اس وقت دنیا میں امیر ترین شخص ایلون مسک ہیں جن کی دولت کا تخمینہ اڑھائی سو بلین ڈالر سے زائد لگایا جاتا ہے۔ ہم ان کی دولت کا اندازہ اس طرح بھی لگا سکتے ہیں کہ پاکستانی حکومت اپنے ملک کو چلانے کے لیے آئی ایم ایف سے دو دو بلین ڈالرقرض لینے پر بہت خوش ہوتی ہے اب ملک کی معیشت کو کچھ سہارا مل گیا ہے۔ اس کے مقابلہ میں دنیا کے بعض ہاتھوں میں ہی سینکڑوں بلین ڈالر ہیں۔
اسلامی تاریخ میں ایک ایسا عظیم الشان بادشاہ بھی گزرا ہے جو کہ سینکڑوں سال پہلے گزرنے کے باوجود بھی آج کی ترقی یافتہ دنیا سے کئی گناہ زیادہ امیر تھا۔ یہ بادشاہ چودھویں صدی عیسویں میں مغربی افریقہ کے ملک مالی میں گزرا ہے۔ اس کا نام منسا موسی ٰ تھا۔ یہ بادشاہ بعض دیگر ناموں سے بھی مشہور ہے جیساکہ کنکا موسیٰ۔ منسا کا مطلب بادشاہ ہے اور موسیٰ اس کا نام ہے۔ منسا موسیٰ نے 1312ء سے 1337ء تک مالی پر حکومت کی۔ اس زمانہ میں مالی کی سلطنت میں آج کل کے ملکوں میں سینیگال، جنوبی موریتانیا، مالی، شمالی برکینا فاسو، مغربی گیمبیا، گنی بساؤ، آئیوری کوسٹ اور شمالی گھانا کے علاقے شامل تھے۔ منسا موسیٰ سلطنت مالی کا سب سے مشہور اور نیک نام حکمران گزرا ہے۔ اس کے عہد میں مالی کی سلطنت اپنے نقطۂ عروج پر پہنچ گئی۔ منسا موسیٰ نے ٹمبکٹو Timbuktu، جنے Djenne اور گاؤ Gao جیسے شہر آباد کیے اور ان میں کثرت سے عمارات بنوائیں۔ ان شہروں کو علم و ادب کا مرکز بنایا جہاں عالم اسلام کے علماء اکھٹے رہتے تھے اور دین اسلام کی تعلیمات کو پورے ملک میں رائج کرنے کی کوشش کرتے۔ یہ تینوں شہر تجارت اور اسلامی ثقافت کا مرکز بنے۔
منسا موسیٰ 1312 ء میں بادشاہ بنا جب اس سے پہلا بادشاہ جس کا نام ابوبکر تھا ایک سمندری سفر پر نکلا لیکن واپس نہ آسکا۔ منسا موسیٰ کے بادشاہ بننے سے پہلے ہی یہ سلطنت کافی خوشحال تھی لیکن منساموسیٰ کے بادشاہ بننے کے بعد تجارت میں بہت اضافہ ہوگیا جس کی وجہ سے یہ افریقہ کی خوشحال اور امیر ترین سلطنت بن گئی۔ یہاں کی زیادہ تر آمدنی سونے اور نمک کی کانوں سے آتی تھی۔ اس کے علاوہ ہاتھی دانت کی بھی تجارت کی جاتی تھی۔ اس زمانہ میں منسا موسیٰ کی دولت 400 بلین ڈالر سے زائد تھی۔
منساموسیٰ کی دولت کا دنیا کو اس وقت پتہ چلا جب منسا موسی ٰ نے حج کے ارادہ سے مکہ مکرمہ کی طرف 1324ء میں ایک عظیم الشان سفر کیا۔ اس سفر میں جو کہ 4000 میل پر محیط تھا، اس کے قافلہ میں 60 ہزار افراد شامل تھے۔ ان میں بادشاہ کے خاندان کے لوگ،غلام اور دیگر افراد شامل تھے۔ بارہ ہزار صرف غلام تھے جن کا کام خدمت کرنا تھا۔ اس کے علاوہ تمام شاملین کے پاس کثرت سے سونا تھا یہاں تک کہ ہر غلام کے پاس بھی 1.8کلو سونا تھا۔ تمام افراد کو بہترین خوبصورت سلک کے کڑھائی کیے ہوئے کپڑے بنا کر دیئے گئےتھے۔ تمام قافلے والوں کو ہر طرح کی موجود سہولیات دی گئیں تھیں نیز تمام افراد گھوڑوں پر سوار تھے۔ کھانے پینے کا خاص انتظام کیاگیا تھا۔ منسا موسیٰ اپنے سفر کے دوران جب بھی کسی غریب افراد کے پاس سے گزرتا تو ان میں سونا تقسیم کرتا۔ وہ جہاں سے بھی گزرتا وہاں مساجد اور تعلیمی ادارے بناتا۔ یہاں تک کہ بعض کے نزدیک ہر جمعہ کو اس نے ایک مسجد بنوائی۔ اس کے ساتھ 80 اونٹ تھے۔ ہر ایک اونٹ پر 136 کلو سونا لدا ہوا تھا۔ جب منسا موسیٰ کا قافلہ قاہرہ پہنچا تو اس نے وہاں اتنی کثرت سے سونا تقسیم کیا کہ اگلے 12 سالوں کے لیے مصر میں سونے کی قیمت ہی گر گئی۔ اس زمانہ میں قاہرہ میں مملوک سلطان ملک الناصر کی حکومت تھی، جس نے اس سے خاص طور پر ملنے کی خواہش کی۔ اس کے علاوہ اس نے مکہ مدینہ میں بھی کثرت سے سونا صدقہ کیا۔
اس سفر سے منسا موسیٰ کا تعارف یورپین دنیا میں بھی پھیلا۔ حج سے واپسی پر منسا موسیٰ اپنے ساتھ ایک بڑی تعداد میں عربی کتب، علماء کی جماعت اور آرکیٹک لیکر آیا، جن کی مدد سے تمام سلطنت میں کثرت سے مساجد، لائبریریاں اور اسلامک یونیورسٹیوں کا قیام کیا گیا۔ اس دور میں مالی کو افریقہ میں اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لیے مرکز مانا جاتا تھا۔
منسا موسیٰ کی وفات 1337ء کو ہوئی۔ بعد ازاں اس کے بیٹے بادشاہ بنے لیکن ان کے دور میں مالی کی سلطنت کمزور ہوتی گئی اور بعد میں کئی حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ منسا موسی ٰ کی وفات کے بعد بھی اس کا نام دولت کی وجہ سے زندہ رہا لیکن ایک بڑی وجہ اس کی اسلام سے محبت اور لگاؤ تھا جس کے فروغ کے لیے اس نے پوری کوشش کی اور بے دریغ دولت کا استعمال کیا۔
ریفرنس
https://www.history.com/news/who-was-the-richest-man-in-history-mansa-musa
https://www.blackpast.org/global-african-history/mali-empire-ca-1200/
https://education.nationalgeographic.org/resource/mansa-musa-musa-i-mali
https://www.sahistory.org.za/article/grade-7-term-1-kingdom-mali-and-city-timbuktu-14th-century
https://www.britannica.com/biography/Musa-I-of-Mali
(مبارک احمد منیر۔ برکینا فاسو)