• 25 اپریل, 2024

غصے پر قابو رکھنا چاہئے اور صبر کرنا چاہئے۔ کیونکہ خدا کو یہی پسند ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
ان لوگوں کے لئے جو ذرا ذرا سی بات پر بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہیں، ان کے لئے انذار بھی ہے کہ اگر تم بے صبری کا مظاہرہ کرو گے، جزع فزع کرو گے تو اپنی خطائیں معاف کروانے کے موقع کو ضائع کر رہے ہو گے۔ دوسری طرف صبر کرنے والوں کے لئے کتنی بڑی خوشخبری ہے کہ ہلکی سی بھی تکلیف پر صبر کرنے والے کے صبر کو اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرتا، بغیر اجر دئیے نہیں جانے دیتا۔ اور خطائیں اور غلطیاں معاف فرماتا ہے۔ بعض لوگ بعض دفعہ کسی سے کوئی معمولی سی بات سن کر جھگڑے شروع کر دیتے ہیں۔ بعض دفعہ اس طرح بھی شکایات آ جاتی ہیں کہ اجلاسوں میں بیٹھے ہوئے توُتوُ مَیں مَیں اور پھر لڑائی شروع ہو جاتی ہے اور اس اجلاس کے ماحول کے تقدس کو بھی خراب کر رہے ہوتے ہیں۔ حوصلہ اور صبر ذرا بھی نہیں ہوتا جبکہ مومن کے لئے بڑا سخت حکم ہے کہ صبر دکھاؤ، حوصلہ دکھاؤ، پھر ہمسائے ہیں، ہمسائے نے اگر کوئی بات کہہ دی تو اس سے ذرا سی بات پر لڑائی شروع ہوگئی۔ یہاں سے اینٹ اٹھا کے وہاں کیوں رکھ دی، وہاں کوئی پتھر کیوں رکھ دیا گیٹ کیوں کھلا رہ گیا۔ کار کیوں میرے گھر کے گیٹ کے سامنے آ گئی۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جو لڑائی جھگڑے پیدا کر رہی ہوتی ہیں اور دونوں ہمسائے پھر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے، لڑنے کے مختلف حیلے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں اور انتہائی چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائیاں ہوتی ہیں۔ بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ مکان کی دیوار بنائی ہے۔ تمہاری دیوار میری زمین میں چند انچ سے بھی زائد آ گئی ہے۔ خالی کر و، یا تمہارے درخت کے پتے میرے گھر میں گرتے ہیں اس درخت کو وہاں سے کاٹو تو ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے قضاء میں مقدمے بھی چل رہے ہوتے ہیں۔ جو میں باتیں کررہا ہوں یہ عملاً ایسا ہوتا ہے۔ شرم آتی ہے ایسی باتیں سن کر اور یہ باتیں پاکستان اور ہندوستان وغیرہ میں نہیں ہوتیں بلکہ اس طرح ہر جگہ ہو رہا ہے، یہاں بھی ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے بعض دفعہ لڑائی جھگڑے بڑھ رہے ہوتے ہیں۔ ہمسائے کو کچھ تعمیر نہیں کرنے دے رہے ہوتے حالانکہ دوسرے ہمسائے کا کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ ذرا ذرا سی بات پہ شکایتیں ہو رہی ہوتی ہیں۔ تو احمدی کا یہ فرض ہے کہ اگر کوئی ایسی حرکت کرتا بھی ہے تو اس کو معاف کرنا چاہئے۔ اور غصے پر قابو رکھنا چاہئے اور صبر کرنا چاہئے۔ کیونکہ خدا کو یہی پسند ہے۔

حضرت حسنؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں بہنے والا قطرہ خون اور رات کے وقت تہجد میں خشیت باری تعالیٰ کے نتیجے میں آنکھ سے ٹپکنے والے قطرے سے زیادہ کوئی قطرہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔ اور نہ ہی اللہ کو کوئی گھونٹ غم کے اس گھونٹ سے زیادہ پسند ہے جو انسان صبر کرکے پیتا ہے اور اسی طرح اللہ کو غصے کے گھونٹ سے زیادہ کوئی گھونٹ پسند نہیں جو غصہ دبانے کے نتیجہ میں وہ پیتا ہے۔

(مصنف ابن ابی شیبۃ جلد ۷ صفحہ ۸۸)

پھر ایک روایت حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص پڑوسی کی شکایت لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آنحضورؐ نے اس کو فرمایا کہ جا اور صبر کر۔ یہ شخص دو یا تین بار حضور ؐ کی خدمت میں شکایت لے کر آیا تو پھر آنحضرتﷺ نے اس کو فرمایا کہ جا اور اپنا مال ومتاع باہر رکھ دے یعنی اپنے گھر کا سامان سڑک پہ لے آ۔ چنانچہ اس نے اپنا مال راستے میں رکھ دیا۔ اس پر لوگوں نے اس کے بارے میں پوچھا کہ تم اس طرح کیوں کر رہے ہو تو ان کو بتاتا رہا کہ کس وجہ سے کر رہا ہوں۔ تب لوگوں نے اس ہمسائے پر لعنت ملامت کی اور کہنے لگے اللہ اس سے یوں کرے یوں کرے وغیرہ وغیرہ۔ اس پر اس کا ہمسایہ اس کے پاس آیا اور کہنے لگا تو اپنے گھر میں واپس چلا جا۔ اب تو مجھ سے کوئی ناپسندیدہ بات نہیں دیکھے گا۔ (ابو داؤد کتاب الادب باب حق الجوار)۔ تو یہاں بھی صبر کی وجہ سے ہی معاملہ حل ہو گیا۔

حضرت کبشہ انماریؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تین چیزوں کے بارے میں میں قسم کھا کے بتا تا ہوں کہ انہیں اچھی طرح یاد رکھو، صدقہ بندے کے مال میں سے کچھ بھی کمی نہیں کرتا۔ جب بندے پر ظلم کیا جائے اور وہ صبر سے کام لے تو اللہ تعالیٰ اسے اور عزت بخشتا ہے۔ پہلی بات یہ کہ صدقہ دو کیونکہ صدقے سے مال میں کمی نہیں ہوتی بلکہ اضافہ ہوتا ہے اور جب کسی پہ ظلم کیا جائے اور وہ صبر سے کام لے تو اللہ تعالیٰ اسے عزت بخشتا ہے اور تیسری بات یہ کہ جس نے سوال کرنے کا دروازہ کھولا اللہ تعالیٰ اس کے لئے فقر اور محتاجی کا دروازہ کھول دیتا ہے۔

(ترمذی کتاب الزھد باب مثل الدنیا مثلُ اربعۃ نَفَرٍ)

( خطبہ جمعہ 13؍ فروری 2004ء بحوالہ الاسلام)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 جنوری 2021