• 25 اکتوبر, 2024

حُسنِ نیتی خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کا ذریعہ

خدا تعالیٰ قرآن کریم میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ کا وصف یوں بیان فرماتا ہے۔ یَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضۡوَانًا (الفتح: 30) کہ وہ خدا تعالیٰ کا فضل اور اسکی رضامندی کو چاہتے ہیں۔ یہ وصف ہمیں بھی اپنی زندگیوں میں اپنانا چاہئے کہ ہمارا مقصد اور ہماری کوشش ہر معاملہ میں یہ ہونی چاہئے کہ ہم خدا تعالیٰ کا فضل، اسکی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے والے ہوں۔

کتبِ احادیث میں سے صحیح بخاری جسے ’’اَصَحُّ الکُتُب بَعدَ کِتٰبِ اللّٰہِ‘‘ کا درجہ حاصل ہے۔ اس کا آغاز جس حدیث سے ہوتاہے وہ بنیادی حدیث نیت سے متعلق ہےکہ آنحضورﷺ نے فرمایا ’’انما الاعمال بالنیات‘‘ کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ جس نیت سے کوئی عمل کیا جارہا ہے ویسی ہی اسکی جزاء ہے۔

ہمارے پیارے آقا ومولا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ کہ میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں، تم ان میں سے جس صحابی کی بھی اقتداء کرو گے ہدایت پاجاؤ گے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مسافر حضورﷺ کے پاس آیا۔ آپؐ نے اپنے گھر میں کہلا بھیجا کہ مہمان کے لئے کھانا بھجواؤ۔ جواب آیا کہ پانی کے سوا آج گھر میں کچھ نہیں ہے۔ اس پر حضورﷺ نے صحابہ سے فرمایا اس مہمان کے کھانے کا بندوبست کون کرے گا۔ ایک انصاری نے عرض کیا حضور مَیں انتظام کرتا ہوں۔ چنانچہ وہ گھر گیا اور اپنی بیوی سے کہا کہ آنحضرتﷺ کے مہمان کی خاطر مدارت کا انتظام کرو۔ بیوی نے جواب دیا آج گھر میں صرف بچوں کے کھانے کے لئے ہے۔ انصاری نے کہا اچھا کھانا تیار کرو۔ پھر چراغ جلاؤ اور جب بچوں کے کھانے کا وقت آئے تو ان کو بہلا پھسلا کر تھپتھپا کر سلا دو۔ چنانچہ عورت نے کھانا تیار کیا اور چراغ جلایا اور بچوں کو بھوکا ہی سُلا دیا۔ پھر جب مہمان کھانے کے لئے آیا توچراغ درست کرنے کے بہانے اٹھی اور جا کر چراغ بجھا دیا۔ پھر دونوں مہمان کے ساتھ بیٹھ کر بظاہر کھانے کی آوازیں نکالتے رہے اور مہمان بھی یہ سمجھتا رہا کہ میرے ساتھ کھانا کھا رہے ہیں۔ اس طرح مہمان نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور وہ خود بھوکے سو گئے۔ صبح جب انصاری حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؐ نے ہنس کر فرمایا کہ تمہاری رات کی تدبیر سے تو اللہ تعالیٰ بھی ہنسا ہے۔

(بخاری کتاب مناقب الانصار باب یؤثرون علی انفسھم ولو کان بھم خصاصۃ حدیث 3798)

اس حدیث میں بڑا ہی پیارا درس ہےیہاں ان انصاری صحابی نے نیک نیتی سے کام لیااور اسی کا سبب خدا تعالیٰ کی رضا اور فضل کو جذب کرنے والاہوا کہ خدا تعالیٰ اس نیک نیتی سے کئے گئے فعل سے ایسا خوش ہوا کہ اپنے رسول ﷺ کو بھی اس واقعہ سے مطلع فرمایا۔ خدا تعالیٰ ہمارے دلوں کے حال جاننے والا ہے۔ وہ جانتا ہے جو ہم ظاہر کرتے ہیں یا چھپاتے ہیں سب وہ جانتا ہے۔ جو لوگ دنیا والوں کو خوش کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں وہ لاکھ کوشش کے باوجود بھی یہ درجہ نہیں پا سکتے بلکہ بسا اوقات وہ دنیا والوں کی خوشنودی پانے میں بھی ناکام رہتے ہیں۔ اس کے برعکس نیک ارادہ اور حسن نیتی کا پھل خدا تعالیٰ کی رضا اور اسکی خوشنودی کو پانے کا سبب ہوجاتاہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’یاد رکھو کہ خدا کا یہ ہرگز منشاء نہیں کہ تم دنیا کوبالکل ترک کر دو بلکہ اس کا جو منشاء ہے وہ یہ ہے کہ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا (الشمس: 10)۔ (یعنی جس نے نفس کو پاک کیا وہ اپنے مقصود کو پا گیا۔)‘‘ آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’تجارت کرو۔ زراعت کرو۔ ملازمت کرو اور حرفت کرو۔ جو چاہو کرو مگر نفس کو خدا کی نافرمانی سے روکتے رہو اور ایسا تزکیہ کرو کہ یہ امور تمہیں خدا سے غافل نہ کر دیں۔‘‘

(ملفوظات جلد 10 صفحہ 260-261۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

فرمایا کہ: ’’پہلی حالت انسان کی نیک بختی کی یہ ہے کہ والدہ کی عزت کرے۔ اویس قرنی کے لئے بسا اوقات رسول اللہ ﷺ یمن کی طرف منہ کر کے کہا کرتے تھے کہ مجھے یمن کی طرف سے خدا کی خوشبو آتی ہے۔ آپؐ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ وہ اپنی والدہ کی فرمانبرداری میں بہت مصروف رہتاہے اور اسی وجہ سے میرے پاس بھی نہیں آسکتا۔بظاہر یہ بات ایسی ہے کہ پیغمبر خدا ﷺ موجود ہیں مگر وہ ان کی زیارت نہیں کر سکتے صرف اپنی والدہ کی خدمت گزاری اور فرمانبرداری میں پوری مصروفیت کی وجہ سے۔مگر میں دیکھتاہوں کہ رسول خداؓ نے دو ہی آدمیوں کو السلام علیکم کی خصوصیت سے وصیت فرمائی یا اویس کو یا مسیح کو۔ یہ عجیب بات ہے جو دوسرے لوگوں کو ایک خصوصیت کے ساتھ نہیں ملی‘‘۔ فرمایا ’’ہماری تعلیم کیا ہے؟ صرف اللہ اوررسول اللہ ﷺ کی پاک ہدایت کا بتلادیناہے اگر کوئی میرے ساتھ تعلق ظاہر کر کے اس کو ماننا نہیں چاہتا تو وہ ہماری جماعت میں کیوں داخل ہوتا ہے ؟۔۔۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ مادرپدر آزاد کبھی خیر و برکت کا منہ نہ دیکھیں گے۔ پس نیک نیتی کے ساتھ اور پوری اطاعت اور وفاداری کے رنگ میں خدا اوررسول کے فرمودہ پر عمل کرنے کو تیار ہوجاؤ۔ بہتری اسی میں ہے ورنہ اختیار ہے ہمارا کا م صرف نصیحت کرنا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ 295،296)

آنحضور ﷺکے صحابی اویس قرنیؓ کی بھی حسن نیتی ہی تھی جوخدا تعالیٰ کے فضل اور رضا کو جذب کرنے والی ہوئی اور انہیں اس مقام پر لائی کہ آنحضور ﷺ کو خدا تعالیٰ نے آپ کی حالت سے مطلع کیا اور آپ کے اخلاص و وفا کو مقبولیت کا درجہ ملا۔ اور یہ درجہ ملا کہ آپﷺ نے انہیں سلام بھیجا۔ جو کہ حضرت اویس قرنیؓ اور مسیح موعودؑ کے علاوہ کسی کی خصوصیت نہیں ہوا۔ ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’جس قدر انسان کشمکش سے بچا ہوا ہو اُسی قدر اس کی مرادیں پوری ہوتی ہیں۔کشمکش والے کے سینے میں آگ ہوتی ہے اور وہ مصیبت میں پڑا ہوا ہوتا ہے۔ اس دنیاکی زندگی میں یہی آرام ہے کہ کشمکش سے نجات ہو۔کہتے ہیں کہ ایک شخص گھوڑے پر سوار چلا جاتا تھا۔ راستے میں ایک فقیر بیٹھا تھا جس نے بمشکل اپنا سَتر ہی ڈھانکا ہوا تھا۔اس نے اس سے پوچھاکہ سائیں جی کیا حال ہے؟ فقیر نے اسے جواب دیا کہ جس کی ساری مرادیں پوری ہو گئی ہوں اس کا حال کیسا ہوتا ہے۔ اُسے تعجب ہوا کہ تمہاری ساری مرادیں کس طرح حاصل ہو گئی ہیں۔ فقیر نے کہا کہ جب ساری مرادیں ترک کر دیں تو گویا سب حاصل ہو گئیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ جب یہ سب حاصل کرنا چاہتا ہے تو تکلیف ہی ہوتی ہے لیکن جب قناعت کر کے سب کو چھوڑ دے تو گویا سب کچھ ملنا ہوتا ہے۔ نجات اور مُکتی یہی ہے کہ لذّت ہو۔ دکھ نہ ہو۔ دکھ والی زندگی تو نہ اِس جہان کی اچھی ہوتی ہے اور نہ اُس جہان کی۔ یہ زندگی تو بہرحال ختم ہو جائے گی کیونکہ یہ برف کے ٹکڑے کی طرح ہے خواہ اس کو کیسے ہی صندوقوں اور کپڑوں میں لپیٹ کر رکھو لیکن وہ پگھلتی ہی جاتی ہے۔ اسی طرح پر خواہ زندگی کے قائم رکھنے کی کچھ بھی تدبیریں کی جاویں لیکن یہ سچی بات ہے کہ وہ ختم ہوتی جاتی ہے اور روز بروز کچھ نہ کچھ فرق آتا ہی جاتا ہے۔ دنیا میں ڈاکٹر بھی ہیں۔ طبیب بھی ہیں مگر کسی نے عمر کا نسخہ نہیں لکھا۔ جب لوگ بڈھے ہو جاتے ہیں پھر ان کو خوش کرنے کو بعض لوگ آ جاتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ابھی تمہاری عمر کیا ہے؟انسان عمر کا خواہشمند ہو کر نفس کے دھوکوں میں پھنسا رہتا ہے۔ دنیا میں عمریں دیکھتے ہیں کہ ساٹھ کے بعد تو قویٰ بالکل گداز ہونے لگتے ہیں۔ بڑا ہی خوش قسمت ہوتا ہے جو اسّی یا بیاسی تک عمر پائے اور قُویٰ بھی کسی حد تک اچھے رہیں ورنہ اکثر نیم سودائی سے ہو جاتے ہیں۔ اسے نہ تو پھر مشورہ میں داخل کرتے ہیں اور نہ اس میں عقل اور دماغ کی کچھ روشنی باقی رہتی ہے۔ بعض وقت ایسی عمر کے بڈھوں پر عورتیں بھی ظلم کرتی ہیں کہ کبھی کبھی روٹی دینی بھی بھول جاتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ انسان جوانی میں مست رہتا ہے اور مرنا یادنہیں رہتا۔بُرے بُرے کام اختیار کرتا ہے اور آخر میں جب سمجھتا ہے تو پھر کچھ کر ہی نہیں سکتا۔ غرض اس جوانی کی عمر کو غنیمت سمجھنا چاہئے‘‘۔ آپ نے وہاں مجلس میں بیٹھے ہوئے ہندو دوست شرمپت کو سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ ’’جس قدر ارادے آپ نے اپنی عمر میں کئے ہیں ان میں سے بعض پورے ہوئے ہوں گے۔ مگر اب سوچ کر دیکھو کہ وہ ایک بلبلے کی طرح تھے جو فوراً معدوم ہو جاتے ہیں اور ہاتھ پلّے کچھ نہیں پڑتا۔ گزشتہ آرام سے کوئی فائدہ نہیں۔ اس کے تصور سے دکھ بڑھتا ہے۔اس سے عقل مند کے لئے یہ بات نکلتی ہے کہ انسان اِبن الوقت ہو۔رہی زندگی انسان کی جو اس کے پاس موجود ہے۔ جو گزر گیا وہ وقت مر گیا۔ اس کے تصورات بے فائدہ ہیں۔ دیکھو جب ماں کی گود میں ہوتا ہے اس وقت کیا خوش ہوتا ہے۔ سب اٹھائے ہوئے پھرتے ہیں۔ وہ زمانہ ایسا ہوتا ہے کہ گویا بہشت ہے اور اب یاد کر کے دیکھو کہ وہ زمانہ کہاں ہے؟ یہ زمانے پھر کہاں مل سکتے ہیں؟ ایک بادشاہ چلا جاتا تھا۔ چند چھوٹے لڑکوں کو دیکھ کر رو پڑا کہ جب سے اس صحبت کو چھوڑا دکھ پایا ہے۔ پیرانہ سالی کا زمانہ بُرا ہے۔ اس وقت عزیز بھی چاہتے ہیں کہ مر جاوے اور مرنے سے پہلے قویٰ مر جاتے ہیں۔ دانت گر جاتے ہیں۔ آنکھیں جاتی رہتی ہیں اور خواہ کچھ ہی ہو آخر پتھر کا پُتلا ہوجاتا ہے۔ شکل تک بگڑ جاتی ہے اور بعض ایسی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ آخر خود کشی کر لیتے ہیں۔ بعض اوقات جن دکھوں سے بھاگنا چاہتا ہے یکدفعہ ان میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اگر اولاد ٹھیک نہ ہو تو اَور بھی دکھ اٹھاتا ہے۔ اس وقت سمجھتا ہے کہ غلطی کی اور عمر یوں ہی گزر گئی۔عقل مند وہی ہے جو خدا کی طرف توجہ کرے۔ خدا کو ایک سمجھے اس کے ساتھ کوئی نہیں۔ ہم نے آزما کر دیکھا ہے نہ کوئی دیوی نہ دیوتا کوئی کام نہیں آتا۔ اگر یہ صرف خدا کی طرف نہیں جھکتا تو کوئی اس پر رحم نہیں کرتا۔ اگر کوئی آفت آجاوے تو کوئی نہیں پوچھتا۔ انسان پر ہزاروں بلائیں آتی ہیں۔ پس یاد رکھو کہ ایک پروردگار کے سوا کوئی نہیں۔ وہی ہے جو ماں کے دل میں بھی محبت ڈالتا ہے۔ اگر اس کے دل کو ایسا پیدا نہ کرتا تو وہ بھی پرورش نہ کر سکتی۔ اس لئے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔‘‘

(ماخوذ از ملفوظات جلد 3 صفحہ 422 تا 425۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
’’نیک نیتی سے کی گئی دعائیں اور استغفار یقینا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والی ہوتی ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق ایسے پاک اور نیک لوگوں کو اپنے نشان بھی دکھاتا ہے۔ ان کو دینی لحاظ سے بھی اوپر لے کے جاتا ہے، ان کی دنیاوی ضروریات بھی پوری فرماتا ہے، ان کا خودکفیل ہوتا ہے۔ اور ایسے لوگوں کا اگر اپنے پیدا کرنے والے سے صحیح تعلق ہو، تو ان کے دل میں دنیاوی خواہشات بھی کم ہو جاتی ہیں۔ آج کل کے معاشرے میں ایک دوسرے کو دیکھ کر، آپس میں رابطے کی کثرت کی و جہ سے، میڈیا کی و جہ سے دنیاوی خواہشات ہی ہیں جو انسان کو دنیا کی طرف زیادہ مائل کر دیتی ہیں۔ گھانا میں ایک دفعہ کسی نے مجھے کہا کہ ہم بھی واقف زندگی ہیں اور ڈاکٹر بھی وقف کرکے آتے ہیں لیکن ان کے حالات ہم سے بہتر ہیں۔ بہرحال یہ چیز ان کے سامنے تھی تو مَیں نے ان سے کہا کہ زیادہ استغفار کرو۔ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا۔ اس نے بڑی نیک نیتی سے استغفار شروع کیا، دعائیں کرنی شروع کیں اور کچھ عرصہ بعد اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ وہ جو خواہش تھی اور مقابلہ تھا اور دنیاوی لحاظ سے آگے بڑھنے کی جستجو تھی وہ ان کے دل میں ختم ہو گئی۔ بلکہ یہاں تک ہو گیا کہ دوسرے کی خاطر قربانی دینے کی عادت پڑ گئی۔ تو اگر نیک نیتی سے کی گئی دعائیں ہوں، استغفار کیاگیا ہو تو اللہ تعالیٰ بہت فضل فرماتا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 16دسمبر 2005ء)

پس ایک مومن کا کام ہے کہ دنیا کی فکروں میں پڑنے کی بجائے اپنی آخرت کو سنوارنے اور خدا تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کی فکر کرے۔ اس میں قناعت پیدا ہو۔ دنیاوی سامانوں کو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں سمجھتے ہوئے استعمال تو کرے، انہیں معبودنہ بنائے یا انہی کے پیچھے دوڑتا نہ پھرے۔ معبود وہی ہے جو ہمارا حقیقی معبود ہے۔ محبت سب سے زیادہ خدا تعالیٰ سے ایک مومن کو کرنی چاہئے۔ اور یہی خوبی خدا تعالیٰ نے آنحضور ﷺ کے اصحاب کی بیان فرمائی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے فضل اور اسکی رضا کے متلاشی ہیں۔اللہ تعالیٰ سے محبت ہی انسان میں پھر تقویٰ بھی پیدا کرتی ہے اور اسی کے ذریعہ انسان خدا تعالیٰ کے فضلوں اور اسکی رضا کو پانے والاہوسکتا ہے۔ خدا تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم صحابہ کرامؓ کا نمونہ اپناتے ہوئے اپنے اقوال و افعال میں حسن نیتی سے کام لینے والے ہوں تا خدا تعالیٰ کی رضا کو پانے اور اسکے فضلوں کو جذب کرنےوالے ہوں۔ آمین

(احتشام الحسن -مبلغ سلسلہ آئیوری کوسٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 اگست 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ