میں طوفانوں میں جینا چاہتا ہوں
صداقت کا سفینہ چاہتا ہوں
میں تنگ آیا ہوا ہوں نفرتوں سے
محبت کا مدینہ چاہتا ہوں
نظر آئے جسے تیرا ہی چہرہ
میں ایسی چشمِ بینا چاہتا ہوں
ہو جس میں رات دن تجھ سے ملاقات
کوئی ایسا مہینہ چاہتا ہوں
میں مرنا چاہتا ہوں تیری خاطر
تری خاطر ہی جینا چاہتا ہوں
رہا ہو جاؤں سفلی زندگی سے
میں زہرِ عشق پینا چاہتا ہوں
نہانا چاہتا ہوں آنسوؤں میں
ندامت کا پسینہ چاہتا ہوں
جو دھو ڈالے مرے سب داغ دھبے
میں وہ اشکِ شبینہ چاہتا ہوں
سیاست کے، عداوت کے، انا کے
میں سارے چاک سینا چاہتا ہوں
کوئی ساغر نہ مینا چاہتا ہوں
براہِ راست پینا چاہتا ہوں
جو اندر سے بھی اُتنی ہی حسین ہو
کوئی ایسی حسینہ چاہتا ہوں
شرابِ عشق سے پُر ہو جو آصفؔ!
میں ایسا آبگینہ چاہتا ہوں
(آصف محمود ڈار)