• 26 اپریل, 2024

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہر علم النفس کی حیثیّت میں

تبرکات حضرت مرزا بشیر احمد صاحب

انبیاء کا ایک نمایاں امتیاز

دنیا میں بہت لوگ علم النفس کے ماہر گزرے ہیں اور آج کل تو یہ علم خصوصیت سے بہت ترقی کرگیا ہے لیکن غور سے دیکھا جائے تو اکثر لوگ جو اس علم کے عالم کہلاتے ہیں۔ ان کا علم صرف اصطلاحات کی واقفیت تک محدود ہوتا ہے اور اگر اصطلاحات کے علم سے اوپر گزر کر کبھی کسی کو حقیقی علم تک رسائی بھی ہوتی ہے تو وہ صرف اس فن کے علمی حصہ تک محدود رہتی ہے اور اس کا عملی حصہ جو حقیقۃً مقصود ہے اس فن کے اکثر ماہرین کے دائرہ حصول سے باہر رہتا ہے اور صرف علم النفس پر ہی مصر نہیں۔ دنیا میں بہت سے علوم اسی نامرادی کی حالت میں پائے جاتے ہیں کہ لوگوں کا مبلغ علم اصطلاحات کی حد سے آگے نہیں جاتا۔ اور جن صورتوں میں وہ آگے جاتا بھی ہے وہ صرف علمی پہلو تک محدود رہتا ہے۔ اور علوم کے عملی استعمال تک بہت ہی کم لوگ پہونچتے ہیں۔ منطق کے علم کو دیکھو تو ہزاروں لاکھوں اس علم کے ماہر نظر آئیں گے مگر ان کا علم اصطلاحات سے آگے نہیں جاتا اور ان کی عمرِعزیز اصطلاحات کے رٹنے میں ہی صرف ہوجاتی ہے اور اس علم کا جو حقیقی مقصد ہے کہ جرح وتعدیل کا صحیح ملکہ پیدا ہوجائے اس سے اکثر لوگ محروم رہتے ہیں۔ بلکہ بسااوقات منطقی لوگ اپنے دلائل میں زیادہ بودے اور سطحی پائے گئے ہیں کیونکہ اصطلاحات کی الجھن ان کے لئے حقیقت تک پہونچنے کے رستے میں روک بن جاتی ہے لیکن عام لوگوں کے مقابل پر اگر انبیاء کے حالات پر نظر ڈالی جائے تو یہ امتیاز نمایاں صورت میں نظر آتا ہے کہ ان کے جُملہ علوم حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں بلکہ وہ گو بعض اوقات علوم کی اصطلاحات سے بوجہ ظاہری تعلیم کی کمی کے واقف نہیں ہوتے مگر ہر علم جواُن کے دائرۂ کار سے تعلق رکھتا ہے اس کے اصل مقصدومدعا یا بالفاظِ دیگر اس علم کے گودے اور جوہر سے انہیں پوری پوری واقفیت ہوتی ہے اور ان سے بڑھ کر کوئی شخص ایسے علم کا عالم مل نہیں سکتا۔

انبیاء اور علم النفس

علم النفس بھی جو گویا انسان کے ذہنی اور قلبی تاثرات کا علم ہے انبیاء کے مخصوص علوم کا حصہ ہے کیونکہ تربیت اور اصلاح کے کام سے اس علم کو خاص تعلق ہے بلکہ حق یہ ہے کہ شریعت کی داغ بیل زیادہ تر اسی علم کی بناء پر قائم ہوتی ہے لیکن جیسا کہ قرآن شریف ہمیں بتاتا ہے اور حالات سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے انبیاء کے بھی مدارج ہیں اور جیسا جیسا کام کسی نبی کے سپرد ہونا ہوتا ہے۔ اسی کے مطابق اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے قوتیں دی جاتی اور علوم کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔

رسول کریمؐ اور علم النفس

ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم چونکہ خاتم النبیینؐ تھے اور بخلاف گزشتہ انبیاء کے ساری دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث ہوئے تھے اور آپؐ کا پیغام ہراسودواحمر کے نام تھا۔ اور آپؐ کی شریعت ہر قوم اور ہرزمانہ کے لئے بھیجی گئی تھی۔ اس لئے طبعاً آپؐ کے اندر وہ قوتیں بھی ودیعت کی گئی تھیں اور وہ علوم آپؐ کو عطا ہوئے تھے جو اس عظیم الشان کام کے سرانجام دینے کے لئے ضروری تھے اور اس میں کسی نبی کی ہتک نہیں ہے کہ دوسرے انبیاء میں سے کسی کو وہ علوم نہیں دیئے گئے جو آپؐ کو دیئے گئے اور کوئی بھی ان قوتوں کو ساتھ لے کر نہیں آیا جنہیں لے کر آپؐ مبعوث ہوئے۔ اسی لئے آپؐ نے فرمایا ہے۔ أَنَاسَیَّدُ وَلَدِاٰدَمَ وَلَافَخْرَ میں آدمؑ کی اولاد کا سردار ہوں مگر اس کی وجہ سے میں اپنے نفس میں کوئی تکبر نہیں پاتا اور جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم افضل الرسل تھے تو ضروری تھا کہ علم النفس میں بھی جس کا جاننا فرائض نبوت کی ادائیگی کے ساتھ گویا لازم وملزوم کے طور پر ہے۔ آپؐ سب سے اول اور سب سے آگے ہوں اور ہم دیکھتے ہیں کہ حقیقۃً ایسا ہی تھا چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے خدا تعالیٰ نے تربیت اور اصلاح کا عظیم الشان اور عدیم المثال کام لینا تھا۔ اس لئے یہ علم آپؐ کے وجود میں اس طرح سرایت کئے ہوئے تھا جیسے ایک عمدہ اسفنج کا ٹکڑا پانی میں ڈبو کر نکالنے کے بعد پانی سے بھرا ہوا ہوتا ہے اور ایک قدرتی چشمے کے طور پر اس علم کی ابدی صداقتیں آپؐ سے پھوٹ پھوٹ بہتی تھیں۔ چونکہ میرے لئے اس مختصر مضمون میں اس موضوع کے سارے پہلوؤں کے بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے بلکہ کسی ایک پہلو کو بھی تفصیل کے ساتھ نہیں بیان کیا جاسکتا۔ اس لئے میں اس جگہ نہایت اختصار کے ساتھ صرف چند مثالیں آپؐ کے کلام میں سے بیان کروں گا جن سے یہ پتہ لگتا ہے کہ کس طرح آپؐ کی ہر بات علم النفس کے ابدی اصول کے سانچے میں ڈھلی ہوئی نکلتی تھی۔ اور زیادہ اختصار کے خیال سے میں آپؐ کے کلام میں سے بھی صرف اس حصہ کو لوں گا جو روزمرہ کی گفتگو اور بے ساختہ نکلی ہوئی باتوں سے تعلق رکھتا ہے۔

رسول کریمؐ کے کلام کا کمال

میں بتاچکا ہوں کہ عام زبان میں علم النفس اس علم کا نام ہے جو انسانی ذہن کی تشریح اور اس کے کام سے تعلق رکھتا ہے۔ اس علم میں ذہنی اور قلبی تاثرات سے بحث کی جاتی ہے۔ اور یہ بتایا جاتا ہے کہ انسان اپنے ماحول سے کس طرح اثر قبول کرتا ہے اور اس کے خیالات کی روئیں کس طرح اور کن اصول کے ماتحت چلتی ہیں۔ وغیرذالک۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے کلام میں یہ کمال تھا کہ اس میں مخاطب فرد یا جماعت کی ذہنی کیفیت کا پورا پورا لحاظ رکھا جاتاتھا اور کسی فرد یا جماعت کے خیالات کی اصلاح کے لئے جو بہترین طریق ہوسکتا ہے اس کے مطابق آپ کی زبان مبارک گویا ہوتی تھی۔ اور اس لئے سوائے اس کے کہ مشیتِ ایزدی دوسری طرح ہو آپؐ کی ہر بات ایک آہنی میخ کی طرح سامع کے دل میں دھنس جاتی تھی اور آپ اپنے مخاطب کے خیالات کی رَو کو غلط رستے پر جاتا دیکھ کر یا یہ سمجھ کر کہ اس کے غلط رستے پر پڑنے کا احتمال ہے فوراً ایسی بات فرماتے تھے جو سامع کی ذہنی رَو کو کاٹ کر اس کا رُخ بدل دیتی تھی۔ ایسی مثالیں آپؐ کی زندگی میں ہزاروں ملتی ہیں بلکہ آپؐ کی ساری زندگی ہی اس کی مثال ہے۔ مگر میں اس جگہ بطور نمونہ صرف چند مثالیں بیان کردینے پر اکتفا کروں گا۔ وماتوفیقی الاباللّٰہ۔

جنگ بدر کے موقعہ کی مثال

جنگ بدر کے موقع پر جب کہ ابھی مسلمان لشکرِ کفار کے سامنے نہیں ہوئے تھے اور اکثر مسلمان اس بات سے بے خبر تھے کہ کفار کا ایک جرار لشکر مکہ سے نکل کر آرہا ہے۔ اور صرف اس خیال سے گھر سے نکلے تھے کہ قافلہ سے سامنا ہوگا۔ اس وقت بعض صحابہ نے کفار مکہ کا ایک سپاہی جوانہیں ایک چشمہ پر مل گیا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں پکڑ کر پیش کیا۔ آپؐ نے اس سے لشکرِ کفار کے متعلق بعض سوالات کئے اور پھر پوچھا کہ رؤساء مکہ میں سے کون کون ساتھ ہے۔ اس نے کہا عتبہ شیبہ امیہ۔ نظربن حارث۔ عقبہ۔ ابوجہل۔ ابوالبختری۔ حکیم بن حزام وغیرہ سب ساتھ ہیں۔ یہ لوگ چونکہ قبیلہ قریش کے روح رواں تھے اور نہایت بہادر اور جری سپہ سالار سمجھے جاتے تھے ان کے نام سُن کر اور یہ معلوم کرکے کہ مکہ کے سارے نامی لوگ مسلمانوں کے استیصال کے لئے نکل آئے ہیں۔ بعض کمزور صحابہ کسی قدر گھبرائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان کی طرف نظر اٹھاکر دیکھا تو بےساختہ فرمایا۔ ھذہ مکّۃ قدالقت الیکم اخلاف کبدھا۔ لومکہ نے تو تمہارے سامنے اپنے جگر گوشے نکال کر رکھ دیئے ہیں۔یعنی تم خوش ہو کہ خدانے تمہارے لئے اتنا بڑا شکار جمع کردیا ہے۔ صحابہ کے خیالات کی رو فوراً پلٹا کھاگئی کہ یہ تو کوئی گھبرانے کا موقع نہیں ہے بلکہ خدا نے اپنے وعدوں کے مطابق ان روساء کفار کو ہمارے ہاتھوں تباہ کرنے کے لئے یہاں جمع کردیا ہے اور اس طرح وہی خبر جو کمزور طبیعت مسلمانوں کے لئے پریشانی اور خوف کا باعث بن سکتی تھی۔ آنحضرت صلی،اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ایک بے ساختہ نِکلی ہوئی بات سے ان کے لئے خوشی اور تقویت کا باعث بن گئی۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ فقرہ کسیِ غوروفکر کے نتیجہ میں نہیں فرمایا بلکہ ادھر آپؐ نے مکہ کے سپاہی کے مونہہ سے یہ الفاظ سنے اور صحابہ کے چہروں پر نظر ڈال کر گھبراہٹ کے آثار دیکھے اور اُدھر بے ساختہ طورپر آپؐ کے مونہہ سے یہ لفظ نکل گئے۔ جیسا کہ ایک تیر اپنی کمان کے چلّہ سے نکل جاتا ہے اور اس بات کے نتیجہ میں مسلمانوں کے خیالات کی روپلٹا کھاکر فوراً اپنا رخ بدل گئی۔

فتح مکّہ کے موقعہ کی مثال

فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ابوسفیان رئیس مکّہ کی دلداری منظور تھی۔ اور آپؐ نے اس کے ساتھ اس بارے میں بعض وعدے بھی فرمائے تھے۔ جب اسلامی لشکر نہایت درجہ شان وشوکت کے ساتھ اپنے پھریرے لہراتا ہوا مکہ کی طرف بڑھا اور ابوسفیان ایک اونچی جگہ پر بیٹھا ہوا اس تزک واحتشام کو دیکھ رہا تھا۔ تو اس کے سامنے سے گزرتے ہوئے حضرت سعدبن عبادہ رئیس انصار نے جو اپنے قبیلہ کے سردار اور علم بردار تھے ابوسفیان کو سُناکر کہاکہ آج مکہ والوں کی ذلّت کا دن ہے۔ ابوسفیان کے دل میں یہ بات نشتر کی طرح لگی۔ اس نے فوراً آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے کہا:-
’’آپؐ نے سنا سعد نے کیا کہا ہے۔ سعد کہتا ہے کہ آج مکّہ کی ذلّت کا دن ہے۔‘‘

آپؐ نے فرمایا:-
’’سعد نے غلط کہا۔ آج تو مکّہ کی عزت کا دن ہے۔ سعد سے سرداری کا جھنڈا لے کر اس کے بیٹے کے سپرد کردیا جائے۔‘‘٢٢؎

یہ ایک بے ساختگی کا کلام تھا۔ مگر دیکھو تو اس میں علم النفس کی کتنی ابدی صداقتیں مخفی ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ مکہ والوں کی ذلّت کے فقرہ سے یہ سمجھا جاسکتا تھا کہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مکہ میں داخل ہوں تو مکہ والوں کی یہ ذلّت ہے حالانکہ مکہ خواہ مفتوح ہو جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے جھنڈے کے نیچے آرہا ہے۔ تو اس کی عزت ہی عزت ہے۔ اور پھر مکہ کا مقام ایسا ہے کہ اسے کسی صورت میں ذلّت سے منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ دوسرے سعد کے فقرہ سے اور اس فقرہ کے کہنے کے انداز سے مسلمانوں کے دلوں میں ابوسفیان کے متعلق تحقیر کے جذبات پیدا ہوسکتے تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا منشاء اس کی دلداری کرنا تھا۔ اس لئے آپؐ نے فوراً ابوسفیان کی شکایت پر سعد کو تنبیہ فرمائی۔ اور مسلمانوں کے خیالات کوغلط رستے پر پڑنے سے روک لیا۔ تیسرے آپؐ نے یہ دیکھتے ہوئے کہ سعد کے مونہہ سے یہ بات بے اختیار نکلی ہے اور جان بوجھ کر نہیں کہی گئی اور پھر یہ سوچتے ہوئے کہ سعد اپنے قبیلہ کا سردار ہے۔ حتی الوسع اس کی تحقیر بھی نہیں ہونی چاہیئے۔ یہ حکم تو دیا کہ اس کے ہاتھوں سے سرداری کا جھنڈا لے لیا جائے مگر ساتھ ہی یہ حکم دیا کہ یہ جھنڈا اس سے لے کر اس کے بیٹے کے سپرد کردیا جائے تاکہ سعد کی بھی دلداری رہے اور کسی دوسرے کو بھی اس پر طعن کا موقع نہ پیدا ہو۔ غور کروکہ ان مختصر سے الفاظ میں جو بے ساختہ آپؐ کے مونہہ سے نکلے، آپؐ کی نظر کہاں کہاں پہنچی۔ گویا ایک آن واحد میں آپؐ کے الفاظ نے کئی ذہنی دروازے جو نقصان دہ تھے، بندکردیئے اور کئی ذہنی دروازے جو نفع مند تھے وہ کھول دیئے۔

غزؤہ حنین کے موقعہ کی مثال

غزؤہ حنین کے بعد جب غنائم کی تقسیم کا سوال پیدا ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مکہ والوں کی تالیف قلب کے خیال سے انہیں زیادہ حصہ دیا۔ بعض جوشیلے اور کم فہم انصار کو اس پر شکایت پیدا ہوئی اور انہوں نے کہا کہ خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے مگر انعام مکہ والے لے گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ بات پہونچی تو آپؐ نے انصار کو ایک علیحدہ جگہ میں جمع کیا۔ اور ان سے کہا کہ مجھے ایسی ایسی خبر پہونچی ہے۔ کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہوسکے کہ لوگ تو بھیڑ بکری اور اونٹ لئے جاتے ہیں مگر تمہارے ساتھ خدا کا رسول جارہا ہے۔ انصار کی بے اختیار چیخیں نکل گئیں اور روتے روتے ہچکی بندھ گئی۔ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ہم میں سے بعض نادان نوجوانوں کے مونہہ سے یہ فقرہ نکل گیا تھا۔ ہم خدا کے رسول کو لیتے ہیں۔ ہمیں دنیا کے اموال کی رغبت نہیں۔ آپؐ نے فرمایا:-
’’اے انصار کے گروہ۔ اب تم مجھے جنت میں حوضِ کوثر پر ہی ملنا۔‘‘

علم النفس کے ماتحت اس واقعہ کے پہلے حصہ کی تشریح واضح ہے۔ کسی نوٹ کی ضرورت نہیں مگر آپؐ کا آخری فقرہ کچھ تشریح چاہتا ہے۔ یہ ایک بہت سادہ اور صاف فقرہ ہے۔ مگر علم النفس کے سانچے میں کس طرح ڈھل کر نکلا ہے ۔ آپؐ کا منشاء یہ تھا کہ تم میں سے بعض نے دنیا کا لالچ کیا ہے۔ اب اس کی پاداش میں تمہیں دنیا میں اس خدائی انعام سے محرومی رہے گی جو دنیا کے انعاموںمیں سب سے بڑا انعام ہے۔ یعنی حکومت وسلطنت۔ لیکن یہ نہ سمجھو کہ تمہارا اخلاص اور تمہاری قربانیاں رائگاں گئیں۔ بلکہ اس کے لئے تم مجھے آخرت میں حوضِ کوثر پر آکر ملنا۔ وہاں تم آخرت کے انعاموں سے مالامال کئے جاؤ گے۔ اور خدا تمہاری سب کسریں نکال دے گا مگر دنیا میں حکومت واقتدار کا انعام اب تمہیں نہیں ملے گا۔ گویا اس چھوٹے سے فقرہ میں آپ نے انصار کے دل میں یہ سبق پختہ طور پر جمادیا کہ اگر قومی طور پر مضبوط ہونا چاہتے ہو اور ترقی کرنا چاہتے ہو تو اپنے کمزور ساتھیوں کو بھی اپنے ساتھ سنبھال کر چلو ورنہ ایک حصہ کا وبال دوسرے حصہ کو بھی اٹھانا پڑے گا۔ اور اسی فقرہ میں آپ نے یہ بھی بتادیا کہ تم نے میرا دامن پکڑ کر دنیا کی نعمتوں کا لالچ کیا اب تمہیں دنیا کی نعمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھنا چاہیئے مگر چونکہ خیالات کی اس رو کے ساتھ فوراً یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ گویا انصار کی جماعت خدائی انعامات سے محروم رہی۔ اس لئے آپؐ نے ساتھ ہی اس کا ازالہ فرمادیا کہ نہیں۔ ایسا نہیں بلکہ خدا انہیں آخرت میں انعامات کا وارث بنائے گا۔ اور چونکہ اصل زندگی آخرت ہی کی زندگی ہے اس لئے اگر آخرت میں انعامات مل جائیں تو دنیا کی محرومی چنداں قابل لحاظ نہیں ہے۔ آپؐ کے اس فقرہ میں یہ مزید لطافت ہے کہ گو آپؐ کا اصل منشاء اس موقع پر انصار کو تنبیہہ کرنا تھا۔ لیکن آپؐ نے انعام کے حصہ کو تو صراحت کے ساتھ لفظوں میں بیان فرمادیا۔ مگرسزا اور محرومی کے مفہوم کو لفظوں میں نہیں بیان کیا۔ بلکہ بین السطور رکھا یعنی یہ نہیں فرمایا کہ اب تمہیں دنیا میں حکومت کا انعام نہیں ملے گا۔ بلکہ صرف اس قدر فرماکر خاموش ہوگئے کہ اچھا اب تم مجھے آخرت میں ملنا مگر چونکہ یہ ایک توبیخ کا موقعہ تھا آپؐ نے یہ بات نہیں کھولی کہ آخرت میں تم خدائی انعامات سے بہت بڑا حصہ پاؤ گے۔ بلکہ صرف اس قدرفرمانے پر اکتفا کی۔ کہ مجھے حوضِ کوثر پر ملنا۔ یعنی اس حوض پر میرے پاس آنا۔ جہاں ہر انعام اور ہرخوبی اپنی انتہائی کثرت میں پائی جائے گی۔ جس میں اشارہ یہ تھا کہ دنیا کی محرومی کی تلافی آخرت کے انعاموں کی کثرت سے ہوجائے گی۔ یہ صحرائے عربؐ کے اس امّی نبیؐ کا کلام ہے جو ظاہری علم کے لحاظ سے ابجد تک سے بے بہرہ تھا۔

ایک اور موقعہ کی مثال

مشیّت ایزدی کے ماتحت ایک جنگ میں مسلمانوں کو ہزیمت ہوئی اور کئی صحابی میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ بعد میں یہ لوگ شرم کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نہیں آتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اُن کو مسجد کے کونے میں منہ چھپائے تاریکی میں بیٹھے ہوئے دیکھا۔ تو پوچھا تم کون ہو۔ وہ شرم سے پانی پانی ہورہے تھے روکر عرض کیا۔ نَحْنُ الْفَرَّرُوْن یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، ہم بھگوڑے ہیں۔ یارسول اللہ آپؐ نے بے ساختہ فرمایا۔ بَلْ انْتُمْ کرّدُوْنَ۔ ’’نہیں نہیں تم بھگوڑے نہیں ہو۔ تم تو دوبارہ حملہ کے لئے تیار بیٹھے ہو۔‘‘ اللہ اللہ کیا شان ہے! میدان جنگ سے بھاگے ہوئے سپاہی مذامت میں ڈوبے جارہے ہیں اور عرض کرتے ہیں کہ یارسول اللہ ہم آپؐ کو کیا مونہہ دکھائیں۔ ہم تو میدان میں پیٹھ دکھا چکے ہیں۔ آپؐ دیکھتے ہیں۔ کہ ان کی ہمتیں گری جاتی ہیں۔ فوراً فرماتے ہیں کہ تم بھگوڑے کہاں ہو تم تو دوبارہ حملہ کرنے کے لئے پیچھے ہٹ آئے ہو۔ اورابھی میرے ساتھ ہوکر پھر جنگ کے لئے نکلوگے اور اس ایک لفظ سے گرے ہوئے پست ہمت سپاہی کو اس کی پستی سے اٹھا کر کسی بلندی پر پہونچا دیتے ہیں!

(مطبوعہ الفضل٢٦ نومبر١٩٣٣ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 جنوری 2021