• 23 اپریل, 2024

آؤ!اُردو سیکھیں (سبق نمبر24)

آؤ!اُردو سیکھیں
سبق نمبر24

گزشتہ چند اسباق سے حروفِ ربط پر بحث جارى ہے۔ آج ہم موضوع کو تبدىل کرىں گے اور آج کے سبق مىں ہم مذکر و مونث ىا اسم کى جنس کے متعلق بحث کرىں گے۔

جنس

جنس کا مطلب ىہ ہے کہ ىہ جاننا کہ اىک اسم ىا چىز، چاہے وہ جاندار ہو ىا بےجان، مذکر ہے ىا مونث ہے۔ اس کى دو اقسام ہىں، حقىقى اور مصنوعى

حقىقى جنس

اس سے مراد جاندار اشىاء کى جنس ہے، اس کى تىن اقسام ىا کلاسز ہىں اىک نر ىعنى مذکر دوسرى مادہ ىعنى مونث اور تىسرى جو نہ نر ہے نہ مادہ۔ اس کے علاوہ اردو زبان نے بے جان اشىاء کو بھى مذکر اور مونث مىں تقسىم کىا ہے جىسے کرسى مونث ہے اور مىز مذکر۔ دوسرى زبانوں مىں ىہ اصول مختلف ہىں۔ جىسے انگرىزى زبان مىں عام طور پہ بے جان اشىاء کو نىوٹرل رکھا جاتا ہے ىعنى وہ نہ مذکر ہوتى ہىں نہ مونث مگر ىہ قاعدہ ہر بے جان چىز ىا اسم پر لاگو نہىں ہوتا، جىسے لفظ ’ملک‘ اردو مىں مذکر ہے مگر انگرىزى زبان مىں مونث۔

مصنوعى جنس

اردو مىں جنس کى دواقسام تو ہىں ىعنى مذکر اور مونث، مگر مصنوعى جنس کا استعمال بھى ہوتا ہے۔

اردو مىں جب کسى چىز کے مذکر ىا مونث ہونے کے لىے کوئى لفظ مخصوص نہ ہو تو مذکرلفظ کى شکل تبدىل کرکے مونث اور مونث لفظ کى شکل تبدىل کرکے مذکر بنا لىا جاتا ہے۔ اسى کو مصنوعى جنس کہا جاتا ہے۔ اکثر اس مقصد کے لىے اس لفظ کا آخرى جز ىا حرف بدل دىا جاتا ہے۔

امثال

شىشہ (اصل لفظ مذکر)

شىشى (مصنوعى جنس مونث کىونکہ چىز چھوٹى ہے، اور اس کو مونث بنانے کے لىے شىشہ کا آخرى جز ’ہ‘ کو ’ى‘ سے بدل دىا گىا)

چمچ (اصل لفظ مذکر)

چمچى (مصنوعى جنس مونث کىونکہ چىز چھوٹى ہے، اور اس کو مونث بنانے کے لىے چمچ کے آخر پہ ’ى‘ کا اضافہ کىا گىا)

بچہ سے بچى

عام اصول

اردو زبان مىں عام طور پہ بڑى، بھارى بھرکم، قوى اور عظىم الشان چىزىں مذکر ہىں جىسے پہاڑ، درىا، سمندر، صحرا، ملک، بادشاہ، مذہب وغىرہ۔ جبکہ چھوٹى، کمزور، اور ہلکى پھلکى چىزىں مونث ہىں جىسے ندى، روح، آنکھ، پہاڑى وغىرہ۔ اس کے علاوہ اگر اصل لفظ مذکر ہو جىسے پہاڑ اور اس کى چھوٹى، کمزور ىا ہلکى صورت بىان کرنى ہو تو اسے مونث بنالىا جاتا ہے جىسے پہاڑ سے پہاڑى۔ اسى طرح اگر اصل لفظ مونث ہو اور اس کى بڑى ىا بھارى بھرکم شکل بىان کرنى ہو تو اسے مذکر بنالىا جاتا ہے۔جىسے رسّى سے رسّا، گولى سے گولہ، پگڑى سے پگ ىا پگڑوغىرہ۔

علامت

اردو مىں مذکر الفاظ کے آخر پہ عام طور پہ (ا) آتا ہے جىسے لڑکا، اور مونث الفاظ کے آخر پہ (ى) آتى ہے جىسے لڑکى۔

مشکلات

ىہاں اىک بات ىاد رکھنے کے قابل ہے کہ اردو زبان مىں مذکر و مونث کا اصول کافى الجھا ہوا ہے کوئى اىسا قانون ىا اصول نہىں جو جب سب صورتوں پر لگتا ہو اس لىے اردو زبان مىں مذکر ومونث الفاظ کے درست استعمال کے لىے مطالعہ بہت ضرورى ہے۔ اس مشکل کى اىک بڑى وجہ ىہ ہے کہ اردو کے زىادہ تر الفاظ ہندى اور سنسکرت سے آئے ہىں لىکن بہت زىادہ تبدىل ہوچکے ہىں،خاص طور پہ ان الفاظ کا آخرى حرف غائب ہوگىا ہے ىا بدل دىا گىا ہے، جبکہ مذکر اور مونث ہونے کا علم ہى آخرى حرف سے ہوتا ہے۔

جان داروں مىں مذکر و مونث

اردو زبان مىں جاندار اور بے جان دونوں اقسام مىں مذکر و مونث کا فرق کىا جاتا ہے۔ تاہم جانداروں مىں مذکر اور مونث مىں فرق کرنا آسان ہے۔ اس کى وجہ ىہ ہے کہ بےجان چىزوں مىں اىسى علامتىں نہىں ہوتىں جن سے ان کے مذکر ىا مونث ہونے کا اندازہ لگاىا جاسکے۔

جانداروں مىں مذکر ومونث کے قواعد

۱۔جن الفاظ کے آخر پہ (ا) ىا (ہ) ہوگى وہ مذکر ہونگے۔ جىسے لڑکا، گھوڑا، بندہ وغىرہ لىکن عربى کے اىسے الفاظ جن کے آخر پہ (ہ) بذات خود مونث کى علامت ہو جىسے والدہ، ملکہ وغىرہ ىا اىسے الفاظ جن کے آخر پہ (ىٰ ىعنى الف مقصورہ) آئے جس کا مقصد اس انسان ىا چىز کى فضىلت بىان کرنا ہوتى ہے جىسے کبرىٰ، صغرىٰ وغىرہ تو اىسے الفاظ اس قاعدے ىعنى اصول سے مستثنىٰ ہوں گے۔

ىا ہندى زبان کے اىسے الفاظ جن کے آخر پہ (ىا) اس لىے آتا ہے تاکہ ان کا چھوٹا اور مونث ہونا ظاہر کىا جاسکے وہ بھى اس قاعدے کے تحت نہىں آئىں گے۔ جىسے چڑىا، بڑھىا، بندرىا وغىرہ۔

۲۔ جن الفاظ کے آخر پہ (ى) آئے وہ مونث ہوتے ہىں۔ جىسے گھوڑى، ٹوپى، لڑکى، وغىرہ۔ مگر ىہاں بھى استثنائى الفاظ موجود ہىں جىسے پانى، موتى، گھى، جى(دل کى خواہش)، ہاتھى، دہى وغىرہ سب مذکر ہىں۔

وہ الفاظ جو اس قاعدے کے تحت نہىں آتے ىعنى مستثنىٰ ہىں وہ اصل مىں قدىم زبان سنسکرت کے بگڑے ہوئے الفاظ ہىں۔ سنسکرت الفاظ کے آخر مىں (ى) نہىں ہوتا۔ ہوا ىہ کہ ان الفاظ کى جنس تو وہى رہى جو سنسکرت مىں تھى البتہ شکل بگڑ گئى۔ اب دىکھنے مىں وہ مونث لگتے ہىں مگر انھىں اردو مىں مذکر لکھا اور بولا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ بعض پىشہ وروں کے نام بھى اس قاعدے کے تحت مونث نہىں ہىں۔ ان کے آخر پہ (ى) آتى ہے مگر وہ مذکر ہىں جىسے دھوبى، مالى، تىلى وغىرہ۔ پھر اىسى صورتوں مىں جہاں الفاظ کے آخر مىں آنے والى(ى) کسى کى نسبت ىا قومىت (نىشلىٹى) ظاہر کرتى ہے۔ وہاں بھى اىسے الفاظ اس قاعدے کے تحت مونث نہىں ہوتے۔ جىسے پاکستانى، بھارتى، پنجابى، بنگالى، احمدى وغىرہ

جىسا کہ ان اسباق کے آغاز مىں ہم نے بىان کىا تھا کہ اردو مىں وہ الفاظ جو عربى ىا فارسى وغىرہ سے آئے ہىں ان پہ گرامر کے قواعد بھى انھىں زبانوں کے ہىں۔ ىا ىہ کہہ لىجىے کہ ابھى اردو نے ان الفاظ کو کسى اىک اصول کے تحت لانے کے لىے کام نہىں کىا۔

پس فارسى او رعربى کے الفاظ پر ىہ قاعدہ کہ جس لفظ کے آخر پہ (ى) آئے وہ مونث ہوتا ہے۔ پورى طرح اطلاق نہىں پاتا۔ ىعنى اثر نہىں کرتا۔

اس لىے بہت سے اىسے الفاظ ہىں جن کے آخر مىں (ى) آتا ہے مگر وہ مونث نہىں ہىں بلکہ مذکر ہىں۔ جىسے قاضى، منشى وغىرہ

حضرت مسىح موعودؑ فرماتے ہىں:
اللہ تعالىٰ ہر چىز پہ قادر ہے، لىکن جن کو تفرقہ اور ابتلاء نہىں آتا ان کا حال دىکھو کہ کىسا ہوتا ہے۔ وہ بالکل دنىا اور اس کى خواہشوں مىں منہمک ہوگئے ہىں اُن کا سر اوپر کى طرف نہىں اُٹھتا۔ خدا تعالىٰ کا ان کو بھول کر بھى خىال نہىں آتا۔ ىہ وہ لوگ ہىں جنہوں نے اعلىٰ درجہ کى خوبىوں کو ضائع کردىا اور بجائے اس کے ادنىٰ درجہ کى باتىں حاصل کىں، کىونکہ اىمان اور عرفان کى ترقى ان کے لىے وہ راحت اور اطمىنان کے سامان پىدا کرتے جو کسى مال و دولت اور دنىا کى لذت مىں نہىں ہىں۔ مگر افسوس کہ وہ اىک بچہ کى طرح آگ کے انگارہ پہ خوش ہوجاتے ہىں اور اس کى سوزش اور نقصان رسانى سے آگاہ نہىں، لىکن جن پراللہ تعالىٰ کا فضل ہوتا ہے اور جن کو اىمان اور ىقىن کى دولت سے مالامال کرتا ہے ان پر ابتلاء آتا ہے۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ2 اىڈىشن 2016ء)

اقتباس کے مشکل الفاظ کے معنى

تفرقہ: Discrimination

فرق کرنا تفرىق کرنا، ىعنى جب انسان خدا تعالىٰ کے احکامات کو مانتا ہے تو معاشرہ اس سے امتىازى سلوک کرتا ہے۔ الگ کرتا ہے۔ جىسے احمدىوں کو اس تفرىق کا سامنہ کرنا پڑتا ہے۔

ابتلاء: آزمائش، امتحان، مشکلات وغىرہ

بالکل: Completely/ entirely/ wholly

منہمک: کھو جانا، ڈوب جانا، سراسر اپنا لىنا۔ پورى توجہ اس طرف موڑ دىنا۔

سر اوپر نہىں اٹھتا: ىعنى دنىا کے کاموں مىں سارى دلچسپى ہے، کسى علمى، ادبى، روحانى کام کى طرف توجہ نہىں کرتے۔ خاص طور پہ دىن کى طرف سے لا پرواہ ہىں۔

بھول کر بھى خىال نہ آنا: محاورہ ہے۔ىعنى اىک بات کا بالکل خىال نہ آنا۔ پورى طرح سے اسے بھول جانا۔ جىسے کہ وہ ان کى فطرت بن جاتى ہے اور اس سے ہٹ کے انھىں خىال آتا ہى نہىں۔

ادنىٰ درجہ کى باتىں: کم قىمت، کم حىثىت باتىں، کام وغىرہ۔

سوزش: جلنے سے ہونے والى تکلىف۔ سوجن، تکلىف اور غم وغىرہ۔

نقصان رسانى: Damaging/side effects

(عاطف وقاص۔ ٹورنٹو کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

انڈیکس مضامین جولائی 2021ء الفضل آن لائن لندن

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ