• 9 مئی, 2024

علم اور کتابوں کا عاشق درویش

کتاب خریدنا پڑھنا شروع کے خالی صفحات یا حاشیہ میں ضروری حوالے لکھنا، پڑھانا، سُنانا، تحفے میں دینا الماریوں میں ترتیب سے رکھنا ایک درویش کا محبوب مشغلہ تھا۔ حلقۂ احباب میں صاحبانِ علم اور صاحبانِ قلم شامل تھے۔ گھر کے معمولات میں صبح نماز باجماعت سے واپس آ کر تلاوت قرآن مجید کے بعد درس حدیث اور رات کو سونے سے پہلے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی کتب یاکوئی نئی چھپنے والی کتاب پڑھ کر سُنانا شامل تھا۔ لطف لے لے کر پڑھتے، بعض حصوں کو بار بار پڑھتے مفہوم سمجھاتے۔ پڑھنے کا انداز بہت پُراثر تھا۔ گھر میں بے شمار کتابیں تھیں۔ نئی طبع شدہ کتب کے پہلے خریدار ہوتے۔ کتاب خریدنے میں جلدی کرتے تاکہ ختم نہ ہو جائے۔ تفسیر کبیر پہلی جلد شائع ہوئی تو بڑی رغبت اور شوق سے حاصل کر کے اس پر ایک نوٹ تحریر کیا کہ
’’یہ بہت بڑا خزانہ مل گیا ہے۔ میری اولاد ہمیشہ اس سے فائدہ اُٹھاتی رہے‘‘۔

قادیان سے باہر بھی کسی مفید کتاب کا علم ہوتا تو خرید لاتے۔ مثلاً حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا سیٹ مکمل رکھنے کی کوشش میں تلاش جاری رہی۔ کچھ کتب قادیان میں موجود نہیں تھیں۔ معلوم ہوا کہ اہل پیغام نے طبع کی ہیں جماعت سے اجازت لے کر نہ صرف اپنے لئے بلکہ اپنے دوستوں کے لئے بھی خرید لائے۔ حضرت میر محمد اسحق صاحب ؓکے ترجمہ والا قرآن مجید شائع ہوا تو بچوں کے لئے کئی نسخے لے آئے۔ جماعت کی طرف سے جب کسی کتاب کا امتحان لیا جاتا آپ خود بھی شامل ہوتے اور بچوں سے بھی امتحان دلواتے۔ حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف شہید ؓ کی شہادت سے متعلق پنجابی اور اردو نظم کی کتابیں بہت عزیز تھیں۔ اکثر بڑے درد سے سناتے خود بھی روتے اور دوسرے بھی آبدیدہ ہو جاتے۔ آپ کے گرد کتاب سُننے کے شوقین اور سُننے کے ضرورت مند جمع رہتےخاص طور پر مکرم حافظ محمد رمضان صاحب کا ذکر ضروری ہے۔ آپ نابینا تھے مگر تعلیم و تدریس کا شوق رکھنے کی وجہ سے مولوی فاضل کیا۔ حافظ قرآن بھی تھے ان کو کتب پڑھ کر سُناتے۔ اسی طرح ہمارے نانا جان محترم حکیم اللہ بخش صاحب ؓ رات کو باوجود ضعیفی کے جاگتے رہتے اور انتظار کرتے کہ کب دُکان سے گھر آ کر کچھ پڑھ کر سُنائیں تو سن کر سوئیں

اس درویش کا تعارف کرادوں حضرت میاں فضل محمد صاحب ؓ کے دوسرے بیٹے ہرسیاں میں نومبر 1903ء میں پیدا ہوئے نام حضرت اقدس مسیح موعود ؑ نے عبدالرحیم رکھا تیرہ چودہ سال کی عمر میں خاندان کے ساتھ قادیان ہجرت کی چوتھی پانچویں جماعت تک سکول میں پڑھا پھر ایک واقعے کے نتیجے میں پڑھائی چھوڑ کر والد صاحب کی دکان پر کام کرنے لگے۔ پھر اپنا کاروبار الگ کرلیا۔ تاجر پیشہ تھے۔ باقاعدہ تحصیل علم کا موقع تو نہ مل سکا تھا مگر طبیعت میں علمی رجحان و ذوق بدرجہ اتم تھا اللہ تبارک تعالیٰ کی عطا کردہ ذہانت کی وجہ سے علمی نکات گہرائی میں اتر کر جلدی سمجھ لیتے اور حافظے میں محفوظ رکھتے۔ زمانہ بھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا پایا تھا جہاں علم کے دریا بہتے تھے جلسوں اور مباحثوں میں بڑی رغبت سے شامل ہوتے۔ اس طرح معلومات کا اچھا خاصا ذخیرہ جمع کر لیا تھا اور قدرت نے اسے استعمال کرنے کا خوب ملکہ عطا فرمایا تھا۔ گفتگو اور تحریر مؤثر دلچسپ، برجستہ ہوتی جو برمحل مثالی واقعات اور حوالوں سے مزین ہوتی۔ قادیان کی پرانی باتیں، احمدی بزرگوں کے حالات و واقعات بیان کرتے اور سماں باندھ دیتے۔

علم سے یہ عشق عمر بھر رہا اور اس سے جماعت کی خدمت کے بے مثال مواقع حاصل ہوئے۔تقسیم بر صغیر کے بعد حفاظت مرکز کے لئے قادیان میں رہنا پسند کیا۔ اس طرح درویشی کی سعادت نصیب ہوئی۔ درویش کا اپنے بیوی بچوں سے رابطے کا ذریعہ خطوط تھے ابا جان کے خطوط کا خزانہ کافی حد تک محفوظ رہا۔ جو اس وقت کے شب وروزکی چشم دیدتاریخ ہے۔خلیفہء وقت اور بیوی بچوں سے دوری نے طبیعت میں گداز بھر دیا تھا۔خط جذبات سے اس طرح گندھا ہوتا کہ کچھ باتیں ربوہ میں کسی بچے کے متعلق ہوتیں اور کچھ باتیں سیرالیون یا تنزانیہ میں کسی بچے سے متعلق ہوتیں گویا لکھتے وقت عالم تصور میں سب بچے بلکہ اعزّہ بھی سامنے موجود ہوں اور آپ ان سے بے ساختہ و بے تکلف باتیں کر رہے ہوں لفظ و معنی کے حسن و خوبی کو دلی جذبات کی آمیزش نے ایسا رنگ دیا ہے گویا خطوط نہ ہوں آنکھ سے ٹپکے ہوئے آنسو ہوں۔

پیارے اباجان کی تحریروں اورخطوط سے آپ ہی کے الفاظ میں آپ کی کتابوں سے وابستگی کے موضوع کو الگ کیا ہے۔ اس طرح آپ کی شخصیت کا یہ رخ نمایاں ہو کر سامنے آجائے گا

بکھرے اوراق جمع کرنا

تقسیم برصغیر کے قیامت خیز ہنگاموں کے بعد جب درویشانِ کرام نے قادیان کے گلی کوچوں میں قرآن مجید اور دیگر قیمتی کتب کے اوراق بکھرے دیکھے تو ایک قیامت گزر گئی۔ بے حرمتی برداشت سے باہر تھی حکیم و خبیر خدا تعالیٰ نے اپنے بندے کو کتابوں کا عشق قلمی و علمی خزائن کی حفاظت کے محاذ پر لڑنے کے لئے عطا فرما رکھا تھا۔ گلی گلی سے، ردّی فروشوں سے، گھروں گھروں سے اوراق جمع کئے۔ حالات اتنے نامساعد تھے کہ گھر سے نکلنا جان کو خطرے میں ڈالنا تھا۔ مگر اس وقت جان کی کسے پرواہ تھی تاریخ احمدیت میں لکھا ہے کہ
’’مسجد نور میں تین من کے قریب قرآن شریف کے اوراق منتشر پائے گئے انا للّٰہ و اِنا اِلیہ راجعون‘‘۔

(تاریخ احمدیت جلد11 صفحہ263)

’’درویشوں نے ان ابتدائی ایام میں دن رات کام کیا مثلاً درویش لنگرخانہ میں سامان پہنچاتے مہاجر احمدیوں کے گھر سے اسباب بحفاظت جمع کرتے۔ بہشتی مقبرہ میں معماری کا کام کرتے۔ بیرونی محلوں سے جمع شدہ کتابوں کو مرتب اور مجلد کرتے اور اپنے حلقہ درویشی کے ہر اہم مقام پر نہایت باقاعدگی اور ذمہ داری کے ساتھ پہرہ دیتے۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد11 صفحہ254)

الحمدللہ ان سب کاموں کی توفیق ملی جزو بندی اور جلد بندی کا فن آپ نے شوقیہ سیکھا ہوا تھا۔ اوراق جمع ہوئے تو جلد سازی کے سامان کی ضرورت تھی۔ مسبب الاسباب قادر خدا نے اُس کا بھی سامان فرما دیا۔ ابا جان تحریر فرماتے ہیں:
’’ایک واقعہ بالکل ابتدائی دنوں کا ہے جس سے رازق خدا کی رزّاقیت کا لطف آتا ہے ایک ہندو میرے پاس آیا کہ میرے پاس موم کا ایک ٹین (Tin) ہے۔ آپ اُس کو خرید لیں۔ میں نے کہا ‘اچھا’اُن دنوں کسی ہندو کے گھر اعتبار کر کے جانا جان کا خطرہ مول لینا تھا۔ مگر اس سے کچھ شناسائی ہو گئی تھی ایک دو کتابیں خرید چکا تھا۔ وہ مکرم عبداللہ صاحب جلد سازکے مکان پر قابض تھا اُس نے کتابیں تو باقاعدہ دکانوں پر رکھ کر فروخت کیں۔ لوہے کی مشینیں وغیرہ بھی فروخت کر دیں۔ ایک کٹنگ کی مشین اور ایک ٹِن باقی تھا میں موم ٹیسٹ کرنے کے لئے ماچس لے کر گیا تھا۔ جب میں ٹیسٹ کرنے لگا تو دیکھا کہ وہ موم نہیں چربی تھی۔ میں نے اُسے بتایا کہ اس گھر کے مالک کو گائے کی قربانی کا شوق تھا اُس نے کسی مقصد سے چربی جمع کر رکھی ہے۔ وہ تو رام رام کرنے لگا اور ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا اس کو جلد لے جائیں، اُٹھائیں میرے گھر سے۔میں نے اُسے ٹن کے آٹھ آنے دئیے اور اُٹھا لایا۔ جلد سازی کے باقی ماندہ سامان کا بھی بہت سستا سودا ہو گیا۔ میں ایک لمبے عرصے تک اسی سامان کی مدد سے جلد سازی کا کام کرتا رہا اس طرح روزی کا سامان خدا تعالیٰ نے مہیا کر دیا۔ چربی کے کنستر کا میں نے یہ کیا کہ اس میں کاسٹک وغیرہ ملا کر صابن بنا دیا۔ اُن دنوں قادیان کے مکینوں کو صابن کی بے حد ضرورت تھی۔ احباب شکر گزار ہو کر خریدتے میرے پاس کافی روپے جمع ہو گئے یہ الٰہی عطیہ تھا دراصل میں نے درویشی کے زمانے میں وظیفہ لینے سے انکار کیا تھا اللہ تعالی نے میری غیرت کی لاج رکھی اور ہر اُس کام میں برکت ڈالی جسے میںنے کرنا چاہا حتّٰی کہ لوگ کہنے لگے بھائی جی مٹی میں ہاتھ ڈال کر سونا کر دیتے ہیں۔ میں نہیں کرتا تھا۔ میرا خدا میرا سامان کرتا تھا۔ ابھی صابن ختم نہ ہوا تھا کہ وہی ہندو صاحب آئے کہ بھائی ایک ویسا ہی کنستر اور ہے ہم پر احسان کریں وہ اٹھا لیں۔ میں نے دام پوچھے تو بولا بس لے جائیں۔ معاوضے میں ایک پیتل کی دیگچی دے دیں۔ اس چربی میں السی کا تیل ڈال کر صابن بنایا جو پہلے سے بہت بہتر بنا۔ من سوا من صابن بن گیا اور فوراً بک گیا۔ ہر خاص و عام کو ضرورت تھی یہ سب الٰہی سامان تھے جس چیز کی ضرورت تھی آسانی سے سستے داموں دلوا دی اس طرح اللہ تعالیٰ نے میری اور میرے بے وطن بلکہ جلا وطن بچوں کی مدد کی۔ لمبی کہانی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے مجھے خدا تعالیٰ نے قناعت، کشائش اور فراوانی سے نوازا ہے الحمدللہ الحمدللہ۔

یوں ہوا کہ ہم تین آدمی بازار میں جا رہے تھے۔ ایک شخص ملا اور مجھے مخاطب کر کے کہا بھائی جی! ذرا الگ ہو کر میری بات سن لیں۔میں نے ساتھیوں کو وہیں رُکنے کا اشارہ کر کے کہا ٹھہریں میں دیکھتا ہوں یہ کیا کہتا ہے۔ وہ گلی میں لے گیا اور اُس نے کپڑے سے کھول کر دو کتابیں دکھائیں کہ یہ آپ خرید لیں ایک تذکرہ تھا اور دوسری پانچ پارے والی تفسیر مجھے ان کی ضرورت بھی تھی۔ بہت کم پیسے اُس نے لئے اور یہ قیمتی کتب میرے حوالے کیں میرے ساتھی بھی حیران ہوگئے کہنے لگے خد تعالیٰ نے اُسے آپ ہی کے لئے نعمت بنا کر بھیجا تھا آپ کو الگ لے جا کر کتب دیں۔ سبحان اللہ اُس کی دین ہے۔

رام لیلا کے بدلے تفسیر

میں جالندھر گیا وہاں سے کافی کام کی کتابیں خرید کر لایا۔ ایک ہندو سے رامائن اردو مل گئی۔ ایک ردّی والے سے بھی رامائن کی ایک جلد مل گئی۔ قادیان میں ایک ہندو رام راکھا مل کے پاس ایک تفسیر تھی میں ہر قیمت پر وہ حاصل کرنا چاہتا تھا۔ مگر وہ کسی قیمت پر دینے پر آمادہ نہ تھا۔ میں نے اُس سے ملنا جلنا رکھا۔ ایک دن کسی کام کے لئے اُس کے گھر گیا اُن دنوں دسہرہ تھا وہ اور ان کے بچے رام لیلا سُنتے تھے۔ میں نے کہا کہ میرے پاس پوری رام لیلاہے۔ بلکہ دوہیں کہنے لگے بھا جی وہ دونوں ہمیں دے دیں۔ میں تو اسی انتظار میں تھا فوراً تفسیر طلب کی اس نے دونوں کتابیں لے کر تفسیر مجھے دے دی اس طرح پاک کلام محفوظ مقام پر پہنچ گیا۔

بیوی کا قرآن مجید

1948ء ہی کی بات ہے ایک سکھ بھگت سنگھ میرے پاس آیا کہ بھائی جی آپ قرآن خریدیں گے؟ میں نے اُس سے سینکڑوں روپے کی کتابیں خریدی تھیں۔ کہا لا کر دکھاؤ۔ وہ قرآن کریم لے کر آیا تو حضرت پیر منظور محمد صاحب والا قرآن کریم تھا۔ جب میں نے ہاتھ میں لیا تو شدتِ جذبات سےمیرے اوپر لرزہ طاری ہو گیا۔ یہ قرآن میری پیاری بیوی آمنہ کا تھا۔ جس پر وہ ہر روز میرے سامنے بیٹھ کر تلاوت کیا کرتی تھی۔ میری حالت اُس سے چھپی نہ رہی وہ بڑا گھاک کاروباری آدمی تھا امرتسر میں کتابوں کی بڑی دکان تھی اس نے بہت زیادہ قیمت بتائی میں نے اس کی منہ مانگی رقم ادا کر کے قرآن پاک لے لیا اور پھر اُسے بذریعہ ڈاک ملے جلے جذبات کے ساتھ روانہ کر دیا۔ یہ سوچتا رہا کہ اپنا قرآنِ پاک اور میرے بھجوانے کے جذبہ سے متاثر ہو کر وہ نہ معلوم کتنی دفعہ سربسجود ہو کر مجھ گنہگار کے حق میں بخشش کی دعائیں کرے گی۔

صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ کا تحفہ

1948ء کے ابتدائی دنوںکی بات ہے ایک صاحب نے بتایا کہ ایک سکھ کے پاس سلسلہ کی کچھ کتابیں ہیں جو وہ فروخت کرنا چاہتا ہے مگر اُس کا پتہ جو بتایا وہاں جانا بہت خطرناک تھا۔ میں نے معذرت کی اور کہا کہ کتب یہاں لے آئیں میں خرید لوں گا۔ مگر وہ سکھ (جو آج کل حضرت میاں بشیر احمد کے فارم (Farm) پر بطور منیجر حکومت کی طرف سے مقرر ہے) نہ مانا۔ کسی نہ کسی طرح وہاں پہنچا تو کتابیں دیکھ دیکھ کر عجیب ملے جلے جذبات کی کوئی حد نہ رہی وہ کتابیں حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی کوٹھی سے لائی ہوئی معلوم ہوتی تھیں۔ میں نے سوچا ان کو ہر قیمت پر خریدنا ہے وہ سکھ بڑا ہشیار تھابھانپ گیا اور مروجّہ قیمت سے دس گنا زیادہ قیمت بتائی۔ میں نے بھی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے اُس کو منہ مانگی قیمت ساٹھ روپے ادا کر کے خرید لیں۔ اُن میں ایک بخاری شریف تھی۔ خوبصورت مجلد، سنہری نام لکھا ہوا تھا جو لجنہ اماء اللہ قادیان نے محترمہ بی بی ناصرہ بیگم (بنت حضرت مصلح موعودؓ) کی شادی خانہ آبادی کی تقریب سعید کے موقع پر تحفہ دیا تھا۔ کیا یہ کتابیں ردّی میں جانے کے قابل تھیں؟ میںکیسے گوارا کر سکتا تھا کہ اُن سے ہاتھ کھینچ لوں کہ قیمت زیادہ ہے اور وہ ردّی میں بیچ دیتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ توفیق بھی دی کہ یہ کتب مکرم سیٹھ محمد اعظم صاحب کے ہاتھ عزیزہ محترمہ کو بھجوا دیں۔ تسلّی بھی کر لی تھی کہ حفاظت سے کتب اُن تک پہنچ گئی ہیں جو میری طمانیت کا باعث ہوا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دستخط والی کتابیں

کتب خریدنے کے شوق میں مجھے ایک ایسی کتاب ملی جس پر حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے دستخط ثبت تھے۔ اپنے قلم سے اپنا نام لکھا ہوا تھا۔ بس پھر کیا تھا ایسی کتب کی تلاش شروع کر دی بلکہ ایسی کتب کا عشق سر پر سوار ہو گیا۔ قادیان کے سارے بک ڈپو اور درویشوں کی کتابیں دیکھ ڈالیں۔ جہاں دستخطوں والی کتاب ملی منہ مانگی قیمت دے کر خرید لی۔ اس سے مجھے بہت سکون ملتا کافی سرگرمی سے آخر مجھے آٹھ کتب ایسی مل گئیں جن پر حضرت اقدس ؑکے دست مبارک سے دستخط موجود تھے۔ میں نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کو دکھائیں وہ بھی بہت خوش ہوئے۔ یہ ایک قیمتی دولت تھی جو میں نے اپنے آٹھ بچوں کو ایک ایک تقسیم کر دی۔ اللہ تعالیٰ اس کی برکتیں نسلاً بعدنسلٍ میرے خاندان کو عطا فرماتا رہے۔

1826ء کی شائع شدہ انجیل

میں ایک دفعہ لدھیانہ گیا۔ لدھیانہ میں ایک لائبریری تھی جس میں میونسپل کمشنر پادری ویری کی کتب تھیں وہ دینِ حق اور احمدیت کا شدید دشمن تھا۔ ہندوئوں نے کتب کو تلف کرنے کے لئے فروخت کر دیا جو سینکڑوں من وزنی تھیں میں نے قریباً دو بوری کتابیں چھانٹ لیں۔ ان میں دوکتب کا ذکر کرتا ہوں ایک تو انجیل تھی جو 1826ء کی شائع شدہ تھی ایک اہل حدیث کا وہ پرچہ تھااصل والا جو علماء اکثر ہمارے خلاف پیش کیا کرتے ہیں۔ میں نے قادیان آ کر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے نام تحریر کیا کہ جماعت کے کام آنے والا لٹریچر لدھیانہ میں فروخت ہو رہا ہے۔ مثال کے طور پر اسی انجیل کا حوالہ دیا۔ آپ کا جواب آیا کہ اگر اتنی پرانی انجیل ہے تو میرے لئے بھی خرید لیں۔ میں نے اس خط کو نعمت غیر مترقبہ خیال کیا اور بذریعہ رجسٹرڈ پارسل کتاب بھجوا دی۔ آپ کا دعاؤں اور شکریہ کا خط ملا جس پر اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر کیا۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
مکرمی محترمی!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ

آپ کا خط ملا۔ اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو۔ اگر کوئی پرانی انجیل اردو میں ملے تو میرے لئے بھی خرید لیں۔

فقط و السلام
مرزا بشیر احمد

………………

مکرمی محترمی!

السلام علیکم ورحمۃاللہ

آپ کا خط ملا۔ آپ فی الحال میرے لئے 1860ء کی اکیلی انجیل تلاش کریں اور قیمت سے مطلع فرما دیں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کا حافظ و ناصر ہو۔

فقط و السلام
مرزا بشیر احمد

دوسری کتاب فتویٰ اور پرچہ اہل حدیث والا مولوی محمد سلیم صاحب کو دکھایا

آپ نے قیمت پوچھی میں نے اندازاً بائیس روپے بتا دی۔ فوراً بائیس روپے نکال کر دیئے کتاب لی اور دس بارہ قدم جا کر واپس آئے اور کہابھائی جی! اب یہ کتب میں نے قیمت دے کر خرید لیں شرعی لحاظ سے خرید و فروخت مکمل ہو گئی مگر ایک بات بتا دوں کہ کتاب اس قدر نایاب اور مطلوب تھی کہ اگر آپ ایک صد بھی مانگتے تو بلا عذر دے دیتا۔ الحمدللہ میرا مقصد کتب کی خرید و فروخت کا بھی یہی تھا۔ بعد میں جب علم ہوا کہ فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت میں پیش کی گئی تو زیادہ خوشی ہوئی۔ سبحان اللہ۔

میری کتابیں اور صوفی صاحب کے امرود

اٹاوہ کے ایک مخلص احمدی نے اپنی لائبریری صدر انجمن احمدیہ کو وقف کر دی تھی۔ درویشی کے ابتدائی زمانے میں اس کی زائد کتابوں کی نیلامی ہوئی نیلام کرنے والے مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیانی تھے۔ ایک ایک کتاب اُٹھاتے اُس کی خوبیاں بیان کرتے لوگ اچھی حالت کی کتب پر بڑھا کر بول دیتے اور خرید لیتے جبکہ میں نے وہ کتب لیں جن کی حالت خراب،جلد خستہ، اوراق بکھرے ہوئے ہوتے قریباً تین سو روپے کی کتب میں نے لے لیں اس ڈھیر کو دیکھ کر کسی نے کہا بھائی جی نے چورا خریدا ہے۔ آخر میں نے مکرم چوہدری فیض احمد صاحب سے بات کی کہ لوگ کہتے ہیں رقم برباد کر دی آپ کا کیا خیال ہے یہ کتب بک جائیں گی۔ آپ نے بھی دیکھ کر کہہ دیا کہ اگر صوفی علی محمد صاحب درویش کے امردو بک جاتے ہیں تو یہ بھی ضرور بکیں گی۔ صوفی صاحب معمولی سی چیز لا کر فروخت کیا کرتے تھے بعض دفعہ بہت دن لگ جاتے۔ مگر میرے ساتھ یہ نہیں ہوا اس چورے سے جوڑ جوڑ کر جلد کر کے میں نے نادر و نایاب کتب محفوظ کیں۔ سب سے قابل ذکر پرانی کتب سے علمائے سوء کےفتووں پر 42 کتب ملیں جو مولوی محمد صدیق صاحب کو پیش کیں جو خلافت لائبریری ربوہ کی زینت بنیں۔ اس بات کی مجھے بہت خوشی ہے۔ بہت فائدہ ہوا ان پرانی کتابوں سے۔ الحمدللہ

ایک عجیب واقعہ

کتابوں کے ذخیرہ میں دو کتابیں دیمک زدہ سی تھیں اس خیال سے کہ دوسری کتابیں متاثر نہ ہوں نکال کر باہر دھوپ میں رکھ دیں جالندھر کے ایک صاحب آئے اور سوال کیا کہ کوئی پرانی فوٹو یا قلمی کتاب ہو تو دکھائیں۔ میں نے کہا آپ دیکھ لیں ساری کتابیں دیکھ کر دھوپ میں رکھی ہوئی دیمک خوردہ کتابیں پسند کیں مجھ سے قیمت پوچھی میں نے کہا چار روپے دے دیں۔ وہ چار روپے دے کر چلے گئے۔ دو تین دن کے بعد پرتاب اخبار میں خبر دیکھی کہ حکومت نے ایک پرانی قلمی کتاب آثار قدیمہ کے لئے خریدی ہے۔ جو ایک مشہور ادیب کے قلمی خطوط ہیں۔ اخبار میں لکھا تھا کہ بارہ سو میں خریدی ہے۔ یہ اُس خریدار کی پہچان کا کرشمہ تھا۔ جو کتاب میں نے لاعلمی میں چار روپے کی بیچی اُس نے اپنے علم سے فائدہ اُٹھا کر 1200 روپے میں دی ہو گی۔ جو اب کسی عجائب گھر کی زینت ہو گی۔

ردّی بیچنے والا لڑکا

ایک دفعہ دیکھا کہ تیرہ چودہ سال کا صاف ستھرا لڑکا ردّی والے کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب فروخت کر رہا تھا۔ ذرا فاصلے سے کھڑے ہو کر دیکھتا رہا سامنے نہ آیا کہ وہ شرمندہ نہ ہو مگر بہت تکلیف ہوئی کہ کیا مجبوری ہو گی جو یہ لڑکا اس طرح قیمتی کتب بیچ رہا ہے۔ بعد میں لڑکے کو ایک طرف لے جا کر پیار سے پوچھا کہ آپ یہ کتب ردّی والے کو کیوں بیچ رہے ہیں لڑکے نے بتایا کہ میرے نانا جان بیمار ہیں وہ خود ڈاکٹر تھے۔ مگر علاج پر بہت خرچ ہو گیا ہے۔ اب دوا کے پیسے نہیں تھے۔ میں نے اُس کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے کچھ مدد کی۔ اور کہا کہ اگر کتب بیچنے کی ضرورت ہو تو سیدھے میرے پاس لے آنا۔‘‘

بعض خطوط سے اقتباس حاضر ہیںحالات اور جذبات کی ایک سچی حقیقی تصویر ہیں۔ لمحے لمحے کی محفوظ کہانی۔

درویش کو کتابیں محفوظ کرتے ہوئے اپنے جگر گوشوں کا خیال آتا کہ ناز و نعم میں پلے لاڈلے بچوں پر نہ جانے کیسا وقت ہو گا۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کتابیں ہی سہارا بنیں۔ سب سے پہلا خط جو محفوظ ہے اُس میں تحریر ہے کہ ضرورت ہو تو کتابیں بیچ دینا مگر اس میں احتیاط کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے کتابیں اُسی حد تک بیچنا جس سے ضرورت پوری ہوجائے۔

’’کچھ کتابیں بھیج رہا ہوں ضرورت پوری کرنے کے لئے فروخت کر دینا۔ وقار، عزت، آن کسی صورت سے کمزور نہ کرنا۔ بھوک اور موت بھی عزت وقار سے ہو تو کامیابی ہے۔ ورنہ کچھ بھی نہیں۔ دنیا نے کبھی وفا کی ہے نہ کرنی ہے۔ خرچ کم ہو تو کوئی بھی سامان خواہ کیسا ہی پیارا ہو فروخت کر دینا بچوں کو تنگی نہ رہے۔ خدا تعالیٰ ہم سب کا حافظ و ناصر ہو۔ ربوہ کی آبادی میں اضافہ مبارک ہو۔ اللہ تعالیٰ اس آبادی کا حافظ و ناصر رہے۔ روح القدس کے ذریعے حامی و ناصر ہو۔‘

’’مولوی عبدالحمید بھینی والوں کے گھر والوں کی خیریت لکھیں وہ پریشان ہیں میں نے آپ کو تذکرہ، سلسلہ احمدیہ، براہین احمدیہ اور آئینہ کمالات دینِ حق بھیجی ہیں۔ اطمینان ہو جاتا ہے کہ ضرورت کے وقت فروخت کر سکتے ہیں۔ آپ اپنا برقع بنوا لیں اور بچوں کی دِلجوئی کریں۔ فکر نہ کریں اب یہاں کپڑا بغیر پرمٹ اچھا اور سستا مل جاتا ہے۔ ہمارے متعلق عجیب عجیب افواہیں پھیل جاتی ہیں پھر واقف حال پوچھنے آتے ہیں ہمدردی کرتے ہیں۔‘‘

’’نصرتِ خدا تو دیکھو گھر پر حملہ ہوا روپیہ بچ گیا جان بچ گئی پھر روزی کا آناً فاناً انتظام ہوتا گیا۔ جب یہ ختم ہونے کو آیا مشین بک گئی۔ اس وقت میرے پاس اچھی حالت میں چھ من کتب ہوں گی‘‘

1-4-1948 عزیزہ امۃاللطیف (رتن باغ لاہور)

’’آپ کی فرمائش پر سر توڑ کوشش کر کے ابھی کامیاب ہوا ہوں تذکرہ مل گیا اب تذکرہ اور تفسیر کبیر نہیں ملتی جن ہندئوئوں کے گھروں میں ہے کہتے ہیں سو سو روپے میں بک گئی ہیں۔ اب یہاں ایک بھی قرآن کریم نہیں ملتا چودھری محمد ظفراللہ خان صاحب نے تفہیمات مانگ رکھی ہے مگر اچھی حالت میں نہیں مل رہی۔ تجرید بخاری عربی اردو مل گئی ہے ارسال کر رہا ہوں۔‘‘

9-10-1948

’’عزیز باسط! مقاماتِ حریری کا فرہنگ دستیاب ہوا ہے اگر ضرورت ہو تو تحریر کریں۔ ارسال کر دوں اگر کسی اور کتاب کی ضرورت ہو تو لکھنا۔
محترمہ اُم داؤد صاحبہ کو میرا سلام اور دعا کی درخواست کر دیں وہ پہلے ہی مجھے بچوں سمیت یاد رہتی ہیں۔ مگر آپ نے کچھ اس انداز سے اُن کا فرمان مجھے پہنچایا ہے کہ ہر وقت نقشہ آنکھوں میں رہ کر دعا کی تحریک ہوتی ہے میں نہیں بھولوں گا یاد رکھوں گا اللہ تعالیٰ داؤد سے داؤد علیہ السلام جیسی برکتیں عطا فرمائے۔ میری اولاد سے جو وہ الطاف و کرم فرماتی ہیں کیسے بھول سکتا ہوں تادم زیست بھولنے والے نہیں مبارک ہو مبارک ہو مبارک ہو لڑکی کے لئے بھی دعا کی تھی ایک بہت خوشنما بستر دکھائی دیا۔

اگر تذکرہ آپ کے پاس ہے تو محترمہ اہلیہ چوہدری سرمحمد ظفر اللہ خان صاحب کی خدمت میں پیش کر دیں۔ میں آپ کو اور بھیج دوں گا۔‘‘

اُستانی جی کی کتب جمع کرا دی ہیں سامان باندھ لیا ہے گندم کا کیا کرنا ہے لنگر میں جمع کرا دوں؟ مشین کا خالی ڈبہ ہے مشین نہیں ہے۔ ایک سو سات روپے میں ایک چیز بیچی ہے اُن کو ادا کرنے ہیں۔ ان کا گھر محفوظ نہیں ہے مگر میں نے جو کچھ ہو سکا کیا ہے حضرت حافظ صاحب مرحوم کی کتابیں خریدی ہیں۔ اور بھی خریدی ہیں خود جلد کرتا ہوں۔ میں نے سکھوں ہندوؤں کی دکان پر قرآن کریم دیکھ کر بورڈ پر اعلان لکھ دیا ہے کہ پورا، ادھورا، کوئی حصہ قرآن کریم کا کسی کے پاس ہو تو جلایا نہ جائے میرے پاس پہنچا دیں بعض شریف ہندو سکھ بھائیوں نے تعاون کیا۔ جو اوراق جمع ہوئے اُن سے قرآن کریم مکمل کر کے جلد کر لئے تقریباً بیس مساجد میں اور ان سے بہت زیادہ لوگوں کو دئے ہیں کم و بیش ایک سو میں نے ٹھیک کر لئے ہیں۔ اس طرح علاوہ اپنے فائدہ کے قوم کا بھی فائدہ ہے۔ حضرت پیر منظور محمد موجد قاعدہ یسرنا القرآن کے قرآن کریم پہلے ٹھیک کئے ہیں۔

مثالی خدمت

کتب خرید کر رتن باغ بھجوانا آسان کام نہیں تھا۔ اِکا دُکا کتاب تو آنے جانے والوں کے ہاتھ آ سکتی تھی۔ مگر جب بہت کتب محفوظ مقام پر پہنچانا ضروری ہوا تو بذریعہ ڈاک پارسل بھجوانے لگے جس پر بہت خرچ ہوتا۔ پہلی کوشش تو یہی ہوتی کہ اگر مالک کا علم ہو جائے تو کتاب اُس تک پہنچا دی جائے بصورتِ دیگرمحفوظ کر لی جائے۔ قادیان سے سب ڈاک دفتر خدمت درویشاں میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد کی معرفت موصول ہوتی۔ جب پارسلوں سے کتب بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا تو حضرت میاں صاحب نے اس کو مثالی بنا کر توجہ دلائی کہ کتب بذریعہ پارسل بھیجی جا سکتی ہیں۔ حضرت میاں صاحب نے تحریر فرمایا:-

رتن باغ لاہور بسم اللہ الرحمن الرحیم

مکرمی میاں عبدالرحیم صاحب سوڈا واٹرفیکٹری

السلام علیکم ورحمۃاللہ برکاتہٗ

آپ کا خط موصول ہوا۔ میں نے تو ہمدردی کے خیال سے لکھا تھا آگے آپ اپنے حالات کو بہتر سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کا حافظ و ناصر رہے اور دنیاکی نعمتوں کا دروازہ کھولے۔

آپ کی کتابوں کے پارسل اس کثرت کے ساتھ آئے کہ مجھے طبعاً یہ خیال پیدا ہوا کہ آج کل تنگی کے زمانہ میں اتنے پارسلوں کا خرچ یقینا بوجھ کا موجب ہو گا۔ گو دوسری طرف میں نے اس مثال کو دیکھتے ہوئے یہ فائدہ بھی اُٹھایا کہ ملک صلاح الدین صاحب کو خط لکھا کہ اگر اس طرح پارسل آ سکتے ہیں تو آپ کو بھی سلسلہ کی ضروری کتابیں بھجوانے میں اس طریق سے فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ بہرحال انماالاعمال بالنیات۔

لاہور میں الحمدللہ خیریت ہے آپ کے بچے کبھی کبھی ملتے رہتے ہیں اور خیریت سے ہیں۔ رمضان میں جو تعلیم القرآن کلاس لجنہ کی زیرنگرانی جاری ہوئی تھی۔ اس میں آپ کی دونوں لڑکیاں شامل ہوئی تھیں۔ اور خدا کے فضل سے دونوں پاس ہو گئی ہیں۔آپ کے والد صاحب اب کافی ضعیف ہو چکے ہیں اور قادیان کے کانوائے کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ میں خیال کرتا ہوں کہ اُن کے لئے یہی بابرکت ہے کہ اپنے بقیہ ایام زندگی قادیان میں گزاریں اور دعاؤں اور نوافل کے پروگرام میں حصہ لیں۔

میری طرف سے سب دوستوں کو سلام پہنچا دیں۔

فقط
والسلام
مرزا بشیر احمد

میرے کتابوں کے شوق سے ایک دفعہ بہت فائدہ اس طرح ہوا کہ ہندوستان میں مہدی علیہ السلام کے متعلق ایک فارسی قصیدہ کی دھوم مچی ہوئی تھی۔دراصل قصیدہ دستیاب نہ تھا۔ میں نے حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کو بتایا کہ اصل کتاب شاہ نعمت اللہ ولی کا قصیدہ ہے جو فارسی میں ہے۔ 123سال پہلے کلکتہ سے شائع ہوا تھا۔ نام اربعین فی احوال المھدیین تھا رسالہ پر 25محرم الحرام 1825ھجری لکھا ہے مجھے یہ اطلاع دے کر خوشی ہوئی دنیا کی دولت تو دنیا کے اجارہ داروں نے لُوٹ لی۔ ہمارے حصّے میں علم کی دولت آئی۔

نادرو نایاب تحفے

آپ نایاب کتب ایسے احباب کو تحفے میں دیتے جن کے متعلق آپ کو حُسنِ ظن ہوتا کہ کتاب کی قدر کریں گے اور استفادہ کریں گے اپنے داماد محترم شیخ خورشید احمد صاحب کو اسی جذبے کے تحت خطبہ الہامیہ کا پہلا ایڈیشن،اخبار الحکم کی پہلی جلد،حضرت اقدس مسیح موعود ؑکے دستخط والی مبارک کتاب کشف الغطاء اوربعض نادر کتب کے علاوہ خاندان کی یادداشتوں والی ڈائریاں اور خود نوشت حالات بھی عنایت کئے۔ بھائی جان باسط صاحب کو دینی کتب، لغات اور عربی میں حدیث کی کتب بھیجتے۔ خاکسار جب یونیورسٹی اوریئنٹل کالج میں زیر تعلیم تھی شعروادب کے موضوع پر ملنے والی کتب مجھے بھیجتے رہے۔حضرت مرزا سلطان احمد صاحب ؓ کی ادب پر تنقید کی ایک کتاب بھی مجھے ملی۔ ناصر صاحب کو ایک ایسی کتاب تحفہ میں دی جو کئی لحاظ سے تاریخی اور یادگار بن گئی ہے۔ یہ ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کا ابتدائی ایڈیشن ہے۔ جس پر ناصر صاحب کے والد صاحب کی تحریر ہے۔

This book belongs to
Molvi Muhammad Shamsud-din Ahmadi
Sindh Club Karachi

8-12-18
اس پر ایک بیضوی مہر بھی لگی ہوئی ہے جس پر کندہ ہے۔

MD. Shamsuddin Ahmadi
Ahmadia Library
Barahpura Bhagalpur

ابا جان نے اس پر نوٹ لکھا ہے۔ ’’یہ کتاب ایک خاص نظریہ سے خریدی ہے۔ امید ہے عزیز (ناصر احمد) کو اس سے بہت خوشی ہو گی۔ کم از کم میں تو اس سے بہت خوش ہوا۔‘‘ والسلام عبدالرحیم 61 -12-7
اس طرح یہ کتاب ہم دونوں کے لئے قیمتی یادگار ہو گئی۔

ایک دفعہ بھائی جان مکرم عبدالباسط شاہد (مربی سلسلہ) ا باجان سے ملنے قادیان گئے ہوئے تھے دیکھا کہ رہائش گاہ میں شیلف بنا کر ہزاروں کتابیں چن رکھی ہیں۔ ہر کتاب کی حسبِ ضرورت سلائی، جز بندی یا جلدوغیرہ بھی اپنے ہاتھ سے کی ہوئی ہے۔ بھائی جان نے کہا کہ ابا جان، آپ نے یہ بہت بڑی ذمہ داری از خود اپنے اوپر ڈال رکھی ہے۔اس کا آپ کی صحت پر بُرا اثر پڑتا ہو گااور پھر یہ کوئی منتخب کتابیں بھی نہیں ہیں…آخری بات کا پہلے جواب دیتے ہوئے بڑے اعتماد اور وثوق سے کہنے لگے کہ بیٹا ایک ہزار سے زیادہ کتابیں یہاں رکھی ہیں۔ آپ ان میں کسی ایک کتاب کی نشان دہی کریں جو ہمارے علم کلام میں مفید نہ ہویا جس میں کوئی غیر معمولی علمی اور دلچسپی کی بات نہ ہو اور حقیقت بھی یہی تھی کہ آپ نے قریباً ہر کتاب پر نشان لگائے ہوئے تھے۔ یا شروع میں نوٹ دئے ہوئے تھے جن سے ان سب کی افادیت، خصوصیت پہلی نظر میں سامنے آ جاتی تھی۔

اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کا شوق تھا امی جان بتاتی تھیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے دو بیٹے عطا فرمائے تو کہا کرتے تھے ان کو اپنے خرچ پر تعلیم دلا کر جماعت کی خدمت کے لئے پیش کردوں گا۔ اس کے لئے دعائیں بھی کرتے اللہ تعالی کے کرم سے اولاد اور اگلی نسلوں میں بھی حصول علم کا رجحان نمایاں ہے الحمدللہ علیٰ ذالک اللہ تبارک تعالیٰ ہمارے پیارے اباجان کے درجات بلند فرماتا رہے۔ آمین اللھم آمین

(مرسلہ: امۃ الباری ناصر، امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 دسمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 دسمبر 2020