• 24 اپریل, 2024

یہ چہرہ ہرگز جھوٹوں کا نہیں ہو سکتا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت چوہدری غلام رسول صاحب بسراء بیان کرتے ہیں کہ دسمبر 1907ء جلسہ سالانہ کا واقعہ ہے کہ جمعرات کی شام کو معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام صبح باہر سیر کو جائیں گے۔ اُس وقت دستور یہ تھا کہ جب بہت بھیڑ ہو جاتی تھی تو آپ کے گرد بازؤوں کا حلقہ باندھ دیتے تھے۔ (یہ واقعہ شاید پہلے بھی کہیں بیان ہو چکا ہے، کسی جگہ مَیں نے بیان کیا، لیکن بہر حال اس سے پھر اُن لوگوں کا ذوق اور شوق اور پھر خدمت اور ایک نظر آپ کو دیکھنے کا اظہار ہوتا ہے، کس طرح لوگ حلقہ باندھ لیتے تھے۔) کہتے ہیں کہ جب بہت بھیڑ ہو جاتی تھی تو آپ کے گرد بازؤوں کا حلقہ باندھ دیتے تھے اور آپ اس حلقے کے بیچ میں چلتے تھے۔ ایک دائرے کی شکل میں لوگ ہاتھ پکڑ کے آپ کو بیچ میں لے لیتے تھے تا کہ زیادہ رَش کی وجہ سے دھکے نہ لگیں۔ چنانچہ مَیں نے اپنے ہمرائیوں مولوی غلام محمد گوندل امیر جماعت احمدیہ چک نمبر 99 شمالی، چوہدری میاں خانصاحب گوندل اور چوہدری محمد خانصاحب گوندل مرحوم سے صلاح کی کہ اگر خدا نے توفیق دی تو صبح جب آپ باہر سیر کو نکلیں گے تو ہم آپ کے گرد بازؤوں کا حلقہ بنائیں گے۔ اس طرح پر ہم حضور کا دیدار اچھی طرح کر سکیں گے۔ اصل مقصد ایک پہرہ بھی تھا ایک دیدار بھی تھا۔ صبح جب ہم نماز فجر سے فارغ ہوئے تو تمام لوگ حضور کے انتظار میں بازار میں اکٹھے ہونے شروع ہو گئے۔ یہ مکمل پتہ تو نہیں تھا کہ حضور کس طرف باہر سیر کو تشریف لے جائیں گے۔ لیکن جس طرف سے ذرا سی بھی آواز اُٹھتی کہ آپ اُس طرف باہر سیر کو تشریف لے جائیں گے لوگ اس طرف ہی پروانہ وار دوڑ پڑتے۔ کچھ دیر اسی طرح ہی چہل پہل بنی رہی۔ آخر پتہ لگا کہ حضور شمال کی جانب ریتی چھلے کی طرف باہر سیر کو تشریف لے جائیں گے۔ ہم لوگوں نے بھی جو آگے ہی منتظر تھے، کپڑے وغیرہ کَس لئے اور تیار ہو گئے کہ جس وقت حضور بازار سے باہر دروازے میں تشریف لے آئیں گے اُسی وقت ہم بازؤوں کا حلقہ بنا کر آپ کو بیچ میں لے لیں گے۔ ہم اس تیاری میں تھے کہ کیا دیکھتے ہیں کہ آپ ایک بہت بڑے جمّ غفیر کے درمیان آ رہے ہیں۔ بہت زیادہ لوگ ہیں اور اس جمگھٹے نے ہمارے ارادے کو خاک میں ملا دیا اور روندتا ہوا آگے چلا گیا۔ اتنا رش تھا کہ ہم قریب پہنچ ہی نہ سکے۔ ریتی چھلے کے بڑھ کے مغرب کی طرف ایک لسوڑی کا درخت تھا، آپ اس لسوڑی کے درخت کے نیچے کھڑے ہو گئے اور وہاں سے آپ لوگوں سے مصافحہ کرنے لگ پڑے۔ کسی نے کہا کہ حضرت صاحب کے لئے کرسی لائی جاوے تو آپ نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ لوگ بڑی کثرت میں تیرے پاس آئیں گے۔ لیکن (یہ پنجابی کا الہام ہے کہ) تو اکّیں نہ اور تھکیں نہ۔ (رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ) رجسٹر نمبر1 صفحہ نمبر71 روایت حضرت چوہدری غلام رسول صاحب بسراءؓ)۔ یعنی گھبرانا بھی نہیں ہے، بیزار بھی نہیں ہونا اور لوگوں کے رش سے اور ملنے ملانے سے تھکنا بھی نہیں ہے۔ وہیں پھر ان کو بھی موقع ملا۔

پھر حضرت ڈاکٹر عمر دین صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے تو حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ مصافحے کی اس قدر پیاس تھی کہ کئی دفعہ ہجوم کی لاتوں سے گزر کر مصافحے کرتا رہتا پھر بھی طبیعت سیر نہ ہوتی تھی۔ (بعض دفعہ دھکے بھی پڑتے۔ مشکل بھی پڑتی لیکن بہر حال کوشش کر کے مصافحے کی کوشش کرتے)۔

(رجسٹر روایات صحابہ(غیر مطبوعہ) رجسٹر نمبر1صفحہ نمبر184روایت حضرت ڈاکٹر عمرالدین صاحبؓ)

حضرت ڈاکٹر عبداللہ صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ جب مَیں قادیان بٹالہ سے جا رہا تھا تو اُسی وقت ایک بوڑھے نابینا احمدی بھی قادیان جانے والے تھے۔ انہوں نے کہا کہ کسی یکّہ پر کوئی جگہ میرے لئے ہے؟ اُس پر مَیں نے کہا کہ آپ ہمارے یکّہ میں آ جائیں۔ انہوں نے کہا کہ نہیں میرے پاس ایک اَٹھنّی موجود ہے مَیں اپنے خرچ پر قادیان جاؤں گا۔

یعنی انہوں نے اُن کو مفت آفر کی تھی کہ آجائیں۔ جگہ ہے۔ آپ ہمارے ساتھ بیٹھ جائیں تو انہوں نے کہا نہیں اس طرح نہیں۔ میرے پاس کرائے کے پیسے ہیں۔ مَیں پیسے دے کر جاؤں گا۔ اس سے منجملہ وقار اور غیرت اور سوال سے نفرت کے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ لوگ باوجود اس غربت کے اپنی زندگی اسی میں پاتے تھے کہ بار بار قادیان آئیں۔ (رجسٹر روایات صحابہ(غیر مطبوعہ) رجسٹر نمبر2 صفحہ نمبر109-110روایت حضرت ڈاکٹر عبداللہ صاحبؓ)۔ یعنی ایک تو نابینا شخص کی غیرت تھی، کوئی سوال نہیں، یعنی سوال سے نفرت ہے۔ دوسرے یہ کہ کوشش کر کے پیسے جمع کرتے تھے اور پھر بار بار قادیان آنے کی کوشش کرتے تھے تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت سے فائدہ اُٹھا سکیں۔ حضرت میاں چراغ دین صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ حکیم احمد دین صاحبؓ جب حضور کی ملاقات کے لئے لاہور جانے لگے تو مَیں نے اُنہیں مخول کیا، یعنی مذاق میں کہا۔ حکیم صاحب نے کہا کہ یار! تم اپنے آدمی ہو کر مخول کرتے ہو۔ یہ بات سُن کر مجھے کچھ شرم سی محسوس ہوئی اور میرا دل نرم ہو گیا۔ ان کے کہنے پر مَیں بھی حضور کو دیکھنے کے لئے ساتھ چل پڑا۔ (اُس وقت یہ احمدی نہیں تھے، انہوں نے مذاق کیا، حکیم صاحب کو کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھنے جا رہے ہیں۔ کوئی ایسی بات کی ہو گی۔ خیر انہوں نے اُن کو کچھ احساس دلایا تو ان کو شرم آئی۔ کہتے ہیں بہر حال مَیں بھی پھر ساتھ چل پڑا) مگر بیعت کا ہرگز کوئی ارادہ نہیں تھا (ساتھ تو چلا گیا لیکن بیعت کا ارادہ نہیں تھا) جب خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ حضرت صاحب کی طبیعت علیل ہے۔ مخلوق بے شمار تھی۔ حضور کی خدمت میں کسی نے عرض کیا کہ ہجوم بہت زیادہ ہے حضور کی زیارت کرنا چاہتا ہے۔ حضور نے باری سے یعنی کھڑکی سے سر نکالا۔ مَیں نے اندازہ لگایا کہ یہ چہرہ ہرگز جھوٹوں کا نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ مَیں نے بیعت کر لی۔

(رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ) رجسٹر نمبر9 صفحہ نمبر336 روایت حضرت میاں چراغ دین صاحبؓ)

(خطبہ جمعہ 4؍ مئی 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 15؍ اکتوبر 2021ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 اکتوبر 2021