• 28 اپریل, 2024

زندگی کا مقصد خدا تعالیٰ کی ذات کے گرد گھومتا ہے

قرآنِ کریم جب ہمیں احکامات پر عمل کرنے کے لئے کہتا ہے تو اس کا کامل نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ہمارے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ آپ کی عبادتیں ہیں تو اُس کے بھی وہ اعلیٰ ترین معیار ہیں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اعلان کردے کہ میرا اپنا کچھ نہیں، میری عبادتیں بھی صرف اور صرف خدا تعالیٰ کے لئے ہیں۔ مَیں اپنی ذات کے لئے کچھ حاصل نہیں کرتا؛ نہ کرنا چاہتا ہوں بلکہ صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی رضا میرے پیشِ نظر ہے۔ میری زندگی کا مقصد خدا تعالیٰ کی ذات کے گرد گھومتا ہے۔ قُلۡ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَنُسُکِیۡ وَمَحۡیَایَ وَمَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ (الانعام: 163) کا اعلان ایک ایسا اعلان ہے جس کے اعلیٰ معیاروں تک آپ کے علاوہ کوئی اور پہنچ نہیں سکتا۔ اور پھر صبر کی بات آتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کہ وَمَا یُلَقّٰہَاۤ اِلَّا الَّذِیۡنَ صَبَرُوۡا ۚ وَمَا یُلَقّٰہَاۤ اِلَّا ذُوۡ حَظٍّ عَظِیۡمٍ (حٰم السجدۃ: 36) اور باوجود ظلموں کے سہنے کے یہ مقام اُنہیں عطا کیا جاتا ہے جو بڑا صبر کرنے والے ہیں یا پھر اُن کو جنہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی نیکی کا حصہ ملا ہو۔ جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پڑھتے ہیں تو گھریلو مشکلات اور تکالیف میں بھی، اپنی ذات پر جسمانی طور پر آنے والی مشکلات اور تکلیفوں میں بھی، اپنی جماعت پر آنے والی مشکلات اور تکلیفوں میں بھی صبر کی اعلیٰ ترین مثال اور صبر کے اعلیٰ ترین معیار ہمیں صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں نظر آتے ہیں۔ ذاتی طور پر دیکھیں طائف میں کس اعلیٰ صبر کا مظاہرہ کیا۔ اور یہ صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپ نے ایک شہر کو تباہ ہونے سے بچا لیا۔ باوجودکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اختیار دیا تھا لیکن آپ کے صبر کی انتہا تھی کہ باوجود زخمی ہونے کے، باوجود شہر والوں کی غنڈہ گردی کے آپ نے کہا، نہیں اس قوم کو تباہ نہیں کرنا۔

(شرح العلامہ الزرقانی جلد2 صفحہ52-53 باب خروجہﷺ الی الطائف دارالکتب العلمیۃ ایڈیشن1996)

(خطبہ جمعہ7 جون 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 اگست 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ