• 24 اپریل, 2024

یاد رفتگاں

یاد رفتگاں
مکرمہ شاہینہ انور صاحبہ

خاکسار کی اہلیہ محترمہ شاہینہ انور صاحبہ بعمر 60 سال مؤرخہ 6اکتوبر 2019ء کو ہم سب کو سوگوارچھوڑ کر خالق حقیقی کے حضور حاضر ہو گئیں۔ آپ مکرم جمال یوسف صاحب کی بیٹی اور مکرم سیٹھ سعید یوسف ابن مکرم سیٹھ ابوبکر صاحب آف جدہ (عرب صاحب) کی پوتی تھیں۔آپ کے والد صاحب حضرت سید سرور شاہ صاحبؓ کے نواسے تھے۔آپ کی والدہ محترمہ سیدہ زرینہ جمال صاحبہ محترم سید کرم شاہ صاحب راہوالی کی صاحبزادی تھیں۔ مکرم و محترم کمال یوسف صاحب (واقف زندگی) آپ کے والد صاحب کے چھوٹے بھائی ہیں جن کو ایک لمبا عرصہ سکینڈینیوین ممالک میں خدمت دین کی توفیق ملتی رہی اور آجکل وہیں رہائش پذیر ہیں۔

شادی

ہماری شادی 5مارچ 1981ء کو ہوئی۔بارات چک عبدالخالق (دینہ) ضلع جہلم سے ربوہ گئی۔ گاؤں میں ہمارا ایک ہی احمدی گھرانہ ہے۔ خاکسار کے دادا جان مکرم سید سردار شاہ صاحب نے 1912ء میں بیعت کر کے جماعت میں شمولیت کا شرف حاصل کیا۔جب ہماری شادی ہوئی تھی اس وقت گھر کا صحن اور کمرے کچے تھےلیکن کبھی آپ کی زبان پر شکوہ نہیں آیا۔

خاکسار ا ن دنوں ملازمت کے سلسلہ میں شیدو ، ضلع پشاور میں مقیم تھا۔ شادی کے چند ماہ بعد عاجز کی والدہ محترمہ نے کہا کہ تم نے ساری عمر ملازمت کرنی ہے، لہٰذا بیگم کو ساتھ لے جاؤ اور اپنی نئی زندگی شروع کرو۔ مجھے اس علاقہ میں آئے ہوئے ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔ابھی چند لوگوں کے علاوہ کسی سے تعارف اور تعلق نہ تھا۔ علاقے میں مخالفت بھی تھی اور ہمارا اکیلا احمدی گھرانہ تھا۔ اس وجہ سے فیملی کو بھی فکر رہتی تھی۔چند ماہ بعد جب اہلیہ کے ساتھ مجھے سسرال جانے کا موقع ملا تومیری خوش دامن صاحبہ نے کہا کہ اگر وہاں کسی کو آپ کے احمدی ہونے کا پتہ چل جا ئے او ر احمدیت کی مخالفت کے نتیجہ میں میری بیٹی کو جان سے ہاتھ دھونا پڑیں تو بھی مجھے قطعاً کوئی ملال نہ ہو گا۔ ان کے اس فقرے نے ہمیں بہت حوصلہ دیا۔

بیٹے کی پیدائش سے قبل خواب

1982ء میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں پہلی بیٹی سے اور 1985ء میں بیٹے سے نوازا۔ بیٹے کی پیدائش سے قبل اہلیہ نے خواب میں دیکھا کہ لیفٹیننٹ جنرل فضل حق، گورنر صوبہ سرحد کہہ رہے ہیں کہ ہم آپ کے بیٹے ہیں۔ اہلیہ محترمہ نے ’’فضل حق‘‘ نام سے تعبیر لیتے ہوئے فیصلہ کیاکہ بیٹے کو وقف کرو ں گی۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری اس خواہش کو پورا فرمایا اور اپنا فضل فرماتے ہوئے بیٹے کو وقف کرنےکی توفیق عطا فرمائی۔ عزیزم نے2010ءسے بطورمربی سلسلہ میدان عمل میں قدم رکھ دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ وقف قبول فرمائے۔

غیرت الٰہی کا ایک واقعہ

1991ءمیں خاکسار کا تبادلہ راولپنڈی ہو گیا اور کرایہ کی رہائش ’’ندیم کالونی‘‘ میں اختیار کی۔ ہمارے گھر سے چندگھر کے فاصلے پر ایک قاری صاحب تھے جو محلے کے بچوں کو قرآن مجید قواعد کے ساتھ پڑھاتے تھے۔ مرحومہ شاہینہ انور صاحبہ نے قاری صاحب کی اہلیہ سے خواہش ظاہر کی کہ ہمارے بچوں کو بھی قرآن پڑھا دیں تو جواب ملا کہ آپ تو قادیانی ہیں اورآپ کا قرآن اور ہے۔ اس پر مرحومہ نے قاری صاحب سے ان کی اہلیہ کی موجودگی میں بات کی اور بتایا کہ ہمارا قرآن الگ نہیں ہے۔ مگر قاری صاحب مصر رہے۔مرحومہ نے نہایت درد دل سے کہا کہ اگر میں اس معاملہ میں جھوٹ بول رہی ہوں تو خدا تعالیٰ مجھے آپ کے گھر کے سامنے سڑک پر موت دے دے۔ اگر آپ جھوٹ بول رہے ہیں توخداتعالیٰ آپ کے ساتھ یہی سلوک کرے۔ اس بات کو ہفتہ عشرہ گزرا تھا کہ قاری صاحب نے جو سرکاری زمین پر قبضہ کر کے مدرسہ وغیرہ بنا رکھا تھا، حکومت نے وہ زمین واہ گزار کرواکے وہاں کالج کی بنیاد رکھ دی۔ اس واقعہ کے کچھ دن بعد ہی موصوف کو ہارٹ اٹیک آیا اور وہ آناً فاناً اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔

لجنہ اما ء اللہ میں خدمات

راولپنڈی آنے کے بعد مرحومہ کو لجنہ اماء اللہ میں خدمت کے مواقع ملنے لگے۔ آپ کو کچھ سال بطور جنرل سیکرٹری اور بعدہ صدر لجنہ اماء اللہ راولپنڈی شہر خدمت کی توفیق ملی۔ اس سارے عرصے میں انتھک محنت کر کے لجنہ کی تنظیم کو فعال کرنے کی توفیق عطا ہوئی۔مرحومہ بھرپور کوشش کرتی تھیں کہ مرکزی میٹنگ، مجالس شوریٰ کی کارروائی اور دیگر تحریکات اور مرکزی پیغامات کو ایک ایک ممبر لجنہ تک پہنچایا جائے۔ علمی مقابلہ جات، ورزشی مقابلہ جات، خدمت خلق، سالانہ نمائش، کلو جمیعاً، ریفریشر کورسز، مرکز ی امتحانات،مرکزسے مستقل رابطہ، ماہانہ رپورٹس کی تیاری اوربہت سے متعلقہ امور کے لئے مجلس عاملہ کی بھرپور شرکت کے ساتھ تیاری کی جاتی۔ ممبرات عاملہ کی تربیت اور حوصلہ افزائی کا خاص وصف تھا۔ جس حلقہ میں جاناہوتا وہاں کی صدر لجنہ کو خاص طور پر اہمیت دی جاتی تا ممبرات کو اپنی صدر صاحبہ کی اہمیت اور مقام کا ادراک ہو۔ کسی سے کبھی بغض و عداوت نہ رکھا۔ اگر خلاف قواعد کوئی بات نظر آتی تو اس کا متعلقہ عہدیدار سے پورے خلوص سے ذکر کرکے سمجھاتیں۔

اللہ تعالیٰ نے انہیں تقریر کرنے کا ملکہ بھی خوب عطا فرمایا ہوا تھا۔ جب بھی کسی موضوع پر تقریر تیار کی اس کواپنے پاس محفوظ رکھا۔ اس طرح بہت موٹی موٹی تین فائلیں تیار ہو چکی تھیں۔خاکسار کو اکثر کہا کرتی تھیں کہ میں لکھی ہوئی تقریر شروع تو کرتی ہوں مگر پھر میں اپنے خطابت کے بہاؤ میں جو تقریر کرتی ہوں وہ خداتعالیٰ کےفضل سےلکھی ہوئی تقریرسے بہت بڑھ کر ہوتی ہے۔

خلافت سے عشق اور خاندان حضرت مسیح موعودؑ کا احترام

خلافت احمدیہ اور خلیفہ وقت سے عقیدت و احترام آپ کے رگوپے میں سمایا ہوا تھا۔ مکرمہ و محترمہ حضرت سیدہ ام وسیم صاحبہ آپ کے والد صاحب کی پھوپھی تھیں۔ بتایا کرتی تھیں کہ میری والدہ کی ڈولی حضرت سیدہ ام وسیم صاحبہ کے ہاں اتری تھی۔ اس طرح یہ جوڑا کئی ماہ تک حضرت مصلح موعود ؓ کی شفقتوں اور نوازشوں سے مستفیض ہوا تھا۔ حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب جب بھی راولپنڈی تشریف لاتے تو بیت الذکر میں ہونے والی ملاقات کے علاوہ امیر صاحب سے خاص طور پر پروگرام میں اپنی بھتیجی کے ہاں جانے کا وقت بھی طے کرواتے۔

خلافت خامسہ کے انتخاب سے قبل خواب میں ایک تصویر دیکھی جو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی اوائل جوانی کی تصویر تھی۔انتخاب خلافت کے بعد ایک روز ایم ٹی اے پر ایک پروگرام کے دوران میں حضور انور ایدہ اللہ کی وہی تصویر دیکھ کربہت خوش ہوئیں اور اللہ تعالیٰ کا بہت شکر ادا کیا۔مرحومہ گھر میں اکثر خلفائے کرام کے واقعات بیان کیا کرتی تھیں۔ بچوں کو سناتی رہتی اور خلافت کے ساتھ محبت کے تذکروں کو زندہ رکھتیں۔

اپنے دور صدارت میں کئی دفعہ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواتین مبارکہ کو راولپنڈی خاص طور پر مدعو کیا۔ مجلس عاملہ لجنہ کے علاوہ ممبرات اور ناصرات کی ملاقاتیں ان سے کروائیں۔ حضرت صاحبزادی بی بی امۃالرشید صاحبہ آپ سے بہت شفقت کا سلوک کرتیں اور اعتماد کا اظہار فرمایا کرتی تھیں۔ حضرت بی بی صاحبہ ایک دفعہ امریکہ جاتے ہوئے ایک بچی، جسے انہوں نے گود لے رکھا تھا، مرحومہ کے پاس چند ماہ لئے چھوڑ کر گئیں۔

نماز باجماعت کا شوق

آپ کو نماز با جماعت کا بہت شوق تھا۔ میٹنگزاور دیگر اجلاسات کے موقع پر گھرپرخاص طور پر نماز باجماعت کا اہتمام کرتیں۔گھر پر جو مہمان موجود ہوتے سب کو نماز با جماعت میں پورے اہتمام سے شامل کرواتی تھیں۔ عام طور پر انہیں سردی بہت زیادہ لگا کرتی تھی اس لئےاپریل میں بھی گرم لباس پہنتی تھیں۔خاکسار کو بتایا کرتی تھیں کہ جب میں نماز شروع کرتی ہوں تو میرے جسم میں حدت پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے اس لئے پنکھا چلادو۔ اسی طرح التحیات کے بارے میں کہا کرتی تھیں کہ میں سوچتی ہوں کہ آج کیا تحفہ ہے جو میں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر رہی ہوں اور شرمندہ ہو جاتی ہوں۔ جب ہم گھر میں نماز باجماعت ادا کرتے تو ہمیشہ ان کو یہ گلہ رہا کہ آپ نے اتنی جلدی سلام پھیر دیا میں تو ابھی تشہدپڑھ رہی تھی۔

آمد مبارک بر مکان شاہینہ انور

مرحومہ شاہینہ صاحبہ کو ڈائری لکھنے کا شوق تھا۔ آپ کی ڈائری کے ایک صفحہ پر ’’آمد مبارک بر مکان شاہینہ انور‘‘ کے تحت ایک یاد گار ملاقات کا تذکرہ لکھا ہو اہے۔ ہوا یوں کہ ہمارے پیارے امام حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ان دنوں بطور ناظر اعلیٰ اپنی مصروفیات کے سلسلہ میں راولپنڈی دورہ پر تشریف لائےہوئے تھے۔ حضرت آپا جان بھی آپ کے ہمراہ تھیں۔ 24اپریل 2002ء کو حضرت آپا جان ہمارے گھر تشریف لائیں اور کمال شفقت فرماتے ہوئے غریب خانہ کو رونق بخشی۔ حضرت آپاجان مدظلہ نے اپنے ایک وعدہ کوکمال محبت سے پورا کرتے ہوئے مرحومہ کی دعوت کو شرف قبولیت سے سرفراز فرمایا اور دن کا بڑا حصہ ہمارے گھر میں قیام فرمایا۔ خاکسار ان دنوں دفتری کام کے سلسلہ میں کراچی گیا ہوا تھا۔مرحومہ شاہینہ نے مجھے فون کر کے اپنی اس خوش بختی کی اطلاع دی۔اس دن ان کی خوشی انتہا کو چھو رہی تھی تھی۔

تبلیغ کا شوق

وقف یوم اور وقف عارضی کا ہر ماہ اہتمام کرتی تھیں۔ محلہ کی تمام خواتین سے بہت احسن دوستانہ تعلقات رکھے ہوئے تھے۔ ہر ایک اختلافی مسئلہ پر ہر پہلو سے مکمل عقلی و نقلی دلائل بارہا کسی نہ کسی بہانہ سے بتانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتی تھیں۔ ایک دفعہ محلہ کی ایک عورت نے کہا کہ شاہینہ! اب بس بھی کرو۔ اس کا مطلب تھا کہ کیوں ہمیں بار بار تبلیغ کرکے تنگ کرتی ہو۔ تو آپ نے جواباً کہا کہ میں چاہتی ہوں کہ تم کل کو یہ گواہی دو کہ میں نے آپ کو جماعت کا مؤقف بتا دیا تھا۔ اس پر اس خاتون نے تکبر سے کہا کہ ہم قیامت کوکےدن گواہی دیں گی کہ تم نے اپنے کفر کی تبلیغ ہم سب کو کر دی تھی۔اس پر مرحومہ نے کہاکہ بس میں یہی چاہتی ہوں۔

قرآن مجید سے عشق

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی تحریک پر قرآن کریم کو تجوید سے پڑھنے کے لئے قواعد سیکھےاور پھر اس نعمت کو عام کرنے میں بہت محنت سے کام کیا۔ بلا مبالغہ آپ نے ہزاروں کی تعداد میں قواعد تجوید کی کاپیاں اپنے خرچ پر، پورے ضلع میں جہاں جہاں قرآن کلاس کا اہتمام کیا گیا تھا، لجنہ اماء اللہ میں تقسیم کروائیں۔بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کی اس قدر لگن تھی کہ پڑھنے والے کی سہولت کے مطابق اسے وقت دینے کی حامی بھر لیاکرتیں۔ آپ نے بیسیوں بچوں کو مکمل قرآن تجوید کے قواعد کے سا تھ پڑھایا۔ قرآن مکمل ہونے پر اپنے شاگردوں سے بڑی لجاجت سے درخواست کرتی تھیں کہ جب میں مر جاؤں تو میری مغفرت کی دعا ضرور کرنا۔ذاتی طور پر ہر روز قریباً چھ پارے تلاوت کرتی تھیں۔ سورۃ البقرہ کے علاوہ کچھ سورتوں کی روزانہ تلاوت کرتیں۔ پھر روز کا سبق لگ بھگ تین پارے پڑھتی تھیں۔ یہ طریق آخری وقت تک جاری رہا۔صرف آخری چند ماہ میں نقاہت کے باعث روزانہ دو یا تین پارے پڑھ سکتی تھیں۔ وفات سے ایک سال قبل صدر لجنہ ضلع کی طرف سے آپ کو اضافی ڈیوٹی سونپی گئی جس میں ضلع کی تمام لجنہ کو ترجمہ قرآن کریم سکھانے کی منصوبہ بندی اور تکمیل کا کام آپ کے ذمہ لگایا گیا تھا۔

بیماری اور وفات

آپ کا ماہ فروری 2019ء میں کینسر کے مختلف ٹسٹ کے بعد ماہ اپریل میں بڑی آنت کا آپریشن ہوا جو اس لحاظ سے بہت بہتر ہوا کہ مستقل درد سے نجات مل گئی ۔مگر ماہ جون میں پھیپھڑوں میں کینسر تشخیص کیا گیا اور اس طرح اپنی عمر کے ساٹھویں سال میں مؤرخہ 6 اکتوبر 2019ء کو کتاب زندگی کو بند کرکے راہی ملک عدم ہو گئیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ تدفین اگلے دن بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی۔ اپنی بیماری سے متعلق شروع دن سے آگاہ تھیں۔آپ نے بڑے صبر اور برداشت کے ساتھ اپنے خدا سے فضل و رحم کی امید رکھتے ہوئے یہ وقت گزارا۔ خاکسار کو بتایا کہ آ ج کل میں بہت زیادہ ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ کُلِّ حَالٍ‘‘ پڑھتی رہتی ہوں۔

دعا ہےکہ ا للہ تعالیٰ اپنے خاص فضل اور مغفرت کا سلوک فرماتے ہوئے مرحومہ کو اپنی اعلیٰ جنتوں کا وارث بنائے اور درجات کو بلند فرماتا چلا جائے۔ آمین۔؎

بلانے والا ہے سب سے پیارا
اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر

(مرسلہ:ایس۔اے۔اےشاہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 فروری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 فروری 2021