• 25 اپریل, 2024

ایک احمدی کو عید میلاد النبی ﷺ کیسے منانی چاہیے؟

اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو اپنے ماننے والوں کو ایک مکمل ضابطہِ حیات فراہم کرتا ہے وہ اپنے پیروکاروں کو تمام امرِ بالمعروف اور نہی عن المنکر سے آگاہ کرتا ہے اور معروف امر بجا لانے والوں کو فردوس بریں کی بشارت سناتا اور خطوات الشیاطین پہ چلنے والوں کو نہایت دردناک عذاب الیم سے ڈراتا ہے۔

کتاب رحمان میں وہ فرماتا ہے:

وَ اَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیۡ مُسۡتَقِیۡمًا فَاتَّبِعُوۡہُ ۚ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمۡ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ ؕ ذٰلِکُمۡ وَصّٰکُمۡ بِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿۱۵۴﴾

(الانعام: 154)

ترجمہ:اور بے شک یہی میرا سیدھا راستہ ہے۔ سو اسی کا اتباع کرو اور دوسرے راستوں پر مت چلو وہ تمہیں اللہ کی راہ سے ہٹا دیں گے، (اللہ نے) تمہیں اسی کا حکم دیا ہے تاکہ تم متقی بن جاؤ۔

خدا تعالیٰ کا جماعت احمدیہ کے افراد پر احسان عظیم ہے کہ انکو خلافت کی نعمت سے سرفراز کیا ہے۔ خلیفہ وقت وہ شجرِسایہ دار ہے جس کا سایہ نہ صرف ظلمتوں کی دھوپ سے محفوظ رکھتا ہے بلکہ اُن کے ارشادات کے اثمار ہمیں قرب الہٰی میں بڑھاتے اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے دلوں میں جاگزیں کرتے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض خدا اور اسکے بندوں کے تعلق کو مضبوط کرنا تھا اور توحید کا قیام کرنا تھا جو مذہب اسلام کی جڑ ہے اور جس کے قیام کے لیے دنیا کے ہر نبی نے سعی کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اتمام حجت کر دی۔ حجۃ الوداع کے موقع پر قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت کر کے آپؐ نے رہتی دنیا تک اس شریعت،اس کتاب، اس مذہب اور اسکی تعلیمات کو کافی قرار دے گیا تھا۔

اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِىْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۔

(المائدہ: 4)

ترجمہ:آج میں تمہارے لیے تمہارا دین پورا کر چکا اور میں نے تم پر اپنا احسان پورا کر دیا اور میں نے تمہارے لیے اسلام ہی کو دین پسند کیا ہے۔

اسی تعلیمات کو ازسر نو زندہ کرنے اور دنیا کو اسلام کا اصل اور درست چہرا دکھلانے کے واسطے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس دنیا میں تشریف لائے۔

بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ اس کی تفصیل بتاتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’مجھے بھیجا گیا ہے تا کہ مَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کھوئی ہوئی عظمت کو پھر قائم کروں اور قرآن شریف کی سچائیوں کو دنیا کو دکھاؤں اور یہ سب کام ہو رہا ہے۔ لیکن جن کی آنکھوں پر پٹّی ہے وہ اس کو دیکھ نہیں سکتے‘‘۔

(ملفوظات جلد5 صفحہ14۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

غیر ازجماعت افراد اکثر جماعت احمدیہ کو اس بات کے لیےنشانہ بناتے ہیں کہ ہم عید میلاد النبیؐ انکے طریق پر نہیں مناتے۔ان کی طرح جلوس نہیں نکالتے ان کی طرح گھروں کے باہر ڈھیر لگا لگا کر محفلیں نہیں لگاتے اونچی اونچی آوازوں میں نعتیں قوالیاں چلا کر اہل محلہ کو پریشان کیوں نہیں کرتے۔ حلوے اور انواع واقسام کے پکوان پکوا کر ان پر ختم کروا کر ہمسائیوں میں تقسیم کیوں نہیں کیا جاتا اور اس دن کو عید کے طور پر کیوں نہیں منایا جاتا؟

تو ایک موقعہ پر جماعت احمدیہ شملہ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لکھا کہ عید میلاد کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے؟اس پر آپؓ نے فرمایا:
’’عید میلاد بدعت ہے۔ عیدیں دو ہیں۔ اس طرح تو لوگ نئی نئی عیدیں بناتے جائیں گے۔ اور احمدی کہیں گے کہ مرزا صاحب پر الہام اوّل کے دن ایک عید ہو۔ یوم وصال پر عید ہو۔ آنحضرت ؐ کے سب سے بڑے محب تو صحابہ تھے۔ انہوں نے کوئی تیسری عیدنہیں منائی بلکہ ان کا یہی مسلک رہا کہ

بزہد و ورع کوش وصدق وصفا ولیکن میفزائے بر مصطفیؐ

اگر عید میلاد جائز ہوتی۔ تو حضرت صاحب (مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام) آنحضرت ﷺکے بڑے محب تھے، وہ مناتے۔ ایسی عید نکالنا جہالت کی بات ہے۔ اور نکالنے والے صرف عوام کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ ورنہ ان میں کوئی دینی جوش نہیں۔‘‘

(حیات نور، باب ہفتم صفحہ508)

پھر حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ارشاد کے بعد اس بات کی مزید وضاحت ہو جاتی ہے۔

ایک مرتبہ پیسہ اخبار نے عید میلاد منانے کےلیے یہ تحریک کی تھی کہ اس روز تمام مسلمان نہائیں، دھوئیں اور عید منائیں۔

اس کا ذکر جب حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی خدمت میں کیا گیا تو آپؓ نے فرمایا :
’’اسلام میں صرف دو ہی عیدیں شارع علیہ السلام نے مقرر فرمائی ہیں۔ یا جمعہ کا دن ہے‘‘

(حیات نور، باب ہفتم صفحہ507)

مسلمانوں کے زوال کی ایک بڑی وجہ اسلام کی تعلیمات پر عمل نہ کرنا اور دوسرے مذاہب کی دیکھا دیکھی کچھ نئی رسومات اور بدعات کو اسلام کی طرف منسوب کرنا ہے۔ عید میلاد النبی ﷺ کے جلسے جلوس اور حلوے مانڈے ختم درود بھی وہی بدعات اور بد رسوم ہیں جو خود ساختہ ہیں اور جن کا اسلام سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں۔ عید میلاد النبی ﷺ منانے کا اسلام کی پہلی تین صدیوں تک کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ حالانکہ ان صدیوں کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ اس وقت کے مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید محبت رکھتے تھے اور آپ ﷺ کی تمام کی تمام تعلیمات پر عمل پیرا ہونےکی ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔ لیکن ان میں سے کسی نے بھی کبھی اس طریق پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم پیدائش نہیں منایا۔ کیونکہ وہ آپ ﷺ کی سنت و احادیث کا مکمل علم رکھتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ آپﷺ نے اسلام میں بدعات پیدا کرنے والے کے لیے کیا حکم دیا ہے۔

بدعت کے بارے میں درج ذیل احادیث سے اسکے مکروہ ہونے کابخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

مَنْ اَحْدَثَ فِیْٓ اَمْرِ ہٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ

(بخاری ومسلم)

جس نے ہمارے اس معاملے (دین) میں کوئی نئی چیز گھڑی تو وہ مردود ہوگی۔

اسی ضمن میں مزید فرمایا:

عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّةِ الْخُلَفَآءِ الرَّاشِدِیْنَ المَہْدِیِّیْنَ۔

(ترمذی، جلد2 صفحہ92۔ اور ابوداؤد، جلد2 صفحہ289)

ترجمہ: تم پر لازم ہے کہ میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کرو۔

ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور سیرت کا ایک ایک لمحہ قابل عمل ہے۔ اگر ان کی اتباع اور پیروی کا نام ہی دین ہے۔ آپ کی سیرت پر عمل کرنے سے ہی انسان رحمت الٰہی کا مورد ہوتا ہے۔

اور اگر کوئی شخص عبادت و نیکی اور ثواب کی غرض سے کوئی ایسا کام کرئے گا جس کا وجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دَور میں نہیں تھا۔ اور خلفائے راشدین کا سنہرا دور بھی اس کام سے خالی نظر آتا ہے۔ اور اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہ کام نہیں کرتے تھے۔ آج کوئی شخص اس کام کو نیکی اور دین سمجھتا ہے تو وہ سراسر فریب اور دھوکہ اور غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ وہ کام ثواب اور دین نہیں ہوگا بلکہ بدعت ہوگا۔

اسلام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم پیدائش کو ایک رسم اور تہوار کے طور پر منانے کا آغاز

عبداللہ بن محمد بن عبداللہ قداح نامی شخص نے کیا تھا۔ جس کے پیرو کار فاطمی کہلاتے ہیں اور وہ اپنے آپ کو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ مصر میں ان کی حکومت کا زمانہ 362ہجری بتایا جاتاہے۔

پس سب سے پہلے جن لوگوں نے میلاد النبی ﷺ کی تقریب شروع کی وہ باطنی مذہب کے تھے اور جس طرح انہوں نے شروع کی وہ یقینا ًایک بدعت تھی۔

کیونکہ تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ کسی صحابیؓ یا تابعی جو صحابہؓ کے بعد آئے، جنہوں نے صحابہؓ کو دیکھا ہوا تھاانکے زمانے میں عیدمیلادالنبیﷺ کا ذکر نہیں ملتا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
اس مسئلہ میں بھی افراط و تفریط سے کام لیا گیا ہے۔ بعض لوگ اپنی جہالت سے کہتے ہیں کہ آنحضرت ؐکا تذکرہ ہی حرام ہے۔ (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ)۔ یہ ان کی حماقت ہے۔ ’’آنحضرت ﷺ کے تذکرہ کو حرام کہنا بڑی بےباکی ہے۔ جبکہ آنحضرت ﷺ کی سچی اتباع خداتعالیٰ کا محبوب بنانے کا ذریعہ اور اصل باعث ہے اور اتباع کا جوش تذکرہ سے پیدا ہوتا ہے اور اس کی تحریک ہوتی ہے۔ جو شخص کسی سے محبت کرتا ہے اس کا تذکرہ کرتا ہے۔‘‘

’’ہاں جو لوگ مولود کے وقت کھڑے ہوتے ہیں اوریہ خیال کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ ہی خود تشریف لے آئے ہیں (یہ بھی ان کا ایک طریق کار ہے۔ جلسہ ہوتا ہے مولود کی محفل ہو رہی ہے، اس میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔مجلس بیٹھی ہوئی ہے تقریر کرنے والا مقرر کچھ بول رہا ہے، کہتا ہے آنحضرت ﷺ تشریف لے آئے اور سارے بیٹھے ہوئے لوگ کھڑے ہو گئے) فرمایا کہ یہ جو ’’خیال کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ تشریف لے آئے ہیں۔ یہ اُن کی جرأت ہے۔ ایسی مجلسیں جو کی جاتی ہیں ان میں بعض اوقات دیکھا جاتا ہے کہ کثرت سے ایسے لوگ شریک ہوتے ہیں جو تارک الصلوٰۃ ہیں‘‘۔ (لوگ تو ایسے بیٹھے ہوئے ہیں جو نماز بھی پانچ وقت نہیں پڑھ رہے ہوتے بلکہ بعض تو نمازیں بھی نہیں پڑھنے والے ہوتے، عید پڑھنے والے ہوتے ہیں صرف یا صرف محفلوں میں شامل ہو جاتے ہیں)۔ فرمایا کہ ’’کثرت سے ایسے لوگ شریک ہوتے ہیں جو تارک الصلوٰۃ، سودخور اور شرابی ہوتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کو ایسی مجلسوں سے کیا تعلق؟ اور یہ لوگ محض ایک تماشہ کے طور پر جمع ہو جاتے ہیں، پس اس قسم کے خیال بیہوده ہیں‘‘

ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام سے مولود خوانی پر سوال کیا تو آپؑ نے فرمایا:
’’آنحضرت ﷺکا تذکرہ بہت عمدہ ہے بلکہ حدیث سے ثابت ہے کہ انبیاء اور اولیاء کی یاد سے رحمت نازل ہوتی ہے اور خود خد انے بھی انبیاء کے تذکرہ کی ترغیب دی ہے۔ لیکن اگر اس کے ساتھ ایسی بدعات مل جاویں جن سے توحید میں خلل واقع ہو تو وہ جائز نہیں۔خدا کی شان خدا کے ساتھ اور نبی کی شان نبی کے ساتھ رکھو۔ آج کل کے مولویوں میں بدعت کے الفاظ زیادہ ہوتے ہیں اور وہ بدعات خدا کے منشاء کے خلاف ہیں۔ اگر بدعات نہ ہوں تو پھر تووہ ایک وعظ ہے۔ آنحضرت ؐ کی بعثت، پیدائش اور وفات کا ذکر ہو تو موجب ثواب ہے۔ ہم مجاز نہیں کہ اپنی شریعت یا کتاب بنا لیویں‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ159۔160 حاشیہ)

*حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصره العزیز جماعت کو میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بتاتے ہوئے فرماتے ہیں:
کہ آنحضرتﷺ کی سیرت اگربیان کرنی ہے تو یہ بڑی اچھی بات ہے۔ لیکن آج کل ہوتا کیا ہے؟ خاص طور پر پاکستان اور ہندوستان میں ان جلسوں کو سیرت سے زیادہ سیاسی بنا لیا جاتا ہے، یا ایک د وسرے مذہب پہ یا ایک دوسرے فرقے پہ گند اچھالنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں جو کوئی جلسہ یہ لوگ کرتے ہیں، اس میں یہ نہیں ہوا کہ سیرت کے پہلو بیان کرکے صرف وہیں تک بس کر دیا جائے بلکہ ہر جگہ پر جماعت احمدیہ کے خلاف اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات پر بے انتہا بیہودہ اور لغو قسم کی باتیں کی جاتی ہیں اور آپ ﷺ کی ذات کو تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

گزشتہ دنوں ربوہ میں ہی مولویوں نے بڑا جلسہ کیا، جلوس نکالا۔ اور وہاں کی جورپورٹس ہیں۔ اس میں صرف یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جلسہ سیاسی مقصد کے لئے اور ا حمدیوں کے خلاف اپنے بغض و عناد کے اظہار کے لئے منعقد کیا گیا تھا۔ تو اس قسم کے جو جلسے ہیں ان کا تو کوئی فائدہ نہیں۔ آنحضرتﷺ کی ذات تو وہ با برکت ذات ہے کہ جب آپ ﷺ آئے تو رحمۃ للعالمین بن کے آئے۔ آپ ﷺ تو دشمنوں کے لئے بھی رو رو کر دعائیں کرتے رہے۔

بہرحال خلاصہ یہ کہ مولود کے دن جلسہ کرنا، کوئی تقریب منعقد کرنا منع نہیں ہے بشرطیکہ اس میں کسی بھی قسم کی بدعات نہ ہوں۔ آنحضرت ﷺ کی سیرت بیان کی جائے۔ اور اس قسم کا (پروگرام) صرف یہی نہیں کہ سال میں ایک دن ہو۔ محبوب کی سیرت جب بیان کرنی ہے تو پھر سارا سال ہی مختلف وقتوں میں جلسے ہو سکتے ہیں اور کرنے چاہئیں اور یہی جماعت احمدیہ کا تعامل رہا ہے، اور یہی جماعت کرتی ہے۔ اس لیے یہ کسی خاص دن کی مناسبت سے نہیں، لیکن اگر کوئی خاص دن مقرر کر بھی لیا جائے اور اس پہ جلسے کیے جائیں اور آنحضرت ﷺ کی سیرت بیان کی جائے بلکہ ہمیشہ سیرت بیان کی جاتی ہے۔ اگر اس طرح پورے ملک میں اور پوری دنیا میں ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہ ہے کہ بدعات شامل نہیں ہونی چاہئیں۔کسی قسم کے ایسے خیالات نہیں آنے چاہئیں کہ اس مجلس سے ہم نے جوبرکتیں پالی ہیں ان کے بعد ہمیں کوئی اور نیکیاں کرنے کی ضرورت نہیں ہے جیساکہ بعضوں کے خیال ہوتے ہیں۔ تو نہ افراط ہو نہ تفریط ہو۔

(خطبہ جمعہ 13 مارچ 2009ء)

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف سال کے سال ایک رسم اور سالگرہ کے طور پر منانے والی چیز نہیں بلکہ اس کو تو اپنی روزمرہ زندگی کے ہر ہر پہلو پر لاگو کرنا چاہیے۔ اسے ہی اپنی زندگی کا نصب العین بنانا چاھیے۔ سال کے سال جیسے دیگر مذاہب کے لوگ سالگرہ یا کوئی خاص دن مناتے ہیں کہ کیک کاٹے جارہے ہیں بے تحاشا روپہ پیسہ آرائش و زیبائش پر خرچ کیا جاتا ہے اور ان سب کے بعد کسی کو اسکی اگلی زندگی سے کچھ غرض نہیں ہوتی۔ یہ فادر ڈے،مدرز ڈے اور اسی طرح کے دوسرے دن منائے جاتے ہیں لیکن انکا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اگر انہوں نے پورا سال ان میں سے کسی انسان سے رابطہ نہیں کیا اسے کوئی اہمیت نہیں دی تو کم از کم اس ایک مخصوص دن اسے خاص محسوس کرا دیا جائے۔ تو کیا ایک عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دل اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ پورا سال تو نہ آپ کی ذات اقدس پر درود بھیجے نہ آپ کی کسی تعلیم پر عمل کرے نہ آپ کی شان میں کوئی جلسہ منعقد کروائے اور نہ ہی ایسی کسی پاک محفل میں جہاں اس محبوب خدا کا ذکر ہو رہا ہو شرکت کرے اور محض رسم کے طور پر بارہ ربیع الاول کو آپ کی پیدائش کی خوشی وہ بھی غیر شرعی انذاز میں منا کر ڈھول تاشے بجا کر دوسرے مذاہب کی تحقیر کر کے کیک پر آپ کے نعلین مبارک کا عکس بنا کر پھر اسے کاٹ کر یہ اپنے عاشق ہونے کا ثبوت دے رہا ہے۔

سالگرہ منانے کے بارے میں
خلفائے احمدیت کی کیا تعلیمات ہیں

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ سے ایک خاتون نے یہ سوال کیا کہ ہم لوگ برتھ ڈے پارٹی یعنی سالگرہ کی تقریب کیوں نہیں مناتے؟

جواباً حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے فرمایا :
’’ایک احمدی کے لیے ہر طرزِ عمل میں رہ نمائی حضرت نبی کریمﷺکی سیرت پاک سے ملتی ہے۔ چنانچہ پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم ؐ نے کبھی اپنی سالگرہ نہیں منائی۔ قطعی طور پر یہ بھی ثابت ہے کبھی کسی نبی نے اپنی سالگرہ نہیں منائی۔ کبھی کسی صحابی نے اپنی یا اپنے بانی مذہب کی سالگرہ نہیں منائی۔ بائبل میں کہیں یہ ذکر نہیں ملتا کہ بنی اسرائیل کے کسی نبی یا خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی برتھ ڈے منائی گئی ہو۔ حضرت نبی کریم ؐ کے صحابہؓ آپ ﷺہی سے تربیت یافتہ تھے اور کسی سے بھی زیادہ آنحضرت ﷺ سے زیادہ محبت کرتے تھے۔ انہوں نے اس شدید محبت کے باوجود کبھی حضرت نبی کریم ؐ کی سالگرہ نہیں منائی۔ نہ صحابہ نے نہ تابعین نے اور نہ تبع تابعین نے…‘‘

(الفضل 14؍فروری 1994ء صفحہ2)

*حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ایک طفل نے دریافت کیا کہ کیا ایک مسلمان کے لیے سالگرہ منانا مناسب ہے؟

حضور انور نے فرمایا :
’’احمدی مسلمان بچے ہوتے ہوئے تم اپنے گھروں میں اپنی سالگرہ منا سکتے ہو لیکن دوسروں کو بلا کر پیسے ضائع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تم اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کر کچھ میٹھا بنا کر اچھا وقت گزار سکتے ہو۔ لیکن بہت سے لوگوں کو بلانا اور فضول خرچی کرنا، اس کی اجازت نہیں ہے۔ ہم آنحضرتﷺ کی سالگرہ کبھی نہیں مناتے نہ ہی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی، نہ ہی کسی اور فرد ِاحد کی۔ تو اگر تم آنحضرتﷺ کی سالگرہ نہیں مناتے تو پھر ہماری اپنی سالگرہ منانے کی کیا ضرورت ہے؟ اس لیے تم اپنی فیملی کے افراد کے ساتھ منا سکتے ہو اور تمہاری امی تمہارے لیے کچھ اچھا کھانا بنا سکتی ہیں، جیسے کیک یا پیسٹری یا کچھ میٹھا یا جو بھی تمہیں پسند ہو۔‘‘

(ملاقات نیشنل مجلس عاملہ مجلس خدام الاحمدیہ گیمبیا منعقدہ مؤرخہ 23؍ مئی 2021ء)

*پھر ایک اور موقع پر نائب مہتمم مال صاحب انڈونیشیا نے سوال کیا کہ ہم برتھ ڈے کیوں نہیں مناتے؟

اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ ہم برتھ ڈے نہیں مناتے ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برتھ ڈے بھی نہیں مناتے بلکہ جلسہ سیرت النبیؐ کرتے ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالی نے فرمایا :
’’اگر کوئی مجھے یاد کروا دے کہ آج میری بڑتھ ڈے ہے تو میں دو نفل ادا کرتا ہوں اور صدقہ دیتا ہوں اور خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے زندگی دےاور خدا تعالی کے احکامات پر عمل کرنے کی توفیق دی ہےاور دعا کرتا ہوں کہ آئندہ اللہ کا فضل ہمیشہ شامل حال رہے۔‘‘

حضور انور ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز نے مزید فرمایا:
’’برتھ ڈے کے موقع پر موم بتیاں جلانا،کیک کاٹنا اور دعوتوں پر رقم خرچ کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ یہ رقم غرباء کو صدقہ میں دے دو، چیرٹی آرگنائزیشن ہیں انکو دے دو وہ غریبوں کی مدد کرتی ہیں انکے کام آ جاتے ہیں، ہومیونیٹی فسٹ ہےاُس کو بھی دے سکتے ہو تو اس طرح رقم ادھر ادھر ضائع کرنے کی بجائے غرباء کے کام آجاے گی تو خدا کی رضا کی خاطر یہ کام کر کے ہم اپنی بڑتھ ڈے منا سکتے ہیں۔ میٹنگ کے آخر پر صدر صاحب سنگا پور نے بتایا کہ بڑتھ ڈے کے ذکر سے مجھے یاد آیا کہ آج میری برتھ ڈے ہے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ دو نفل پڑھو اور صدقہ دو اور اپنی عاملہ کو ساتھ لے کر میرے ساتھ تصویر بنواؤ۔

(الفضل انٹرنیشنل13 اکتوبر 2013ء تا 18 اکتوبر 2013ء)

پاکستان میں رہنے والے اس بات کے گواہ ہیں کہ کچھ سالوں سے 12 ربیع الاول کے موقع پرگھروں کے باھر کھلونے سجا کر مختلف ڈیزائن بنا کر اونچی اونچی آواز میں گانے بجا کر مخلوط محافل میں باقاعدہ ناچ گانا تک کیا جاتا ہے اس طرح کی مختلف وڈیوز وقتاً فوقتا ً سوشل میڈیا پر گردش کرتی بھی دکھائی دیتی ہیں۔ اور اس پر یہ لوگ جماعت احمدیہ پر انگلیاں اٹھاتے ہیں کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ ہم عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہیں یا ہمیں آپ سے پیار نہیں ہے۔

یہ بات درست ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سالگرہ نہیں مناتے کیونکہ ہم آپﷺ کی با برکت زندگی کی خوشی مناتے ہیں ہم آپ کی ﷺ شان میں جلسہ جات کا انعقاد کرتے ہیں جہاں ہر دوسراشحض اپنی قابلیت اور علمی صلاحیت کے مطابق اپنی محبت کا ثبوت پیش کرتا ہے۔ درود وسلام کے نذرانے پیش کیے جاتے ہیں جو محبین کی دل کی گہرائیوں سےنکلتے ہیں اور اُنکی پُر نم آنکھیں اس عشق کو چھپانے میں ناکام ہوجاتی ہیں جو جماعت احمدیہ کے افراد کے رگ و ریشے میں سمایا ہوا ہے۔

کرائے کے قوال اور نعت خواں بلا کر اُن پر پیسے نچھاور نہیں کیےجاتےبلکہ اپنے دلی جذبات بیان کیے جاتے ہیں۔ کیونکہ یہی ہماری تعلیم ہے۔ یہی ہمارے بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے ہمیں سکھلایا اور یہی خلفائےاحمدیت اپنے خطابات میں بتاتے رہے ہیں۔ میلاد النبی ﷺ کو صحیح طور پر منانے کی بابت حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے خطبہ جمعہ 13؍مارچ 2009ء میں فرماتے ہیں کہ:
’’بعض لوگ جو ہمارے معترضین ہیں، مخالفین ہیں، ان کا ایک یہ اعتراض بھی ہوتاہے۔مجھے بھی لکھتے ہیں، احمدیوں سے بھی پوچھتے ہیں کہ احمدی کیوں یہ دن اہتمام سے نہیں مناتے؟… اصل میں احمدی ہی ہیں جو اس دن کی قدر کرنا جانتے ہیں‘‘

*حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ کے دور خلافت میں جب ایک دشمن رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’رنگیلا رسول‘‘ کے نام سے ایک نہایت قابل اعتراض کتاب شائع کی تو اس وقت آپ رضی اللہ تعالی نے بجائے اسکے کہ توڑ پھوڑ یا ہنگامے مچانے کے لیے جلسے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم منعقد کرنے کی طرف توجہ دلائی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو اس طور پر بیان کیا جائے کہ سب معاندین رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی آپکی خوبیوں کے قائل ہو جائیں اور یہی جماعت احمدیہ کا مشن ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ
’’لوگوں کو آپ ﷺپر حملہ کرنے کی جرأت اس لیے ہوتی ہے کہ وہ آپ ﷺ کی زندگی کے صحیح حالات سے نا واقف ہیں یا اس لیے کہ وہ سمجھتے ہیں دوسرے لوگ نا واقف ہیں اور اس کا ایک ہی علاج ہے جو یہ ہے کہ رسول کریمﷺ کی سوانح پر اس کثرت سے اور اس قدر زور کے ساتھ لیکچر دیے جائیں کہ ہندوستان کا بچہ بچہ آپ ؐکے حالات زندگی اور آپ ﷺکی پاکیزگی سے آگاہ ہو جائے اور کسی کو آپ ﷺ کے متعلق زبان درازی کرنے کی جرأت نہ رہے۔‘‘

(الفضل 10تا13جنوری 1928ء بحوالہ خطبات ِمحمود جلد11 صفحہ271)

اس کے بعد سے جماعت احمدیہ مسلمہ تو باقاعدہ سیرت النبی ﷺ کے جلسے منعقد کرتی ہے۔ آپ (حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ مراد ہیں) نے جو چار پانچ نکات دئیے تھے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ بجائے صرف 12؍ربیع الاول کے سارا سال مختلف وقتوں میں سیرت کے جلسے ہونے چاہئیں۔

(خطبہ جمعہ 16؍ دسمبر 2016ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد5 صفحہ31)

اسی تناظر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک شخص نے سوال کیا تو اس کو آپ ﷺ نے خط لکھوایا اور فرمایا کہ میرے نزدیک اگر بدعات نہ ہوں اور جلسہ ہو اس میں تقریر ہو، اس میں آنحضرتﷺ کی سیر ت بیان کی جاتی ہو، آنحضرت ﷺ کی مدح میں کچھ نظمیں خوش الحانی سے پڑھ کے سنائی جائیں وہاں تو ایسی مجلسیں بڑی اچھی ہیں اور ہونی چاہئیں۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کس طرح اپنی اس عشق و محبت کی جو محفلیں ہیں ان کو سجانا چاہتے ہیں یا اس بارہ میں ذکر کرنا چاہتے ہیں، فرماتے ہیں: ’’خدا فرماتا ہے اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ (آل عمران: 32) ’’کہ اگر اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو۔ یہ قرآن کریم کی آیت ہے۔ فرمایا کہ ’’کیا آنحضرت ؐنے کبھی روٹیوں پر قرآن پڑھا تھا؟‘‘ (آج کل کے یہ مولوی مجلسیں کرتے ہیں۔ محفلیں کرتے ہیں تو اس قسم کی بدعات کرتے ہیں کہ اس کے بعد روٹیاں تقسیم ہوتی ہیں۔ قرآن پڑھا گیا تو یہ مولود کی روٹی ہے۔ بڑی بابرکت روٹی ہو گئی۔ تو فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ اللہ سے محبت کرنی ہے تو آنحضرت ﷺ کی پیروی کرو اور آنحضرت ﷺ کی اگر پیروی کرنی ہے تو کیا کہیں یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپؐ نے کبھی روٹیوں پر قرآن پڑھا؟)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’اگر آپ ﷺ نے ایک روٹی پر پڑھا ہوتا تو ہم ہزار پر پڑھتے۔ ہاں آنحضرت ﷺ نے خوش الحانی سے قرآن سنا تھا اور آپ ﷺ اس پر روئے بھی تھے۔ جب یہ آیت وَ جِئۡنَا بِکَ عَلٰی ہٰۤؤُلَآءِ شَہِیۡدًا (النساء: 42)‘‘ (اور ہم تجھے ان لوگوں کے متعلق بطور گواہ لائیں گے۔

قرآن سنا ضرور کرتے تھے اور اس پر آپ ﷺ جب یہ آیت آئی کہ آپ ﷺ گواہ ہوں گے تو آپﷺ اس پر رو پڑے۔یہ رونا اصل میں آپ ﷺ کی عاجزی کا انتہائی مقام اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح یہ مقام آپ ﷺ کو عطا فرمایا)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں اس سے ’’آپ ﷺ روئے اور فرمایا بس کر مَیں اس سے آگے نہیں سن سکتا۔ آپ ﷺ کو اپنے گواہ گزرنے پر خیال گزرا ہو گا‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ162)

حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں:
’’ہمیں خود خواہش رہتی ہے کہ کوئی خوش الحان حافظ ہو تو قرآن سنیں‘‘۔ یہ ہے اتباع آنحضرت ﷺ کی۔ پھر لکھتے ہیں کہ ’’آنحضرت ﷺنے ہر ایک کام کا نمونہ دکھلا دیا ہے وہ ہمیں کرنا چاہیے۔ سچے مومن کے واسطے کافی ہے کہ دیکھ لیوے کہ یہ کام آنحضرت ؐ نے کیا ہے کہ نہیں؟ اگر نہیں کیا تو کرنے کا حکم دیا ہے یا نہیں؟ حضرت ابراہیم ؑ آپؐ کے جدا مجد تھے اور قابل تعظیم تھے۔ کیا وجہ کہ آپ ﷺ نے ان کا مولود نہ کروایا؟‘‘

آنحضرت ﷺ نے ان کی پیدائش کا دن نہیں منایا۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ162)

تو یہ تعلیمات ہیں جن پر ہمیں عمل کرنا ہے اور بے شک اسی میں تمام برکات ہیں۔

*ہمارے پیارے امام زماں حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جماعت کو میلاد النبی ﷺ منانے کے درست طریق بتلاتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’پس آج اگر حقیقی خوشی منانی ہے تو پھرآپ کے اُسوہ پر عمل کر کے منائی جا سکتی ہے جہاں عبادتوں کے معیار بھی بلندہوں۔ جہاں توحید پہ بھی کامل یقین ہو اور اعلیٰ اخلاق کے معیار بھی بلند ہوں۔ اگر یہ نہیں تو ہم میں اور غیر میں کوئی فرق نہیں۔ اگر ہم عمل نہیں کر رہےتو وہ لوگ جو بکھرے ہوئے ہیں اور عارضی لیڈر اور نام نہاد علماء کے پیچھے چل کر لوگوں کے لئے تنگیوں کے سامان کر رہے ہیں ان میں اور ہم میں کوئی فرق نہیں ہو گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کا تقاضا یہی ہے کہ ہر کام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کو سامنے رکھیں۔ اللہ کرے کہ اس کی ہم سب کو توفیق ملے‘‘

(خطبہ جمعہ یکم دسمبر 2017ء)

*حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے گلشنِ وقفِ نَو (خُدّام) کلاس منعقدہ مؤرخہ 10؍اپریل 2011ء میں عید میلادالنبیﷺ کے حوالے سے فرمایا جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ہم عید میلاد النبی ﷺ اس طرح تو نہیں مناتے کہ حلوے،مانڈے بانٹے جائیں اور جلوس نکالے جائیں۔ دو مختلف فرقوں کے جُلوس نکل رہے ہوں۔ آپس میں clash ہو جائے تو لڑائیاں ہو جائیں۔ قتل ہو جائے، جس طرح بعض جگہوں پہ ہوتا ہے۔ لیکن ہم بعض معاملات میں زیادہ ہی rigid ہو گئے ہیں کہ شاید عید میلاد النبیﷺ منانا بالکل غلط ہے اور خدانخواستہ گناہ والی بات ہے۔ ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے۔

حضور انور نے فرمایا کہ قادیان میں عید میلاد النبیﷺ، عید والے دِن منائی جاتی تھی۔ 1933ء کی رپورٹس میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ باقاعدہ ایک جُلوس procession ہوتا تھا۔ چراغاں بھی ہوا کرتا تھا۔ گھروں میں لوگ لائٹیں بھی لگایا کرتے تھے۔ ربوہ میں بھی ہوتا رہا ہے۔ بعض دفعہ قادیان میں جھنڈیاں بھی لگائی جاتی تھیں۔

ایسی چیزیں جو بِدعت بن جائیں، نئی نئی باتیں ہو جائیں وہ تو منع ہیں لیکن یہ کہنا کہ بالکل ہم منا ہی نہیں سکتے (یہ غلط ہے)۔

اگر کہیں ایسا ماحول ہو جو غیروں کا ماحول ہو اُن میں اگر آنحضرت ﷺ کی پیدائش کا اِظہار کرنا ہو، کیونکہ آپ ؐ کی پیدائش بھی حضرت ابراہیمؑ کی ایک پیشگوئی کے مطابق تھی اُس لحاظ سے بھی منایا جا سکتا ہے۔

پھر سیرت النبی ﷺ کے حوالہ سے بھی منایا جا سکتا ہے۔ لیکن اُس میں ایسی باتیں پیدا کر لینا جس کا اسلام کی تعلیم سے تعلق نہیں وہ غلط ہے۔

حضور انور نے فرمایا کہ مسجد اقصیٰ ربوہ میں میلاد النبیؐ کے حساب سے جلسے بھی ہوتے تھے۔ چراغاں بھی ہوتا تھا۔ قادیان میں بھی ہوتا تھا۔ مَیں ایک غلط فہمی کو remove کرنا چاہتا تھا کہ ایسابھی نہیں ہے کہ خدانخواستہ ہم سیرت النبیؐ، میلاد النبیؐ منا لیں گے تو گناہ ہو جائے گا۔ بعض حالات میں بعض لوگوں کو بعض ملکوں میں دِکھانے کے لیے منائی بھی جاتی ہے۔

قادیان میں بھی 1928ء میں بھی 1933ء میں بھی اُس کے بعد میں بھی مختلف جلسوں کی رپورٹس الفضل میں ملتی ہیں کہ عید میلاد النبیؐ منائی گئی۔ سیرت النبیؐ کے جلسے کیے گئے۔ جُلوس بھی نکلا بازاروں میں اور پھر جلسے ہوئے۔ لڑائیاں نہیں ہوئیں جیسے آج کل ہوتی ہیں۔ اسی طرح ربوہ میں بھی لوگ چراغاں کرتے تھے، گھروں کو سجاتے تھے۔

(ماخوز ازگلشنِ وقفِ نَو، خُدّام منعقدہ مؤرخہ 10؍ اپریل 2011)

خدا کرے کہ ہم صحیح معنوں میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے کا حق ادا کر سکیں اور آپ کیﷺ پاکیزہ حیات پر عمل کر کے دنیا کو آپﷺ سیرت کا وہ پہلو دکھا سکیں جن کو ان نام نہاد مسلم علماء نے بگاڑ دیا ہے اور جس حسین تعلیم سے روگردانی کر کے آج مسلم اماء تباھی اور بربادی کے عمیق گڑھے میں گرتی جا رہی ہے۔ کاش کہ ہر مسلمان اس بات کا ادراک کر سکے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف پیدائش کی ہی خوشی نہ منائی جائے بلکہ آپ کی کامیاب و کامران زندگی کے ایک ایک دن کی خوشی منائے جائے۔ آپ کی سیرت پر عمل کر کے آپ پر درود بھیج کر اپنے زندگیوں کو اس قالب میں ڈھال کر جیسا آپ ﷺ اپنے امتی سے چاھتے تھے۔ تب ہم میلاد النبیﷺ کا حق ادا کر سکیں گے۔ اور صحیح معنوں میں آپ کی پیدائش کی خوشی منانے والے ہونگے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اس کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین ثمّ آمین

؎محمدؐ عربی بادشاہ ہر دو سِرا
کرے ہے روح القدس جس کے در کی دربانی
اسے خدا تو نہیں کہہ سکوں پہ کہتا ہوں
کہ اس کی مرتبہ دانی میں ہے خدادانی

(صدف علیم صدیقی ۔ ریجائنا ،کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 15؍ اکتوبر 2021ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 اکتوبر 2021