• 26 اپریل, 2024

مومنین کی کامیابی کا راز

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’یقینا مومن کامیاب ہو گئے۔ وہ جو اپنی نماز میں عاجزی کرنے والے ہیں۔ ان آیات میں سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ کہہ کر مومنوں کی کامیابی کی یقینی خوشخبری عطا فرمائی ہے۔ لیکن کون سے مومن؟ ان کی بہت سی شرائط اگلی آیتوں میں بیان فرمائی ہیں کہ ان شرائط کے ساتھ زندگی گزارنے والے مومن ہی فلاح پانے والے ہیں اور ان شرائط میں سے یا اُن اوصاف میں سے جن سے ایک مومن کو متصف ہونا چاہئے، پہلی خصوصیت یا حالت یہ ہے کہ وہ فِي صَلٰوتِهِمْ خَاشِعُوْنَ اپنی نمازوں میں خشوع دکھانے والے ہیں۔ ’’خاشع‘‘ کے عام معنی یہی کئے جاتے ہیں کہ نماز میں گریہ و زاری کرنے والے۔ لیکن اس کے اَور بھی معنی ہیں اور جب تک سب معنی پورے نہ ہوں ایک مومن کی حقیقی معیار کی حالت پیدانہیں ہوتی۔ اور لغات کے مطابق خشوع کے یہ معنی ہیں کہ انتہائی عاجزی اختیار کرنا۔ اپنے آپ کو بہت نیچے کرنا۔ اپنے نفس کو مٹا دینا۔ تذلل اختیار کرنا۔ اپنے آپ کو کمتر بنانے کے لئے کوشش کرنا۔ نظریں نیچی رکھنا۔ آواز کو دھیما اور نیچارکھنا۔پس دیکھیں اس ایک لفظ میں ایک حقیقی مومن کی نماز اور عبادت کا کیسا وسیع نقشہ کھینچا گیا ہے اور جو انسان خداتعالیٰ کے آگے اپنی عبادتوں کے یہ معیار حاصل کرنے کے لئے جھکے گا، اپنی عاجزی کو انتہا پر پہنچانے والا ہو گا، اپنے نفس کو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے مٹانے والا ہو گا اور جو دوسری خصوصیات بیان کی گئی ہیں ان کو اپنانے والا ہو گا تو پھر وہ جہاں خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والا ہو گا وہاں وہ اس طرف بھی توجہ دے گا کہ میں نے اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق مخلوق کا بھی حق ادا کرنا ہے اور پھر یہ نمازیں اس کے دنیاوی معاملات سلجھانے والی بھی بن جائیں گی…اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے اور فلاح والے اپنی عاجزی انکساری کی انتہا کو پہنچنے کے باوجود، لغویات سے پرہیز کرنے کے باوجود، اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے باوجود، اپنی عصمتوں کی حفاظت کرنے کے باوجود، اپنے عہدوں کو پورا کرنے کے باوجود، اپنی عبادتوں کے حق ادا کرنے کے باوجود، اپنی نمازوں کے حق ادا کرنے کے باوجود اور ان کی حفاظت کرنے کے باوجود پھر بھی یہی کہتے ہیں کہ اے اللہ! ہمیں اپنے فضلوں کی چادر میں ڈھانپ لے کہ اس کے بغیر ہم کچھ نہیں ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہے جو انسان کی مسلسل کوشش کو جو وہ اس کی رحیمیت کو جذب کرنے کے لئے کرتا ہے قبولیت کا درجہ دیتا ہے۔ یعنی رحیمیت کو جذب کرنے کی کوشش جو ہے وہ مسلسل رہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل حاصل ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وجہ سے انسان قبول کیا جاتا ہے اور انجام اس کا بہترین نکلتا ہے۔ پس اس نکتے کو ایک حقیقی مومن کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے بیشک یہ فرما دیا کہ مومن فلاح پا گئے جو یہ یہ کام کرتے ہیں لیکن اس فلاح کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے کے لئے ہر ترقی اور ہر فضل جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتے ہیں اسے اپنی کسی کوشش کا نتیجہ نہ سمجھیں بلکہ ہر ترقی کے بعد سمجھے کہ میں نے کچھ بھی نہیں کیا۔ اگر یہ مادہ پیدا ہو جائے تو ترقی ہوتی چلی جائے گی ورنہ اس نطفے کی طرح جو رِحم میں جا کر مکمل پرورش نہیں پاتا اور چند ہفتوں کے بعد نکل کر ضائع ہو جاتا ہے، ہمارا عمل بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کو عارضی طور پر جذب کرنے کے بعد اپنے کسی بد عمل سے ناکارہ ہو کر ضائع ہو سکتا ہے اور ہو جاتا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ مورخہ 10اپریل2010)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 فروری 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ