حسن کا تذکرہ، جمال کا ذکر
کیجیے اُس کے خدّوخال کا ذکر
خوش ادا اور خوش خصال کا ذکر
حسن کا، حسن کے کمال کا ذکر
کھینچیے نقشہ اُس کی قامت کا
یعنی ہو سر تا پا جمال کا ذکر
اُس کی آنکھوں کا تذکرہ کیجے
چھوڑیے دشت کے غزال کا ذکر
شبِ فرقت کا ایک اِک لمحہ
کرتا ہے اُس کے بال بال کا ذکر
ایک اک نقش ایسا موزوں ہے
ختم ہے اُس پہ اِعتدال کا ذکر
کہاں سے لاؤں وہ کلام کہ ہو
جس سے اس حسنِ بے مثال کا ذکر
دل کسی طور عشق سے نہ رُکا
عقل کرتی رہی مآل کا ذکر
ایک پل میں سمٹ گئی ہے زیست
کیا کرے کوئی ماہ و سال کا ذکر
لذّتِ وصل زخمِ ہجر سے ہے
ہجر نَے ہو تو کیا وصال کا ذکر
(میر انجم پرویز2007ء۔ دمشق)