• 25 اپریل, 2024

سوشل میڈیا کے فوائد و نقصانات اور صحیح استعمال

آج سے تقریباً 1500 سال قبل اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے کامل دین کو حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے ذریعہ اس دنیا میں قائم فرمایا۔ جوایک عالمگیر مذہب ہے اور قرآنی شریعت ساری دنیا کے لئے آخری اور کامل شریعت ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ وہ اس دین کو ساری دنیا میں پھیلا دے اور بنی نوع انسان کو دین واحد پر جمع کرے ۔

(الصف: 10)

چنانچہ اس عظیم الشان کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کو اس زمانہ میں مسیح موعود اور امام مہدی کے طور پر مبعوث فرمایا تاکہ اُس کی توحید کا دنیا میں بول بالا ہو اور ہمارے پیارے نبی ﷺ کی سچائی اور قرآن کریم کی صداقت دنیا پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جائے۔

قرآن اور احادیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہی وہ زمانہ تھا کہ جب دین حق کی اشاعت اور ساری دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے سامان اس خدائے مطلق نے پہلے سے مقررکررکھے تھے۔ اسی لئے اس زمانہ میں سائنسی ایجادات اتنی تیزی اور کثرت سے ہو ئیںکہ انسانی عقل حیران ہو جاتی ہے ۔ سیدنا حضرت مسیح موعود اس ضمن میں تحریر فرماتے ہیں:۔

… وَ اِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ بھی میرے ہی لئے ہے… پھر یہ بھی جمع ہے کہ خدا تعالیٰ نے (دعوت الی اللہ) کے سارے سامان جمع کر دئیے ہیں۔ چنانچہ مطبع کے سامان، کاغذ کی کثرت، ڈاکخانوں، تار، ریل اور دخانی جہازوں کے ذریعہ کُل دنیا ایک شہر کا حکم رکھتی ہے اور پھر نت نئی ایجادیں اس جمع کو اَور بھی بڑھا رہی ہیں کیونکہ اسباب (اشاعت) جمع ہو رہے ہیں۔ اب فونوگراف سے بھی (دعوت الی اللہ) کا کام لے سکتے ہیں اور اس سے بہت عجیب کام نکلتا ہے۔ اخباروں اور رسالوں کا اجراء ۔ غرض اس قدر سامان (دعوت الی اللہ) کے جمع ہوئے ہیں کہ اس کی نظیر کسی پہلے زمانے میں ہم کو نہیں ملتی۔

(الحکم جلد 6 نمبر 43 بتاریخ 30 نومبر 1902ء صفحہ2-1)

سیدنا حضرت مسیح موعودکے دَور میںتو محض پریس اور ڈاک و تار کا نظام ہی ذرائع ابلاغ کے طور پر موجود تھا اور آپ نے ان ذرائع کا مکمل طور پر استعمال کرتے ہوئے ان کے ذریعہ خدمت دین کا کام کیا اور دیگر احمدیو ں کو بھی اس کی تحریک فرمائی۔ چنانچہ دَور گزرتا گیا اورانسان نے کمپیوٹر ، موبائل ، ٹی وی وغیرہ کی ایجاد کرکے ساری دنیا کو ایک گلوبل ویلج بنا دیا اور (اشاعت) کا کام آسانی سے ساری دنیا میںکیا جانا ممکن ہوا ۔لیکن ساتھ ہی دوسری طرف بُری فطرت کے انسانوںنے ان ایجادات کو اپنے غلیظ مفادات حاصل کرنے کا ذریعہ بھی بنایا۔

کہتے ہیں کہ ماضی میں زمین پر قبضہ کرکے حکومت کرنا سب سے اہم کامیابی مانی جاتی تھی مگر اس ترقی یافتہ زمانہ میں انسان کے دماغ پر تسلط قائم کر کے ان پر قبضہ کرنا سب سے اہم ہو گیا ہے اور اس کام کو کرنے کا ایک بڑا ذریعہ انٹرنیٹ ہے۔ سادہ لوح انسانوں اور کم علم لوگوں کے دماغوں میں من چاہے خیالات پیدا کرکے ان کے ذریعہ اپنے مفادات حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ انٹرنیٹ ہے۔ نیز اس کے علاوہ انٹرنیٹ کے ذریعہ کسی بھی قوم کے نوجوانوں کا قیمتی وقت غیر واجب کاموں میں ضائع کروا کر اُس قوم کو ترقی کے مواقع سے محروم کرنا بھی آج دجالی طاقتوں کا ایک اہم ہتھیار ہے۔

اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے کہ اس نے ہمیں خلافت کے رنگ میں وہ ڈھال عطا فرمائی ہے جو ہمیں دجال کے ان ساحرانہ حملوں سے محفوظ رکھتی ہے۔ خلفائے وقت نے جماعت کے نوجوانوں کو ہمیشہ ان خطرات سے متنبہ کیا جو ہر نئی ایجاد سے پیدا ہوتے ہیں اور انہیں صحیح رنگ میں خدمت دین کیلئے استعمال کرنے کا طریق سکھایا۔ اپنے پیارے خلفاء کے ارشادات کی روشنی میں ہماری اولین ذمہ داری ہے کہ ہم مکمل طور پر ان چیزوں کو اپنے کنٹرول میں رکھیں اور افراط و تفریط سے بچتے ہوئے صراط مستقیم کی پیروی کریں۔ ان چیزوں کا مثبت فائدہ حاصل کریں اور ان کے زہریلے اور ہولناک اثر سے سب کو بچانے کی کوشش کریںتاکہ ہم خدا کے مزید فضلوں اور رحمتوں کے وارث بنیں۔

1930ء کی دہائی میں جبکہ ہندوستان ابھی انگریزوں کی سلطنت کاایک حصہ تھا، تب انگلستان سے انگریزوں کے ہمراہ ان کی زبان، نظام اور ثقافت کے کئی پہلو ہندوستانی معاشرہ میں گھل مل رہے تھے جہاں انگریزوں نے ہندوستان کو ریل، تار، پریس اوردیگر کئی مفید چیزیں مہیا کرائیں وہیں دوسری طرف سینما جیسی بیماری بھی یہاں کے سادہ لوح نوجوانوں میں پھیلا دی۔ ماضی میں عیسائی مشنریز نے سینما اور ناٹک کا استعمال کرکے عیسائیت کی خوب تبلیغ کی اور Miracle & Mystery Plays کے ذریعہ دجال نے اسلام و دیگر مذاہب کے مقابلے عیسائیت کو نجات دہندہ مذہب کے طور پر پیش کیا۔ حضرت مسیح موعود نے اپنے زمانہ میں ان دجالی عزائم کی وہ بیخ کنی کی کہ مشنریز کو سوائے اس کے کوئی چارہ نہ بچا کہ انہوں نے احمدیوں سے مذہبی گفتگو کرنا ہی ترک کر دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ سینما نے بھی ترقی کی اور مذہبی و اخلاقی ناٹکوں کی جگہ بے حیائی اور کھلی بے شرمی نے لے لی۔ سیدنا حضرت مصلح موعود نے اپنے زمانہ میں احمدی نوجوانوں سے خصوصی اپیل کی کہ وہ اس شیطانی حربہ سے ہوشیار رہیں اور اپنا قیمتی وقت ان غیر اخلاقی جگہوں پر جانے سے ضائع نہ کریں۔ آپ نے اسے بدترین لعنت قرار دیا۔

(مطالبات تحریک جدید، ص27)

آج تو یہ لعنت ہمارے گھروں بلکہ ہماری جیبوں تک پہنچ چکی ہے ۔ ہمیں کس قدراس سے بچنے کی تدابیر کرنے کی ضرورت ہے آپ خود ہی اندازہ لگائیں۔ پرانے وقت میں لوگ گانا گانے والوں اور ناچنے والیوں کو معاشرہ میں کم تر مقام پر دیکھتے تھے۔ ان کاموں کے لئے میراثی، نٹ اور بنجارے وغیرہ مخصوص ہوا کرتے تھے لیکن آج دَور بدل گیا ہے، آج دنیاوی لوگ انہیں باعلم افراد پر بھی ترجیح دیتے ہیں اور ان کاموں میں مہارت حاصل کرنے کے لئے بچپن سے ہی بچہ کو جدو جہد کراتے ہیں۔ آج گانا گانے والے، سینما میں کام کرنے والے لوگ ڈاکٹروں، سائنسدانوں سے زیادہ دولت کماتے ہیں۔

یہ سب اس سینما کی ہی دَین ہے اور دجالی تحریک کا حصہ۔ ہمیں اپنے گھروں کو اپنے خیالات کو ان چیزوں سے پاک کرنے کی ضرورت ہے۔ حضرت مصلح موعود نے تاریخی پس منظر میں ہمیں اس لعنت سے دُور رہنے کی طرف توجہ دلائی۔

تمام تباہی جو مسلمانوں پر آئی زیادہ تر گانے بجانے کی وجہ سے ہی آئی ہے۔ اندلس کی حکومت گانے بجانے کی وجہ سے تباہ ہوئی۔ مصر کی حکومت گانے بجانے کی وجہ سے تباہ ہوئی۔ مصر پر صلاح الدین ایوبی نے حملہ کیا تو فاطمی بادشاہ اس وقت گانے بجانے میں مشغول تھا۔

(الفضل 4 ستمبر 1958ء)

ایک طرف جہاں ٹیلی ویژن اس دَور میں دنیاوی لغویات کا سرچشمہ بنا ہوا ہے وہیں دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے اپنی قائم کردہ جماعت احمدیہ کو اس جدید تحقیق کو مثبت رنگ میں استعمال کرنے کی سعادت بخشی ہے۔ جماعت احمدیہ کے چوتھے خلیفہ حضرت مرزا طاہر احمد کے دَور خلافت میں جماعت احمدیہ نے ٹیلی ویژن کی دنیا میں روحانی انقلاب کی بنیاد رکھی اور ایم ٹی اے کے رنگ میں ایک روحانی مائدہ گھر گھر تک پہنچانے کا انتظام ہوا۔ جنوری 1994ء سے آج تک یہ ٹی وی چینل دَور جدید میں میڈیا و سینما کے منفی اثرات کو زائل کرنے کے لئے مسلسل مختلف زبانوں میں عالمی طور پر نشر ہورہا ہے۔

انٹرنیٹ کے جو فوائد ہیں ان سے ہم سب بخوبی واقف ہیں۔ تعلیم کے میدان میں خصوصی طور پر اس نے ایک ایسا مثبت انقلاب پیدا کیا ہے کہ جس کا اندازہ گزشتہ زمانوں میں لگایا جانا ناممکن تھا۔ انٹرنیٹ دنیا کے ہر قسم کے علم سے متعلق کتب، مضامین اور تحقیقی موادکی فراہمی کا Sourceہے۔ اس کے علاوہ مواصلاتی نظام اور روز مرہ کی زندگی کی خرید و فروخت سے لے کر کئی قسم کی سہولیات انٹرنیٹ نے ہمارے گھروں تک پہنچائی ہے۔ دنیاوی طور پر تو اس کے بیشمار فائدے ہیںہی ساتھ ہی روحانی لحاظ سے بھی ہم اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ خلیفہ وقت کے خطبہ جمعہ کے علاوہ ایم ٹی اے اور جماعتی ویب سائٹ پر موجود کتب سلسلہ و مضامین ہمارے لئے وہ روحانی خزانہ ہے جو انٹرنیٹ کے ذریعہ ہمیں آسانی سے میسر ہے ۔ اس مضمون میں خاکسار انٹرنیٹ کے اس فائدے کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہے جس سے استفادہ کرنا جو دراصل تمام مومنین کے فرائض میں شامل ہے ۔ یعنی دعوت الی اللہ اور اشاعت۔ انٹرنیٹ جہاں ذہنی استعدادوں اور علمی معیاروں کی بلندی کیلئے مددگار ہے وہیں مذہبی ترقی اور دعوت الی اللہ کے ذرائع بڑھانے میں بھی ممد و معاون ہے۔

انٹرنیٹ پر جتنی بھی سوشل سائٹس ہیں ان پر دنیا بھر کے تعلیمی، سیاسی، معاشرتی میدانوں سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے ماہرین سے لے کر سکول، کالج، یونیورسٹیز کے طلباء اور عام نوکری پیشہ افرادحتیٰ کہ معمولی انگریزی سے واقفیت رکھنے والی عوام الناس کا بڑا طبقہ موجود ہے۔ اور ان میں سے متعدد ایسے ہیں جو ان سوشل سائٹس پر بے حد Active ہیں یعنی وہ دن کے 24 گھنٹوں میں سے اکثر اوقات انہی پر صرف کرتے ہیں اور تعلیمی، سیاسی، مذہبی گفتگو و بحث و مباحثہ میں حصہ لیتے ہیں۔ انٹرنیٹ اور سوشل سائٹس کی طرف ہمارے ملک کی عوام کا رجحان گزشتہ چند سالوں میں حیران کن تیزی کے ساتھ بڑھا ہے جس کی وجہ انٹرنیٹ اور 4G موبائلز کا عام ہونا ہے۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں نوجوانوں کی تعداد کا شرح تناسب دنیا کے دیگر ممالک سے بڑھ کر ہے۔ ایک تو ویسے ہی ہمارا ملک آبادی کے لحاظ سے ترقی پذیر ہے اُوپر سے ان میں پڑھے لکھے نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اب اس نئی نسل تک دین حق کا حقیقی پیغام پہنچانے کا ذمہ ہمارے سپرد ہے۔ انٹرنیٹ پر کئی سوشل سائٹس ایسی ہیں کہ جن میں ضروری نہیں کہ ہم ذاتی طور پر کسی سے واقفیت رکھتے ہوں تبھی اس سے دینی گفتگو کر سکتے ہیں بلکہ ان پر ہم دین حق کی حقیقی تعلیم، دین حق پر ہونے والے اعتراضات کے جوابات لکھ کر ان کی توجہ حقیقی دین کی طرف مبذول کر سکتے ہیں اور اس طرح پیغام پہنچانے کے بعد وہ ہم سے خود اس ضمن میں گفتگو کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس ضمن میں Twitter اور Quora کا نام سرِفہرست ہے جس میں ہمیں موجودہ دنیا کے حالات اور مذہبی و سیاسی معاملات میں سنجیدہ گفتگو کرنے والے افراد کا مجمع مل جاتا ہے۔

گزشتہ چند سالوں میں حضور انور نے خدام و لجنہ کو فیس بک سے بچنے اور اس کے منفی اثرات سے پرہیز کرنے کی طرف خصوصی توجہ دلائی تھی۔ خاکسار کا ذاتی تجربہ تو یہی ہے کہ جس قدر سنجیدہ پبلک دیگر سوشل سائٹس پر موجود ہے اتنی فیس بک پرنہیں۔ مذہبی جنون رکھنے والے، گالی گلوچ کرنے والے اور جعلی آئی ڈی بنا کر لوگوں کو پریشان کرنے والے افراد کا اکثر حصہ اسی سوشل سائٹ پر پایا جاتا ہے اس لئے دعوت الی اللہ کے احسن مواقع ہمیں انٹرنیٹ کے ان سوشل سائٹس پر زیادہ ملتے ہیں جہاں سنجیدہ، پڑھے لکھے اور حقائق تسلیم کرنے والے افراد کی تعداد زیادہ ہے۔ آخر خلیفہ وقت نے ہمیں جس چیز سے روکا ہے اس کے پیچھے حکمت تو ضرور ہوتی ہے۔ حضور نے فرمایا تھا۔

فیس بُک کا استعمال غلط ہورہا ہے۔ یہ انسان کی ذاتی زندگی میں فساد پیدا کرسکتا ہے بعض لوگوں نے میرے نام پر بنا دیا تھا۔ اس کو میں نے غلط کہا تھا۔ اس کو حرام قرار نہیں دیا اور Ban نہیں کیا۔ جماعت نے اپنی Facebook (جماعتی ویب سائٹ) پر بنائی ہوئی ہے جو دینی ضرورت پوری کررہی ہے۔ دین کی اشاعت کررہی ہے…باقی جہاں تک اس کے عمومی استعمال کا تعلق ہے تو اس کی وجہ سے لوگوں کے تعلقات و گھربرباد ہورہے ہیں۔ اور لوگوں کے ننگ ظاہر ہورہے ہیں۔ ایک دوسرے کی برائیاں ہر ایک نوٹ کرتا رہے اور عیاشی حاصل ہو۔ نیک مقصد حاصل نہ ہو۔ حضور انور نے فرمایا:۔ اس فیس بک نے صرف انفرادی طور پر ہی لوگوں کا امن برباد نہیں کیا بلکہ اس نے حکومتوں کو بھی ہلاکر رکھ دیا ہے۔

(الفضل 27جولائی 2011ء بشکریہ المنار برطانیہ۔ اپریل 2012ء)

Quora ایک ایسا Platform ہے جو آجکل بڑی تیزی کے ساتھ مقبولیت حاصل کر رہا ہے ۔ اس ویب سائٹس پر ایک userاپنی ضرورت کے مطابق کوئی سوال لکھتا ہے اور پھر اس سوال کے مطابق Interestرکھنے والے دیگر Usersکو اس کا جواب لکھنے کی دعوت ملتی ہے اور سب سے اچھے جواب کو سر فہرست دکھایا جا تا ہے ۔ اس پر آپ خود سوال ڈھونڈھ کر اس کا جواب لکھ سکتے ہیں اور اگر خود سوال لکھ کر دوسروں کو جواب کے لئے بلا سکتے ہیں پھر جواب در جواب کے ذریعہ ایک طویل علمی گفتگو کی جا سکتی ہے۔

اسی طرح Twitter پر بھی ہم ان لوگوںتک احمدیت کا پیغام پہنچا سکتے ہیں جو دین حق یا مذہب کے متعلق عمومی دلچسپی رکھتے ہوں یا موجودہ دَور میں ہمارے ملک میںجو دین حق کے خلاف ایک فضا بنائی جا رہی ہے اس تعلق سے صحیح حقائق سے انہیں آگاہ کر سکتے ہیں۔ اس ویب سائٹ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں لمبی طویل بات لکھنے کی بجائے صرف اختصار کے ساتھ مجوزہ دلائل و حقائق لکھنے کی ہی اجازت ہوتی ہے۔

موبائل فون کا بے جا استعمال

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اطفال الاحمدیہ جرمنی کو اپنے خطاب میں فرمایا:

آجکل یہاں بچوں میں ایک بیماری بڑی ہے، ماں باپ کو مطالبہ ہوتا ہے کہ ہمیں موبائل لے کر دو۔ دس سال کی عمر کو پہنچتے ہیں تو موبائل ہمارے ہاتھ میں ہونا چاہئے۔ آپ کوئی بزنس کر رہے ہیں؟ آپ کوئی ایسا کام کررہے ہیں جس کی منٹ منٹ کے بعد فون کرکے آپ کومعلومات لینے کی ضرورت ہے؟ پوچھو تو کہتے ہیں ہم نے اپنے ماں باپ کو فون کرنا ہوتا ہے۔ ماں باپ کو اگر فون کرنا ہوتا ہے تو ماں باپ خود پوچھ لیں گے۔ اگر ماں باپ کو آپ کے فون کی فکر نہیں ہے تو آپ کو بھی نہیں ہونی چاہئے۔ کیونکہ فون سے بھی غلط عادتیں پیدا ہوتی ہیں۔ فونوں سے بعض لوگ خود رابطے کر لیتے ہیں جو پھر بچوں کو ورغلاتے ہیں، گندی عادتیں ڈال دیتے ہیں، بیہودہ قسم کے کاموں میں ملوث کر دیتے ہیں۔ اس لئے یہ فون بھی بہت نقصان دہ چیز ہے۔ اس میں بچوں کو ہوش ہی نہیں ہوتی کہ وہ انہی کی وجہ سے غلط کاموں میں پڑ جاتے ہیں۔ اس لئے اس سے بھی بچ کر رہیں۔

(خطاب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 16 ستمبر 2011ء جرمنی بحوالہ اخبار بدر 13 ستمبر 2012ء صفحہ 10)

’’حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے وقت کی چند ایجادات کا ذکر فرمایا ہے اور فرمایا کہ جس قدر آئے دن نئی ایجادیں ہوتی جاتی ہیں اسی قدر عظمت کے ساتھ مسیح موعود کے زمانہ کی تصدیق ہوتی جاتی ہے اور اظہار دین کی صورتیں نکلتی آتی ہیں۔ آج دیکھیں سیٹلائٹ، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ نے اس میں مزید وسعت پیدا کردی ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 12،اکتوبر 2007ء)

پس آخر پر خاکسار یہ عرض کرے گا کہ سیدناحضرت مسیح موعود کی آمد کا مقصد خدا تعالیٰ کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنا اور دنیا سے شیطان کی حکومت کو مٹا کر ایک نئی زمین اور نیا آسمان بنانا ہے اور یہ تبھی ممکن ہے کہ جب ہم پرانی زمین اور پرانے آسمان کے نظام کو بدل ڈالیں اور موجودہ خراب تہذیب سے منہ موڑ کر اس تہذیب کو اپنائیں جو حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی قائم کردہ ہے اور آج کل کی جدید ایجادات کے مضر پہلوئوں سے خود بھی بچیںاور اپنی نسلوں کو بھی بچائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری آئندہ نسلوںکو اپنے خاص فضل سے اپنی رضا کی راہوں پر چلاتا جائے اور شیطانی وساوس اور حملوں سے محفوظ رکھے ۔آمین


(محمد کاشف خالد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 فروری 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ