• 19 اپریل, 2024

مغربی معاشرہ میں اسلامی اقدار کا احیاء

قسط نمبر 3

نماز میں صفیں سیدھی رکھنا اورصحیح اذان دینا

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’بعض باتیں چھوٹی نظر آتی ہیں لیکن ہوتی بہت بڑی ہیں اور ان سے بڑے بڑے فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ پس ان چیزوں کو چھوٹا سمجھ کر نظر انداز نہیں کردینا چاہئے بلکہ ان کے فوائد کو مدنظر رکھ کر ان پر زیادہ سے زیادہ عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے …… مثلاً نماز ہی کو لےلیں …… رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں نماز میں صفیں سیدھی نہیں رکھو گے تو تمہارے دل ٹیڑھے ہو جائیں گے۔ اب صفوں کا سیدھی رکھنا بظاہر ایک غیر دینی چیز ہے یا محض نظام کا ایک حصہ ہے خود نماز کے مقصد اور اس کے مغز کے ساتھ اس کا زیادہ تعلق نہیں۔ لیکن باوجود اس کے کہ نماز میں صفیں اپنی ذات میں مقصود نہیں ہوتیں۔ رسول کریم ﷺ نے انہیں اتنی اہمیت دی کہ فرمایا کہ اگر تم نماز میں صفیں سیدھی نہیں کرو گے تو تمہارے دل ٹیڑھے ہو جائیں گے …… فرمایا میں نے یہ تمہید اس لئے باندھی ہے کہ میں نے بار بار اس طرف توجہ دلائی ہے کہ ہماری جماعت بعض اوقات چھلکے کو نظر انداز کر دیتی ہے اور صرف مغز کو مدنظر رکھتی ہے۔ مثلاً نماز میں صفوں کا سیدھا رکھنا ہے۔ ہماری جماعت اس طرف توجہ نہیں کرتی یا پھر اذان ہے اس کی تصحیح کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔‘‘

(فرمودات حضرت مصلح موعودؓ دربارہ فقہی مسائل صفحہ51-52)

لہٰذا نماز کے وقت ہر شخص کو صف میں سیدھا کھڑاہونا چاہئے اس کا آسان طریق یہ ہے کہ ہر شخص خود کو دیکھے کہ وہ کہاں کھڑا ہے۔ اس سے صف سیدھی ہونے میں مدد ملے گی۔ ہم دوسروں کو سیدھا کرتے ہیں۔ حالانکہ اپنے آپ کو سیدھا کھڑا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور اذان کی درستگی بھی بہت ضروری ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ نے اس ضمن میں ایک واقعہ بھی سنایا:
’’اذان کا درست طور پر یاد کر لینا معمولی سی بات ہے اور اس کے خوبصورت یا بدصورت ہونے کا طبائع پر اثر پڑتا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ سنایا کرتے تھے کہ ایک مسجد کے پاس ایک سکھ رئیس رہا کرتا تھا۔ اس نے ایک دفعہ اس مسجد میں اذان دینے والے کو کچھ تحفہ دیا۔ پگڑی اور دس بارہ روپے اسے دے دیئے اور کہا کہ یہ نذر ہے اس لئے کہ آپ آئندہ اذان کہنی چھوڑ دیں۔ اس نے پوچھا کہ کیوں تو وہ کہنے لگا کہ آپ کی آواز ایسی اچھی ہے کہ میری بیٹی کہتی ہے کہ مجھے مسلمانوں کا مذہب بہت اچھا لگتا ہے۔ اس لئے یہ نذر لے لو اور بھی میں پیش کرتا رہوں گا اور اذان کہنا چھوڑ دو۔ وہ بے چارہ معمولی حیثیت کا آدمی تھا۔ لالچ میں آگیا اور اذان کہنی چھوڑ دی۔ دوسرا جو اس کی جگہ مقرر ہوا اس کی آواز نہایت مکروہ تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ چند روز کے بعد اس سکھ رئیس کی لڑکی نے کہا کہ اباجی معلوم ہوتا ہے، میری رائے غلط تھی۔ مسلمانوں کا مذہب کوئی ایسا اچھا معلوم نہیں ہوتا۔‘‘

(مشعل راہ جلد اول صفحہ 192)

دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا عہد

جماعت احمدیہ کے قیام کا مقصد ہی دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہے اور اسی عہد کی وجہ سے جماعت احمدیہ کا قیام عمل میں آیا ہے۔ یہی وہ گروہ ہے جس نے ہر حالت میں ثابت کرنا ہے کہ وہ زمانے کے امام کو مان کر دین کو ترجیح دے رہا ہے۔

حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ اپنے بھانجے منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی کو تبلیغ کیا کرتے تھے کہ وہ بھی احمدی ہو جائیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دفعہ بیعت کی نیت سے حاضر بھی ہوا۔ لیکن جب میں نے بیعت کے الفاظ حضرت مسیح موعودؑ کی زبان سے سنے کہ ’’میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا‘‘ تو میرا دل بہت ڈر گیا کہ یہ تو بہت بھاری ذمہ داری ہے جسے میں نہیں اٹھا سکوں گا اور بغیر بیعت کئے ہی واپس چلے گئے۔ پھر مولوی عبدالکریم صاحب نے ان سے پوچھا کہ بیعت کیوں نہیں کرتے۔ انہوں نے جواب دیا کہ ٹھیک ہے، میں علیحدگی میں بیعت کروں گا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ میں حضرت مسیح موعود ؑ سے کہوں گا کہ حضور مجھ سے یہ عہد نہ لیں کہ میں دین کو دنیا پر مقدم کروں گا۔ وہ کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ بعد میں حضرت مسیح موعودؑکی خدمت میں حاضر ہوا اور دل میں خیال تھا کہ میں حضرت صاحب پر اپنا خیال ظاہر کر دوں گا لیکن جب حضرت مسیح موعودؑ تشریف لائے اور مغرب کی نماز کے بعد تشریف فرما ہوئے تو کسی شخص نے عرض کی کہ حضور کچھ آدمی بیعت کرنا چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’آجائیں‘‘ اس ’’آجائیں‘‘ کے الفاظ نے میرے دل پر ایسا گہرا اثر کیا کہ مجھے وہ تمام خیالات بھول گئے اور میں بلا چون و چرا آگے بڑھ گیا اور بیعت کر لی۔

بیعت کے بعد جب حضرت صاحب کو میرے خیالات کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ہماری بیعت کی تو غرض ہی یہی ہے کہ ہم دینداری پیدا کریں۔ اگر ہم دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا اقرار نہ لیں تو کیا پھر یہ اقرار لیں کہ میں دنیا کے کاموں کو مقدم کیا کروں گا۔ اس صورت میں بیعت کی غرض و غایت اور حقیقت ہی باطل ہو جاتی ہے۔

(ملخص روایت 857 سیرت المہدی حصہ اول)

1947ء کی بات ہے لاہور کے ایک انگریز ڈپٹی کمشنر سے حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کی کسی بات پر تکرار ہو گئی وہ آپ کو یہ کہنا چاہتا تھا کہ اگر ملک کا قانون ایک بات کہے اور آپ کی جماعت کا امام آپ کو ملکی قانون کے خلاف کام کرنے کو کہے تو آپ کس بات کو اختیار کریں گے۔ حضرت چوہدری صاحب نے اس انگریز افسر کو سمجھا یا کہ حضرت امام جماعت احمدیہ ایسی بات کبھی نہیں کہہ سکتے جو ملکی قانون کی کبھی خلاف ورزی کرتی ہو۔ اس لئے یہ ناممکن ہے کہ حضرت امام جماعت احمدیہ کبھی کسی احمدی کو قانون کی خلاف ورزی کا حکم دیں لیکن وہ انگریز حضرت چوہدری صاحب کی بات نہ مانا اور بار بار اس پر اصرار کرتا رہا کہ فرض کریں اگر کبھی ایسی صورت حال پیش آجائے تو آپ کیا کریں گے؟ آپ نے بڑی جرأت سے بغیر کسی خوف یا ڈر سے اس انگریز ڈپٹی کمشنر کو جواب دیا کہ اگر آپ میرا دو ٹوک جواب ہی سننا چاہتے ہیں سنئے کہ میں ہر حالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کے حکم کی تعمیل کرنا ہی اپنا اولین فرض سمجھوں گا۔ انگریز افسر یہ جواب سن کر ہکّا بکّا رہ گیا۔ حضرت چوہدری صاحب نے مزید کہا کہ مجھے کسی کا خوف نہیں ہے اگر آپ کا دل کرے تو بےشک ابھی اپنی حکومت کو میرا یہ جواب پہنچا دیں۔ انگریز ڈپٹی کمشنر کی میز پر فون رکھا ہوا تھا حضرت چوہدری صاحب نے پوری دلیری سے کہا جناب یہ ٹیلیفون اٹھائیے اور اپنی حکومت کو بتا دیجئے کہ ظفراللہ خان ہمیشہ دین کو دنیا پر ترجیح دے گا۔‘‘

(’’بڑے آدمی کیسے بنے‘‘ صفحہ24-25)

حضور انور کی تازہ ہدایت

مغربی معاشرہ میں رہنے کی وجہ سے بعض اوقات والدین اور ہمارے بچے بھی ایسی باتیں اور ایسے کام کرنے لگ جاتے ہیں جو سنت سے ثابت نہیں ہوتے۔ اور جماعت احمدیہ کے قیام کا تو ایک مقصد ہی یہ ہے کہ ہم رسومات اور بدعات سے خود بھی دور رہیں اور دوسروں کو بھی سمجھائیں۔ اس معاشرہ میں برتھ ڈے بہت منانے کا رواج ہے۔ پھر اور بھی بہت کچھ مقامی طور پر منایا جاتاہے جو کہ سکولوں میں بھی اور گھروں میں بھی ہوتا ہے۔

خداتعالیٰ کے فضل سے احمدی والدین بہت حد تک ان باتوں سے دور رہتے ہیں اور ہمارے بچے بھی الا ماشاء اللہ۔ تاہم بعض چیزیں ایسی ہیں جو ہم بچوں کو کہہ سکتے ہیں کہ وہ ان پرعمل کریں اور والدین کو کرنی بھی چاہئیں۔

1۔ ان میں ایک عقیقہ ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا ہے۔ عقیقہ ‘‘ساتویں دن’’ اگر نہ ہو سکے تو پھر جب خداتعالیٰ توفیق دے۔ ایک روایت میں ہے آنحضرت ﷺنے اپنا عقیقہ چالیس کی عمر میں کیا تھا۔ ایسی روایات کو نیک ظن سے دیکھنا چاہئے جب تک قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کے خلاف نہ ہوں۔

(فقہ المسیح صفحہ238)

2۔ آمین۔ قرآن کریم خدا کا کلام ہے۔ اس کی بے انتہاء برکات ہیں پڑھنے کی، سننے کی، اسے یاد کرنےکی قرآن کریم کے احکامات پر عمل کرنے کی۔ جب بچہ پہلی دفعہ قرآن کریم ختم کرے تو اس کی خوشی کرنی چاہئے اور یہ جائز ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑنے اپنے بچوں کی آمین کی۔ لوگوں کو بلایا ، اوردعوت کی۔ تو جب ہم دوسری بدعات کی جگہ ایسے کام کریں گے تو ہمارے بچے محرومی کا شکار نہ ہوں گے۔ لیکن اس میں بھی حدود سے تجاوز نہ کریں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے علم میں آیا ہے کہ جماعت میں یہ رجحان پیدا ہو رہا ہے کہ آمین کی تقریبات یا مختلف جماعتی تقریبات اور مساجد کے افتتاح کے مواقع پر خصوصی طور پر ایسے کیک تیار کئے جاتے ہیں جن پر قرآن شریف اور خانہ کعبہ کی تصویریں یا مساجد کا مکمل ماڈل بنا ہوتا ہے اور پھر ان cakes کو کاٹا جاتا ہے۔

اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ہے: ’’ایسی تصویروں یا ماڈل والے کیک بنانا بالکل غلط طریق ہے اور ایک غلط رواج پڑ رہا ہے جس کو فوری طور پر روکنا ضروری ہے ورنہ بدعتیں بڑھتی چلی جائیں گی اور گمراہی کا موجب بنیں گی۔ اگر کیک تیار کر وانا بھی ہو تو زیادہ سے زیادہ اس پر صرف مبارک باد لکھا جائے۔‘‘

اس مضمون کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے ایک پیغام پر ختم کرتا ہوں۔

حضور ایدہ اللہ تعالی نے بار بار اپنے خطبات ، تقاریر اور پروگراموں میں ہمیں اسلامی روایات ، سادہ زندگی ،حسن اخلاق، معاملات میں عمدگی،حقوق اللہ اورحقوق العباد کی طرف توجہ دلائی ہے۔ آپ اپنے ایک پیغام میں خواتین کو مخاطب کر کے فرماتے ہیںکہ بچوں کو اعلی خلاق سکھانے بچوں کی اعلی تربیت کرنے ، بچوں کو اسلامی اقدار اور روایات سکھانے میں مائیں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

آپ فرماتے ہیں:۔
’’تربیت اولاد کی ذمہ داری کو سمجھیں۔ اور اس پر خاص توجہ دیں اپنے بچوں کو نماز کا پابند بنائیں۔ انہیں خلافت سے وابستگی اور اس کی برکات سے متمتع ہونے کی تلقین کرتی رہیں۔ ان کا دینی علم بڑھائیں۔ انہیں جماعتی عقائد اور دلائل سکھائیں، انہیں ایم ٹی اے سے جوڑیں۔ ان کے ساتھ اکھٹے بیٹھ کر میرے خطبات سناکر یں۔ اور بعد میں بچوں سے کچھ پوچھ لیا کریںتاکہ اگلی دفعہ وہ زیادہ غور سے سنیں۔‘‘

(ہفت روزہ بدر قادیان 13 فروری 2020صفحہ2)

اللہ تعالی ہمیں اسلامی اقدار، روایات اپنانے اور عمل کرنے کی توفیق دے۔ ہم ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہیں اور خلافت کی برکات سے مستفیض ہوتے رہیں۔ اللہ تعالی ہمیں خلافت کا حقیقی سلطان نصیر بنائے۔ آمین۔

٭…٭…٭

(سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 جولائی 2020