• 7 مئی, 2024

اے چھاؤں چھاؤں شخص تیری عمر ہو دراز

ڈائری عابد خان سے کچھ حصے
اے چھاؤں چھاؤں شخص تیری عمر ہو دراز

موٴرخہ 21 ستمبر 2014ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور آپ کا قافلہ آٹھ روزہ دورہ پر آئر لینڈ کے لئے روانہ ہوا، جہاں حضور انورنے اس ملک کی پہلی جماعت احمدیہ کی مسجد کا افتتاح فرمایا۔

مسجد فضل لندن سے روانگی

آج سے ایک سال پہلے آج کے دن ہی 21 ستمبر 2013ء کو حضور انور ایک طویل دورہ پر مشرق بعید اور آسٹریلیا کے لئے روانہ ہوئے تھے۔ یہ دورہ ہر لحاظ سے نہایت بابرکت ثابت ہو ا اور آج کی تاریخ میں ٹھیک ایک سال بعد حضور انور آئر لینڈ کے دورہ کے لئے روانہ ہو رہے تھے۔

حضور انور نے مسجد فضل لندن میں نماز ظہر و عصر ادا فرمائیں اور چند لمحات کے بعد حضور انور اور خالہ سبوحی اپنی رہائش گاہ سے باہر تشریف لے آئے۔ احمدیوں کی ایک بڑی تعداد مسجد فضل لندن کے باہر حضور انور کو الوداع کہنے کے لئے موجود تھی۔

ایک دوست (مکرم ارسلان صاحب ابن مکرم قمر سلیمان صاحب) جو جلسہ پر پاکستان سے تشریف لائے تھے اور میرے کزن ہیں۔ حضور انور کے آئر لینڈ تشریف لے جانے پر ارسلان کہنے لگے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ میرا لندن کا دورہ ختم ہو گیا ہے کیونکہ یہ سارا سفر بنیادی طور پر حضور انور کو دیکھنے کی خاطر تھا اور آپ کی اقتداء میں نماز ادا کرنے کی غرض سے تھا۔ میں حضور انور کی محبت اور شفقت کو کبھی بھول نہ سکوں گا اور اس احساس کو بھی جو آپ کی قربت میں نصیب ہوا۔

جب حضور انور اپنی کار پرتشریف فرما ہونے کے لئے بڑھے تو آپ کی نظر محترم میر محمود احمد ناصر صاحب پر پڑی جو حضور انور کو الوداع کہنے کے لئے لائن میں کھڑے تھے ۔ حضور انور نے انہیں اپنے پاس بلایا جس پر محترم میر محمود احمد ناصر صاحب نہایت محبت سے حضور انور سے ملنے کے لئے آگے بڑھے اور اپنا سر حضور انور کے سینے پر اس طرح رکھا جس طرح ایک چھوٹا بچہ اپنا سر اپنی والدہ یا والد کے سینے پر رکھ دیتا ہے۔ یہ ایک نہایت جذباتی اور دل کو لبھانے والا منظر تھا، جہاں جماعت کے ایک بزرگ، جو حضور انور کے ماموں بھی ہیں خلیفۃ المسیح کی موجودگی میں ایک چھوٹے بچے کی طرح بن جاتے ہیں تاکہ وہ حضور انور سے زیادہ سے زیادہ برکات سمیٹ سکیں۔ دعا کے بعد حضور انور اور آپ کا قافلہ 2 بجکر 45 منٹ پر مسجد سے روانہ ہوا۔ حضور انور براہ راست آئر لینڈ کا سفر اختیار نہیں فرما رہے تھے بلکہ ہماری پہلی رات کا قیام North Wales میں تھا جو Holyhead کےساحلی شہرمیں واقع ہے۔

لوکل احمدیوں کے تاثرات

23 ستمبر بروز منگل کو حضور انور نے دن کے اکثر حصے میں احمدی فیملیز کو ملاقات کے شرف سے نوازا۔ جس دوران یہ ملاقاتیں ہو رہی تھیں خاکسار کو چند لوکل احمدیوں سے ملنے اور تعارف حاصل کرنے کا موقع ملا۔

پہلے دوست جن کو میں ملا وہ ایک آئرش دوست تھے جن کا نام Aidan McManamy تھا اور عمر 28برس تھی، جنہوں نے امسال فروری میں احمدیت قبول کی تھی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کی پرورش ایک کیتھولک خاندان میں ہوئی تھی لیکن انہوں نے کبھی بھی اپنے عقائد کو عملی طور پر نہیں اپنایا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ہر روز جماعت کے بارے میں نئی نئی باتیں سیکھ رہے ہیں لیکن اب انہیں ایسا لگتا ہے کہ جیسے انہیں سیدھا راستہ مل گیا ہو۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ آئر لینڈ کی جماعت کے پاس ایک آئرش مقامی مبلغ ہیں، جس کی وجہ سے انہیں بہت مدد ملی ہے۔ ابراھیم نونن صاحب کو دیکھنے سے ان کی اس (احمدیت میں) منتقلی کو آسان بنا دیا ہے۔ حضور انور سے اپنی زندگی کی پہلی ملاقات سے چند لمحات قبل انہوں نے بتایا کہ
میں نے حضور انور کے بارے میں جانا ہے اور آپ کی بعض تقاریر کو سنا ہے اور میں دیکھ سکتاہوں کہ آپ جو بھی فرماتے ہیں وہ ایک انسان کو سیدھی راہ کی ہدایت دینے والا ہے۔ میں نے یہ بھی پڑھا ہے کہ حضور انور کو باغبانی کا شوق ہے اور اس نے میری دلچسپی کو اور بھی بڑھا دیا ہے کیونکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نہ صرف یہ کہ ایک روحانی لیڈر ہیں بلکہ ایک عام انسان بھی ہیں۔

میری ملاقات مکرم میجر کلیم طاہر صاحب کے ساتھ بھی ہوئی جن کی عمر 42 سال اور تعلق Dublin سے تھا۔ ان کے ساتھ ان کا نو سال کا بیٹا عزیزم قاسم بھی تھا۔ مکرم کلیم صاحب پاکستان آرمی سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد تین سال قبل پاکستان سے آئر لینڈ تشریف لائے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اپنے بچپن میں انہیں خلیفہ وقت سے ملاقات نصیب نہیں ہوئی اور یوں انہیں نہایت مسرت اور فخر محسوس ہو رہاہے کہ ان کا بیٹا حضور انور سے ملاقات کا شرف پا رہا ہے۔

ان کے بیٹے عزیزم قاسم نے بتایا کہ مجھے حضور انور سے ملنےکی بہت خوشی اور مسرت ہو رہی ہے لیکن میں کچھ nervous بھی ہوں۔ حضور انور کو ملنے سے میرا اسلام کے بارے میں علم بڑھے گا اور یوں ملاقات کے بعد میں ایسے لوگوں کو جو حضور انور سے نہیں ملے آپ کے بارے میں اور اسلام کے بارے میں بتاؤں گا۔

مکرم خضر حیات صاحب (بعمر 36 سال) حال ہی میں اٹلی سے آئرلینڈ شفٹ ہوئےتھے۔ وہ زندگی میں پہلی مرتبہ حضور انور سے ملاقات کا شرف پانے لگے تھےاور یقینی طور پر جذبات سے مغلوب تھے۔ انہوں نے بتایا۔

آج زندگی میں پہلی بار مجھے حضرت خلیفۃ المسیح سے ملنے کا موقع ملے گا اس طرح یہ میری زندگی کا سب سے بہترین دن ہے۔ میں اس وقت عجیب کیفیت میں ہوں جو میں نے اس سے پہلے کبھی محسوس نہیں کی۔ زندگی بھر جس چیز کی میں نے خواہش کی ہے اور خواب دیکھا ہے وہ آج پورا ہونے جا رہاہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔ جب میں حضور انور کے کمرے میں داخل ہوں گا تو مجھے حضور انور کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ مجھے صرف آپ کا مبارک چہرہ دیکھنے کی ضرورت ہے اور آپ کی بابرکت آواز براہ راست سننے کی خواہش ہے۔

اسی شام مجھے مشرق بعید کی ایک نہایت مخلص خاتون سے ملنے کا موقع ملا جو گزشتہ کچھ عرصہ سے آئر لینڈ میں رہائش پذیر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ:
حضور انور کے یہاں تشریف لانے سے میں بہت زیادہ خوش ہوں۔ میں نے آپ کو کل تین میٹر کی دوری سے دیکھا اور مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ میں کس قدر خوش قسمت ہوں۔ حضور انور کو دیکھنے کے باعث میں زندگی کے ہر پہلو میں بہتر ہونا چاہتی ہوں اورنماز زیادہ اخلاص سے پڑھنے کی طرف توجہ ہوتی ہے۔ میرا خیال تھا کہ میری ملاقات صبح کے وقت تھی اس لئے میں جلدی آگئی تھی لیکن مجھے ابھی ابھی بتایا گیا ہے کہ یہ ملاقات شام کو ہوگی۔ دراصل یہ بھی ایک نعمت ہے کہ یہ ملاقات تاخیر سے ہو رہی ہے کیونکہ اس ملاقات میں ممکنہ طور پر میرے شوہر بھی میرے ساتھ ہوں گے۔ وہ جماعتی کاموں میں اب زیادہ فعال نہ ہیں اور یہ بات میرے لئے سخت تکلیف کا باعث ہے۔ مجھے امید ہے کہ وہ آئیں گے کیونکہ حضور انور کو دیکھنے کی وجہ سے وہ بہتری کی طرف مائل ہوں گے۔

وہ شام میں دوبارہ تشریف لائیں اور ان کے شوہر پر حضور انور کی ملاقات کا جو اثر ہوا اس کے متعلق بتانے لگیں کہ میرے شوہر فرط حیرت میں گم تھے کہ حضور انور اپنے مرتبہ اور مقام کے با وجود اپنی روزمرہ زندگی میں سے وقت نکال کر جماعت کے جملہ احباب کو ملاقات کا شرف بخشتے ہیں اور سب سے ملاقات فرماتے ہیں اور جملہ سوالات، تحفظات اور مسائل کا تشفی بخش جواب عطا فرماتے ہیں۔ اس تجربہ نے میرے شوہر کو عمومی رنگ میں حیرت زدہ کرنے کے ساتھ ساتھ نہایت متاثر کیا جو حقیقت میں دل کو گرما دینے والا تجربہ تھا۔ جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے، حضور انور سے ملاقات نے میرے ایمان کو مزید تقویت دی ہے اور مجھے عبادتِ الٰہی میں بہتری کی طرف توجہ پیدا ہوئی۔ یہ میرے لئے بہت خاص موقع تھا اور حقیقی طور پر یہ برکت نصیب ہوئی کہ اب میرے شوہر جلسہ سالانہ لندن میں شمولیت کے لئے بیتاب ہیں۔
میں ایک نوجوان جوڑےکو ملا، مکرم سلیم الرحمٰن (بعمر 28 سال) اور مکرمہ ھبۃ الباسط صاحبہ جو حضور انور سے ملاقات کے انتظار میں تھے۔ یہ دونوں حضور انور کو پہلی بار ملے تھے اور خوشی اور مسرت ان کے چہروں پر خوب عیاں تھی۔ حضرت ٍ خلیفۃ المسیح کو دیکھنے پر ان کی خوشی کی انتہا اس قدر تھی کہ لگتا تھا جیسے ان کو سانس لینے میں بھی دشواری ہو رہی ہو۔

مکرم سلیم الرحمٰن صاحب نے بتایا میں اس وقت اپنے جذبات کے بیان سے قاصر ہوں۔ میں جو خوشی محسوس کر رہا ہوں اس کے بیان کی طاقت نہیں رکھتا۔ تاہم اللہ کا شکر ادا کرنا ممکن نہیں کیونکہ جتنا ادا کریں ناکافی ہے۔

ان کی اہلیہ مکرمہ ھبۃ الباسط صاحبہ کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اپنی ملاقات کے بارے میں انہوں نے بتایا جب میں حضور انور کے سامنے بیٹھی تھی تو مجھے ایسا لگا جیسے کوئی نہ دیکھی جانے والی چیزہے جس نے ہمیں حضور کے ساتھ جوڑ دیاہے۔ ایسا لگتا تھا جیسے کوئی نہ دیکھا جا سکنے والا تعلق یا مقناطیس ہے۔ میں نے ایسا کبھی پہلے محسوس نہیں کیا۔ حضور انور کا انداز گفتگو اس قدر محبت بھرا ہےکہ آپ کی موجودگی میں، میں اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پا رہی تھی۔ حضور انور کو دیکھنے کے بعد میری خواہش ہے کہ ہر حوالہ سے اپنے اندر بہتری پیدا کروں۔ میں کوشش کروں گی کہ اپنی کمزوریوں پر قابو پاؤں۔ یقینی طور پر میرے جذبات نا قابل بیان ہیں۔

ایک آئرش پولیس مین کے تاثرات

حضور انور کے دورہ کے دوران آئرش پولیس جس کا نام ’’Garda‘‘ تھا، نے حضور انور کی عزت و تکریم میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ وہ مستقل طور پر ہوٹل میں موجود رہے تاکہ سیکیورٹی کے جملہ انتظامات پر نظر رکھ سکیں۔

ایک شام کو میری ملاقات ایک افسر Sergeant Vincent Connolly سے ہوئی اور انہوں نے حضور انور کے دورہ کے بارے میں اپنی سوچ اور تاثرات کا اظہار کیا۔

Sergeant Vincent Connolly نے بتایا ہم ’’Garda‘‘ یہاں آئر لینڈ میں اپنے آپ کو ’’امن کے رکھوالے‘‘ سمجھتے ہیں اور میں نے دیکھا ہے کہ حضور انور ہمیشہ امن کے پیغام کا پرچار کرتے ہیں۔ یہ وجہ ہے کہ ہم حضور انور کو سہولت مہیا کر رہے ہیں کیونکہ آپ کا دورہ ہمارے ملک آئر لینڈ کے لئے بہت اہم ہے۔

دیگر احمدیوں کے جذبات

بعد ازاں اس دن دوبارہ ملاقات کا آغاز ہوا اور میں دیگر احمدی احباب سے ملتا رہا۔ میری ملاقات نعیم چوہدری صاحب سے ہوئی جو اپنی فیملی کے ساتھ Peace Village کینیڈا سے حضور انور کی ملاقات کے لئے تشریف لائے تھے۔

نعیم صاحب نے بتایا کہ ہم کینیڈا سے ہزاروں میل کا سفر کر کے صرف ایک مقصد کے لئے آئے ہیں ۔۔۔۔ اور وہ ہے حضور انور کو دیکھنا۔ جماعت احمدیہ کینیڈا بہت بڑی جماعت ہے اور اسی وجہ سے جب حضور انور تشریف لاتے ہیں تو آپ سے ملاقات کرنا ممکن نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ میں اپنی فیملی کو یہاں آئر لینڈ حضور انور سے ملوانے آیا ہوں۔

حضور انور جہاں بھی تشریف لے جاتے ہیں وہ پوری جماعت پر ایک دیر پا اثر چھوڑتا ہے اورایک ولولہ پیدا ہو جاتا ہے۔ بلکہ ایسے احمدی جو پہلے فعال نہیں ہوتے وہ بھی اپنے خلیفہ کی ایک جھلک دیکھنے پر روحانی طور پر تر و تازہ ہو جاتے ہیں۔ میں بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جن کی زندگی حضور انور کو دیکھتے ہی یکسر بدل گئی۔ میں ہمیشہ دعا کرتا ہوں کہ ہم کبھی بھی خلافت کی برکات سے محروم نہ ہوں اور اس حفاظت سے بھی جو اس (ڈھال) سے جڑی ہے۔

مکرم نعیم صاحب کے بیٹے عزیزم حزیم (بعمر 16 سال) نے بھی میرے ساتھ گفتگو کی۔ انہوں نے بتایا۔

حضور انور کو دیکھنا ایسا ہے کہ جیسے آپ کو ڈھال مل گئی ہو۔ ایسی ڈھال جو آ پ کو برائیوں اور گناہوں سے بچاتی ہے۔ جب میں حضور انور کو دیکھتا اور سنتا ہوں تو یہ میرے ایمان باللہ کو مزید تقویت دیتا ہے۔ درحقیقت میں اللہ تعالیٰ سے ایک تعلق محسوس کرتا ہوں جو پہلے کبھی نہیں کیا۔

(دورہ حضور انورآئر لینڈ 2014ء)

(مترجم: ابو سلطان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 جولائی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ