• 17 مئی, 2024

پیشگوئی مصلح موعود کی جزئیات

یہ پیش گوئی کے الفاظ ہیں اور اگر اس کی جزئیات میں جائیں تو یہ تقریبا ً52 پوائنٹس بنتے ہیں۔ اور پیش گوئی کے بارے میں جو بعض دوسرے الہامات تھے ان کو اگر شامل کریں تو حضرت مصلح موعودؓ نے خود ہی ایک جگہ59 پوائنٹس بھی لکھے ہیں۔ تو یہ ہے وہ عظیم پیشگوئی جس کے پورا ہونے کے لئے آپؑ نے اللہ تعالی سے خبر پا کر یہ بتایا کہ نو سال کے عرصہ میں یہ لڑکا پیدا ہوگا اوران خصوصیات کا حامل ہوگا۔۔۔۔۔۔ اس پیشگوئی کے کچھ عرصہ بعد جب آپؑ نے اشتہار شائع کر دیا اور اعلان ہوا تو آپؑ کے ہاں ایک بچی کی ولادت ہوئی۔ جس کا نام عصمت تھا۔ اس پر مخالفین نے بہت شور مچایا کہ آپؑ کی پیش گوئی غلط ثابت ہوگی۔ آپؑ نے فرمایا کہ میں نے تو معین عرصہ دیا تھا اور یہ نہیں کہا تھا کہ فوری طور پر پیدائش ہوگی۔ بہرحال پھر کچھ عرصہ کے بعد ایک لڑکا پیدا ہوا اس کا نام بشیر رکھا گیا اور یہ بشیراول کہلاتے ہیں۔ لیکن کچھ عرصہ بعد بچپن میں ہی ان کی بھی وفات ہوگئی۔ تو مخالفین نے اس پر بڑا شور مچایا بلکہ ان دونوں بچوں کی پیدائش سے پہلے جب آپؑ نے پیش گوئی کی تھی تو پنڈت لیکھرام نے بڑے گھٹیا الفاظ میں آپؑ کی پیش گوئی کے ہر فقرے کے مقابلہ پرآپؑ کی اس پیش گوئی کے رد کے فقرے کہے تھے۔ مثلا ایک فقرہ پیشگوئی کا یہ ہے کہ ’’ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت و نسل سے ہوگا‘‘ اس کے مقابلے پر لیکھرام نے لکھا کہ مجھے بھی خدا نے بتایا ہے کہ آپ کی ذریت بہت جلد منقطع ہو جائے گی۔ غایت درجہ تین سال تک شہرت رہے گی۔ نیز اگر کوئی لڑکا پیدا ہوگا تو وہ رحمت کا نشان نہیں زحمت کا نشان (نعوذباللہ) ہوگا۔ اور بہت سی خرافات تھیں۔ مصلح موعود کی پیشگوئی پورا ہونے کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جو یہ وعدہ فرمایا تھا کہ اب تیری نسل تجھ سے ہی دنیا میں پھیلے گی تو آج اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جسمانی اولاد کو بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا بھر میں پھیلایا ہوا ہے۔ اور لیکھرام کی اولاد کا تو پتہ نہیں کہ وہ کہیں ہے بھی کہ نہیں۔۔۔۔۔۔ بہرحال بشیراول کے فوت ہونے پر دشمن نے اور بھی تالیاں بجائیں۔ بڑے خوش ہوئے اور لیکھرام کے جو چیلے تھے مزید اچھلنے لگے۔حضرت مسیح موعودؑ نے بارہا کہا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے جو عرصہ بتایا ہے اس کا انتظار کرو۔ اگر کہو کہ یہ لمبا عرصہ ہے تو کون یہ ضمانت دے سکتا ہے کہ اتنی زندگی ہو بھی سکتی ہے کہ نہیں۔ کجا یہ کہ بیٹے کی پیش گوئی ہو۔ پھر بیٹے کے بارہ میں بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ کہہ دیا،تکا لگا دیا۔ لوگوں کے بھی بیٹے ہوتے ہیں بیٹیاں بھی ہوتی ہیں۔ اپنی زندگی کے بارہ میں فرمایا کہ اس وقت تک زندگی بھی رہے گی۔ یا پھر یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کیا فرق پڑتا ہے بات ہی کرنی ہے جس طرح لیکھرام نے اپنی طرف سے الہام بنا کر پیش کر دیا ہے آپؑ نے بھی کردیا۔ لیکن آپؑ نے فرمایا کہ بیٹے کے ساتھ نشانات بھی ہیں جب وہ نشانات پورے ہوں گے تو دنیا خود جان لے گی کہ اعلان کرنے والا یقیناً خدا تعالیٰ سے اطلاع پا کراعلان کرنے والا ہے۔ جو حق ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ:‘‘ جن صفات خاصہ کے ساتھ لڑکے کی بشارت دی گئی ہے کسی لمبی میعاد سے گو نو برس سے بھی دو چند ہوتی اس کی عظمت اور شان میں کچھ فرق نہیں آسکتا۔ بلکہ صریح دلی انصاف ہریک انسان کا شہادت دیتا ہے کہ ایسے اعلی درجہ کی خبر جو ایسے نامی اوراخص آدمی کے تولد پر مشتمل ہے،انسانی طاقتوں سے بالاتر ہے۔ (مجموعہ اشتہارات جلداول صفحہ101)

(خطبات مسرورجلد ہفتم صفحہ93)

بہرحال یہ پرشوکت پیشگوئی تھی جس نے حضرت مصلح موعودؓ کی خلافت کے باون سالہ دور میں ثابت کردیا کہ کس طرح وہ شخص جلد بڑھا، کس طرح اس نے دنیا میں اسلام کے کام کو تیزی سے پھیلایا، مشن قائم کیے، مساجد بنائیں۔ آپؓ کے وقت میں باوجود اس کے کہ وسائل بہت کم تھے مالی کشائش جماعت کو نہیں تھی، دنیا کے 34، 35 ممالک میں جماعت کا قیام ہو چکا تھا۔ کئی زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ شائع ہوچکا تھا، مشن کھولے جا چکے تھے۔ اسی طرح جماعتی نظام کا یہ ڈھانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ نے ہی بنایا تھا جو آج تک چل رہا ہے۔ اور اس سے بہتر کوئی ڈھانچہ بن ہی نہیں سکتا تھا۔ اسی طرح ذیلی تنظیمیں ہیں اس وقت کی بنائی ہوئی ہیں وہ بھی آج تک چل رہی ہیں۔ ہر کام آپ کی ذہانت اور فہم کا منہ بولتا ثبوت ہے قرآن کریم کی تفسیر ہے اور دوسرے علمی کارنامے ہیں جو آپ کے علوم ظاہری و باطنی سے پر ہونے کا ثبوت ہیں۔

یہاں یہ بھی واضح کر دوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود بھی اپنے اس بیٹے کو جس کا نام حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد تھا، مصلح موعود ہی سمجھا۔ چنانچہ حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحب سرساوی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ہم نے بارہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سنا ہوا ہے ایک ہی دفعہ نہیں بلکہ بار بار سنا کہ آپؑ فرمایا کرتے تھے کہ وہ لڑکا جس کا پیشگوئی میں ذکر ہے وہ میاں محمود ہی ہیں‘‘ اور ہم نے آپؑ سے یہ بھی سنا کہ آپؑ فرمایا کرتے تھے کہ ’’میاں محمود میں اس قدر دینی جوش پایا جاتا ہے کہ میں بعض اوقات ان کے لئے خاص طور پر دعا کرتا ہوں۔‘‘ (الحکم جوبلی نمبر 28دسمبر 1939ء)

(خطبات مسرور جلد نہم صفحہ86،85)

پچھلا پڑھیں

’’روزنامہ الفضل کے پہلے صفحہ سے اقتباس بچوں کو پڑھنے کے لئے دیا کریں‘‘

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 فروری 2022