• 20 جولائی, 2025

سورۃ القصص اور العنکبوت کا تعارف (ازحضرت خلیفۃ المسیح الرابع)

سورۃ القصص اور العنکبوت کا تعارف
ازحضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ

سورۃ القصص

ىہ مکى سورت ہے اور بسم اللہ سمىت اس کى نواسى آىات ہىں۔

اس سورت کا آغاز بھى طٰسٓمٓ ہى سے ہوا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ طىّب، سمىع اور علىم کے مضمون کو جارى رکھا جا رہا ہے جس کى تشرىح اس سے پہلے پىش کر دى گئى ہے۔

گزشتہ سورت مىں جس طرح آئندہ پورے ہونے والے عظىم نشانات کا ذکر ہے اسى طرح اس سورت مىں بىان فرماىا جا رہا ہے کہ اللہ تعالىٰ ماضى کا بھى وىسا ہى علم رکھتا ہے جس طرح آئندہ کا علم رکھتا ہے۔ اور اس ضمن مىں حضرت موسىٰ علىہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق وہ علم آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم کو عطا فرماىا گىا جو بہت سے معجزات پر مشتمل ہے۔ مختصراً ىہ کہ وہ پانى جو اىک چھوٹے سے معصوم بچے حضرت موسىٰ ؑ کو غرق نہ کر سکا وہى پانى فرعون اور اس کى فوجوں کو غرق کرنے کا موجب ہو گىا۔

 اس کے بعد ىہ ذکر ہے کہ اس زمانہ کے ىہود تىرا انکار کرتے ہوئے کہتے ہىں کہ اگر موسىٰ ؑ کى طرح تجھ پر نشانات نازل ہوں تو ہم انکار نہىں کرىں گے۔ مگر وہ اس بات کو بھول جاتے ہىں کہ موسىٰؑ کے زمانہ مىں ظاہر ہونے والے نشانات کو بھى تو ىہودى قوم نے جھٹلا دىا تھا ورنہ ىہ سب نشان دىکھ کر وہ بت پرستى کى طرف مائل نہ ہوتے۔

سب انکار کرنے والے خواہ وہ ماضى کے ہوں ىا رسول اللہ صلى اللہ علىہ وسلم کے زمانہ کے،بعىنہٖ اُن کى اىک ہى طرح کى ٹىڑھى روش ہوتى ہے کہ پہلوں کے نشانات پر بظاہر اىمان لاتے ہىں اور اسى قسم کے نشانات کو جب آنکھوں کے سامنے نازل ہوتا ہوا دىکھتے ہىں تو ان کا انکار کر دىتے ہىں۔

اس کے بعد ان اہلِ کتاب کا ذکر ہے جو پہلے بھى حضرت موسىٰ علىہ الصلوٰۃ والسلام پر سچا اىمان لائے تھے اور جب آ نحضرت صلى اللہ علىہ وسلم پر نازل ہونے والے معجزات کو انہوں نے دىکھا تو اپنى پاک فطرت کى وجہ سے ان پر بھى اىمان لے آئے تو گوىا دوہرے اجر کے مستحق ہو گئے۔ حضرت موسىٰ علىہ الصلوٰۃ والسلام پر اىمان کا بھى ان کو اجر ملے گا اور آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم پر اىمان لانے کا بھى ان کو اجر عطا ہو گا۔

اس تمام بحث کا نتىجہ ىہ نکالا گىا ہے کہ ہداىت کو انسان بزور بازو حاصل نہىں کر سکتا بلکہ سعىد فطرت لوگوں کو اللہ تعالىٰ خود ہى ہداىت فرماتا ہے۔ اور پھر ىہ بھى ذکر فرما دىا کہ اس سے پہلے جو کثرت سے ہلاک ہونے والى قوموں کا ذکر ملتا ہے وہ اس لئے نہىں کہ گوىا اللہ تعالىٰ نے ان پر ظلم کىا بلکہ وہ خود اپنے ہى ظلموں کا نشانہ بن گئے جو وہ اپنى جان پر اور اپنے وقت کے انبىاء پر کىا کرتے تھے۔

اس کے بعد قرآن کرىم ىہ ذکر فرماتا ہے کہ اندھىروں کو ہمىشہ کے لئے انسان پر مسلّط نہىں کىا جاتا جىسا کہ زمىن مىں بھى رات اور دن آپس مىں بدلتے رہتے ہىں۔ اور اىک نہاىت ہى اعلىٰ درجہ کے فصىح و بلىغ کلام مىں متنبہ کىا گىا کہ اگر رات ہمىشہ کے لئے مسلّط ہوتى تو اُن اندھىروں مىں تم دىکھ تو نہىں سکتے تھے مگر سننے کے کان ہوتے تو سن تو سکتے تھے۔ پس ان کو ظلمات کے خطرات سے آگاہ کىا جا رہا ہے۔ پھر اگر دن ہمىشہ کے لئے مسلّط ہوتا تو نہ سننے والوں کو بھى دن کى روشنى مىں تو رستہ دکھائى دىنا چاہئے تھے۔ پھر وہ کىوں نہىں دىکھتے؟

اس کے بعد قارون کا ذکر فرماىا گىا جسے بے شمار دولت عطا کى گئى تھى اور لوگ حسرت سے اسے دىکھتے تھے کہ کاش! ان کو بھى وىسى ہى دولت ملے لىکن اس کا انجام ىہ ہوا کہ وہ اپنے خزانوں سمىت زمىن مىں دفن ہو گىا۔ اسى سورت کے شروع مىں ىہ تنبىہ کى گئى تھى کہ اللہ تعالىٰ صرف سمندروں مىں غرق کرنے کى ہى طاقت نہىں رکھتا بلکہ اگر اللہ چاہے تو بعض متکبرىن اپنى دولتوں سمىت ہمىشہ کے لئے زمىن مىں دفن کر دىئے جائىں۔ جىسا کہ فى زمانہ بھى ہم ىہى دىکھتے ہىں کہ زلزلوں سے زمىن پھٹتى ہے اور کثىر آبادىاں اور اس زمانہ کى بڑى بڑى بھارى اىجادات زمىن مىں دفن ہو جاتى ہىں اور پھر کوئى ان کا نام و نشان نہىں ملتا۔

ان آىات کے بعد اىک اىسى آىت (نمبر86) ہے جو دشمنوں پر قطعى طور پر ىہ ثابت کرنے کے لئے کافى تھى کہ ىہ اللہ کا کلام ہے اس نے بہر حال پورا ہو کر رہنا ہے اور وہ ىہ تھى کہ تجھے ہم دوبارہ معاد ىعنى مکہ مىں داخل کرىں گے۔ پس انہوں نے اپنى آنکھوں کے سامنے اس معجزہ کو پورا ہوتے دىکھ لىا۔ پھر ماضى ىا مستقبل کى پىشگوئىوں مىں شک کى کونسى گنجائش رہ جاتى ہے ؟ پھر نتىجہ ىہى نکالا گىا کہ توحىد بارى تعالىٰ کے سوا کچھ بھى ثابت نہىں۔ جو ہلاکت کے ذکر گزرے ہىں ان سے پتہ چلتا ہے کہ ہر چىز ہلاک ہونے والى ہے خواہ وہ اللہ کے غضب کے نىچےآکر ہلاک ہو ىا قانون ِ قدرت کے تابع اپنے انجام کو پہنچے۔ صرف اىک اللہ کا جلوہ ہے جو دائمى ہے۔

(قرآن کرىم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلىفۃ المسىح الرابعؒ، صفحہ665-666)

 سورۃ العنکبوت

ىہ سورت مکى ہے اور بسم اللہ سمىت اس کى ستر آىات ہىں۔

اس سورت کا آغاز اىک دفعہ پھر الٓمٓ سے کىا گىا ہے جس مىں ىہ اشارہ بھى مضمر ہو سکتا ہے کہ اىک دفعہ پھر اللہ تعالىٰ سورۃ البقرہ کے مضامىن کو نئے انداز مىں دہرائے گا۔ چنانچہ جىسا کہ سورۃ البقرۃ مىں ىہود کا ذکر تھا کہ اُن کا اىمان لانا اس وقت تک اللہ تعالىٰ کو قبول نہ ہو ا جب تک وہ آزمائشوں پر پُورا نہ اُترے۔ اب اس سورت مىں بھى اسى مضمون کا اعادہ ہے۔ اس دور ىعنى آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم کے دور مىں بھى پہلے لوگوں کى طرح محض اىمان کا دعوىٰ کرنا کافى نہىں ہو گا بلکہ لازماً تمام آزمائشوں سے گزرنا ہو گا جن سے پہلى قوموں کو گزارا گىا۔

اس کے بعد اللہ تعالىٰ فرماتا ہے کہ بعض لوگوں کو اپنے ماں باپ کى طرف سے بھى کڑى آزمائش کا سامنا ہوتا ہے جو مشرک ہونے کى بنا پر اپنے بچوں کو شرک کى طرف بلاتے ہىں۔ مگر انسان کو ىاد رکھنا چاہئے کہ ماں باپ جن کے حق مىں اللہ تعالىٰ نے احسان کى تعلىم دى ہے ان سے بہت بڑھ کر اللہ کا اپنے بندوں پر احسان ہے اس لئے کسى قىمت پر بھى وہ ماں باپ کى خاطر شرک کو قبول نہ کرىں۔

جس طرح سورۃ البقرۃ کے آغاز مىں ہى منافقىن کا ذکر ملتا ہے اور ان کى اندرونى بىمارىوں سے پردہ اٹھاىا گىا ہے اسى طرح اس سورت مىں بھى اب منافقىن کا ذکر چلتا ہے اور ان کى طرح طرح کى روحانى بىمارىوں کا تجزىہ فرماىا جا رہا ہے۔

اىمان کا دعوىٰ کرنے والے اس آزمائش مىں سے بھى گزرتے ہىں کہ ان کے بڑے لوگ ان کو کہتے ہىں کہ ہمارے پىچھے لگ جاؤ۔ اگر ہمارا مسلک غلط بھى ہوا تو ہم تمہارے بوجھ اٹھا لىں گے۔ حالانکہ ىہ دعوىٰ کرنے والے تو نہ صرف اپنا بوجھ اٹھائىں گے بلکہ اپنے متبعىن کو گمراہ کرنے کا بوجھ بھى اٹھائىں گے اور اس امر کا فىصلہ قىامت کے دن ہى ہوگا کہ وہ اللہ تعالىٰ پر کىسے کىسے افترا باندھا کرتے تھے۔

اس کے بعد حضرت نوح ؑ، حضرت ابراہىم ؑ، حضرت لوط ؑ اور بہت سے اىسے گزشتہ انبىاء کى قوموں کا ذکر ہے جو اپنے وقت کے رسولوں کى مخالفت کى وجہ سے ہلاک کى گئىں اور ان کے نشانات اس زمىن مىں آج تک باقى ہىں۔ آثارقدىمہ کا علم رکھنے والے بہت سى قوموں کا کھوج لگا بھى چکے ہىں اور بہت سى قوموں کا کھوج لگانا ابھى باقى ہے۔ ىہاں تک کہ کشتىٔ نوح کے متعلق بھى دعوىٰ کىا جاتا ہے کہ آثار قدىمہ کے علماء اس کى کھوج سے غافل نہىں اور ضرور اىک دن کھوج نکال لىں گے۔

اس کے بعد اس سورت کى مرکزى آىت ( نمبر 42) مىں، جس کا سورت کے عنوان العنکبوت سے تعلق ہے، ىہ ذکر فرماىا جا رہا ہے کہ جو لوگ بھى اللہ کے سوا معبود ٹھہراتے ہىں ان کى مثال تو اىک مکڑى کى سى ہے جو اىک بہت پىچ دار جالا بُنتى ہے۔ اس طرح ان لوگوں کے استدلال بھى نہاىت پىچ دار مگر فى الحقىقت نہاىت احمقانہ ہىں۔ اور ان مىں پھنسنے والوں کى مثال بھى ان احمق مکھىوں کى طرح ہے جو مکڑى کے جالے مىں پھنس کر اس کا شکار ہو جاتى ہىں اور انہىں علم نہىں کہ مکڑى کے جالے سے کمزور تر اَور کوئى پھندا نہىں۔

مکڑى کے جالے مىں ىہ تضاد پاىا جاتا ہے کہ اگرچہ اس کے لعاب سے پىدا ہونے والے دھاگے مىں اتنى طاقت ہوتى ہے کہ اس موٹائى اور وزن کے لوہے کے دھاگے مىں بھى وىسى طاقت نہىں ہوتى مگر اس کے باوجود وہ اىک کمزور ترىن پھندا ثابت ہو تا ہے۔ پس دشمنوں کے لئے اىک چىلنج ہے کہ وہ مضبوط پھندے بھى بنا کر دىکھ لىں ان کا حشر مکڑى کے بنائے ہوئے پھندے کے سوا کچھ نہىں ہو گا جو بظاہر مضبوط ہے مگر حقىقتاً انتہائى کمزور ثابت ہو تا ہے۔

اس سورت کى آخرى آىت مىں اللہ تعالىٰ ان لوگوں کو جو اُسے اخلاص سے تلاش کرتے ہىں ىہ خوشخبرى دىتا ہے کہ ان کا کوئى بھى مسلک ہو، اگر اللہ چاہے تو انہىں بالآخر صراطِ مستقىم تک پہنچا دے گا۔ اور دنىا کے ہر مذہب مىں وہ سچائىاں موجود ہىں کہ ان پر غور کرنے کے نتىجہ مىں بالآخر اسلام کى سچائى اور صراطِ مستقىم کى طرف ان کى ہداىت ممکن ہے، اگر اللہ چاہے۔

(قرآن کرىم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلىفۃ المسىح الرابعؒ، صفحہ683-684)

(عائشہ چوہدری۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

انڈیکس مضامین جولائی 2021ء الفضل آن لائن لندن

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ