• 5 مئی, 2024

خدا کی راہ میں خرچ کرنا ایک مومن کے لئے انتہائی ضروری ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اگلی بات جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں، وہ افرادِ جماعت پر چندوں کی اہمیت واضح کرنا ہے۔ یاد رکھیں اور یہ بات عموماً میں سیکرٹریانِ مال سے کہا بھی کرتا ہوں کہ لوگوں کو یہ بتایا کریں کہ چندہ کوئی ٹیکس نہیں ہے بلکہ اُن فرائض میں داخل ہے جن کی ادائیگی کا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ شریف میں متعدد جگہ حکم فرمایا ہے۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسۡتَطَعۡتُمۡ وَاسۡمَعُوۡا وَاَطِیۡعُوۡا وَاَنۡفِقُوۡا خَیۡرًا لِّاَنۡفُسِکُمۡ ؕ وَمَنۡ یُّوۡقَ شُحَّ نَفۡسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۱۷﴾ اِنۡ تُقۡرِضُوا اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا یُّضٰعِفۡہُ لَکُمۡ وَیَغۡفِرۡ لَکُمۡ ؕ وَاللّٰہُ شَکُوۡرٌ حَلِیۡمٌ ﴿۱۸﴾ (التغابن: 17-18) پس اللہ کا تقوی اختیار کرو جس حد تک تمہیں توفیق ہے اور سنو اور اطاعت کرو اور خرچ کرو یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ اور جو نفس کی کنجوسی سے بچائے جائیں تو یہی ہیں وہ لوگ جو کامیاب ہونے والے ہیں۔ اگر تم اللہ کو قرضہِ حسنہ دو گے تو وہ اسے تمہارے لئے بڑھا دے گا۔ اِنۡ تُقۡرِضُوا اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا یُّضٰعِفۡہُ لَکُمۡ وَیَغۡفِرۡ لَکُمۡ وہ اُسے تمہارے لئے بڑھا دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بہت قدر شناس اور بردبار ہے۔

پس ان آیات سے واضح ہے کہ خدا کی راہ میں خرچ کرنا ایک مومن کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں جو خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور فرمایا کہ تمہارا خدا کی راہ میں خرچ کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ تم نے اللہ تعالیٰ کو قرض دیا ہے اور اللہ تعالیٰ وہ ہستی ہے جو بندے کو اُس کی قربانی کے بدلے میں کئی گنا بڑھا کر لوٹاتی ہے۔ اور لوگ ایسے متعدد واقعات مجھے لکھتے ہیں کہ ہم نے خدا تعالیٰ کی راہ میں چندہ دیا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں کئی گنا بڑھا کر لوٹا دیا۔ اس بارے میں کئی دفعہ مَیں مختلف واقعات بھی بیان کر چکا ہوں۔ اللہ تعالیٰ تو غنی ہے اور بے نیاز ہے، اُس کو ہمارے پیسے کی ضرورت نہیں۔ اصل میں تو ہمیں پاک کرنے کے لئے ہمارے اطاعت کے معیار دیکھنے کے لئے، ہمیں تقویٰ کی راہوں کی تلاش کرتا دیکھنے کے لئے، ہمارے مال کی قربانی کے دعویٰ کے معیار کو دیکھنے کے لئے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اُس کی راہ میں خرچ کرو، اُس کے دین کے پھیلانے کے لئے، بڑھانے کے لئے خرچ کرو۔

پس ہر احمدی کو اس روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم چندہ کیوں دیتے ہیں؟ اگر کسی سیکرٹری مال یا صدر جماعت کو خوش کرنے کے لئے، یا اُس سے جان چھڑانے کے لئے چندہ دیتے ہیں تو ایسے چندے کا کوئی فائدہ نہیں۔ بہتر ہے نہ دیا کریں۔ اگر دوسرے کے مقابل پر آ کر صرف مقابلے کی غرض سے بڑھ کر چندہ دیتے ہیں تو اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ غرض کہ کوئی بھی ایسی وجہ جو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے علاوہ چندہ دینے کی ہو، وہ خدا تعالیٰ کے ہاں ردّ ہو سکتی ہے۔ پس چندہ دینے والے یہ سوچیں کہ خدا تعالیٰ کا اُن پر احسان ہے کہ اُن کو چندہ دینے کی توفیق دے رہا ہے، نہ کہ یہ احسان کسی شخص پر، اللہ تعالیٰ پر یا اللہ تعالیٰ کی جماعت پر ہے کہ وہ اُسے چندہ دے رہے ہیں۔ پس ہر چندہ دینے والے کو یہ سوچ رکھنی چاہئے کہ وہ چندے دے کر خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ الٰہی جماعتوں کے لئے مالی قربانی انتہائی اہم چیز ہے۔ اس لئے مَیں نے تمام جماعتوں کو یہ کہا ہے کہ نومبائعین اور بچوں کو وقفِ جدید اور تحریکِ جدید میں زیادہ سے زیادہ شامل کرنے کی کوشش کریں، چاہے ایک پیسہ دے کر کوئی شامل ہوتا ہو، تا کہ اُنہیں عادت پڑے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والے ہوں۔ چندوں کی اہمیت کے بارے میں ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’دنیا میں انسان مال سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے، اسی واسطے علم تعبیر الرّؤیا میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص دیکھے کہ اُس نے جگر نکال کر کسی کو دیا ہے تو اُس سے مراد مال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حقیقی اتّقاء اور ایمان کے حصول کے لئے فرمایا: لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ (آل عمران: 93) حقیقی نیکی کو ہرگز نہ پاؤ گے جب تک تم عزیز ترین چیز نہ خرچ کرو گے کیونکہ مخلوقِ الٰہی کے ساتھ ہمدردی اور سلوک کا ایک بڑا حصہ مال کے خرچ کرنے کی ضرورت بتلاتا ہے اور ابنائے جنس اور مخلوقِ خدا کی ہمدردی ایک ایسی شے ہے جو ایمان کا دوسرا جزو ہے جس کے بدُوں ایمان کامل اور راسخ نہیں ہوتا۔ جبتک انسان ایثار نہ کرے دوسرے کو نفع کیونکر پہنچا سکتا ہے۔ دوسرے کی نفع رسانی اور ہمدردی کے لئے ایثار ضروری شے ہے اور اس آیت میں لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ میں اسی ایثار کی تعلیم اور ہدایت فرمائی گئی ہے۔ پس مال کا اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا بھی انسان کی سعادت اور تقویٰ شعاری کا معیار اور محک ہے۔ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ کی زندگی میں للّٰہی وقف کا معیار اور محک وہ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ضرورت بیان کی اور کُل اثاث البیت لے کر حاضر ہو گئے‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ367-368 ایڈیشن 2003ء)

(خطبہ جمعہ 16؍اگست 2013ء)

پچھلا پڑھیں

دین کو دنیا پر مقدم رکھو

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 جولائی 2022