کا اپنے بچے کے ساتھ ہوتاہے۔ اس لئے بڑی عمر میں جہاں دوسرے لوگ بیکار ہو جاتے ہیں اور زائد علوم اور معارف حاصل کرنے کی خواہش ان کے دلوں سے مٹ جاتی ہے اور ان کو یہ کہنے کی عادت ہو جاتی ہے کہ ایسا ہوا ہی کرتا ہے، تجھے ہماری ہدایت یہ ہے کہ ہمیشہ خداتعالیٰ سے دعا کرتا رہ کہ خدا یا میرا علم اور بڑھا، میرا علم اور بڑھا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد نمبر ۵ صفحہ۴۶۹، ۴۷۰)(خطبہ جمعہ18؍جون 2004ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 جولائی 2020