• 16 اپریل, 2024

دبستانِ حیات (قسط چہارم)

دبستانِ حیات
قسط چہارم

غیر از جماعت ڈاکٹر صاحب پر نیک اثر

احباب جماعت نے بہت سارے وقارِعمل بھی کئےجس کے نتیجہ میں بہت سارے اخراجات بچا لئے گئے۔ایک دفعہ مسجد میں وقارِعمل ہورہا تھا۔ایک غیر ازجماعت ڈاکٹر بشیراحمد صاحب کسی مریض کودیکھنے کے لئے ہمارے محلے میں آئے،وقارِعمل کرتے ہوئے دوستوں کو دیکھ کر وہ بھی مسجد میں آگئے۔وہاں پر بچوں،جوانوں اور بوڑھوں کو اس جوش وجذبہ سے کام کرتے ہوئے بہت ہی حیران ہوئے اور انہوں نے جماعت کے لئے بہت ہی تعریفی کلمات کہے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک دوست کے ذریعہ سے ایک خطیررقم بھی مسجد کی تعمیر کے لئے بھیجی اور کہا کہ مجھےاحساس ہوا کہ خدا کی راہ میں مالی قربانی کا یہی ایک محفوظ مقام ہے۔

یہ مسجد پنجاب بھر کی چند بڑی مساجد میں سے ایک ہےچونکہ یہ بات آج سےچالیس سال پہلے کی ہے۔جب جسم اور دماغ جوان تھا۔اب تو بڑھاپا بھی ہے،جو بذات ِ خود ایک بڑی بیماری ہے۔ دیگر بیماریوں نے بھی اطراف سے گھیر رکھا ہے۔ بہت سی باتیں اب یاد نہیں ہیں۔ ہرکسی کا ذکرممکن نہیں ہے۔الغرض سب نے ہی بہت تعاون کیا۔ ہر کوئی اس جہاد میں شریک ہوگیا،عجیب نظارہ تھا۔ جسے قلمبند کرنا خاصا مشکل امر ہے۔ مردوں کے علاوہ ہماری بہنوں کا شوق اورولولہ قابلِ تحسین تھا۔جنہوں نے مالی قربانی کی بڑی تابناک مثالیں قائم کردیں۔

ایک عظیم الشان خانہ خدا بن گیا

پھرخدا تعالیٰ کے فضل سےوہ دن آگیا کہ مسجدِ احمدیہ بن گئی۔ یہ مسجد پنجاب بھر کی جماعتی مساجد میں سے چند بڑی مساجد میں شمار ہوتی ہے۔جس میں مسجد کا مرکزی ہال، لجنہ ہال، مربّی ہاؤس، لائبریری، دفاتر، گیسٹ ہاؤس اور برلبِ سڑک غالباً آٹھ دوکانیں بھی بن چکی ہیں۔

گذشتہ سالوں میں مسجد سے کلمہ طیّبہ مٹانےاورمینار گرانےکا افسوس ناک واقع پیش آیا تھا،جس پرقومی عقل پر ذی شعور طبقہ خون کے آنسو توروتا ہے۔ لیکن زبان پر تالہ بندی ہےلیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے مینار گرنے کے بعد مسجد دومنزلہ سے تین منزلہ بن چکی ہے۔ فَبِاَیِّ اٰلآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانْ

بوڑھا دانا

کھاریاں سےڈنگہ جاتے ہوئے رستہ میں ایک گاؤں خونن آتا ہے۔ جس کے قریب ’’مرزا طاہر‘‘ نامی چھوٹا سا گاؤں ہے۔ وہاں پرایک احمدی بزرگ خاتون تھیں ۔ جو پورے گاؤں میں اکیلی ہی احمدی تھیں۔جو قضاء الہی سےفوت ہوگئیں۔ ہم لوگ کھاریاں سے ان کے جنازے اور تجہیز و تدفین کے لئے وہاں جارہے تھے۔ رستہ میں ایک بوڑھا کسان اپنے کھیت کے ارد گرد جانوروں سے حفاظت کی خاطرجھاڑیاں وغیرہ نصب کررہا تھاجسے مقامی زبان میں واڑی کہتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست نےاس کسان سے کہا۔بابا جی!کیا یہ واڑی آپ کی ہے؟ بوڑھے کسان نے جواب دیا۔ بھائی یہ واڑی میری نہیں لیکن واری (ماری)میری ہے۔ کیونکہ پہلےمیرادادا کہتا تھا یہ زمین میری ہے۔ وہ چلا گیا ۔اس کے بعد میرا باپ اس کو سنبھالتا رہا اور کہتارہا یہ میری ہے،میری ہے۔اب وہ فوت ہوگیا ہے اس لئےمیرے خیال میں یہ ’’واڑی‘‘ میری نہیں اب ’’باری‘‘ میری ہے۔

احمدیت کا بے مثل رشتہ

کھاریاں سے کوٹلہ جاتے ہوئے رستہ میں ایک معروف قصبہ ’’گلیانہ‘‘ آتا ہے۔ وہاں سے کافی دور آگے ایک مختصر ساگاؤں’’تیروچک‘‘ ہے۔ سترکی دہائی میں لوگ یہ سفر بذریعہ سائیکل یاپیدل طے کرتے تھے۔ اب تو ان جدید سفری سہولتوں کے باعث فاصلےسمٹ کررہ گئے ہیں۔ اس گاؤں میں ایک بزرگ مکرّم فضل کریم صاحب رہتے تھے۔ جو اس گاؤں میں اکیلے ہی احمدی تھے۔ان کےبیٹے ملازمت کے سلسلہ میں بیرون ملک تھے۔ یہ بزرگ بہت ہی باہمت اور دلیر شخص تھے۔ نہ معلوم کس طرح نمازِجمعہ کےلئے بسا اوقات کھاریاں تشریف لاتے۔ زیادہ ترقریب ترین جماعت ’’نصیرہ‘‘ جاتے۔

ایک دفعہ بہت زیادہ بیمار ہوگئے۔ ڈاکٹر نے مایوسی کا اظہار کردیا۔ اس وقت گاؤں کے کچھ غیرازجماعت لوگ ان کے پاس آئےاورکہا بہترہے اب بھی توبہ کرلوورنہ تمہاری نعش ہم باہرپھینک دیں گے۔آپ نےاسی وقت قریب ترین جماعت ’’نصیرہ‘‘ پیغام بھیجا کہ مجھے آکر مل جائیں۔وہاں سے دواحمدی دوست ان کے ہاں پہنچے۔ با با جی نے اپنی بیوی کوبلایا اوران احمدی مہمانوں کے سامنےکہا۔ دیکھو میں اللہ کے فضل سے احمدی ہوں۔ جب میں فوت ہو جاؤں تو میراجنازہ اور تجہیزوتدفین صرف احمدی ہی کریں۔اتفاق ایسا ہوا۔اگلے روز ہی وہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ان کی اہلیہ نے ایک آدمی کے ذریعہ سے ہمیں کھاریاں میں پیغام پہنچا دیا۔

خاکسار نے خدام کے ذریعہ علاقہ بھر کی جماعتوں سے رابطہ کیا۔انہیں اس فوتگی کی اطلاع دی اورجنازہ کے لئے پہنچنے کی تاکیدی درخواست کی۔اس دورمیں کھاریاں شہرمیں چند ایک اعلیٰ سرکاری افسران متعین تھے۔علاوہ ازیں کھاریاں کینٹ میں بھی کئی فوجی و دیگرافسران تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ اس بہت ہی غیر معروف گاؤں میں ہرطرف سے احمدی بھائی بسیں کاریں اورویگنیں ليکرپہنچ گئے۔

یہ ایک نظارہ تھا کہ آج تک اس کا میرے دل ودماغ پر اثر ہے۔ مقامی آبادی نے زندگی میں پہلی باراتنےلو گ اور گاڑیاں اپنےہاں دیکھی ہوں گی۔یہ احمدی بھائیوں کی محبت والفت کا ایسا دلکش مظاہرہ تھاکہ علاقہ بھر میں اس واقعہ کا ذکر ہر کسی زبان پر تھا۔

تقدیر الہٰی: اللہ تعالیٰ نے ایک نیا پودا لگادیا

تیرو چک میں مکرم فضل کریم صاحب کی وفات پر اس علاقہ میں کوئی احمدی نہ رہا۔چند سال قبل مجھے حضورِانور کے ارشاد پرپُرتگال جانے کا ارشاد ہوا۔ احبابِ جماعت سے تعارف ہوا تو ان میں سے ایک دوست نے بتایا کہ ان کا تعلق کھاریاں سے ہے۔ میں نےکہا کھاریاں کے احباب کو تو میں جانتاہوں اس پر کہنے لگے۔ میرا تعلق ’’تیرو چک‘‘ گاؤں سے ہے۔ پھر انہوں نے بتایا کہ میں اپنے خاندان میں اکیلا ہی احمدی ہوں اور مجھے جرمنی میں قبولِ احمدیت کی توفیق ملی۔ اس طرح اللہ تعالی نے اس گاؤں میں پھر سے احمدیت کا پودا لگاديا۔

عقلمند را اشارہ کافی است

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ مسندِ خلافت پر فائز ہونے سے قبل ایکدفعہ کھاریاں تشریف لائے۔ یہ جمعہ کا دن تھا اور آپ نے ہی نمازِ جمعہ پڑھانی تھی۔مکرم حاجی احمد خان ایاز صاحب نے آپ کو اپنے ہاں دوپہر کے کھانے کی دعوت دی۔ جو آپ نےازراہِ شفقت قبول کرلی۔ جب حضور حسبِ پروگرام کھانے کے لئے تشریف لائے۔آپ نے محسوس کیا ابھی کھانے میں دیر ہے۔آپ نے حاجی ایاز صاحب کو مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا۔حاجی صاحب مجاہد ہنگری ہیں،کیا آپ کو ہنگر ی کی زبان آتی ہے؟حاجى صاحب نے عرض کی جی میاں صاحب ۔حضور نے فرمایا اچھا پھر اس فقرہ کا ترجمہ کریں۔اگر کھانا لیٹ ہوگیا تونمازیوں کو بہت پریشانی ہوگی ۔ حاجی صاحب فوری طور کمرہ سے با ہر تشریف لے گئے اور جلد ہی حضور کو کھانے کے ٹیبل پر آنے کی دعوت دی۔حضور نے کھانا تناول فرمایا۔حاجی صاحب نے عرض کی۔میاں صاحب ترجمہ کیسا تھا؟ آپ نے فرمایا.زبردست بہت ہی سلیس اور با محاورہ۔

تم قادیانی بہت تیز چیز ہو

ابتدا میں ہمارے گاؤں میں تعلیمی سہولت کلاس ہشتم تک ہوتی تھی۔ آٹھویں کلاس کا امتحان بہت اہم ہوتا تھا۔اس امتحان کو ورنیکلر فائنل کا امتحان کہتے تھے۔ اس دور میں ہمارے علاقہ میں صرف ’’دولت نگر‘‘ نامی قصبہ میں ہی ہائی سکول ہوتا تھا جو علاقہ بھر کے مڈل سکول کے طلبہ کے فائنل امتحان کا مرکز ہوتا تھا۔امتحان دینے والے طلبہ کسی ایک استاذ کی نگرانی میں امتحانات کے ایّام میں قیام کرتے ۔یہ ایک بڑی وسیع وعریض عمارت تھی۔مہمان مدارس کے طلبہ کواپنے اپنےسکول کی ترتیب سےایک ایک کلا س روم الاٹ تھا جہاں پر طلبہ رات کوان ٹاٹوں پر سویا کرتے تھے۔

میں اپنی کلاس میں اکیلا ہی احمدی تھا۔ جب ہم لوگ دولت نگر پہنچے تو پہلے ہی روزمیرے ساتھی طلبہ نے باقی طلبہ کو بھی بتادیا کہ میں احمدی ہوں۔جس سے ہر کسی کو میرے احمدی ہونے کا علم ہوگیا۔

کھیل کے اوقات میں ہم لوگ باہر میدان میں کھیل رہے تھے۔اس دوران ایک بچہ بھدرنامی سکول سے میرے پاس آیا اور اس نے مجھ سے پوچھا کہ میں نے سنا ہےکہ تم قادیانی ہو ۔ میں نے اثبات میں جواب دیا۔اس پر کہنے لگا۔ہمارے ہیڈ ماسٹر صاحب جو ہماری کلاس کے ساتھ آئے ہوئے ہیں وہ بھی قادیانی ہیں اور ان کا نام راجہ غلام مصطفیٰ صاحب ہے۔ میں نے پوچھا۔راجہ صاحب کہاں ٹھہرے ہوئے ہیں؟ اس نے بتایا کہ فلاں کلاس روم میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔اس نے بتایا کہ وہ شام کے بعد سٹڈی ٹائم میں ہمیں پڑھانے کے لئے آئیں گے۔ شام کے وقت میں ان کےکمرہ میں چلا گیا۔مکرّم راجہ صاحب طلبہ کو امتحان کی تیاری کے سلسلہ میں رہنمائی فرما رہے تھے۔سلام دعا کے بعد میں نے ان سے پوچھا۔ کیا آپ احمدی ہیں ۔انہوں نے بتایا۔ ہاں اللہ کے فضل سے میرا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے۔اس پر میں نےبتایا کہ میں بھی اللہ کے فضل سے احمدی ہوں۔مکرم راجہ صاحب یہ جان کر بہت خوش ہوئے۔کہنے لگے الحمدللہ ہم دو احمدی ہوگئے ہیں۔کرسی سے اٹھے، بڑے ہی پیار سے ملے۔ مجھے اپنے پاس بٹھا لیا۔ کافی دیر باتیں کرتے رہے۔ان کی کلاس کے طلبہ کے لئے یہ عجیب بات تھی کہ راجہ صاحب ایک مہمان بچے کے ساتھ اتنی شفقت اور پیار سے باتیں کررہے ہیں۔اس وقت میری عمر تیرہ سال ہوگی جبکہ مکرم راجہ صاحب کی عمراس وقت پچاس سے زائد ہوگی۔پھر راجہ صاحب نےکہا ۔ بیٹاجب تک ہم لوگ اس جگہ پر قیام پزیر ہیں ہم اپنی باجماعت نماز ادا کیا کریں گے۔ان شاء اللہ

جب میں اس ملاقات کے بعد واپس اپنے کمرہ میں آیا۔ میرے ماسٹر صاحب میری کلاس کے طلبہ کو پڑھا رہے تھے۔ مجھ سے تاخیر کا سبب پوچھا ۔ میں نے بتایا میں راجہ صاحب کو ملنے گیا ہوا تھا۔کہنے لگے تم انہیں کیسے جانتے ہو۔ میں نے بتایا وہ احمدی ہیں اور میں بھی احمدی ہوں۔اس پر ماسٹر صاحب نے کہا۔ تم قادیانی بڑی تیز چیز ہو کیسے کیسے رابطے کرلیتے ہو۔

قبول احمدیت کا ایک خوبصور ت واقعہ

کھاریاں جماعت میں ایک بزرگ مکرم غلام احمد کسانہ صاحب تھے۔جو مسجد احمدیہ کھاریاں میں باقاعدگی کے ساتھ اذان دیا کرتے تھے۔ایک دفعہ انہوں نے بتایا کہ ان کے ایک بزرگ فقیرانہ مزاج کے تھے۔طلب حق کے لئے مختلف مذھبی مقامات پر چکر لگاتے رہتے۔کہتے ہیں ،ایک دفعہ وہ بزرگ کھاریاں سےاعوان شریف کی جانب ایک معروف شاہ صاحب جو اپنے علاقہ میں ایک عالمِ دین اور بزرگ مشہورتھے۔ان کےآستانے پر پہنچ گئے۔ پیر صاحب اپنےمریدوں کے پاس تشریف فرما تھے۔انہوں نے بھی سلام کیا اور حلقہ احباب میں بیٹھ گئے۔

مکرّم شاہ صاحب نےجب ایک نوواردکودیکھا توان سےپوچھا میاں آپ کون ہیں؟اس نےجواب دیا کہ یہی تو معلوم کرنے آیا ہوں کہ میں کون ہوں؟(یہ ایک فقیرانہ انداز ِکلام ہے۔)

شاہ صاحب نے پوچھا کہاں سے آئے ہو۔ انہوں نے جواب دیا میں کھاریاں سے آیا ہوں۔اس دور میں لوگ پیدل ہی آیا جایا کرتے تھے۔ کھاریاں سے مشرق کی جانب سےاعوان شریف کے لئے راستہ جاتا ہے۔ شاہ صاحب نے فرمایا ٹھیک ہے۔اب آپ نے کھاریاں واپس جانے کے لئے دوسرا راستہ لینا ہے۔موصوف نےاس ارشاد میں کوئی ہدایت یا اشارہ سمجھا۔اس کی اطاعت میں دوسرا رستہ اختیار کرلیا جوایک لمبا چکر لگا کرجہلم کی جانب سےکھاریاں کو جاتا ہے۔جب یہ بزرگ جہلم پہنچے ۔ تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں تو ہزارہا لوگ جمع ہیں۔آپ نے کسی سے استفسار کیا کہ اتنے زیادہ لوگ کیوں اکٹھے ہیں۔کسی نے بتایا کہ قادیاں والے مرزا صاحب آئے ہوئے ہیں۔آپ بھی ان لوگوں میں شامل ہوگئے۔اللہ تعالیٰ نے آپ کی عقدہ کشائی فرمادی۔ دل کی گرہ کھل گئی۔آپ کو اپنے سوال ’’کہ میں کون ہوں‘‘ کا جواب مل گیا۔آپ جس منزل کے متلاشی تھے۔آپ کواپنی منزل مل گئی پھر صدقِ دل سے بیعت کرکے داخل ِاحمدیت ہوگئے۔

کھاریاں کی مضا فاتی جماعتیں

کھاریاں۔ دھوریہ۔ چک سکندر۔ مرزا طاہر۔ خونن۔ ڈھومیانہ چک۔ ڈنگہ۔بھلیسر والا۔ سرائے عالمگیر۔ بالانی۔ نصیرہ۔ نورنگ۔ ڈھل کیہڑتیروچک۔بزرگ وال۔ پنجن۔ بوریوالی۔ کھاریاں کینٹ

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے

کھاریاں کینٹ میں ایک احمدی بزرگ کسی ادارہ میں چوکیدار کے طورپرملازم تھے۔انکی فیملی بھی ان کےہی ساتھ سرونٹ کوارٹرزمیں رہائش پزیر تھی۔ کسی فوجی جوان نےان کےاہل خانہ کے ساتھ چند ایک باربد تمیزی کی۔اسے منع کیا گیا لیکن اسے کوئی اثر نہ ہوا۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔یہ بزرگ بڑے پریشان ہو گئے۔ایک دن وہ میرے پاس آئےاوراپنی ساری داستان بتائی۔

ان ایّام میں کھاریاں کینٹ میں اسٹیشن کمانڈرمکرّم کرنل نذیراحمد صاحب تھے۔ جوبفضلہ تعالیٰ ایک بہت ہی مخلص اورنڈراحمدی آفیسرتھے۔ یہ موصوف مکرّم بشیراحمد رفیق صاحب سابق امام مسجد لندن کے بھائی تھے۔ مکرّم کرنل صاحب کا بنگلہ اس چوکیدار کے گھر سے تھوڑے ہی فاصلہ پر تھا۔

میں اس کو ساتھ لے کرکرنل صاحب کے بنگلہ پر چلا گیا۔ مکرّم کرنل صاحب بڑے ہی خلیق اورمہمان نوازشخص تھے۔ مل کربہت خوش ہوئے۔علیک سلیک کےبعد میں نےاپنی آمد کامدّعا بیان کیا۔کرنل صاحب نےکہا۔ یہ خود کیوں میرے پاس نہیں آئے؟بابا جی کہنے لگے۔ جناب میرےاورآپ کے مراتب میں بہت فرق ہےاس لئے ہمت نہیں ہوئی۔کرنل صاحب نےکہا۔ بھئی ہمارادنیاوی مراتب کے علاوہ ایک اور بھی بہت ہی بڑا اور گہرارشتہ ہے۔ہمارا احمدیت کا رشتہ سب رشتوں سے بڑھ کر ہے۔آئندہ کوئی مشکل ہوتوفوری طورپربِلا خوف وخطرمیرے گھرآجائیں۔ یادرکھیں۔یہ ایک احمدی کا گھرہے جوآپ کا بھی گھر ہے۔مکرم کرنل صاحب نےاسی وقت کسی دوسرے افسرکو فون کرکےبتایا۔کہ تمہارے محکمہ کے فلاں شخص نے ایک بزرگ کےساتھ ایسی حرکت کی ہے۔ یہ جان لو ۔کہ تمہارے آدمی نےاس چوکیدارکےساتھ ایسی حرکت نہیں کی ۔ بلکہ میرے ساتھ کی ہے۔اس لئے اسے سمجھا لیں ورنہ نقصان کا خود ذمہ دار ہوگا۔اس کے بعد بفضلہ تعالی وہ مشکل حل ہوگئی۔

یحییٰ خان سابق صدرپاکستان
تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُهَا بَیْنَ النَّاسْ

ایک دفعہ کھاریاں کےخدّام اوراطفال نے پکنک پر جانے کا پروگرام بنایا۔ کھاریاں شہرسے چند کلو میٹر کے فاصلہ پر جی ٹی روڈ کے کنارے پرہی جنگل نماپہاڑی علاقہ ہے جسے بنی بنگلہ کہتے ہیں۔

جب ہم بنی بنگلہ کے حدود میں پہنچے تھوڑی دور آگے گئے تو ہمیں چند فوجی جوان نظر آئے۔جنہوں نے ہمیں بتا یا کہ آپ اس طرف آگے نہیں جاسکتے ۔ادھر جانا منع ہے۔آپ لوگ دوسری جانب جاکر پکنک کرلیں۔ ہم حسبِ ارشاد ایک دوسری طرف ایک مناسب جگہ منتخب کرکے بیٹھ گئے۔ وہیں ہم نے کچھ سیر سپاٹا کیا۔ خدّام واطفال کےمابین مختلف علمی اور جسمانی مقابلہ جات ہوئے جن میں انہوں نے بڑے شوق سے حصہ لیا۔
دراصل اس مقام پرایک خاصابڑامکان ہے۔ جو وسیع وعریض جنگل کے اندرواقع ہے۔جسے بنگلہ کہتے ہیں۔اسی وجہ سے اس کو بنی بنگلہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

وہاں جاکرعلم ہواکہ اس بنگلہ میں ایک زمانہ میں مملکتِ خداداد پاکستان کے سیاہ وسفید کےمالک ، سابق صدروچیف مارشل لاء پاکستان جنرل یحیی خان صاحب نظر بند ہیں۔اس بنگلہ میں ان کےہمراہ صرف ان کاایک مونس وغمخواراورچہیتا کتا ہے۔

وہ شخص کل تلک جس کے ارد گردان گنت حاشیہ نشین،شب وروزاس کی پلک کے ایک اشارہ کے منتظر رہتے تھے۔اب وہ کس کسمپرسی کی حالت میں اپنی زندگی کی گھڑیاں گن رہا تھا۔یہاں ہر طرف ھُو کاعالم تھا۔ پتوں کی سرسراہٹ،جنگلی جانوروں کی آوازوں کےعلاوہ دورجی ٹی روڈ پرفراٹے بھرتی گاڑیوں کے شورکی بازگشت ہی سنائی دے سکتی تھی۔انسان کمزور ہے،دوسروں کےعبرتناک انجام سے سبق حاصل نہیں کرتا۔ بلکہ دوسروں کےلئےخودعبرت کا درس بننا چاہتا ہے۔ فَاعْتَبِرُوْایَاأولِی الْاَبْصَارْ

ایک نقطہ نے محرم سے مجرم کردیا

ایک دفعہ کاذکر ہے،ڈنگہ کےمضافات میں بھلیسروالاجماعت کے دورہ پرگیا۔یہاں پرایک ہی خاندان کےچند مخلص گھرانے ہیں۔یہاں چوہدری فیض احمد صاحب ہوا کرتے تھے۔ جن کے اپنے علاقہ کےمعززین سے بہت اچھے مراسم تھے۔ جن کی وساطت سے میری بھی ایسے لوگوں سے ملاقات رہتی تھی۔اب اس خاندان کے بیشتراحباب بیرونِ پاکستان ہیں ۔

’’بھلیسروالا‘‘ سے واپسی پرمَیں ٹرین کےانتظار میں ڈنگہ ریلوے اسٹیشن پرمحو ِانتظار تھا۔میرے قریب ہی ایک دوست تشریف فرما تھے۔میں نے وقت گزاری کے لئے ان کے ساتھ گپ شپ لگانی شروع کردی۔انہوں نے بتایا کہ وہ ڈنگہ کے ہی رہنے والے ہیں۔میں نےانہیں پوچھاکہ اس شہر کا نام ڈنگہ رکھنے کا پسِ منظر کیا ہے۔بظاہر تو یہ ایک عجیب سا نام لگتا ہے۔
انہوں نے ایک بڑی ہی گہری اورحکیمانہ بات بتائی۔ انہوں نے ایک جانب ایک پرانی اور بوسیدہ سی عمارت کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ آپ وہ عمارت دیکھ رہے ہیں۔ میں نے کہا ۔ جی ہاں.کھنڈر بتاتے ہیں عمارت حسین تھی۔

کہنے لگے کسی زمانہ میں یہ ایک بہت ہی مشہور دینی اورعلمی درسگاہ تھی۔اس نسبت سے اس شہر کا نام دین گاہ تھا۔ بعدازاں جب انگریز راج آیا۔انگلش حروف تہجی کی آمد پراردوحروف معدوم ہوکر پس ِپردہ جانے لگے۔اس جنگ وجدل میں بہت سے الفاظ اپنی معنوی شناخت سے محروم ہوگئے۔جب دین گاہ کو انگلش میں لکھنا شروع کیادال کا متبادل انگریزو ں کے پاس ڈی ہی تھا۔جس کی وجہ سے انہوں نےاسےڈنگہ بنا دیا۔ایک نقطے نے محرم سے مجرم بنا دیا۔

لعل دین سےلال دین تک

ہمارے معاشرہ میں ہم اپنی لاعلمی کے باعث ناموں کا اس قدرحلیہ بگاڑ دیتے ہیں کہ ان کےمعانی میں زمین وآسمان کا فرق پڑجاتا ہے۔ایک دلچسپ واقعہ پیشِ خدمت ہے۔

کہتے ہیں ۔روایت بر گردن راوی۔ افریقہ میں ہمارے ایک بزرگ دوست جن کا نام قمرتھا۔ انہوں نے ایک دفعہ کسی دوسرے شہر میں ڈاکٹر لعل دین صاحب نامی دوست کوخط لکھا۔ قمرصاحب نےاس خط میں انہیں ’’لعل دین‘‘ صاحب کی بجائے ”لال دین‘‘ لکھ دیا۔ جب یہ خط ڈاکٹر صاحب کوملا تو انہوں نے جواب میں قمرصاحب کو خط لکھا۔ جس میں ’’قمر‘‘ کی بجائے’’کمر‘‘ لکھا۔جب یہ خط قمر صاحب کو ملا تو وہ سخت نالاں ہوئے اور ڈاکٹر صاحب کو خط لکھا کہ آپ اتنے پڑھے لکھےآدمی ہیں اور آپ کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ قمر ’’قاف‘‘ سے ہوتا ہے ’’ک‘‘ سے نہیں ہوتا۔اس کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے انہیں لکھا کہ آپ بھی خاصے تعلیم یافتہ ہيں ليکن آپ کو بھی تویہ معلوم نہیں ہے کہ لعل ’’ع‘‘ سے لکھا جاتا ہے ’’الف‘‘ سے نہیں۔

جب ڈاکو فرشتہ بن گئے

ڈنگہ کے قریب ایک قصبہ ’’جوڑا کرنانہ‘ ہے۔ یہاں پورے علاقہ میں ایک احمدی بشیراحمد صاحب رہتے تھے۔ان کی کوئی اولاد نہ تھی۔ مزدور پیشہ تھے۔جس سے زندگی کے دن گزررہے تھے۔ان کےکچھ عزیزتوتھے۔ لیکن وہ غیراحمدی تھے۔ بشیر صاحب بیمار ہوئے۔عزیزوں نے دیکھ بھال کی مگروقت آچکا تھا۔اللہ کو پیارے ہوگئے۔اب تجہیزوتکفین کا وقت تھا۔گاؤں کےامام صاحب نے کہہ دیا چونکہ یہ شخص ’’کافر‘‘ تھا۔اس لئے اسکی تجہیزوتکفین ہم نہیں کریں گےاورنہ ہی اس کی تدفین ہمارے قبرستان میں ہوسکتی ہے۔اب بشیرصاحب کےعزیزسخت اذیّت کی حالت میں تھے۔اب بشیر صاحب کی میّت پڑی ہے۔ سارا گاؤں تماش بینی کے لئے موجود ہے۔دوسری جانب چند ایک ایسے لوگ بھی ہیں جو شریف النّفس ہیں لیکن ان کی شرافت گونگی ہے،باوجود کچھ کہنے کے بھی زبان نہیں کھول سکتے۔ماحول میں سخت بے چینی ہے،اب کیا ہوگا۔کیا اس بے چارے کو جانور کھا جائیں گے ۔اتنے میں اچانک ایک جانب سے کچھ بندوق بردارسوارآگئے۔وہ کسی کام کی غرض سے ادھر سے گزررہے تھے۔انہوں نے جب بہت سارے لوگوں کو قبرستان کے قریب کھڑے دیکھا۔انہوں نے لوگوں سے پوچھا،بھئی کیا معاملہ ہے۔انہیں بتایا گیا کہ یہ قادیانی تھا۔ فوت ہوگیا ہےاس کی تدفین کا مسئلہ ہے۔اس پراس گروپ کے سردار نے مولوی کو بلا کرکہا۔ جو بھی وہ تھا۔وہ انسان تو تھا۔ابھی اس کی قبر کھودو اور اس کی تدفین کرو، ورنہ اس بندوق سے میں تمہارا کام تمام کرتا ہوں۔اس پر بلا چوں وچراں بشیر صاحب کےعزیزوں اور گاؤں والوں نےان کی تدفین کردی۔

بعدازاں ہمیں اس واقعہ کی اطلاع ملی جس پرقریبی جماعتوں نےان کی نماز جنازہ غائب ادا کی ۔

(ازمنو راحمد خورشید ۔واقفِ زندگی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 فروری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 فروری 2021