• 8 مئی, 2024

آسمان میں سیّارے

آسمان میں کتنے سیّارے ایسے ہوں گے جن میں چلنے پھرنے والی مخلوق بستی ہے؟اس کاصحیح علم تو صرف خداہی کو ہے البتہ سائنسدان اندازے ضرور لگا رہے ہیں۔ان کو سننا بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔اسلئے کہ قرآن واضح طور پر بتاتا ہے کہ خدا کی نشانیوں میں زمین و آسمان کی تخلیق اور ان دونوں کے درمیان زندہ چلنے پھرنے والی مخلوق کا وجود ہے جو اس نے وہاں پھیلا رکھے ہیں اور وہ اس بات پر بھی خوب قادر ہے کہ جب وہ چاہے انہیں اکٹھا کر دے۔ (الشوریٰ:30)

اس سوال کے دو حصے ہیں ایک یہ کہ کائنات میں کل ستارے کتنے ہیں اور دوسرا یہ کہ کتنے سیارے ایسے ہیں جو زندہ مخلوق کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ سوال کے پہلے حصہ پر آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی نے سٹڈی کی ہے اور دوسرے حصہ پر ملبورن کی Swinburne University اور سڈنی کی نیو سائوتھ ویلز یونیورسٹی نے مل کر تحقیق کی ہے۔ان تحقیقات کا نچوڑ پیش کرنے سے پہلے کائنات کی وسعت کا ایک اندازہ پیش کرنا خالی از دلچسپی نہ ہوگا۔ کائنات جن انتہائی چھوٹے ذرات سے بنی ہے (یعنی ایٹم) ان کا نظام بھی ہمارے نظام شمسی سے مشابہ ہے۔ جس طرح ہمارے سورج کے گرد مختلف دائروں میں سیارے محو گردش ہیں ایسے ہی ایٹم کے مرکز (پروٹون) کے اردگرد مختلف دائروں میں الیکٹران گھومتے ہیں۔ ہمارا نظام شمسی ایک خاندان کی طرح ہے جو اپنی کہکشاں کے اندر چکر بھی لگاتا ہے اور ساتھ آگے بھی کسی سمت بڑھ رہا ہے۔ ہمارے نظام شمسی کی طرح کے ایک سو ارب نظام اس کہکشاں کا حصہ ہیں۔ ہر نظام میں کچھ ستارے (Stars) ہوتے ہیں جو ذاتی طور پر روشن ہوتے ہیں اور ان سے حرارت اور روشنی خارج ہوتی ہے یعنی سورج۔ پھر ہر ستارے کے گرد گھومنےوالے سیّارے (Planets) ہوتے ہیں جیسے ہماری زمین اور پھر ہر سیّارے کے گرد گھومنے والے اپنے اپنے ’’تابع سیّارے‘‘ (Satellites) ہوتے ہیں جیسے ہمارا چاند۔ جس کہکشاں (Galaxy/Milkyway) کا حصہ ہمارا نظام شمسی ہے (اور اس میں اس طرح کے سو ارب اور نظام بھی ہیں )اس کہکشاں جیسی کوئی سو ارب کہکشائیں اوربھی ہماری کائنات میں چکر لگاتی لگاتی اپنے مستقر کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ ہماری کائنات کوئی 13.7بلین (ارب) سال پہلے بگ بینگ (دھماکہ) کے ساتھ ایک ایسے نقطہ سے پھوٹی تھی جسکی کثافت (Density) کہتے ہیں کہ وہ لا محدود (Infinity) تھی ۔لیکن حجم (طول، عرض، گہرائی) صفر تھی۔سائنسدان نیست (Nothingless) یاعدم وجود کو اسی طرح بیان کر سکتے ہیں کہ جس نقطہ سے کائنات پھوٹی تھی (Singularity) نہ اسکی کوئی لمبائی تھی نہ چوڑائی نہ موٹائی اور نہ ہی اس پر فزکس کے قوانین لاگو ہوتے تھے۔

سیدھی بات ہے کہ اسی کو ہم نیست سے ہست کرنا یا عدم وجود سے وجود میں لانا کہتے ہیں اور یہ کام اسی خالق ،قادر اور علیم ہستی کاہو سکتا ہے جو خود مکاں اور زماں (Space and Time) اور مخلوق کی دوسری کمزوریوں سے پاک ہو اور اسکی صفات اور طاقتیں لا محدود ہوں۔ کائنات چونکہ اتنی وسیع ہے کہ عام میلوں کے پیمانہ سے اسے مپنا ممکن نہیں اس لئے فاصلے ظاہر کرنے کے لئے نوری سال (Light Year Distance) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے یعنی یہ وہ فاصلہ ہے جو روشنی یا بجلی 3 لاکھ کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہوئی ایک سال میں طے کرتی ہے۔ ایک نوری سال946728 بلین (ارب) کلو میٹر کا ہوتا ہے۔سورج زمین سے 150 ملین (15کروڑ) کلومیٹر دورہے اور روشنی وہاں سے زمین تک پہنچنے میں 9 منٹ لیتی ہے۔ہمارے نظام شمسی کا سب سے دور سیارہ پلوٹو ہے جو سورج سے 5900ملین کلو میٹر دور ہے اور روشنی وہاں تک پہنچنے کے لئے پانچ گھنٹے اور 54 منٹ لیتی ہے۔کائنات مسلسل پھیل رہی ہے۔سٹیفن ہاکنگ کا اندازہ ہے کہ ہزار ملین سالوں میں کائنات پانچ تا دس فیصد تک پھیل جاتی ہے۔کائنات میں کہیں نہ کہیں ستارے جل جل کر خاک بھی ہورہے ہیں اور کہیں نئے بھی پیدا ہو رہے ہیں (گویا ستاروں میں بھی حیات و ممات کا سلسلہ جاری ہے۔ گویا ہر چیز فانی ہے ہمیشہ رہنے والا صرف خالق مطلق ہی ہے۔)

کائنات میں اس قدر مادہ بکھرا پڑا ہے کہ تمام کرّوں کے مجموعی مادہ (Matter) سے نو گنا زیادہ ہے اسکو سیاہ مادہ (Dark Matter) کہا جاتا ہے۔چونکہ یہ نظر نہیں آسکتا اس لئے اسکو سیاہ مادہ کہتے ہیں۔ کسی چیز کے نظر آنے کے لئے ضروری ہے کہ روشنی اس سے ٹکرا کر دیکھنے والے تک واپس پہنچے۔ لیکن یہ سیاہ مادہ اتنا زیادہ کثیف (Dense) ہے اور اسکی وجہ سے اسکی کشش ثقل (Gravity) اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ جو چیز اسکے قریب آئے اسے کھینچ کر اپنے اندر ہڑپ کر لیتی ہے۔ روشنی جیسی ہلکی چیز بھی اس کو چھو کر واپس نہیں آسکتی اسی میں جذب ہو جاتی ہے اس لئے اسے کبھی دیکھا نہیں جا سکتا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرمایا کرتے تھے کہ قرآن کریم میں زمین و آسمان کے درمیان پائے جانے والے اس مادہ کا بھی ذکر ہے جیسے فرمایا وَ لِلّٰہِ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا ؕ یَخۡلُقُ مَا یَشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ (المائدہ:18) اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اللہ ہی کی ہے اور اسکی بھی جو ان دونوں کے درمیان ہے۔ وہ جو چاہے پیدا کرتا ہے اور اللہ ہر چیز پر جسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے۔ (دونوں کے درمیان 90 فیصد سیاہ مادہ ہے۔)

ستاروں کی تعدادکے بارہ میں تحقیق کا نچوڑ پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر سائمن ڈرائیور (Dr.Simon Driver) آف آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کہتے ہیں کہ دنیا میں پہلی بار ہم نے ہی آسمانوں کے تاروں کو گننے کی کوشش کی ہے۔جو تارے ہم کمپیوٹروں کی مدد سے گن سکے ہیں ان کی تعداد ستّر ہزار ملین ملین ملین (سات کے عدد کے دائیں طرف بائیس صفر)نکلتی ہے۔لیکن یاد رہے کہ یہ تعداد کائنات کے صرف نظر آنے والے حصہ کے ستاروں کی ہے۔وہ حصہ جو نظروں سے اوجھل ہے اس کے بارہ میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے نہ ہی ابھی تک کوئی ایسی دور بین بنی ہے جو ساری کائنات کا احاطہ کر سکے۔وہ کہتے ہیں کہ دنیا بھر کے بحر وبر میں پائی جانے والی ریت کے کل جتنے ذرّے ہیں یہ تعداد اس سے بھی دس گنا زیادہ ہے۔

ستاروں کا تعدادکا پہلا اندازہ جیسااوپر بیان ہوا وہ دس ہزار ملین ملین ملین (100بلین x 100بلین) تھا جبکہ جدید اندازہ ستّر ہزار ملین ملین ملین یعنی سات گنا زیادہ ہے اور یہ اندازہ بھی کائنات کے صرف نظر آنے والے حصہ کا ہے۔ علاوہ ازیں وہ کہتے ہیں کہ بے شمار ستارے ایسے ہیں جن کی روشنی ابھی تک ہم تک پہنچی ہی نہیں لہٰذا وہ نظر نہیں آسکتے۔بگ بینگ (یعنی کن فیکون) کا واقعہ اگرچہ13.7 ارب سال پہلے گذرا۔ ہماری زمین کوئی ساڑھے چار ارب سال پہلے اپنی ماں (سورج) کے بطن سے علیحد ہوئی۔ ڈاکٹر ڈرائیور سے جب پوچھا گیا کہ کیا وہ یقین رکھتے ہیں کہ زمین سے باہر بھی زندگی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ستّر ہزار ملین ملین ملین ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ کہیں نہ کہیں زندگی کا پایا جانا ناگزیر (Inevetable) ہے۔

(ماخوذ سڈنی مارننگ ہیرلڈ 22جولائی 2003ء)

سوال کے دوسرے حصہ پر تحقیق ملبورن کی SwinBurn University of Tecnology اور سڈنی کی NSW یونیورسٹی نے مل کر کی ہے۔ لیکن ان کی سٹڈی صرف ہماری اپنی کہکشاں تک ہی محدود ہے جسکا حصہ ہمارا نظام شمسی اور ہماری زمین ہے۔ہمیں دلچسپی بھی زیادہ اسی میں ہے۔دوسری اربوں کہکشائیں تو ہم سے بہت دور ہیں۔ یہ اندازہ لگانے کے لئے کہ زندگی کتنے سیّاروں میں پائی جاسکتی ہے انہوں نے پہلے یہ طے کیا کہ زندگی کے قیام کے لئے کن حالات اور چیزوں کا پایا جانا ضروری ہے اور پھر ایسے سیاروں کا اندازہ لگایا جائے جن میں مناسب حالات پائے جاتے ہیں۔ مثلاًوہ کہتے ہیں کہ کہکشاں بھی ایک شہر کی طرح ہوتی ہے۔ شہر کے جس علاقہ میں گھر قریب قریب ہوں گے ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہاں آبادی زیادہ ہو گی۔اسی طریق پر ہمیں امید رکھنی چاہئے کہ جس علاقہ میں ستاروں کے جھرمٹ ہوں گے وہاں زندگی کے قابل سیاروں کے پائے جانے کا زیادہ امکان ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ جب تک بعض عناصر (Elements) سیاروں میں نہ پائے جائیں زندگی نہیں ہو گی مثلاً کاربن ،آکسیجن ،نائٹروجن اور بھاری دھاتیں (Metals) وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ دھاتیں بھی ایک خاص حد کے اندر ہونی چاہئیں۔ نہ بہت زیادہ ہونی چاہئیں نہ بہت کم۔تیسری بات یہ کہ زندگی کے قیام کے مناسب حال سیّارے نہ تو کہکشاں کے مرکز سے بہت دور ہونے چاہئیں نہ بہت نزدیک۔ چوتھی بات یہ کہ وہی سیارے زندگی کی پیدائش کے لئے مناسب ہیں جواپنی عمر کے اعتبار سے نہ بچے ہوں نہ بوڑھے۔دونوں صورتوں میں حالات زندگی کے لئے مناسب رہیں گے۔ایسے سیاروں کی عمر تین تا پانچ ارب سال ہونی چاہئے۔ (جیسے ہماری زمین کی عمر ساڑھے چار ارب سال ہے)۔ NSW یونیورسٹی کے پروفیسر Dr.Lineweaver نے بتایا کہ اس موضوع پر سب سے پہلی سٹڈی ہم نے کی ہے اس سے پہلے کسی نے حیات کے قابل سیاروں کی تعداد کا اندازہ نہیں لگایا تھا۔ ہمارا اندازہ ہے کہ ہماری کہکشاں میں کوئی دس فیصد سیارے ایسے ہیں جن میں زندگی وجود میں آکر قائم رہ سکتی ہے۔ ایسے سیاروں کی تعداد صرف ہماری کہکشاں میں 30بلین (ارب) تک پہنچتی ہے۔ لہٰذا بہت سے سیارے ایسے ہوں گے جن میں زندگی کسی نہ کسی شکل میں ضرور پائی جاتی ہوگی۔

(ماخوذازسڈنی ہیرلڈ؍3-4جنوری 2004ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اپنی مخزن علوم کتاب ’’ریویلیشن۔۔۔‘‘ کے صفحہ 329-334 پر قرآن کریم کی رو سے زمین و آسمان کے درمیان چلنے پھرنے والی مخلوق کے وجود اور ان کے باہم اجتماع کا ذکر فرمایا ہے۔ نیز تخلیق کائنات، کائنات کا ایک نقطہ سے سفر کا آغاز، حیات و ممات کا سلسلہ، کائنات کا وسعت پذیر ہونا ،سورج کا (اپنے نظام اور کہکشاں سمیت) اپنے مستقر کی طرف سفر کرتے کرتے ایکبار پھر ایک نقطہ پر مرکوز ہو جانا، کائنات کی صف کا لپیٹا جانا اور تخلیق کے عمل کا دہرایا جانا جیسے علوم کو قرآن کریم سے نکال کر پیش فرمایا ہے۔ یہ مضمون بہت دلچسپ اور ایمان افرز ہے اور مذکور ہ کتاب کے کوئی تین سو صفحات پر پھیلا پڑا ہے۔

زمین کے باسیوں کا آسمانی کروں میں رہنے والوں کے ساتھ کسی نہ کسی شکل میں رابطہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب وہ بس اتنے ہی دور ہوں کہ چند دنوں، مہینوں یا سالوں میں پیغام ان تک پہنچ کر واپس بھی آسکے۔ہمارے نظام شمسی سے باہر ہماری کہکشاں (Galaxy) میں جو قریب ترین نظام شمسی ہے جسکے سورج کو Proxima Centauri کہتے ہیں وہ چار نوری سال دور ہے۔دوسرے نظام ہائے شمسی اس سے زیادہ دور ہوں گے۔ ہماری کہکشاں کو ئی ایک لاکھ نوری سال لمبی چوڑی ہے A Brief History Of Time By Stephen Hawking (P39۔

اسلئے ہماری کہکشاں کی قریب ترین کہکشاں ظاہر ہے ایک لاکھ نوری سال سے زیادہ فاصلہ پر ہو گی اور ان میں اگر کوئی زندہ مخلوق ہو اور انہیں بجلی کی رفتا ر سے کوئی پیغام بھیجا جائے تو اسکے آنے جانے میں کم از کم دو لاکھ سال گذر جائیں گے اور بعض کہکشائیں تو اتنی دور ہیں کہ وہاں پیغام کے آنے جانے میں اربوں سال تک لگ جائیں گے اور اتنی عمر تو خود تو ہماری زمین کی بھی نہیں ہو گی اور اگر ہو گی بھی تو پتہ نہیں کس قسم کی مخلوق اسپر اسوقت بستی ہوگی۔خدا فرماتا ہے کہ ہم اس چیز پر بھی قادر ہیں کہ ہم انسانوں کی جگہ کوئی ان سے بہتر مخلوق لے آئیں۔

(المعارج 42-70)

جب پیغام بھیجنے اور وصول کرنے والےہی نہ رہے تو رابطہ تو قائم نہ ہو سکا۔اس لئے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ آسمانی کروں کی زندگی ہمارے اپنے کہکشاں میں ہی کہیں قریب قریب مل جائے۔اس سلسلہ میں ایک دلچسپ خبر امریکہ سے آئی ہے انہوں نے وہاں کسی لیبارٹری میں ایسے کامیاب تجربے کئے ہیں جن سے روشنی کی رفتار کئی گنا بڑھائی جا سکتی ہے۔ (مادہ کی رفتار روشنی سے زیادہ نہیں بڑھ سکتی لیکن الیکٹرانک سگنلز کی بڑھائی جا سکتی ہے )۔ ان کا اندازہ ہے کہ روشنی کی رفتار ۳۰۰ گنا تک بڑھائی جا سکتی ہے یعنی اگر کوئی زندگی رکھنے والا سیارہ 300 نوری سالوں کے فاصلہ پر بھی واقع ہو تو پیغام وہاں پہنچنے میں صرف ایک سال لے گا اور اتنا ہی عرصہ واپسی پر لگے گا۔ اس لئے یقین ہے کہ خدا کی زمینی اور آسمانی مخلوق کے رابطہ کی کوئی صورت جب خدا چاہے گا تو ضرور نکل آئے گی۔ کائنات کی وسعت، توازن، ترتیب، حکمت اور ڈایزئن دیکھ کر مومن کی روح وجد میں آتی اور پکار اٹھتی ہے۔ رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًاۚ سُبۡحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

(خالد سیف اللہ خاں ۔آسٹریلیا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 ستمبر 2020