• 26 اپریل, 2024

غزل

تیری صورت نگاہوں میں بستی رہے یونہی حسرت سے میں اِس کو تکتا رہوں
رقصاں رقصاں رہوں گیت گاتا رہوں سب کو دیوانہ سا خواہ میں دِکھتا رہوں

میں فقیرانہ آیا ہوں در پہ ترے ہوں گنہگار میں مجھ کو معلوم ہے
تیری نظرِ کرم یونہی پڑتی رہے یونہی مستوں میں مستانہ دِکھتا رہوں

بے قراری میں راحت کے سامان ہیں کیا عجب میری چاہت کے انداز ہیں
تیری قُربت میں بھی تیری فُرقت میں بھی مرغِ بِسمِل کی مانِند تڑپتا رہوں

تجھ کو پانے کی لذت الگ ہے مگر تجھ کو کھونے کا بھی کچھ الگ ہے مزہ
ساتھ بھی ہم قدم بن کے چلتا رہوں پِھر اچانک کہیں پہ بچھڑتا رہوں

کروں ریگزاروں کو گلشن کبھی ہر اندھیرے کو بھی جگمگاتا رہوں
بن کے بجلی کبھی میں چمکتا رہوں بن کے بادل کبھی میں برستا رہوں

(پروفیسر کرامت راج ؔ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 فروری 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ