• 9 مئی, 2025

مومنین کی شان یہ ہے کہ فتنے سے بچیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
پھر ایک مومن کی نشانی یہ بتائی کہ اِ نَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْآ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَھُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا۔ وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (النور: 52) مومنوں کا قول جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے محض یہ ہوتا ہے کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی اور یہی ہیں جو مراد پانے والے ہیں۔ اللہ اور رسول کی کامل اطاعت تبھی ہوگی جب ان تمام احکامات کی پیروی ہوگی جو اللہ اور رسول نے دیئے ہیں۔ صرف منہ سے کہہ دینا کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی کافی نہیں۔ مثلاً اہم معاملات میں جو مسائل اور جھگڑے کھڑے ہوتے ہیں اُن میں بھی اللہ اور رسول کا حکم ہے کہ میرے امیرکی اور نظام کی اطاعت کرو۔ اس کی پوری پابندی کرنا بھی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے کہ فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (النّسآء :66) نہیں، تیرے ربّ کی قسم وہ کبھی ایمان نہیں لاسکتے جب تک وہ تجھے ان امور میں منصف نہ بنالیں جن میں ان کے درمیان جھگڑا ہوا ہے پھر توُجو بھی فیصلہ کرے اس کے متعلق وہ اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور کامل فرمانبرداری اختیار کریں۔ یہ صرف آنحضرتﷺ کے بارے میں نہیں ہے گو پہلے مخاطب آپؐ ہی ہیں، اس کے بعد آپ کانظام ہے۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے امیر کی اطاعت اور نظام کی اطاعت کا بھی حکم دیا ہے۔ خلفاء اور نظام جماعت کی اطاعت بھی ہر ایک مومن پر جو بیعت میں شامل ہے، ماننے والا ہے، حقیقی مومن ہے، اس کی پابندی کرنا ضروری ہے۔ اور اطاعت اور فیصلوں کی پابندی صرف نہیں کرنی بلکہ خوشی سے ان کو ماننا ہے۔ سزا کے ڈر سے نہیں ماننا بلکہ اطاعت کے جذبے سے اور یہی چیز ہے جو مسلمانوں میں مضبوطی پیدا کرنے والی ہوگی۔

پس ہر احمدی کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جھگڑوں کی صورت میں، (جو ذاتی جھگڑے ہوتے ہیں)، اپنے دماغ میں سوچے ہوئے فیصلوں کو اہمیت نہ دیا کریں بلکہ نظام کی طرف سے جو فیصلہ ہو جائے، قضا کی طرف سے ہوجائے جو کئی مرحلوں میں سے گزرنے کے بعدہوتاہے اسے اہمیت دیں۔ پھر بعض وقت خلیفہ ٔوقت کی طرف سے بھی انہی فیصلوں پر صاد ہوتا ہے۔ اس کے باوجود یہ زور ہوتا ہے کہ نہیں، فیصلہ غلط ہوا ہے۔ ٹھیک ہے، فیصلہ غلط ہوسکتاہے لیکن فیصلہ کرنے والے کی نیت پر شبہ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس سے پھر فتنہ پیدا ہوتا ہے۔ اور پھر مسلسل اس کے خلاف باتیں کرنا اور پھر یہ کہنا کہ اب مجھے دنیاوی عدالتوں میں بھی جانے کی اجازت دی جائے تو یہ ایک مومن کی شان نہیں ہے۔ مومن وہی ہیں جو خوشی سے اس فیصلے کو تسلیم کرلیں۔ اگر کسی نے اپنی لفاظی کی وجہ سے یا دلائل کی وجہ سے اپنے حق میں فیصلہ کروالیا ہے یا غلط ریکارڈ کی وجہ سے فیصلہ کروالیا ہے اور دوسرا فریق اپنی کم علمی کی وجہ سے یا ریکارڈ میں کمی کی و جہ سے اپنے حق سے محروم بھی ہوگیا ہے توپھر اللہ کے رسولﷺ کا یہ ارشادہے کہ غلط فیصلہ کروانے والا آگ کا گولہ لیتا ہے یا اپنے پیٹ میں بھرتا ہے تو پھر وہ اس کا اور خدا کامعاملہ ہوگیا۔

(صحیح بخاری کتاب الشہادات باب من اقام البینۃ بعد الیمین حدیث نمبر 2680)

مومنین کی شان یہ ہے کہ فتنے سے بچیں۔ نظام کے خلاف باتیں کرکے، بول کر اپنے حق سے محروم کئے جانے والا شخص اگر اپنے زُعم میں، اپنے خیال میں اپنے آپ کو صحیح بھی سمجھ رہا ہے تو اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو بھی ایمان سے محروم کررہا ہوتا ہے۔ بعض دفعہ یہ چیز دیکھنے میں آتی ہے۔ پس مومن کی ایک بہت بڑی خصوصیت اطاعت ہے۔ امن قائم کرنے کے لئے تھوڑا سا نقصان بھی برداشت کرنا ہو تو کرلینا چاہئے اور اطاعت کو ہر چیز پر حاوی کرنا چاہئے اور اس کو ہر چیز پر مقدم سمجھنا چاہئے۔ اللہ کی رضا کے حصول کی کوشش کرنا اور اس پر توکُّل کرنا ایسی چیز ہے جس پر اللہ تعالیٰ انعامات سے نوازتا ہے اور پھر ایسے ذرائع سے مددفرماتا ہے کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا یہ بھی اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ ایک جگہ مومنین کی یہ خصوصیت بیان فرماتا ہے کہ اِنَّمَا یُؤۡمِنُ بِاٰیٰتِنَا الَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِّرُوۡا بِہَا خَرُّوۡا سُجَّدًا وَّ سَبَّحُوۡا بِحَمۡدِ رَبِّہِمۡ وَ ہُمۡ لَا یَسۡتَکۡبِرُوۡنَ (السجدۃ: 16) یقینا ہماری آیات پر وہی لوگ ایمان لاتے ہیں کہ جب اُن آیات کے ذریعہ سے انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدہ کرتے ہوئے گرجاتے ہیں اور اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے۔

پس جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی آیات ایک مومن کو خوف میں بڑھاتی ہیں اور اس کے ایمان میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ پس خوف اور ایمان میں بڑھتے ہوئے اور اس دلی خواہش کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ کے قرب پانے والے بنیں، مومنین تسبیح کرتے ہیں، حمدکرتے ہیں، عبادتوں کی طرف توجہ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کے حوالے سے جو بات کی جائے توپھراطاعت کرتے ہیں اور اپنے آپ کو ایمان میں بڑھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ان خصوصیات کا حامل بنائے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’مومن کی تعریف یہ ہے کہ خیرات و صدقہ وغیرہ جو خدا نے اس پر فرض ٹھہرایا ہے بجالاوے اور ہر ایک کارِخیر کرنے میں اس کو ذاتی محبت ہو اور کسی تصنع و نمائش وریاء کو اس میں دخل نہ ہو۔ یہ حالت مومن کی اس کے سچے اخلاص اور تعلق کو ظاہر کرتی ہے اور ایک سچا اور مضبوط رشتہ اس کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ پیدا کردیتی ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ اس کی زبان ہوجاتاہے جس سے وہ بولتا ہے اور اس کے کان ہوجاتا ہے جس سے وہ سنتا ہے اور اس کے ہاتھ ہوجاتا ہے جس سے وہ کام کرتاہے۔ الغرض ہرایک فعل اس کا اور ہر حرکت اور سکون اس کا اللہ ہی کا ہوتاہے۔ اس وقت جو اس سے دشمنی کرتا ہے وہ خدا سے دشمنی کرتا ہے اور پھر فرماتا ہے کہ مَیں کسی بات میں اس قدر تردّد نہیں کرتا جس قدر کہ اس کی موت میں۔ قرآن شریف میں لکھا ہے کہ مومن اور غیرمومن میں ہمیشہ فرق رکھ دیا جاتا ہے۔ غلام کو چاہئے کہ ہر وقت رضائے الٰہی کو ماننے اور ہر ایک رضا کے سامنے سر تسلیم خم کرنے میں دریغ نہ کرے۔ کون ہے جو عبودیت سے انکار کرکے خدا کو اپنا محکوم بنانا چاہتا ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد نمبر3 صفحہ344-343۔ایڈیشن1988ء)

اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اللہ تعالیٰ سے ایک سچا اور مضبوط رشتہ قائم کرتے ہوئے ان تمام خصوصیات کو اپنانے والے بنیں جو ایک سچے مومن کے لئے ضروری ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں اپنی رضا کی راہوں پر چلائے اور ہمیں اپنے فضلوں کی چادر میں ہمیشہ لپیٹے رکھے۔

(خطبہ جمعہ 13؍ جولائی 2007ء)
(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ 27جولائی تا 9اگست2007ء ص15تا18)

٭…٭…٭

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 نومبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 نومبر 2020