• 12 مئی, 2025

سبحان من یرانی کا نادر و نایاب نسخہ

سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِی کا نادر و نایاب نسخہ

سیدنا حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے موعود بیٹے حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد (رضی اللہ عنہ) بانی روزنامہ الفضل کے قرآن کریم کا پہلا دور مکمل کرنے پر اللہ تعالیٰ کے حضور جذبات تشکر پیش کرنےاور اپنے بیٹے کو اس اہم روحانی و علمی سنگ میل عبور کرنے پر ناصحانہ انداز میں اور اللہ کے حضور تضرعانہ دعاؤں پر مشتمل ایک منظوم کلام بعنوان ’’محمود کی آمین‘‘ تحریر فرمایا ۔ یہ منظوم کلام اکثر ہماری محفلوں، جلسوں اور بالخصوص شادی بیاہ و آمین کی تقاریب پر پڑھا جاتا ہے اور ایک انسان جس قدر گہرائی میں اُتر کر اس کو سنتا یا پڑھتا ہے اس پر خدا کی یکتائی کا اظہار ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کی مہربانیوں، فضلوں اور احسانات کو یاد کرنے سے اس حد تک وجدانی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ انسان اپنے وجود سے نکل کر ایک اور دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔ انسان کا جو روں روں اور بال بال احسانات الہی میں ڈوبا پڑا ہے اس کو دیکھ کر یہی الفاظ کہنے کو دل کرتا ہے جو حضرت مسیح موعودؑ نے اس نظم میں کہے ہیں۔

سب کچھ تیری عطا ہے، گھر سے تو کچھ نہ لائے

ایک اور اہم امر جس کی اس منظوم کلام میں نشاندہی کی گئی ہے وہ حضرت مسیح موعودؑ کا بار بار یعنی شعروں کے ہر بند کے آخر میں سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِی کے الفاظ ہیں جو آپ نے 44 بار اس منظوم کلام میں استعمال فرمائے ہیں۔ جن میں سے 43 بار تواْس خدائے واحدیگا نہ کے شکر کے انداز میں ہیں کہ اے اللہ! یہ عظیم دن تو نے ہی دکھلایا لہذا یہ روز کر مبارک یعنی اس دن کو مبارک کر دے میرے لیے، میری اولاد کے لئے اور ان لوگوں کے لئے جو بچے کا حوصلہ بڑھانے اور ہم سب کے مشترکہ تشکر الہی کے جذبات اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرنے کے لئے یہاں حاضر ہیں اور صرف ایک بار آغاز پر پہلے بند میں جہاں اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور اس کی صفات کا ذکر کرکے نہایت عاجزی و انکساری سے اپنے خدا کے حضور عرض کرتے ہیں کہ

دل میں میرے یہی ہے سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِی

یہ الفاظ قابل غور ہے جس کے معنی ہیں کہ پاک ہے وہ ذات جو مجھے ہر آن اور ہر لحاظ سے دیکھ رہی ہے اور میں نے اس عظیم قوت اور ذات کو اپنے دل میں جگہ دے رکھی ہے ۔ اگر ہم مومن اس عظیم معنی اور فلسفہ کو سمجھ لیں تو ہمارا معاشرہ بُرائیوں سے پاک، منزہ اور جنت نظیر معاشرہ بن سکتا ہے۔ حقیقت میں اس مادہ پرست دور میں ہم اپنے خالق حقیقی کو نہ صرف بُھلا بیٹھے ہیں بلکہ کہ اس سے بہت دور جا چکے ہیں اور ہم میں سے بعض لوگوں کے دلوں میں یہ گمان پیدا ہونے لگا ہے کہ ہم جو ترقیات حاصل کر رہے ہیں اور فتوحات ہمارے قدم چوم رہی ہے۔ یہ جو پیسوں کی ہمارے گھر میں ریل پیل ہے۔ ہم جو پڑھ لکھ گئے ہیں۔ یہ دراصل ہماری اپنی صلاحیتوں اور کوششوں کی وجہ سے ہے یا ہم جو اعلی سے اعلی اسکول اور کالج میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں یہ ہمارے ماں باپ کی محنت کا نتیجہ ہے۔ اور وہ ذات جو ماں باپ سے بڑھ کر رحیم و مہربان ہے جس نے رحمان ذات کی صورت میں بعض ایسی نعمتوں سے بھی متمتع کر رکھا ہے جو ہم نے اپنے خدا سے نہیں مانگی تھیں بلکہ اس نے ماں باپ کی طرح بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر ہماری ضروریات کو سمجھا اور وہ تمام نعمتیں ہمارے لیے مہیا کر دیں۔ اگر ہم اپنے دلوں میں اپنے خدا کو بسا لیں اور اس تصور کو پختہ کریں کہ ایک ذات ہے جو مجھے دیکھ رہی ہے تو ہم اپنے جسموں سے، اپنی زندگی سے چمٹی آلائشوں اور گندگیوں کو دور کر سکتے ہیں۔ اگر کسی کام کا آغاز کرنے سے قبل اپنے خدا کی ذات کو اپنے دل میں اُتاریں، اس کا خوف پیدا ہو تو ہم جھوٹ بولنا ترک کردیں ،ہم چوری چکاری سے دُور چلے جائیں ۔ہم اپنے والدین سےا ور والدین اپنے بچوں سے محبت اور شفقت کا سلوک شروع کردیں۔ میاں بیوی کے تعلقات درست ہوجائیں۔ بہو ،ساس اور نند، بھابھی کے تعلقات مثبت انداز میں استوار ہونے شروع ہو جائیں تو ہمارا معاشرہ جنت نظیر بن سکتا ہے۔

ہم دنیوی قوانین اور ان کے رکھوالوں سے ڈرتے ہیں۔ موٹروے پر گاڑی تیز بھگاتے ہیں اور جونہی پولیس والوں کو دیکھتے ہیں، رفتار آہستہ کر لیتے ہیں۔ بلکہ روزمرہ کا سفر اختیار کرنے والوں کو اس امر کا بھی یقین ہوگیا ہوتا ہے کہ پولیس کہاں کہاں بیٹھی ہے ۔ یورپ میں ڈرائیور حضرات کیمرہ سے بہت ڈرتے ہیں۔ بھئی! ایک کیمرہ آپ کے دل میں بھی لگا ہوا ہے۔ جہاں سے خدا آپ کو دیکھ رہا ہے۔اس کے علاوہ آپ کے دل و دماغ کے درمیان اللہ تعالیٰ نے سسٹم قائم فرمایا ہوا ہے جو آپ کو اچھے اور بُرے کی تمیز کر کے دکھاتا رہتا ہے اس کو ضمیر کہتے ہیں اس سے فائدہ اُٹھانا ہمارے لئے روحانی لحاظ سےسود مند ہے اور ہم خدا سے نہیں ڈرتے۔ مجازی خدا ؤں سے ڈرنا شروع کر دیا ہے ۔شاید یہ محاورہ اس امر کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ ’’خدا لاگے کہ ڈنڈا‘‘۔ آنحضرتﷺ کے پاس ایک شخص آیا تھا جو ہر بُرائی میں ملوث تھا۔ چوری بہت کرتا تھا۔ ڈاکہ بھی ڈالتا تھا۔ زنا بھی کرتا تھا اور جھوٹ بھی بولتا تھا ۔ آنحضورﷺ نے اسے یہی نصیحت فرمائی تھی کہ جھوٹ ترک کردو۔ وہ جھوٹ ترک کرنے کے پختہ عزم کے ساتھ دربار رسول ﷺسے رخصت ہوا اور جب بھی برائی کی طرف بڑھا۔ ہمیشہ یہی خیال دل میں جنم لیتا کہ اگر حضرت محمد مصطفیﷺ نے پوچھا کہ کیا یہ کام کیا ہے؟ اگر میں کہوں کہ نہیں کیا تو یہ جھوٹ ہوگا اور اگر کہا کیا ہے تو یہ اپنی ذات میں قابل سرزنش ہے اوریوں اس نے تمام بُرائیوں اور بدیوں کو خیر آباد کہہ دیا۔ اس کے سامنے ایک ذات سیدنا حضرت محمد مصطفی ﷺ کی تھی اور اگر اس عظیم ذات کو پیدا کرنے والی ہستی کو ہم اپنی زندگیوں میں مدنظر نظر رکھیں تو کیا کایا نہیں پلٹ سکتی۔

آنحضورﷺ نے فرمایا تھا کہ نماز ایسے ادا کرو کہ تم اپنے خدا کو دیکھ رہے ہو اگر اس اعلی مقام کو نہیں پا سکتے تو کم از کم یہ گمان نماز پڑھتے ضرور آپ کے دلوں میں ہوکہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے ۔ پس شجر احمدیت کی سر سبز شاخو! یہی پہلا عظیم اور بنیادی سبق ہے جسے ہمیں پلّے باندھ لینا چاہیے اور ہم اپنی زندگیوں کو سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِی سے آراستہ کر لیں تو خدا اور اس کا رسولؐ اور اس کی محبتیں اور شفقتیں تو ضرور ملیں گی۔ اللہ تعالی ہمارے دنیاوی کاموں میں بھی برکت ڈال دے گا اور تمام کام سنور جائیں گے۔

اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما

(ابوسعید)

پچھلا پڑھیں

’’روزنامہ الفضل کے پہلے صفحہ سے اقتباس بچوں کو پڑھنے کے لئے دیا کریں‘‘

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 فروری 2022