• 26 اپریل, 2024

مذہب اور لذّات

آجکل کے ترقی یافتہ معاشرے میں مذہب پر جو اعتراض اٹھائےجاتے ہیں ان میں ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ مذاہب ایسے تمام کاموں پر پابندی لگاتے ہیں جن سے انسان لذت اور سرور حاصل کرتا ہے مثلاً شراب، جوا، یا کھلے جنسی تعلقات وغیرہ نتیجةً انسان خوشی اور مسرت سے آشنا نہیں رہتا اور زاہد خشک اور سخت دل ہوتا جاتاہے۔

کیا یہ اعتراض درست ہے اور کیا واقعی مذاہب انسان کو سرور پہنچانے کے تمام راستے بند کرتے ہیں۔آئیے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں۔

لذات کی کئی اقسام ہیں۔ قدرت نے محسوس کرنے کےلیے انسان کو پانچ حواس عطا کئے ہیں جنہیں حواس خمسہ کہتے ہیں اور یہ پانچ حواس جن میں چکھنا۔ سننا۔ دیکھنا۔ سونگھنا اور لمس شامل ہیں انسان کی جسمانی لذات کو بھی محسوس کرتے ہیں اور تکالیف کو بھی۔ مثلاً اچھے کھانے کا ذائقہ زبان محسوس کرتی ہے اس سے لطف اٹھاتی ہے مگر کڑوی چیز کو زبان ناپسند کرتی ہے۔ کسی بھی مذہب میں مزے دار کھانا کھانے پر پابندی نہیں لگائی گئی ہے ہاں بعض ایسی غذاوٴں پر پابندی ضرور لگائی ہے جوفرد اور معاشرے کے لیے نقصان کا موجب ہوسکتی ہیں۔ مثلاً شراب ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جسے انسان اگر چاہے تو استعمال کرے اور اگر چاہے تو نہ کرے اس کا ذائقے کی حِس سے ایسا تعلق نہیں ہے کہ اسے استعمال کرنا ضروری ہو اور اگر نہ استعمال کرے تو دکھ میں پڑ جائے۔ جو لوگ شراب استعمال ہی نہیں کرتے انہیں نہ اسکے ذائقے کا تجربہ ہوتا ہے اور نہ سرور کا اوران کی زندگی پر اسکے نہ استعمال کرنے سے نہ صرف کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ ان کی زندگی کئی پہلو سے شراب استعمال کرنے والوں سے زیادہ بہتر ہوتی ہے یہی حال دوسرے نشوّں کا ہے۔

تمباکو نوشی نہ کرنے والا تمباکو نوشی کے اچھے یا بداثرات کو محسوس ہی نہیں کرتا۔ تیز نشہ آور اشیاء مثلاً ہیروئین۔ کوکین وغیرہ کو استعمال کرنے والے انہیں چھوڑ ہی نہیں سکتے حالانکہ ان کی صحت برباد ہوجاتی ہے اور معاشرے میں وہ بد حال لوگوں میں شمار ہوتے ہیں مگر نشہ کے ایسے عادی ہو جاتے ہیں کہ خواہ اپنا تن من بیچنا پڑے وہ اسے استعمال کئے بغیر رہ ہی نہیں سکتے۔ جبکہ انہیں نہ استعمال کرنے والے ان کے بد اثرات سے محفوظ رہتے ہیں تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں نشئی پر پابندی لگانا مناسب نہیں بلکہ چونکہ وہ لذت اور سرور کے حصول کا ذریعہ ہیں اس لیے ان کی مدد اور حوصلہ افزائی کرنی چاہئیے؟

کوئی مہذب معاشرہ اس بات کی تائید نہیں کرے گا اور حکومتیں ایسے قوانین بنانے پر مجبور ہیں کہ یہ برائی آگے نہ پھیلے۔ پس لذات کا حصول بلاروک ٹوک اور بے محابہ نہیں ہو سکتا۔ اور کہیں نہ کہیں انسان کو ایک حد فاصل کھینچنی پڑتی ہے۔

سرور اور نشاط کی یہ کیفیات عارضی ہوتی ہیں اور کچھ وقت کے بعد ان کا اثر ختم ہوجاتاہے۔ چنانچہ ان کے عادی افراد کو مسلسل انہیں استعمال کرنا پڑتا ہے۔اسی لیے نشے کے عادی افراد تمام زندگی اپنا وقت،صحت اور رقم اس عارضی سرور کو حاصل کرنے کےلیے برباد کرتے رہتے ہیں۔

انسان کے حواس خمسہ چونکہ خداتعالیٰ نے ہی دویعت فرمائے ہیں اس لیے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ خود ودیعت کئے ہوئے حواس پر خود ہی بے جا پابندیاں لگا دی جائیں۔ہاں ان کی ایسی حدود مقرر کر دی گئی ہیں جس سے معاشرہ ان کے مثبت اثرات سے تو استفادہ کرتاہے۔لیکن منفی اثرات سے بچ جاتاہے۔ جیسے میں نے شراب اور دیگر نشہ آور اشیاء کی مثال دی ہے کہ یہ ایسی لذات ہیں جو معاشرے کا رخ مثبت طرف موڑنے کی بجائے منفی طرف موڑ دیتی ہیں۔یہی حال دیگر حواس کا بھی ہے مثلاً قوت شامہ ہے۔ کسی مذہب میں اچھی خوشبو کے استعمال سے نہیں روکا گیا۔ دیکھنے اور سننے کی قوت ہے۔ اچھا نظارہ دیکھنا اور خوش آوازوں کا سننا کسی مذہب نے منع نہیں کیا۔

اسی طرح قوت لامسہ ہے۔ اس میں لذت کی سب سے بڑی مثال میاں بیوی کے تعلقات ہیں۔ مذاہب نے نہ صرف انہیں منع نہیں کیا بلکہ حوصلہ افزائی کی ہے۔ ہاں شادی سے باہر تعلقات منع کئے گئے ہیں جو بالآخر معاشرے کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

ذہنی لذات کا بھی یہی معاملہ ہے۔اس کے کئی پہلو ہیں آجکل دنیا میں اچھی موسیقی پسند کی جاتی ہے اور اچھے موسیقار معاشرے میں بہت اونچا مقام حاصل کرلیتے ہیں جن کی موسیقی سننے سے لوگ لذت اور سرور محسوس کرتے ہیں اور ان کے پروگراموں میں ہزاروں لوگ شامل ہوجاتے ہیں۔ان میں سب سے اچھا موسیقار وہ سمجھا جاتاہے جو انسان کو لذت کے اس مقام تک لے جائے جہاں جذبات کے دباؤ سے لوگوں میں رقت پیدا ہوجائے مگر اس طور کی لذت کے حصول کا معاشرے پر کوئی مثبت نتیجہ اثر انداز نہیں ہوتا۔

سب سے بڑی ذہنی اور روحانی لذت محبت ہے اور تمام مذاہب محبت کا درس دیتے ہیں لیکن یہ لذت عارضی نہیں بلکہ تسلسل اور ہمیشگی ہوتی ہے اور اس کا تجربہ کار انسان ہمیشہ سرشاری کی کیفیت میں رہتا ہے۔ یہ محبت اپنے جیسے انسانوں سے بھی ہوسکتی ہے اور خالق سے بھی۔ خالق سے محبت ایک اعلیٰ درجے کا جذبہ ہے جو لذات اور سرور کے اعلیٰ مدارج کا آئینہ ہے۔ مخلوق سے محبت بھی اسی جذبے کا عکس ہے اس میں والدین کی اولاد سے محبت بے لوث جذبہ ہے۔ اس کے علاوہ اپنے اہل خانہ سے محبت دوستوں سے محبت اور دیگر انسانوں بلکہ جانوروں سے محبت بھی ایسی سرور انگیز اور نشاط آور ہوتی ہے کہ روح اس سے عجیب طرح کی سرخوشی محسوس کرتی ہے۔

حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ علیہ السلام اس حوالہ سے فرماتے ہیں :۔
’’لوگوں نے لذت نفس اور لذت روح میں فرق نہیں کیا اور دونوں کو ایک ہی چیز قرار دیا ہے۔حالانکہ وہ دو مختلف چیزیں ہیں۔‘‘

اس حوالہ سے آپ نے نماز کی لذت کا ذکر فرمایا ہے کہ جو لذت ایک عارف باللہ کو نماز میں حاصل ہوتی ہے اسکا ایک نفسانی لذت کا خواہش مند تصور بھی نہیں کرسکتا۔

اس حوالہ سے مزید فرماتے ہیں کہ:۔
’’بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم کو نماز میں لذت نہیں آتی ۔مگروہ نہیں جانتے کہ لذت اپنے اختیار میں نہیں ہے اور لذت کا معیار بھی الگ ہے۔ ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص اشد درجہ کہ تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے مگر وہ اس تکلیف کو بھی لذت ہی سمجھ لیتا ہے۔ دیکھو ٹرانسوال ﴿اس وقت ٹرانسوال کی جنگ جاری تھی﴾ میں جو لوگ لڑتے ہیں۔ باوجود یکہ اس میں جانیں جاتی ہیں اور عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوتے ہیں۔ مگر قومی حمیت اور پاسداری ان کو ایک لذت اور سرور کے ساتھ موت کے منہ میں لے جارہی ہے۔‘‘

﴿الحکم جلد7 نمبر8 صفحہ1تا3 28فروری 1903﴾

نیز فرمایا:۔
’’پس میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ سے نہایت سوز اور ایک جوش کے ساتھ یہ دعا مانگنی چاہیے کہ جس طرح پھلوں اور اشیاء کی طرح طرح کی لذتیں عطا کی ہیں۔ نماز اور عبادت کا بھی ایک بار مزہ چکھا دے۔ کھایا ہوا یاد رہتاہے۔ دیکھو اگر کوئی شخص کسی خوبصورت کو ایک سرور کے ساتھ دیکھتا ہے تو وہ اسے خوب یاد رہتا ہے۔‘‘

﴿ملفوظات جلداول103﴾

دراصل جیسا کہ آپ نے فرمایا لذت کے معیار الگ الگ ہیں اور جسقدر انسانی طبیعت نفیس اور عمدہ ہوتی جاتی ہے۔ لذت کے معیار بہتر سے بہتر ہوتے جاتے ہیں۔ ایک غیر مہذب انسان کو گندگی سے کراہت نہیں آتی۔ مگر ایک مہذب انسان کی طبیعت اسی گندگی کو دیکھ کر منقبض ہوجاتی ہے۔ جیسے ایک نشئی نشہ آور اشیاء کے حصول کےلیے اپنی جان بھی داوٴ پر لگا دیتا ہے مگر ایک سمجھدار انسان اسے ترحم کی نظر سے دیکھتاہے اور شکر کرتاہے کہ وہ اسکی جگہ نہیں ہے۔

چنانچہ مذاہب انسان کو لذات سے منع نہیں کرتے بلکہ بہترین لذات کے حصول کا راستہ دکھاتے ہیں۔ جو بالآخر انسانی معاشرے میں سکون اور محبت کی فضا قائم کرتا ہے۔

٭…٭…٭

(مرسلہ: ق۔س۔ا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 جنوری 2021