• 19 اپریل, 2024

خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 24؍ ستمبر 2021ء

خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 24؍ ستمبر 2021ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

اے اہلِ اسلام! یقیناً اللہ نے تم سے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا ہے اور اس نے دشمنوں کے خلاف تمہاری مدد کی ہے اور تمہیں ان ممالک کا وارث بنا دیا ہے اور تمہیں زمین میں تمکنت عطا فرمائی ہے۔ پس تمہیں اپنے رب کی نعمتوں پر شکر بجا لانا چاہیے۔ تم لوگ نافرمانی والے کاموں سے دور رہو کیونکہ نافرمانی والے کام نعمتوں کی ناشکری ہے اور بہت کم ایسا ہوا ہے کہ اللہ کسی قوم پر انعام کرے اور وہ ناشکری کریں پھر وہ جلد توبہ نہ کریں مگر ضرور ان کی عزت سلب کرلی جاتی ہےاور ان پر ان کے دشمنوں کو مسلط کر دیا جاتا ہے۔ خدا نے ہم کو جو عزت دی ہے وہ اسلام کی عزت ہے اور ہمارے لیے یہی کافی ہے (حضرت عمرؓ)

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروقِ اعظم حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

حضرت عمرؓ کے سفرِ ایلیا، فتحِ بیت المقدس اور ہِرَقل کی جانب سے حِمص کے محاصرے اور اس کے سدِّ باب کا تفصیلی بیان

تین مرحومین مکرم چودھری سعید احمد لکھن صاحب (ریٹائرڈ اسٹیشن ماسٹر حال مقیم کینیڈا)، مکرم شہاب الدین صاحب (نائب نیشنل امیر بنگلہ دیش) اور ارجنٹائن کے ابتدائی مقامی احمدی مکرم راؤل عبداللہ صاحب کا ذکرِ خیر اور نماز ِجنازہ غائب

أَشْھَدُ أَنْ لَّٓا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِؕ﴿۴﴾ إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے کا ذکر ہو رہا تھا۔ آج اسی تسلسل میں

بیت المقدس کی فتح

جو پندرہ ہجری میں ہوئی اس کا ذکر ہو گا۔ حضرت عَمرو بن عاصؓ کی قیادت میں اسلامی لشکر نے بیت المقدس کا محاصرہ کر لیا تو حضرت ابوعبیدہؓ کا لشکر بھی ان سے جا ملا۔ عیسائیوں نے قلعہ بندی سے تنگ آ کر صلح کی پیشکش کی لیکن شرط یہ رکھی کہ خود حضرت عمرؓ آ کر صلح کا معاہدہ کریں۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے حضرت عمرؓ کو اس کی اطلاع دی۔ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحابہ سے مشورہ کیا تو حضرت علیؓ نے جانے کا مشورہ دیا۔ حضرت عمرؓنے ان کی رائے کو پسند کیا۔ پھر حضرت عمرؓنے حضرت علیؓ کو مدینہ کا امیر مقرر فرمایا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپؓ نے حضرت عثمانؓ کو امیر مقرر فرمایا تھا۔ اس کے بعد آپؓ بیت المقدس کے لیے روانہ ہو گئے۔ حضرت عمرؓ کا یہ سفر کوئی معمولی سفر نہ تھا۔ اس کا مقصد دشمنوں کے دلوں پر اسلامی رعب و دبدبہ بٹھانا تھا لیکن جب آپ روانہ ہوئے تو روایات میں ہے کہ دنیاوی بادشاہوں کی طرح نہ تو ان کے ساتھ کوئی نقارہ تھا نہ کوئی لاؤ لشکر تھا یہاں تک کہ ایک معمولی سا خیمہ بھی ساتھ نہ تھا۔ حضرت عمرؓ ایک گھوڑے پر سوار تھے اور چند ساتھی مہاجرین اور انصار میں سے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمرؓ کے ساتھ صرف ان کا ایک غلام، کھانے کے لیے کچھ ستو اور ایک لکڑی کا پیالہ تھا اور اونٹ پر سوار تھے لیکن اس کے باوجود جہاں بھی یہ خبر پہنچتی کہ حضرت عمرؓنے مدینہ سے بیت المقدس کا ارادہ کیا ہے تو زمین کانپ اٹھتی تھی۔

(ماخوذ از تاریخ ابن خلدون مترجم جلد3 حصہ اول صفحہ 207 مطبوعہ دار الاشاعت کراچی 2009ء)

اس بات کی وضاحت میں یہ ایک سفر کا مختصر سا حال بیان کیا گیا ہے لیکن اس میںتفصیل نہیں ہے۔ بہرحال ایلیا ایک شہر تھا جس میں بیت المقدس موجود ہے، اس کا محاصرہ کس نے کیا تھا اور کس نے حضرت عمرؓ کی خدمت میں بیت المقدس تشریف لانے کی درخواست کی تھی؟ اس بارے میں طبری میں لکھا ہے کہ حضرت عمروبن عاصؓ نے حضرت عمربن خطابؓ کو خط بھیجا جس میں ان سے امداد بھجوانے کی درخواست کی۔ اس میں حضرت عَمروؓ نے یہ تجویز کیا تھا کہ مجھے انتہائی گھمسان کی جنگیں درپیش ہیں اور کئی شہر ہیں جن سے جنگیں ابھی باقی ہیں۔ آپؓ کے ارشاد کا منتظر ہوں۔ حضرت عمرؓ کے پاس حضرت عَمرو بن عاصؓ کا یہ خط پہنچا تو آپؓ سمجھ گئے کہ حضرت عَمرو ؓنے یہ بات پوری معلومات کے بعد ہی لکھی ہو گی۔ پھر حضرت عمرؓنے لوگوں میں اپنے سفر کی منادی کرا دی اور سفر کے لیے کوچ کیا۔

(ماخوذ از تاریخ الطبری جلد 2 حصہ دوم صفحہ 804 مطبوعہ دار الاشاعت کراچی 2004ء)

طبری میں

حضرت عمرؓ کی شام میں تشریف آوری

کے متعلق ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ اس کا سبب دراصل یہ پیش آیا تھا کہ حضرت ابو عبیدہؓ بیت المقدس پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے ان سے شام کے دیگر شہروں کے معاہداتِ صلح کے مطابق صلح کرنی چاہی اور ان کی خواہش یہ بھی تھی کہ اس معاہدہ ٔصلح میں مسلمانوں کی طرف سے سربراہ کی حیثیت سے حضرت عمرؓ بھی شرکت کریں۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے حضرت عمرؓ کی خدمت میں یہ لکھا تو حضرت عمرؓمدینہ سے روانہ ہو گئے۔

(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ 449 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2012ء)
(معجم البلدان جلد اول صفحہ348 دار الکتب العلمیہ بیروت)

لیکن حضرت ابوعبیدہؓ کی روایت پر بعض مؤرخین کو تسلی نہیں ہے۔ محمد حسین ہیکل اس حوالے سے تحریر کرتے ہیں کہ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اُس روایت کو حقیقت سے بعید سمجھیں جس کا بیان یہ ہے کہ حضرت خالد بن ولیدؓ یا حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ نے تنہا یا مشترکہ طور پر بیت المقدس کا محاصرہ کیا جیسا کہ طبری، ابنِ اثیر اور ابن ِکثیر وغیرہ نقل کرتے ہیں۔ طبری کی روایت ہے کہ کہا جاتا ہے کہ حضرت عمرؓ کے شام آنے کی وجہ یہ تھی کہ حضرت ابوعبیدہؓ نے بیت المقدس کا محاصرہ کیاتو اہل شہر نے، شام کے دوسرے علاقوں کے باشندوں سے جو صلح ہو چکی تھی انہی شرطوں پر انہیں صلح کی درخواست کی مگر اس میں اتنی شرط اَور بڑھائی کہ حضرت عمربن خطابؓ خود تشریف لا کر صلح کی تکمیل کریں۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے اس کی اطلاع بارگاہِ خلافت میں ارسال کی اور حضرت عمرؓمدینہ سے روانہ ہو گئے۔ یہ لکھتے ہیں کہ اس روایت کو ہم خلافِ حقیقت سمجھتے ہیں کہ بیت المقدس کے محاصرے کے وقت حضرت ابوعبیدہؓ اور حضرت خالدؓ حِمص ، حَلَب ،اَنطاکیہ اور اس کے آس پاس کے شہروں میں فتوحات میں مصروف تھے اور ہِرَقل ان کے بالمقابل رُھَاءمقام میں بیٹھا لشکر جمع کر رہا تھا کہ انہیں الٹے پاؤں واپس ہونے پر مجبور کر دے۔ یہ تمام واقعات بھی بیت المقدس کے محاصرے کی طرح سنہ 15 ہجری مطابق سنہ 636ء کے ہیں اور یہ لکھتے ہیں کہ ان کے نزدیک یہ صحیح ہے کہ بیت المقدس کا محاصرہ اسی سنہ میں کئی مہینے تک جاری رہا جس سنہ میں یہ دونوں سپہ سالار شام کے انتہا میں بڑھتے چلے جا رہے تھے یہاں تک کہ انہوں نے ہِرَقل کو اپنے دارالسلطنت میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا تھا۔ ایسی صورت میں کہ وہ دونوں ادھر مصروف تھے، یہ کہنا کہ ان میں سے کسی ایک یا دونوں نے بیت المقدس کا محاصرہ کیا ایک ایسی بات ہے جو کسی طرح نہیں بنتی۔ اس لیے ناقابل قبول قرار دینا پڑتا ہے۔ اب صرف یہ ایک روایت اَور باقی رہ جاتی ہے اور طبری نے بھی پہلے اس کے بارے میں لکھا ہے کہ بیت المقدس کا محاصرہ حضرت عَمرو بن عاصؓ نے کیا تھا جو طویل مدت تک جاری رہا اور بیت المقدس والوں نے بڑے جوش اور بڑی شدت سے مسلمانوں کا مقابلہ کیا اور یہی روایت ہماری رائے میں صحیح ہے۔ اس لیے کہ یہ اس مقاومت سے اتفاق رکھتی ہے یعنی جو مقابلہ ہو رہا تھا اس سے ظاہر ہوتا ہے جو کہ بیت المقدس نے مختلف زمانوں میں ہر حملہ آور کے مقابلے میں ظاہر کی۔

(ماخوذ از حضرت عمرفاروق اعظمؓ از محمد حسین ہیکل صفحہ365-366 مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاہور)

محمد حسین ہیکل مزید لکھتا ہے کہ ’’تعجب ہے کہ حضرت عمرؓ محض صلح کی تکمیل اور عہدنامے کی تسویط‘‘ یعنی تنفیذ ’’کے لئے لشکر کے ساتھ تشریف لے جاتے ہیں اور اسی طرح تعجب ہے کہ اہلِ بیت المقدس معاہدۂ صلح کی تکمیل کے لئے حضرت عمرؓ کے مدینہ سے تشریف لانے کا مطالبہ کرتے ہیں حالانکہ جانتے ہیں کہ اگر مدینہ سے کوئی قافلہ لگاتار سفر کر کے ان کی طرف آئے تو پورے تین ہفتہ لگیں گے۔ اس لئے‘‘ یہ کہتا ہے کہ ’’میرے نزدیک صحیح یہ ہے کہ محاصرے کی طوالت اور حضرت عَمرو بن عاصؓ کے ان خطوط سے جن میں دشمن کی طاقت کا ذکر کرکے مدد طلب کی گئی تھی حضرت عمرؓ کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا تھا۔ چنانچہ جب ان سے نئی کمک طلب کی گئی تو اس کے ساتھ حضرت عمرؓ بھی روانہ ہو گئے اور جابیہ میں قیام فرمایا جو صحرائے شام اور سرزمینِ اردن کے درمیان واقع ہے۔ اس دوران میں حضرت ابوعبیدہؓ اور حضرت خالدؓ شام کی فتح سے فارغ ہو چکے تھے ۔ حضرت عمرؓنے ان دونوں کو حکم بھیجا کہ جابیہ میں آ کر ملیں تا کہ حضرت عمرؓ ان سے اور فوج کے دوسرے سرداروں سے مشورے کے بعد بیت المقدس کی مہم سر کرنے کی کوئی مفید ترین راہ تلاش کر سکیں۔ اَطْرَبُون اور صَفْرنِیُوس کو حضرت عمر ؓکی تشریف آوری کا علم ہوا۔‘‘

یہاں ناموں کا اختلاف ہے۔ عربی کتب میں یہ نام اَرْطَبُون لکھا ہے لیکن ہیکل کے نزدیک وہ درست نہیں ہے اس کی تحقیق کے مطابق نام اَطْرَبُون ہے اور صَفْرُو نِیُوس کا نام عربی کتب میں صَفْرُو نِیُوس لکھا ہے۔

بہرحال یہ کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے کوئی رستہ تلاش کرنے کے لیے کہ کیا سٹریٹجی (strategy) بنائی ہے اس کے لیے اکٹھا کیا تھا۔ ’’حضرت ابوعبیدہؓ اور حضرت خالدؓ کے ہاتھوں شام پر جو بیتی تھی اس کی بھی اطلاع ملی تو انہوں نے سمجھ لیا‘‘ یعنی ان دو سرداروں نے جو دشمنوں کے تھے ’’کہ بیت المقدس کی مُقَاوَمَتْ اب زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی۔‘‘ یعنی مزید مقابلہ مشکل ہے ’’چنانچہ اَطْرَبُون تو کچھ فوج لے کر چپکے سے مصر کھسک گیا اور بوڑھے پادری نے اپنی نجات کی طرف سے مطمئن ہو کر مسلمانوں سے صلح کی گفتگو شروع کر دی اور چونکہ اسے یہ معلوم تھا کہ امیر المومنینؓ جابیہ میں اقامت فرما ہیں‘‘ جابیہ تک آ چکے ہیں ’’اس لئے یہ شرط لگا دی کہ صلح کا معاہدہ لکھنے کے لئے وہ خود تشریف لائیں۔ جابیہ اور بیت المقدس میں اتنا فاصلہ نہ تھا کہ صَفْرنِیُوس کی اس درخواست کے جواب میں عذر پیش کر دیا جاتا۔‘‘ تو یہ کہتے ہیں کہ ’’یہ ہے وہ بات جسے میں صحیح سمجھتا ہوں اور جو شام و فلسطین پر حملے سے متعلق واقعات کے سلسلے میں تاریخی سیاق و سباق کے مطابق ہے۔‘‘

(حضرت عمرفاروق اعظمؓ از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ358، 368 مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاہور)
(تاريخ الخلفاء الراشدين الفتوحات والإنجازات السياسية صفحہ 279 از مکتبۃ الشاملۃ)

بہرحال ان خطوط کے ملنے کے بعد حضرت عمرؓ کی کیا مشاورت ہوئی؟ اس بارے میں لکھا ہے کہ خطوط کے ملنے کے بعد حضرت عمرؓ نے تمام معزز صحابہ کو جمع کیا اور مشاورت کی۔ حضرت عثمانؓ نے رائے دی کہ عیسائی مرعوب اور شکستہ دل ہو چکے ہیں۔ آپؓ ان کی درخواست کو ردّ کر دیں تو ان کو اَور بھی ذلت ہو گی اور یہ سمجھ کر کہ مسلمان ان کو بالکل حقیر سمجھتے ہیں بغیر شرط کے ہتھیار ڈال دیں گے لیکن حضرت علیؓ نے اس کے خلاف رائے دی اور حضرت عمرؓ کو ایلیا جانے کا مشورہ دیا اور کہا کہ مسلمانوں نے سردی، جنگ اور لمبے قیام کی غیر معمولی مشقت برداشت کی ہے۔ اگر آپؓ تشریف لے جائیں گے تو اس میں آپؓ کے اور مسلمانوں کے لیے امن و عافیت اور بہتری ہے لیکن اگر آپؓ نے انہیں اپنی اور صلح کی طرف سے مایوس کر دیا تو یہ بات آپؓ کے حق میں اچھی ثابت نہیں ہو گی۔ دشمن تو قلعہ بند ہو کر بیٹھ رہیں گے اور انہیں اپنے ملک اور رومی بادشاہ کی طرف سے کمک پہنچ جائے گی خاص طور پہ اس لیے کہ بیت المقدس ان کے نزدیک بڑی عظمت رکھتا ہے اور ان کی زیارت گاہ ہے۔ حضرت عمرؓنے حضرت علیؓ کی رائے کو پسند اور قبول فرمایا۔

(ماخوذ ازالفاروق از شبلی نعمانی صفحہ124 ادارہ اسلامیات 2004ء)
(ماخوذ از حضرت عمرفاروقؓ از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ369 مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاہور)

اس سفر میں حضرت عمرؓ کے ہمراہ دیگر مہاجرین اور انصار کے علاوہ حضرت عباس بن عبدالمطلبؓ بھی تھے۔ اس سفر کے متعلق ایک روایت ملتی ہے کہ ابوسعید مَقْبُرِی سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ اپنے اس سفر میں صبح کی نماز پڑھنے کے بعد اپنے ساتھیوں کے لیے تشریف فرما ہوتے اور ان کی طرف اپنا رخ کرتے۔ پھر کہتے ہر قسم کی تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جس نے ہمیں اسلام اور ایمان کے ذریعہ عزت بخشی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہمیں شرف بخشا اور ہمیں آپؐ کے ذریعہ گمراہی سے ہدایت فرمائی اور گروہوں میں تقسیم کے بالمقابل ہمیں اکٹھا کیا اور ہمارے دلوں میں الفت پیدا کی اور دشمنوں کے بالمقابل آپؐ کے ذریعہ ہماری نصرت فرمائی اور ہمیں مختلف شہروں میں متمکن کیا اور آپؐ کے ذریعہ ہمیں آپس میں محبت کرنے والے بھائی بھائی بنا دیا۔ پس تم لوگ ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرو اور اس سے مزید مدد طلب کرو اور ان نعمتوں پر اللہ سے شکر کی توفیق مانگو اور وہ نعمتیں جن میں تم چلتے پھرتے ہو ان کے متعلق اللہ تعالیٰ سے دعا مانگو کہ وہ تم پر انہیں پورا کر دے کیونکہ اللہ عز وجل اپنی جانب رغبت چاہتا ہے اور وہ شکر گزاروں پر اپنی نعمتوں کو مکمل کرتا ہے۔ حضرت عمر ؓاپنے اس سفر کے دوران آغاز سے لے کر واپس تشریف لانے تک اس قول کو ہر صبح کہتے رہے اور اسے ترک نہ کیا۔

(الاکتفاء بما تضمنہ من مغازی رسول اللّٰہﷺ والثلاثۃ الخلفاء، جلد2 جزء اول صفحہ292-293 عالم الکتب بیروت 1997ء)

یعنی یہی ایک ہی پیغام روزانہ دیتے تھے۔

مسلمان سرداروں کو اطلاع دی جا چکی تھی کہ جابیہ میں آ کر ان سے ملیں۔ اطلاع کے مطابق یزید بن ابی سفیانؓ اور خالد بن ولیدؓ وغیرہ نے یہیں استقبال کیا۔ شام میں رہ کر ان افسروں میں عرب کی سادگی باقی نہیں رہی تھی۔ چنانچہ حضرت عمرؓ کے سامنے یہ لوگ آئے تو اس ہیئت سے آئے کہ بدن پر حریر اور دیباج کی چکنی اور پرتکلف قبائیں تھیں اور زرق برق پوشاک اور ظاہری شان و شوکت سے عجمی معلوم ہوتے تھے۔ حضرت عمرؓ کو سخت غصہ آیا۔ گھوڑے سے اتر پڑے اور سنگ ریزے اٹھا کر ان کی طرف پھینکے کہ اس قدر جلد تم نے عجمی عادتیں اختیار کر لیں۔ ان لوگوں نے عرض کیا کہ قباؤں کے نیچے ہتھیار ہیں یعنی سپہ گری کا جوہر انہوں نے ہاتھ سے نہیں دیا۔ پھر حضرت عمرؓنے فرمایا کہ اگر یہ بات ہے تو ٹھیک ہے۔

(ماخوذ از الفاروق از شبلی نعمانی صفحہ124 ادارہ اسلامیات 2004ء)

کہ ظاہری رکھ رکھاؤ تم نے ان لوگوں کو دکھانے کے لیے کیا ہے اور اندر سے تمہارا حلیہ عربوں والا ہی ہے (تو ٹھیک ہے)۔ ایک روایت میں مذکور ہے کہ یزید بن ابی سفیان نے عرض کیا۔ اے امیر المومنین! ہمارے پاس کپڑے اور سواریاں بہت ہیں اور ہمارے ہاں زندگی بہت عمدہ ہے اور مال بہت سستا ہے اور مسلمانوں کا وہ حال ہے جسے آپؓ پسند فرماتے ہیں۔ اگر آپؓ یہ سفید کپڑے پہنیں اور ان عمدہ سواریوں پر سوار ہوں اور اس بہت زیادہ اناج اور غلہ میں سے مسلمانوں کو کھانے کے لیے دیں تو ایسا کرنا شہرت کا باعث ہو گا اور امورِ سلطنت کی ادائیگی میں آپ کے لیے زیادہ زینت کا باعث ہو گا اور عجمیوں کے نزدیک آپ کی زیادہ عظمت کا موجب ہو گا۔ اس پر حضرت عمرؓنے فرمایا اے یزید !نہیں۔ اللہ کی قسم! میں اس ہیئت اور حالت کو ترک نہیں کروں گا جس پر میں نے اپنے دونوں ساتھیوں کو چھوڑا تھا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر ؓ۔جس طرح مَیں ان کے ساتھ رہا تھا اسی حال میں رہوں گا اور میں لوگوں کے لیے زینت اور زیبائش نہیں اختیار کروں گا کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں ایسا کرنا مجھے میرے رب کے ہاں عیب دار نہ کر دے اور میں نہیں چاہتا کہ لوگوں کے ہاں تو میرا معاملہ عظمت اختیار کر جائے اور اللہ کے حضور بہت چھوٹا ہو جائے۔ پس حضرت عمرؓ اسی حالت پر قائم رہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کی زندگی میں تھے یہاں تک کہ وہ دنیا سے کوچ کر گئے۔

(الاکتفاء بما تضمنہ من مغازی رسول اللّٰہﷺ والثلاثۃ الخلفاء، جلد2 جزء اول صفحہ295 عالم الکتب بیروت 1997ء)

مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان صلح نامہ

کس طرح ہوا؟ اہل ایلیا کے نزدیک معاہدہ کہاں ہوا تھا؟ اس کے متعلق اکثر مؤرخین نے لکھا ہے کہ جابیہ کے مقام پر عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان صلح کا معاہدہ طے پایا تھا۔ لکھا ہے کہ جابیہ میں قیام کے دوران حضرت عمرؓ فوج کے حلقے میں بیٹھے تھے کہ اچانک کچھ سوار نظر آئے جو گھوڑے دوڑاتے ہوئے آ رہے تھے اور ان کی تلواریں چمک رہی تھیں۔ مسلمانوں نے فوراً ہتھیار سنبھال لیے۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ لوگوں نے سواروں کی طرف اشارہ کیا تو آپؓ نے فرمایا: گھبراؤ نہیں یہ لوگ امان طلب کرنے آئے ہیں۔ یہ لوگ ایلیا کے باشندے تھے۔ آپؓ نے انہیں صلح نامہ لکھ کر دیا۔

(ماخوذ از تاریخ طبری مترجم جلد2 حصہ دوم صفحہ369-370۔ نفیس اکیڈیمی کراچی 2004ء)
(ماخوذ ازالفاروق از شبلی نعمانی صفحہ125 ادارہ اسلامیات 2004ء)

پھر ایک روایت ہے۔ علامہ بلاذری اور محمد حسین ہیکل نے یہ لکھا ہے کہ صلح کا معاہدہ جابیہ کے بجائے ایلیا میں ہوا تھا تاہم محمد حسین ہیکل نے اپنی کتاب میں دوسری جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ معاہدہ جابیہ میں ہوا تھا۔

(ماخوذ از حضرت عمرفاروق اعظمؓ از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ368 و 371مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاہور)
(فتوح البلدان صفحہ88، دار الکتب العلمیہ بیروت)

مسلمانوں اور اہلِ ایلیا کے درمیان جو صلح نامہ ہوا اس کی تحریر تاریخ طبری میں یوں درج ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ یہ وہ امان ہے جو اللہ کے بندے امیر المومنین عمرؓ نے ایلیا والوں کو دی ہے۔ ان کی جان، مال، گرجے، صلیب، بیمار، تندرست اور ان کی ساری قوم کو امان دی جاتی ہے۔ کوئی بھی ان کے گرجاگھروں میں قیام نہیں کرے گا اور نہ وہ گرائے جائیں گے۔ نہ ان کے گرجا گھروں کے احاطوں میں کچھ کمی کی جائے گی اور نہ ان کی صلیب کو نقصان پہنچایا جائے گا اور نہ ان کے اموال کو نقصان پہنچایا جائے گا۔ اور ان سے دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں کیا جائے گا اور ان میں سے کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی جائے گی اور ایلیا میں ان کے ساتھ کوئی بھی یہودی نہیں رہ سکے گا اور اہل اِیْلِیَا پر یہ فرض ہے کہ وہ دوسرے شہروں کے باشندوں کی طرح جزیہ دیں۔ ان کو چاہیے کہ وہ رومیوں اور فسادیوں کو ایلیا میں سے نکال دیں۔ پس جو اُن میں سے نکلے گا تو اس کے جان و مال کو امن ہے یہاں تک کہ وہ اپنے محفوظ مقام تک پہنچ جائے۔ اور جو شخص ان میں سے ایلیا میں رہنا چاہے تو وہ امن میں ہے اور اس کو اہلِ ایلیا کی طرح جزیہ دینا ہو گا اور اہلِ ایلیا میں سے جو شخص اپنی جان اور مال لے کر رومیوں کی طرف جانا چاہے اور وہ اپنی عبادت گاہوں اور صلیبوں کو چھوڑ کر چلے جائیں تو ان کی جانیں اور ان کی عبادت گاہیں، ان کی صلیبیں امان میں ہیں۔(چھوڑ بھی جاؤ گے تو کچھ نہیں کیا جائے گا) یہاں تک کہ وہ اپنے محفوظ مقام تک پہنچ جائیں اور ایلیا میں جنگ سے پہلے جو کاشتکار تھے اگر ان میں سے کوئی چاہے کہ وہ اپنی زمینوں پر بیٹھے رہیں تو ان پر بھی اہلِ اِیلیا کی طرح جزیہ دینا ہو گا اور جو رومیوں کے ساتھ جانا چاہتا ہے وہ چلا جائے اور جو اپنے گھر والوں کی طرف لوٹنا چاہتا ہے تو وہ لوٹ آئے، ان سے کچھ جزیہ نہیں لیا جائے گا یہاں تک کہ ان کی فصلوں کی کٹائی ہو جائے۔ (یعنی کہ آمد پیدا ہو جائے گی تب ان سے جزیہ ہو گا)۔ اور جو کچھ اس معاہدے میں ہے اس پر اللہ کا عہد ہے اور اس کے رسولؐ کا ذمہ ہے اور خلفاء کا ذمہ ہے اور مومنین کا ذمہ ہے جب تک کہ وہ جزیہ ادا کرتے رہیں جو ان کے ذمہ ہے۔

اس معاہدے پر حضرت خالد بن ولید ؓ،حضرت عَمرو بن عاص ؓحضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، حضرت معاویہ بن ابوسفیانؓ کی گواہی ثبت تھی۔

(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ449 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2012ء)

تاریخ ابنِ خلدون میں لکھا ہے کہ اس معاہدے سے چند باتیں ثابت ہوتی ہیں؛ نمبر ایک یہ کہ مسلمانوں نے اپنا مذہب تلوار کے زور سے نہیں پھیلایا؛ دو یہ کہ ان کے عہدِ حکومت میں دوسرے مذاہب والوں کو بہت بڑی مذہبی آزادی حاصل تھی؛ تین یہ کہ غیر قوموں سے زبردستی جزیہ نہیں لیا جاتا تھا۔ ان کو قیام کرنے اور جزیہ دینے میں اختیار حاصل تھا اور دونوں صورتوں میں ان کو امن دیا گیا تھا۔

(ماخوذ از تاریخ ابن خلدون جلد3 حصہ اول صفحہ208، دارالاشاعت کراچی 2009ء)

اس صلح کی خبر جب اہل رَمْلَہ کو ملی تو وہ بھی امیر المومنین سے اسی قسم کا معاہدہ کرنے کے لیے بےچین ہو گئے۔ یہی حال فلسطین کے دوسرے لوگوں کا تھا۔ لُدّ والوں کو حضرت عمرؓ کی طرف سے ایک مکتوب لکھا گیا جس کے دائرۂ نفاذ میں وہ شہر بھی شامل کر لیے گئے جنہوں نے اس کے بعد مسلمانوں کی اطاعت قبول کر لی۔ اس خط میں حضرت عمرؓ نے لُدّ کے باشندوں کے جان و مال ،گرجا ،صلیب، تندرست، بیمار اور تمام مذاہب کو امان دی اور کہا کہ اگر وہ شام کے شہروں کی طرح جزیہ ادا کریں گے تو ان کے مذہب پر جبر نہیں کیا جائے گا اور نہ اختلافی عقائد کی بنا پر کسی کو نقصان پہنچایا جائے گا۔ ان تمام کاموں سے فارغ ہو کر امیر المومنین نے فلسطین پر دو حاکم مقرر فرمائے اور ملک کا آدھا آدھا حصہ ان دونوں میں بانٹ دیا۔ چنانچہ عَلْقَمَہ بن حکیم کا مرکز حکومت رَمْلَہ قرار پایا اور عَلْقَمَہ بن مُجَزِّزْ کا ایلیا۔

(ماخوذ از حضرت عمرفاروق اعظم از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ373 مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاہور)

حضرت عمرؓ بیت المقدس میں تشریف لائے۔

اس کے بارے میں لکھا ہے کہ جس وقت حضرت عمرؓ نے ایلیا والوں کو پناہ اور امان دی اور ایلیا میں لشکر کو ٹھہرا دیا تو آپؓ جابیہ سے بیت المقدس کی جانب چل پڑے۔ لکھا ہے کہ جب آپؓ اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے تو آپؓ نے محسوس کیا کہ آپ کا گھوڑا پاؤں میں درد کی وجہ سے سیدھا نہیں چل رہا۔ حضرت عمرؓ کے لیے ایک ترکی نسل کا گھوڑا لایا گیا۔ آپؓ اس پر سوار ہوئے تو وہ اَڑی کرنے لگا۔ آپؓ اس سے اتر آئے۔ پھر حضرت عمرؓنے چند روز بعد اپنا گھوڑا طلب کیا جس پر آپؓ نے سواری ترک کی ہوئی تھی۔ اس کا علاج ہو رہا تھا ۔پھر آپؓ اس پر سوار ہوئے یہاں تک کہ بیت المقدس تشریف لے گئے۔

(ماخوذ از تاریخ طبری مترجم سید محمد ابراہیم ندوی جلد دوم حصہ دوم صفحہ809 دارالاشاعت 2003ء)

بیت المقدس قریب آیا تو حضرت ابوعبیدہؓ اور سردارانِ فوج استقبال کے لیے آئے۔ حضرت عمرؓ کا لباس اور سامان بالکل سادہ تھا۔ مسلمانوں نے یہ سوچ کر کہ عیسائی کیا کہیں گے آپؓ کو قیمتی پوشاک دی لیکن آپؓ نے فرمایا

خدا نے ہم کو جو عزت دی ہے وہ اسلام کی عزت ہے
اور ہمارے لیے یہی کافی ہے۔

عیسائی پادریوں نے خود شہر کی چابیاں حضرت عمرؓ کے سپرد کیں۔ سب سے پہلے حضرت عمرؓ مسجد اقصیٰ گئے۔ پھر عیسائیوں کے گرجا میں آئے اور اس کو دیکھتے رہے۔ حضرت عمرؓنے عیسائیوں کے گرجا کی سیر کی۔ نماز کا وقت ہوا تو عیسائیوں نے گرجے میں نماز پڑھنے کی اجازت دی لیکن حضرت عمرؓنے اس خیال سے کہ آئندہ نسلیں اس کو حجت قرار دے کر مسیحی معبدوں میں دست اندازی نہ کریں باہر نکل کر نماز پڑھی۔

ایلیا میں قیام کے دوران مسلمان لشکر کے امراء نے حضرت عمرؓ کی دعوتیں کرنا شروع کر دیں۔ وہ کھانا تیار کرتے اور حضرت عمرؓسے درخواست کرتے کہ ان کے خیمہ میں تشریف لائیں تو حضرت عمرؓ ان کی عزت افزائی کرتے ہوئے ان کی دعوت کو قبول فرماتے تا ہم حضرت ابوعبیدہؓ نے حضرت عمرؓ کی ضیافت نہیں کی تو حضرت عمرؓ نے حضرت ابوعبیدہؓ سے فرمایا کہ تمہارے سوا لشکر کے امراء میں سے کوئی ایسا امیر نہیں جس نے میری دعوت نہ کی ہو۔ اس پر حضرت ابوعبیدہؓ نے عرض کیا: اے امیر المومنین! مَیں ڈرتا ہوں کہ اگر مَیں نے آپ کی دعوت کی تو آپؓ اپنی آنکھوں پر قابو نہیں رکھ سکیں گے یعنی جذباتی ہو جائیں گے۔ حضرت عمرؓ اس کے بعد ان کے خیمہ میں گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ اس میں کچھ بھی نہیں ہے سوائے حضرت ابوعبیدہؓ کے گھوڑے کے نمدے کے اور وہی ان کا بستر تھا اور ان کی زین تھی اور وہی ان کا تکیہ تھا۔ زین کو تکیہ بنا لیتے تھے اور جو نمدہ تھا زین کے نیچے رکھنے والا اس کو وہ بستر بنا لیتے تھے اور ان کے خیمے کے ایک کونے میں خشک روٹی تھی۔ حضرت ابوعبیدہؓ اسے لائے اور اسے زمین پر حضرت عمرؓ کے سامنے رکھ دیا۔ پھر وہ نمک اور مٹی کا پیالہ لائے جس میں پانی تھا۔ جب حضرت عمرؓ نے یہ منظر دیکھا تو آپؓ رو پڑے۔ پھر حضرت عمرؓنے ابوعبیدہؓ کو اپنے ساتھ چمٹا لیا اور فرمایا

تم میرے بھائی ہو۔

اور میرے ساتھیوں میں سے کوئی ایک بھی نہیں مگر اس نے دنیا سے کچھ حاصل کیا اور دنیا نے بھی اس سے کچھ حاصل کیا ہو سوائے تمہارے۔ اس پر ابوعبیدہؓ نے عرض کیا کہ کیا میں نے آپؓ کی خدمت میں پہلے عرض نہیں کر دیا تھا کہ آپؓ میرے ہاں اپنی آنکھوں پر قابو نہیں رکھ سکیں گے۔

اس کے بعد پھر حضرت عمرؓ باہر نکل کے لوگوں میں کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی جس کا وہ حق دار ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کے بعد فرمایا۔ اے اہلِ اسلام! یقیناً اللہ نے تم سے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا ہے اور اس نے دشمنوں کے خلاف تمہاری مدد کی ہے اور تمہیں ان ممالک کا وارث بنا دیا ہے اور تمہیں زمین میں تمکنت عطا فرمائی ہے۔ پس تمہیں اپنے رب کی نعمتوں پر شکر بجا لانا چاہیے۔ تم لوگ نافرمانی والے کاموں سے دور رہو کیونکہ نافرمانی والے کام نعمتوں کی ناشکری ہے اور بہت کم ایسا ہوا ہے کہ اللہ کسی قوم پر انعام کرے اور وہ ناشکری کریں۔ پھر وہ جلد توبہ نہ کریں مگر ضرور ان کی عزت سلب کر لی جاتی ہے۔ یعنی اگر ناشکری کرنے کے بعد توبہ نہیں کرتے تو پھر ان کی عزتیں سلب ہو جاتی ہیں، ختم ہو جاتی ہیں۔ ان کے انعامات واپس ہو جاتے ہیں اور ان پر ان کے دشمنوں کو مسلط کر دیا جاتا ہے۔

کیونکہ ایلیا میں اکثر افسرانِ فوج اور عُمّال جمع ہو گئے تھے اس لیے حضرت عمرؓنے کئی دن تک قیام کیا اور ضروری احکام جاری کیے۔

ایک دن حضرت بلالؓ نے آ کر شکایت کی کہ اے امیر المومنین! ہمارے افسر پرندے کا گوشت اور میدے کی روٹیاں کھاتے ہیں لیکن عام مسلمانوں کو معمولی کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا۔ حضرت عمرؓنے افسران سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے عرض کیا کہ تمام چیزیں یہاں بہت سستی ہیں۔ جتنی قیمت پر حجاز میں روٹی اور کھجور ملتی ہے یہاں اسی قیمت پر پرندے کا گوشت اور میدہ ملتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے افسران کو بھی مجبور نہیں کیا کہ تم نے یہ نہیں کھانا مگر اس بات کا حکم دے دیا کہ مالِ غنیمت اور تنخواہ کے علاوہ ہر سپاہی کا کھانا بھی مقرر کر دیا جائے۔ تنخواہ کے علاوہ ان کو کھانا بھی دیا جائے جو سپاہی ہیں۔ اس کی مزید تفصیل ایک جگہ یوں بیان ہوئی ہے کہ حضرت یزید بن ابو سفیانؓ کہنے لگے کہ ہمارے شہروں کا نرخ سستا ہے۔ اسی قیمت میں جس میں ہم لوگ ایک مدت تک گزارہ کر سکتے ہیں یہ چیزیں جسے حضرت بلالؓ بیان کر رہے ہیں مل جاتی ہیں۔ حضرت عمرفاروقؓ نے فرمایا اگر یہ بات ہے تو خوب مزے سے پیٹ بھر کر کھاؤ۔ میں اس وقت تک یہاں سے واپس نہ جاؤں گا یہاں تک کہ تم میرے سامنے چیزوں کی اور قیمتوں کی فہرست پیش نہ کر دو۔ میں شہروں اور دیہاتوں میں رہنے والے کمزور مسلمانوں کے لیے بجٹ لکھ کر دیتا ہوں۔ پھر جس مسلمان کو جتنی ضرورت ہو گی اس بجٹ میں سے ہر گھر کے لیے گندم اور جَو اور شہد اور زیتون وغیرہ ادا کر دیا کرو۔ پھر آپؓ نے ان کمزور اور کم سرمایہ دار مسلمانوں سے مخاطب ہو کر فرمایا: میں نے تمہارے لیے جو فہرست تیار کی ہے تمہارے سردار تمہیں یہ سب کچھ دیا کریں گے اور یہ سب کچھ اس کے علاوہ ہو گا جو میں بیت المال سے تمہارے لیے بھیجا کروں گا۔ اگر کوئی سردار تمہیں یہ چیزیں نہ دے تو مجھے اطلاع دینا۔ پھر میں فوراً ہی اسے معزول کر دوں گا۔

ایلیا میں قیام کے دوران ایک دفعہ نماز کا وقت ہوا تو

لوگوں نے حضرت عمرؓسے اصرار کیا کہ وہ
حضرت بلال ؓکو اذان دینے کا حکم دیں۔

حضرت بلالؓ نے کہا میں عزم کر چکا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کے لیے اذان نہ دوں گا لیکن آپؓ کا ارشاد بجا لاؤں گا۔ چنانچہ حضرت عمرؓ کے حکم پر حضرت بلالؓ نے جب اذان دی تو تمام صحابہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ یاد آ گیا اور ان پر اتنی رقت طاری ہوئی کہ وہ روتے روتے بیتاب ہو گئے۔ حضرت عمرؓ بھی اتنے بیتاب ہوئے کہ ہچکی بندھ گئی اور دیر تک اس کا اثر رہا۔ بیت المقدس سے واپسی کے وقت حضرت عمرؓنے تمام ملک کا دورہ کیا اور سرحدوں کا معائنہ کر کے ملک کی حفاظت کا انتظام کیا۔

(ماخوذ ازالفاروق از شبلی نعمانی صفحہ125-126 ادارہ اسلامیات کراچی 2004ء)
(فتوح الشام مترجم جلد دوم صفحہ224 مکتبہ اعلیٰ حضرت دربار مارکیٹ لاہور، ستمبر 2008ء)
(خلفائے راشدین صفحہ126-127 مکتبہ رحمانیہ لاہور)
(الاکتفاء بما تضمنہ من مغازی رسول اللّٰہﷺ والثلاثۃ الخلفاء، جلد2 جزء اول صفحہ295-296 عالم الکتب بیروت 1997ء)

’’بیت المقدس تشریف لانے سے حضرت عمرؓ کا جو مقصد تھا وہ پورا ہو گیا۔ چنانچہ جس رستے سے آپؓ تشریف لائے تھے اسی رستے سے مدینہ واپس ہو گئے۔ جابیہ پہنچ کر فاروق اعظمؓ ’’حضرت عمرؓ‘‘ نے کچھ دن قیام فرمایا اور اس کے بعد اپنے گھوڑے پر روانہ ہو گئے۔ امیر المومنینؓ نے فلسطین میں جو کام کیے تھے ان کی اطلاع حضرت علیؓ اور دوسرے مسلمانوں کو مل چکی تھی۔ چنانچہ مدینے کے باہر انہوں نے آپؓ کا شاندار استقبال کیا۔‘‘

(حضرت عمرفاروق اعظم از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ382 مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاہور)

حضرت عمرؓ مسجد نبوی میں داخل ہوئے اور منبر کے پاس دو رکعت نماز اد ا کی پھر منبر پر چڑھے اور لوگ آپ کے ارد گرد جمع ہو گئے۔ آپؓ کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کے بعد فرمایا۔ اے لوگو! یقینا ًاللہ نے اس امت پر احسانات کیے ہیں تا کہ وہ لوگ اس کی حمد بیان کریں اور اس کا شکر ادا کریں۔ اللہ نے اس امت کے پیغام کو عزت دی اور ان کو متحد کر دیا اور ان کی فتح ظاہر کی اور دشمنوں کے خلاف ان کی مدد کی اور اسے عزت بخشی اور اسے زمین میں تمکنت عطا فرمائی اور اسے مشرکین کے علاقوں اور ان کے گھروں اور ان کے اموال کا وارث بنا دیا۔ پس

ہر وقت اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہو

وہ تمہیں اَور زیادہ عطا کرے گا اور ان نعمتوں پر اللہ کی حمد بیان کرو جو اس نے تم پر نازل کی ہیں۔ وہ ہمیشہ ان نعمتوں کو تم پر قائم رکھے گا۔ اللہ ہمیں اور تمہیں شکرگزاروں میں سے بنا دے۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ منبر سے نیچے اتر گئے۔

(الاکتفاء بما تضمنہ من مغازی رسول اللّٰہﷺ والثلاثۃ الخلفاء، جلد2 جزء اول صفحہ305-306 عالم الکتب بیروت 1997ء)

حضرت خلیفة المسیح الاولؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’یروشلم کے محاصرہ میں پادریوں نے کہا تمہارا خلیفہ آوے تو اسے ہم دخل دے دیں‘‘ دخل دے دیں گے ’’حضرت عمرؓ اسی سادگی میں روانہ ہوئے۔ غلام کے ساتھ باری باری اونٹ پر چڑھتے آتے تھے۔ ابوعبیدہؓ نے عرض کیا آپ کپڑے بدل لیں۔ گھوڑے پر سوار ہوں۔ آپؓ نے یہ عرض مان لی مگر تھوڑی دور جا کر گھوڑے سے اتر بیٹھے۔ کہا میرا وہی لباس اور اونٹ لاؤ۔ آپ جب گئے تو بِطْرِیْق وغیرہ نے رعب میں آ کر چابیاں پھینک دیں۔ کہا اس سپہ سالار کا مقابلہ ہم نہیں کر سکتے۔‘‘ (حقائق الفرقان جلددوم صفحہ174) اپنے رنگ میں حضرت خلیفہ اولؓ نے بیان کیا ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ اس بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ ’’یروشلم میں ایک مسجد ہے وہ مقام یہودیوں کے لئے ایسا ہی متبرک ہے جیسا ہمارے لئے خانہ کعبہ۔ مسلمانوں کے زمانہ میں جب یروشلم فتح ہوا تو عیسائیوں نے چاہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس مقام کے اندر آکر نماز پڑھیں مگر آپؓ نے فرمایا: میں ڈرتا ہوں کہ اگر میں نے اندر نماز پڑھی تو مسلمان اس جگہ کو اپنی عبادت گاہ بنا لیں گے اور آپؓ نے باہر نماز پڑھی۔‘‘

(خطبات محمود جلد11 صفحہ437 خطبہ جمعہ فرمودہ 27 جولائی 1928ء بمقام ڈلہوزی)

پھر حضرت مصلح موعودؓ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں فلسطین فتح ہوا اور جس وقت آپ یروشلم گئے تو یروشلم کے پادریوں نے باہر نکل کر شہر کی کنجیاں آپ کے حوالے کیں اور کہا کہ آپ اب ہمارے بادشاہ ہیں۔ آپ مسجد میں آ کر دو نفل پڑھ لیں تاکہ آپ کو تسلی ہو جائے کہ آپ نے ہماری مقدس جگہ میں جو آپ کی بھی مقدس جگہ ہے نماز پڑھ لی ہے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے کہامیں تمہاری مسجد میں اس لئے نماز نہیں پڑھتا کہ میں ان کاخلیفہ ہوں، کل کو یہ مسلمان اِس مسجد کوچھین لیں گے اور کہیں گے کہ یہ ہماری مقدس جگہ ہے اس لئے میں باہر ہی نماز پڑھوں گا تاکہ تمہاری مسجد نہ چھینی جائے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلدپنجم صفحہ573)

بہرحال سترہ ہجری میں رومیوں کی طرف سے ایک آخری کوشش ہوئی اور اس کوشش کی وجہ سے ہی

مسلمانوں کی شام پر مکمل فتح

بھی ہوئی۔ اسلامی فتوحات چونکہ روز بروز وسیع تر ہوتی جاتی تھیں اور حکومتِ اسلام کے حدود برابر بڑھتے جاتے تھے، ہمسایہ سلطنتوں کو خود بخود خوف پیدا ہوا کہ ایک دن ہماری باری بھی آتی ہے۔ چنانچہ اہلِ جزیرہ جو عراق اور شام کے درمیان آباد تھے یَزْدَجرد کے رَے فرار ہو جانے کے بعد وہ اس کی طرف سے مایوس ہو گئے تھے۔ اس لیے انہوں نے ہِرَقل کو لکھا کہ اگر وہ مسلمانوں سے لڑنے اور انہیں ان کے مقبوضات سے نکال باہر کرنے کے لیے بحری راستے سے لشکر بھیجے تو وہ اس کی مدد کریں گے۔ ہِرَقل نے اس مسئلہ پر غور کیا اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ اس میں نقصان کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ اہلِ جزیرہ نے ہِرَقل کو دوبارہ خط لکھا جس سے وہ سمجھ گیا کہ ان کے ارادے میں کوئی جھول نہیں ہے۔ اس نے دیکھا کہ ان میں سے اکثر عیسائی عرب اپنے مذہب کا دامن مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہیں اور اس کی راہ میں لڑ کے مر جانا بہتر سمجھتے ہیں۔ ہِرَقل کو شام کے میدانِ کارزار سے دور ہوئے ایک برس سے زیادہ ہو گیا تھا اس لیے اب اس کے دل میں وہ پہلا سا خوف بھی باقی نہیں رہا تھا۔ پھر اس نے دیکھا کہ بہت سے سرحدی علاقے ابھی اتنے مستحکم ہیں کہ مسلمانوں کے حملوں کی تاب لا سکتے ہیں، مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اس کا جنگی بیڑہ بھی ہنوز محفوظ تھا اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ مسلمان سمندر اور سمندر کی طرف سے آنے والی ہر چیز سے ڈرتے ہیں۔ اس سے اس کے ارادے میں قوت پیدا ہوئی اور وہ اہل جزیرہ کا مطالبہ تسلیم کر لینے پر مائل ہو گیا۔ اس نے اپنے خط میں ان قبائل کو جوش دلایا۔ ان کی ہمتیں بڑھائیں اور لکھا کہ جہازوں کو حکم دے دیا گیا ہے۔ وہ فوج اور سامان جنگ لے کر اسکندریہ سے اَنطاکیہ پہنچ رہے ہیں۔ ہِرَقل کا خط ملنے پر یہ قبائل اپنی تیس ہزار کی فوج لے کر جزیرہ سے حِمص کی طرف روانہ ہو گئے۔

حضرت ابوعبیدہؓ کو ان تمام باتوں کی اطلاع ملی۔ انہوں نے حضرت خالد بن ولید کو مشورے کے لیے قِنِّسْرِین سے بلایا اور ان دونوں سپہ سالاروں نے مل کر فیصلہ کیا کہ دشمن سے مقابلہ کرنے کے لیے تمام اسلامی فوجیں شمالی شام میں جمع ہو جائیں۔ چنانچہ اَنطاکیہ اور حَمَاۃ ،حَلَب اور قریب کی تمام فوجی چھاؤنیوں کے لشکر حِمص میں اکٹھے کر دیے گئے۔ ادھر سارے ملک میں یہ خبر پھیل گئی کہ ہِرَقل کی فوجیں بحری رستے سے آ رہی ہیں اور جزیرہ کے قبائل حملے کے لیے حِمص کی طرف روانہ ہو گئے ہیں چنانچہ گردنیں بڑھا بڑھا کر لوگ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ قیصر اور اس کے حلیفوں کا یہ نیا حملہ کس چیز سے روکا جائے گا اور جب ہِرَقل کے جہاز اَنطاکیہ پہنچے تو شہر کے دروازے فوج کے لیے کھل گئے۔ رعایا مسلمانوں کے خلاف ہو گئی اور تمام شمالی شام میں بغاوت کے شعلے بھڑکنے لگے۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے اپنے آپ کو حِمص میں محصور پایا جسے باغیوں نے چاروں طرف سے گھیر لیا تھا اور دشمنوں کو سمندر اور صحرا دونوں طرف سے اپنی سمت بڑھتے دیکھا تھا۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں کو جمع کیا اور کہا کہ میں نے امیر المومنینؓ کی خدمت میں ایک عریضہ ارسال کیا ہے جس میں اس نازک مرحلے پر ان سے مدد طلب کی ہے۔ اس کے بعد ان سے پوچھا کہ مسلمان دشمنوں سے باہر نکل کر مقابلہ کریں یا مدینہ سے آنے والی کمک کے انتظار میں قلعہ بند ہو کر لڑیں۔ صرف خالد بن ولیدؓ نے میدان سے نکل کر لڑنے کا مشورہ دیا باقی تمام فوجی افسران کی یہ رائے تھی کہ قلعہ بند ہو کر جلد سے جلد کمک طلب کرنی چاہیے۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے ان لوگوں کی رائے قبول کر لی جنہوں نے قلعہ بند ہونے کا کہا تھا اور حضرت خالدؓ کے مشورے سے اختلاف کیا کہ باہر نکل کے لڑا جائے۔ چنانچہ مورچوں کو اور مضبوط کر کے بارگاہِ خلافت میں اپنے ساتھیوں کی رائے لکھ بھیجی۔

حضرت عمر ؓاس بات کو کبھی فراموش نہ ہونے دیتے تھے کہ عراق اور شام کے اسلامی لشکروں کو اگر کبھی اس قسم کا خطرہ درپیش آ گیا تو اسلامی فتوحات اسی ابتلا سے دو چار ہو جائیں گی جن کا سامنا ہو رہا تھا اور جس سے وہ اپنی خلافت کے دن سے دوچار تھے یعنی شروع دن کی جو حالت تھی وہ اب بھی ہو سکتی تھی۔ اس لیے

حضرت عمرؓ نے بصرہ اور کوفہ آباد کرنے کا حکم دیا تھا

اور اسی لیے ان دونوں شہروں کو مسلمانوں کی فوجی چھاؤنیاں بنایا تھا کہ جہاں کوئی غیر مسلم آباد نہیں تھا۔ اس کے علاوہ دوسرے سات شہروں میں سے ہر شہر میں چار ہزار سوار مقرر کیے تھے جو ہر وقت اس قسم کی ہنگامی ضروریات کے لیے کیل کانٹے سے لیس رہتے تھے۔ چنانچہ جب حضرت ابوعبیدہؓ کا خط بارگاہ خلافت میں پہنچا اور حضرت عمرؓنے محسوس کیا اورفرمایا کہ مسلمانوں کا یہ عظیم سپہ سالار ایک بہت بڑے خطرے میں گھر گیا ہے تو حضرت سعد بن ابی وقاص کو فوری حکم دے کر روانہ کیا کہ جس دن تمہارے پاس خط پہنچے اسی دن قَعْقَاع بن عَمرو کو امدادی فوج کے ساتھ حِمص بھیج دو، ابوعبیدہؓ وہاں محصور ہیں۔ جتنی جلدی اور جتنی تیزی سے ممکن ہو کمک انہیں پہنچ جانی چاہیے۔ حضرت سعدؓ نے اسی دن امیر المومنین کے حکم کی تعمیل کی اور قَعْقَاع کی سرکردگی میں چار ہزار تجربہ کار سواروں کی فوج فراہم ہو کر کوفہ سے حِمص کی طرف چل پڑی۔ معاملہ اتنا خطرناک تھا کہ محض چار ہزار فوج لے کر قَعْقَاع کا اس کے مقابلے کے لیے چلے جانا کافی نہ تھا کیونکہ جزیرے سے حِمص آنے والوں کی تعداد تیس ہزار تھی اور وہ فوج اس کے علاوہ تھی جو ہِرَقل نے بحری جہازوں کے ذریعہ اَنطاکیہ بھیجی تھی۔

حضرت عمرؓ جانتے تھے کہ ان کے آدمی شام کے ہر شہر میں وہاں کے باشندوں سے نمٹ رہے ہیں۔ اگر وہ ان شہروں کو چھوڑ کر حِمص چلے گئے تو سارے شام کا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ اس لیے انہوں نے قَعْقَاع کو کوفہ سے روانگی کا حکم دینے کے بعد اَور بھی احکام صادر کیے جو ان کے تدبر اور دوراندیشی کے آئینہ دار تھے۔ جزیرے سے حِمص آنے والے قبائل نے یہ جرأت اس لیے کی تھی کہ وہ جانتے تھے کہ ان کی بستیاں اسلامی حملوں کی زد سے باہر ہیں۔ پس اگر ان بستیوں پر حملہ کر دیا جائے تو یہ قبائل الٹے پاؤں واپس ہو جائیں گے اور ابوعبیدہؓ اور ان کی فوجوں پر جو دباؤ بڑھ رہا تھا اس میں تخفیف ہو جائے گی۔ اس لیے حضرت عمرؓ نے سعد بن ابی وقاصؓ کے خط میں لکھا کہ سُہیل بن عدی کی سرکردگی میں ایک فوج جزیرہ کے شہر رَقَّہ میں بھیج دو۔ جزیرہ کے لوگوں نے ہی رومیوں کو حِمص پر حملہ کے لیے ابھارا ہے اور ان سے پہلے قَرْقِیْسِیَا کے باشندے یہی حرکت کر چکے ہیں۔ دوسری فوج عبداللہ بن عِتْبَان کی سرکردگی میں نَصِیْبَیْن پر چڑھائی کے لیے روانہ کر دو۔ یہاں کے باشندوں کو بھی اہل قَرْقِیْسِیَا نے حملہ کے لیے اکسایا تھا۔ پھر حَرَّانْ جو جزیرے کا پایہ تخت تھا اور رُھَاء جا کر وہاں سے دشمن کو نکال دیں۔ حَرَّان اور رُھَاء جا کر وہاں سے دشمن کو نکال دیں۔ ایک تیسری فوج ولید بن عُقْبہ کی کمان میں جزیرہ کے عیسائی عرب قبائل رَبِیعہ اور تَنُوخْ کی جانب روانہ کرو اور عِیَاض بن غَنْم کو اسی جزیرہ کے محاذ پر بھیجو۔ اگر جنگ ہو تو دوسرے سالارانِ فوج عِیَاض بن غَنْم کے ماتحت ہوں گے۔ چنانچہ جب یہ سب کے سب سپہ سالار روانہ ہوئے تو اہلِ جزیرہ حِمص کا محاصرہ چھوڑ کر جزیرے کو چل دیے۔ حضرت عمرؓ کی یہ پالیسی، سٹریٹجی تھی، حکمت عملی تھی کہ بجائے وہاں اکٹھے ہوں کچھ فوجیں جن علاقوں سے یہ فوجیں اکٹھی ہوئی تھیں ان شہروں اورعلاقوں میں بھیج دو جس کانتیجہ یہ ہوا جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمان تو ہمارے علاقوں میں اور جزیروں میں اور شہروں میں آ رہے ہیں تو یہ لوگ پھر محاصرہ چھوڑ کے وہاں سے چلے گئے۔ لیکن حضرت عمرؓ نے پھر اسی پہ اکتفا نہیں کیا ۔انہوں نے اندازہ فرما لیا تھا کہ بار بار شکستیں کھانے کے بعد ہِرَقل نے یہ جو بحری راستے سے فوجیں بھیجی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے اپنی قوت پر اعتماد ہے اور وہ یقین رکھتا ہے کہ اس میں تنہا مسلمانوں کے مقابلہ کی قدرت ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اسکندریہ سے جہازوں پر آنے والی فوجوں کا کمانڈر اس نے اپنے بیٹے قسطنطین کو بنایا ہے۔

حضرت عمرؓ کی پلاننگ کے مطابق قَعْقَاع بن عَمرو اپنے ساتھ چار ہزار شہسواروں کو لے کر حِمص روانہ ہوئے۔ سُہَیل بن عدی، عبداللہ بن عِتْبان، ولید بن عُقْبہ اور عِیَاض بن غَنْم اہل جزیرہ کی گوشمالی کے لیے ان کے مختلف شہروں میں چلے گئے اور حضرت عمرؓنے حِمص کے ارادے سے مدینہ چھوڑا اور جابیہ میں فروکش ہوئے۔ اہل جزیرہ نے حِمص کا محاصرہ کرنے میں رومیوں کا ساتھ دیا۔ انہیں عراق سے اسلامی فوج کی آمد کی اطلاع ہو گئی لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ یہ فوج ہمارے شہر جزیرہ پر حملہ کرے گی یا حِمص پر اس لیے وہ اپنے شہر اور اپنے بھائیوں کی حفاظت میں لگ گئے اور رومیوں کا ساتھ چھوڑ دیا۔

ایک دن حضرت ابوعبیدہؓ جب سو کر اٹھے تو معلوم ہوا کہ جزیرے کے قبائل اپنے ملک واپس چلے گئے ہیں اور ان کے مقابلے پر صرف ہِرَقل کا لشکر رہ گیا ہے۔ انہوں نے اپنی فوج سے سرداروں کو بلا کر کہا کہ وہ رومیوں کے مقابلہ کے لیے میدان میں نکلنا چاہتے ہیں۔ یہ سن کر حضرت خالد بن ولیدؓ بہت خوش ہوئے اور کہا کہ اس سے پہلے کہ رومی اس نئی صورت حال کا کوئی انتظام کریں ان پر فوراً حملہ کر دینا چاہیے۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے لشکر کے سپاہیوں سے ایک جوشیلا خطاب کیا اور فرمایا

مسلمانو! آج جو ثابت قدم رہ گیا وہ اگر زندہ بچا تو ملک و مال اس کو ملے گا
اور اگر مارا گیا تو شہادت کی دولت ملے گی

اور میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص اس حال میں مرے کہ وہ مشرک نہ ہو تو وہ ضرور جنت میں داخل ہو گا۔ فوج پہلے ہی سے حملے کرنے کے لیے بےقرار تھی۔ ابوعبیدہؓ کی تقریر نے اَور بھی گرما دیا اور دفعةً سب نے ہتھیار سنبھال لیے۔ حضرت ابوعبیدہؓ قلب فوج اور حضرت خالد بن ولیدؓ میمنہ اور حضرت عباسؓ میسرہ کو لے کر بڑھے۔ دونوں گروہوں میں جنگ ہوئی تو مسلمانوں کے مقابلے میں تھوڑی ہی دیر میں رومیوں کے پیر اکھڑ گئے اور وہ شکست کھا گئے۔ جب قَعْقَاع بن عَمرو کوفہ کی فوج کے ساتھ حِمص پہنچے تو لڑائی ختم ہوئے تین دن گزر چکے تھے۔ دوسری طرف حضرت عمرؓ شام کے رستے میں جابیہ پہنچے ہی تھے کہ حضرت ابوعبیدہؓ کا قاصد ملا اور اس نے بیان کیا کہ قَعْقَاع کے حِمص پہنچنے سے تین دن پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو رومیوں پر فتح یاب کر دیا ہے اور رائے معلوم کی کہ قَعْقَاع اور اس کی فوج کو مال غنیمت میں سے حصہ دیا جائے یا نہ دیا جائے۔ حضرت عمرؓ مطمئن ہو گئے اور اس خبر کے بعد سفر جاری رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں فرمائی۔ وہیں سے حضرت امین الامت ابوعبیدہؓ کو خط لکھا کہ اہلِ کوفہ کو مال غنیمت کی تقسیم میں شریک کیا جائے کیونکہ ان کی آمد کی خبر ہی نے دشمن کے دل پر رعب طاری کیا تھا جس کی وجہ سے اس نے شکست کھائی۔ اللہ کوفہ والوں کو جزائے خیر دے کہ اپنے علاقے کی حفاظت اور دوسرے شہر والوں کی اعانت کرتے ہیں اور اس کے بعد مدینہ کی طرف کوچ فرما دیا۔ اس شکست کے بعد قیصر پر اتنی مایوسی چھا گئی کہ وہ پھر کبھی شام کا رخ نہ کر سکا۔ ادھر باغیوں کو جب معلوم ہوا کہ رومی فوجیں جہازوں میں بیٹھ کر فرار ہو گئی ہیں تو ان کی بغاوت بھی اپنی موت آپ مر گئی۔ یہ سترہ ہجری کا واقعہ ہے۔ اس کے تین سال بعد ہِرَقل 20؍ ہجری کو 641عیسوی میں فوت ہو گیا۔

(سیدنا حضرت عمرفاروق اعظمؓ از ہیکل۔ مترجم حبیب اشعر صفحہ384تا 390، 590 اسلامی کتب خانہ اردو بازار لاہور)
(سیرت امیر المومنین عمر بن خطاب از الصلابی صفحہ750تا 752 الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان)
(الفاروق از شبلی نعمانی صفحہ134تا 136 دار الاشاعت کراچی 1991ء)

بہرحال یہ ذکر ابھی آئندہ بھی چلے گا۔ ان شاء اللہ۔اس وقت میں

چند مرحومین کا بھی ذکر

کرنا چاہتا ہوں جس میں پہلا ذکر مکرم چودھری سعید احمد لکھن صاحب ریٹائرڈ اسٹیشن ماسٹرکا ہے جو آج کل کینیڈا میں تھے۔ 86سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔

آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت چودھری سکندر علی صاحبؓ اور حضرت گجر بی بی صاحبہؓ کے پوتے تھے۔ حضرت چودھری سکندر علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 30 مارچ 1902ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور 1904ء سے 1928ء تک مدرسہ تعلیم الاسلام میں تعلیمی فرائض سرانجام دینے کی توفیق ملی۔ آپ ان ابتدائی اساتذہ میں سے تھے جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی زندگی میں مدرسہ تعلیم الاسلام میں استاد مقرر فرمایا تھا۔ چودھری سعید صاحب ان کے پوتے تھے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے دینی خدمات انجام دیتے رہے جب موقع ملا۔ چودھری سعید صاحب اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ چھ بیٹے اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔ سب بچے کسی نہ کسی رنگ میں اس نیک تربیت کی وجہ سے جو انہوں نے اپنے بچوں کی کی۔ جماعت کی خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ آپ کے ایک بیٹے فہیم احمد لکھن کینیا میں مربی سلسلہ ہیں اور وہاں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں اور میدان عمل میں ہونے کی وجہ سے اپنے والد کے جنازے میں شامل نہیں ہو سکے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور مرحوم کے ساتھ مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

مرحوم بہت دینی غیرت رکھنے والے انسان تھے۔ زمانہ طالبعلمی میں 1953ء میں سمندری شہر کے ہائی سکول میں ہونے والے مجلس احرار کے جلسہ میں دیگر غیر احمدی طلبہ کے ساتھ موجود تھے۔ جب عطاء اللہ شاہ بخاری نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بیہودہ الزام لگائے اور آپ علیہ السلام کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کیے تو سعید صاحب فوراً کھڑے ہو گئے اور اس مولوی کو للکارا اور اس کی تقریر کے دوران ہی اس سے مخاطب ہوئے کہ تم صرف جھوٹ بول رہے ہو اوراسے چپ کروا دیا۔ اس پر مولوی نے کہا اس مرزائی کو پکڑو اور مارو۔ آپ پر شدید تشدد کیا گیا لیکن بہرحال اس دوران جلسہ میں بھگدڑ مچ گئی اور جلسہ منتشر ہو گیا۔ ہمیشہ اپنی اولاد کو یہ تلقین کرتے تھے کہ احمدیت کے معاملہ میں کبھی کسی سے دبنا یا ڈرنا نہیں ہے۔

دوسرا ذکر مکرم محمد شہاب الدین صاحب نائب نیشنل امیر بنگلہ دیش کا ہے۔ ان کی وفات 12؍جولائی کو ہوئی تھی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ اٹھارہ سال کی عمر میں 1964ء میں ایک خواب کی بنا پر انہوں نے احمدیت قبول کی تھی۔ مرحوم موصی تھے۔ سلسلہ کے دیرینہ خادموں میں سے تھے۔ بہت ساری خوبیوں کے مالک تھے۔ خلافت کے شیدائی ،ایماندار، امانت دار، خاموش طبع اور جماعت اور سلسلہ کے مفاد کو اچھی طرح سمجھنے والے تھے۔ اپنی وفات سے پہلے وصیت کے چندے وغیرہ کا حساب صاف کر کے گئے۔ ان کے بڑے بیٹے شمس الدین احمد معصوم صاحب مربی سلسلہ ہیں۔ مرحوم کی اولاد میں چار بیٹوں کے علاوہ تین بیٹیاں بھی ہیں۔ مرحوم اپنے چچا کی تبلیغ سے متاثر ہو کر احمدی ہوئے تھے اور اپنے گھر میں شدید مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا اور صبر و استقلال سے 1963ء میں چند ماہ یہ سب مخالفت برداشت کی اور بعد ازاں گھر بار چھوڑ کر پہلے برہمن بڑیا اور پھر ڈھاکہ آ کر بس گئے۔ بعد میں ان کی شادی پرانے احمدی خاندان میں ہوئی۔ ایک خصوصیت ان کی قناعت شعاری تھی۔ تھوڑے پر راضی رہنا اور صبر اور شکر کے ساتھ گزارہ کرنا جانتے تھے۔ ان کی دیانت داری کی وجہ سے غیراحمدی تاجر بھی ان کی بڑی عزت کیا کرتے تھے اور سب ان کو اس لحاظ سے بہت نیک اور صحیح تجارت کرنے والا سمجھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

اگلا ذکر ہے محترم راؤل عبداللہ صاحب کا جو ارجنٹائن کے رہنے والے تھے۔ یہ ارجنٹینین تھے۔ 6؍ستمبر کو ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ وہاں کے مربی سلسلہ لکھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ ارجنٹائن کے ابتدائی احمدیوں میں سے تھے۔ ارجنٹائن کی جماعت بالکل نئی جماعت ہے۔ چند سال پہلے قائم ہوئی ہے۔ جماعت احمدیہ سے ان کا پہلا تعارف 2018ء میں ایک بُک فیئر پہ ہوا تھا۔ جب ان کا جماعت سے رابطہ ہوا تو ان کے غیر از جماعت مسلمان دوستوں نے ان کو جماعت سے متنفر کرنا چاہا لیکن آپ اس کے باوجود باقاعدہ جماعت کے پروگراموں میں شامل ہوتے رہے۔ بہرحال ان دوستوں کے اثر کی وجہ سے ان کے دل میں کچھ شکوک و شبہات بھی تھے جس کو دور کرنے کے لیے یہ جلسہ سالانہ یوکے میں شامل ہوئے اوراپنے ذاتی خرچ پر یہاں آئے اور یہاں پھر ان کی میرے سے ملاقات بھی ہوئی اور اس ملاقات کے بعد پھر ان کے شکوک و شبہات بھی دور ہو گئے اور مکمل شرح صدر ان کو حاصل ہوا اور انہوں نے بیعت بھی کر لی اور بیعت سے پہلے بھی اصل میں تو یہ احمدی تھے، لوگوں کو احمدیت کی تبلیغ کیا کرتے تھے لیکن باقاعدہ بیعت انہوں نے پھر یہاں آکر کی۔ اپنی فیملی میں واحد مسلمان تھے۔ ان کے دوستوں نے آخر وقت تک انہیں جماعت سے دور کرنے کی کوشش کی لیکن استقامت کے ساتھ احمدیت پر قائم رہے۔ جماعت کے لیے بڑی غیرت رکھتے تھے اور ہمیشہ اپنوں اور غیروں کے سامنے بڑے فخر سے اپنا تعارف بطور احمدی کے کرواتے تھے۔ جماعتی سرگرمیوں میں بڑے اخلاص اور بھرپور جذبے سے شرکت کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کے قریبیوں اور عزیزوں کو بھی احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
نمازوں کے بعد ان کے نماز جنازہ غائب ادا کروں گا۔

(الفضل انٹرنیشنل 15 اکتوبر 2021ء)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 15؍ اکتوبر 2021ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 اکتوبر 2021