• 10 مئی, 2025

بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
(حضرت مسیح موعودؑ نے) فرمایا: خداتعالیٰ کی یہ عادت ہر گز نہیں کہ جو اس کے حضور عاجزی سے گر پڑے وہ اسے خائب و خاسر کرے اور ذلت کی موت دیوے۔ جو اس کی طر ف آتاہے وہ کبھی ضائع نہیں ہوتا۔ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے ایسی نظیر ایک بھی نہ ملے گی کہ فلاں شخص کا خدا سے سچا تعلق تھا اور پھر و ہ نامراد رہا۔ خداتعالیٰ بندے سے یہ چاہتاہے کہ وہ اپنی نفسانی خواہش اس کے حضور پیش نہ کرے اور خالص ہو کر اس کی طرف جھک جاوے۔ جو اس طرح جھکتا ہے اسے کوئی تکلیف نہیں ہوتی اور ہر ایک مشکل سے خود بخود اس کے واسطے راہ نکل آتی ہے جیسے کہ وہ خود وعدہ فرماتاہے مَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا۔ وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِب اس جگہ رزق سے مراد صرف روٹی نہیں بلکہ عزت علم وغیرہ سب باتیں جن کی انسان کو ضرورت ہے اس میں داخل ہیں۔ خداتعالیٰ سے جو ذرہ بھر بھی تعلق رکھتاہے وہ کبھی ضائع نہیں ہوتا مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًایَّرَہٗ۔ ہمارے ملک ہندوستان میں نظام الدین صاحب اور قطب الدین صاحب اولیاء اللہ کی جو عزت کی جاتی ہے وہ اسی لئے ہے کہ خداتعالیٰ سے ان کا سچا تعلق تھا۔

(البدر جلد ۲نمبر۱۴ مورخہ ۲۴؍اپریل ۱۹۰۳صفحہ ۱۰۷)

پھر فرمایا: ’’خداتعالیٰ کی طرف قدم اٹھاؤاور پرہیز گاری کی باریک راہوں کی رعایت رکھو۔ سب سے اول اپنے دلوں میں انکسار اور صفائی اور اخلاص پیدا کرو اور سچ مچ دلوں کے حلیم اور سلیم اور غریب بن جاؤ کہ ہر یک خیر اور شرکا بیج پہلے دل ہی میں پیدا ہوتا ہے۔ اگر تیرا دل شر سے خالی ہو تو تیری زبان بھی شر سے خالی ہوگی اور ایسا ہی تیری آنکھ اور تیرے سارے اعضاء۔ ہر یک نور یا اندھیر اپہلے دل میں ہی پیدا ہوتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ تمام بدن پر محیط ہو جاتا ہے۔ سو اپنے دلوں کو ہر دم ٹٹولتے رہو۔‘‘

پھر آپ نے فرمایا: ’’اور عبادت کی فروع میں یہ بھی ہے کہ تم اس شخص سے بھی جو تم سے دشمنی رکھتا ہو ایسی ہی محبت کرو جس طرح اپنے آپ سے اور اپنے بیٹوں سے کرتے ہو اور یہ کہ تم دوسروں کی لغزشوں سے درگزر کرنے والے اور ان کی خطاؤں سے چشم پوشی کرنے والے بنو اور نیک دل اور پاک نفس ہو کر پرہیز گاروں والی صاف اور پاکیزہ زندگی گزارو۔ اور تم بری عادتوں سے پاک ہو کر باوفا اور باصفا زندگی بسر کرو۔ اور یہ کہ خلق اللہ کے لئے بلاتکلف وتصنع بعض نباتات کی مانند نفع رساں وجود بن جاؤ۔ اور یہ کہ تم اپنے کبر سے اپنے کسی چھوٹے بھائی کو دکھ نہ دو۔ اور نہ کسی بات سے اس (کے دل) کو زخمی کرو۔ بلکہ تم پر واجب ہے کہ اپنے ناراض بھائی کو خاکساری سے جواب دو اور اسے مخاطب کرنے میں اس کی تحقیر نہ کرو اور مرنے سے پہلے مرجاؤ اور اپنے آپ کو مُردوں میں شمار کرلو اور جو کوئی (ملنے کے لئے) تمہارے پاس آئے اس کی عزت کرو خواہ وہ پرانے بوسیدہ کپڑوں میں ہو نہ کہ نئے جوڑوں اور عمدہ لباس میں اور تم ہر شخص کو السلام علیکم کہو خواہ تم اسے پہچانتے ہو یا نہ پہچانتے ہو اور (لوگوں کی) غم خواری کے لئے ہر دم تیار کھڑے رہو۔‘‘

(ترجمہ عربی عبارت اعجاز المسیح) از تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد اول صفحہ۲۰۳)

خلاصہ ان باتوں کا یہ ہوا کہ تم عاجزی دکھانے والے تب شمارکئے جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے تب ہوگے جب تم اپنے سے نفرت کرنے والوں سے بھی محبت کرو، جب ضرورت ہوتو ان کے کام آؤ اور ان کے لئے دعا کرو۔ اور پھر دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرنے والے بنو۔ غلطیوں کی وجہ سے کسی کے پیچھے نہ پڑ جاؤ۔ اور ان کی تشہیر نہ کرتے پھرو۔ کسی کی غلطی کو دیکھ کر دوسروں کو بتاتے نہ پھرو بلکہ پردہ پوشی کی بھی عادت ڈالو۔

پھر اس میں یہ بھی فرمایا کہ اپنے دل کو ٹٹولتے رہو، اس کو پاک رکھنے کی کوشش کرو، اپنا خود محاسبہ کرتے رہو۔ کسی کے لئے بھی دل میں کینہ، نفرت، بغض، حسد وغیرہ نہ ہو۔ کیونکہ اگر یہ چیزیں دل میں ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ دل بڑائی اور تکبر سے بھرا ہواہے اور اس میں عاجزی نہیں ہے۔ پھر کسی کو اپنی باتوں سے دکھ نہ دو اور ہر ایک کی عزت کرو۔ چاہے کو ئی غریب ہو، فقیر ہو، کم طاقت کا ہو یا ماتحت ہو یا ملازم ہو سب کی عزت کرو۔ پھر سلام کہنے کی عادت ڈالو۔ اس سے بھی معاشرے میں محبت اور بھائی چارے کی فضا پیدا ہوتی ہے اور عاجزی اور انکساری بڑھنے کے مواقع پیدا ہوتے ہیں، اپنے اندر بھی اور دوسرے ماحول میں بھی۔ تو فرمایا کہ یہ کام تو بہت مشکل ہے اور یہ تب ہی کرسکتے ہو جب گویا کہ اپنے آپ کو مار لیا، اپنے نفس کو بالکل ختم کردیا۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر نہیں ہو سکتا اس لئے ہمیشہ اس کا فضل مانگتے رہو۔ اس کے سامنے جھکے رہواوردعائیں کرتے رہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عاجزی اور انکساری کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اس بارہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے چند شعرہیں وہ مَیں پڑھتاہوں

؎اے کرم خاک چھوڑ دے کبر و غرور کو
زیبا ہے کبر حضرت رب غیور کو
بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں
شاید اسی سے دخل ہو دارالوصال میں
چھوڑو غرور و کبر کہ تقویٰ اسی میں ہے
ہوجاؤ خاک مرضیٔ مولیٰ اسی میں ہے

اللہ تعالیٰ ہمیں ان سب نصائح پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

(خطبہ جمعہ 2؍ جنوری 2004ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 دسمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 دسمبر 2020