• 19 ستمبر, 2025

وتین: حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ

ادارہ کا مضمون نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں

نوٹ از ایڈیٹر: مضمون نگار نے اپنی یہ تحقیق حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں بغرض ملاحظہ پیش کی۔ حضور نے بعد ملاحظہ موصوف کو تحریر فرمایا۔
’’آپ نے منکرین خلافت کی طرف سے حضرت مصلح موعودؓ کے دعوی مصلح موعود کے خلاف اٹھائے جانےوالے بعض اعتراضات کے جواب میں جو مضمون لکھا ہے۔ ماشاء اللہ وہ بہت اچھا ہے۔ اگر آپ اسے شائع کرانا چاہتے ہیں تو بے شک کسی رسالے میں کروا دیں‘‘

منکرین ِ خلافت ابتداء ہی سے خلفائے احمدیت،بالخصوص حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکے بارے میں معاندانہ اور متعصبانہ رویّہ رکھتے تھے۔ اب بھی یہ لوگ خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی ذات اور کردار پر رکیک حملوں کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ان کا مقصد محض الزام تراشی اور دشنام دہی ہوتا ہے اور انہیں اس سے کچھ غرض نہیں ہوتی کہ ان کے اٹھائے گئے اعتراضات اور بہتان اپنے ساتھ کوئی ٹھوس دلیل یا ثبوت بھی رکھتے ہیں کہ نہیں۔

سورة الحاقہ کی آیات 45 تا 47 کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓپر چسپاں کرکے ان کے دعوی ٰ مصلح موعودؓ کو جھوٹا ثابت کرنے کی مذموم کوشش اس کی بہت بڑی مثال ہے۔

اللہ تعالی ٰ فرماتا ہے وَ لَوۡ تَقَوَّلَ عَلَیۡنَا بَعۡضَ الۡاَقَاوِیۡلِ۔ لَاَخَذۡنَا مِنۡہُ بِالۡیَمِیۡنِ۔ ثُمَّ لَقَطَعۡنَا مِنۡہُ الۡوَتِیۡنَ۔ ان آیات سے یہ استنباط کیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص ماموریت کا جھوٹا دعوی ٰ خدا تعالی ٰ کی طرف منسوب کرے تو اللہ تعالی ٰ اس کی ’’وتین‘‘ کاٹ کر اُسے ہلاک کر دیتا ہے ان آیات کی تفسیر بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا کہ کوئی جھوٹا مدعیء نبوت اپنے دعوی ٰ کے بعد تئیس برس تک زندہ نہیں رہ سکتا یہ وہ عرصہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پہلی وحی اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ سے لے کر اپنی وفات تک گزارا ۔

منکرین ِ خلافت یہ کہتے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے 1944 میں مصلح موعود ہونے کا جھوٹا دعوی ٰکیا اور خدا تعالی ٰ نے سورة الحاقہ میں بیان کردہ وعید کے مطابق ان کی ’’وتین‘‘ یعنی ’’جگلر وین‘‘ کاٹ دی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے دعوے میں صادق نہیں تھے ۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ پر 10مارچ 1954 کو مسجد مبارک ربوہ میں بعد نماز عصر قاتلانہ حملہ ہوا۔ حملہ آور نے چاقو سے آپ کی گردن پر وار کیا۔ زخم کافی گہرا تھا لیکن اللہ تعالی ٰ نے معجزانہ طور پر آپ کی زندگی کو محفوظ رکھا۔ ابتدائی طور پر ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب نے آپؓ کے زخم پر ٹانکے لگائے۔ لاہور سے سرجن ریاض قدیر صاحب تشریف لائے۔ انہوں نے رات ایک بجے کے قریب ٹانکے کھول کر آپریشن کیا جو تقریباً سوا گھنٹہ جاری رہا۔ تسلی بخش علاج کرنے کے بعد وہ اگلی صبح لاہور واپس چلے گئے۔

اس واقعہ کو بنیاد بنا کر معاندین ِ خلافت سورة الحاقہ کی مذکورہ آیات کو خلیفۃ المسیح الثانیؓ پر چسپاں کرنے کی کوشش کرکے محض اپنے خبث ِ باطن کا ثبوت دیتے ہیں ورنہ فہم ِ قرآن رکھنے والے اور ارشادات ِ مسیح موعودؑ کو سمجھنے والے شخص کے نزدیک حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓپر یہ آیات منطبق نہیں ہوتیں کیونکہ اس اطلاق کے خلاف ٹھوس دلائل موجود ہیں ۔ مثلاً:۔

1 ۔ حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات وتشریحات کی روشنی میں ان آیات کا اطلاق اُس شخص پر ہوتا ہے جو مامور من اللہ ہونے کا مدعی ہو ۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے مامورمن اللہ ہونے کا دعوی ٰ ہی نہیں کیا اس لیے اُن پر یہ آیات منطبق نہیں ہوتیں ۔ مسیح موعودؑ نے ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے ’’اربعین‘‘ روحانی خزائن جلد17 صفحہ477 پر واضح طور پہ فرمایا کہ ہے وَ لَوۡ تَقَوَّلَ عَلَیۡنَا کی تمام بحث سے مراد ہی وحیء نبوت ہے۔

2 ۔ خدا تعالی ٰ نے جھوٹے مدعی کی ’’وتین‘‘ یا رگ ِ جان کاٹ کر اسے ہلاک کر دینے کی وعید سنائی ہے جبکہ خدا تعالی ٰ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو ہلاک کرنے کی بجائے معجزانہ طور پر بچا لیا اور زندہ رکھا۔

3 ۔ سورة الحاقہ کی آیات 45 تا 47 میں اللہ تعالی ٰ کہتا ہے کہ ہم جھوٹے مدعی کو دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے ہیں اور اُس کی رگ ِ جان کاٹ کر ہلاک کر دیتے ہیں اس سے اگلی آیت میں اللہ تعالی ٰ فرماتا ہے کہ فَمَا مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِيْنَ کہ تم میں سے کوئی اُس کو بچانے والا نہیں ہو سکتا۔ یہاں اللہ تعالی ٰ نے ڈاکٹر مرزا منور احمد، ڈاکٹر حشمت اللہ اور ڈاکٹر ریاض قدیر صاحبان کا استثنی ٰ بیان نہیں فرمایا کیونکہ ان ڈاکٹروں نے تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو اللہ تعالی ٰ کی دی ہوئی توفیق کے باعث ہلاک ہونے سے بچا لیا تھا۔

4 ۔ تارِیخ ِ احمدیت میں بیان کردہ تفصیلات کے مطابق حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ دوران ِ علاج مکمل طور پر ہوش میں تھے اور تسبیح وتحمید کر رہے تھے۔ آپ نے یہ ہدایات بھی جاری فرمائیں کہ ملزم کو پکڑ لیا جائے لیکن اسے مارا نہ جائے۔ آپ نے اُسی روز خود پر ہونے والے حملے کے متعلق جماعت کے نام ایک برقی پیغام انگریزی زبان میں اپنے ہاتھوں سے لکھا جو اخبار الفضل کی اُن دنوں بندش کے باعٹ 12 مارچ کو ’’المصلح‘‘ کراچی میں شائع ہوا۔

5 ۔ آپ نے اسی سال جلسہ سالانہ پر ایک طویل تقریر کی جس میں اس حملے کی تفصیلات بھی بیان کیں۔ یہ سرگرمیاں ایک جیتا جاگتا صحت مند انسان ہی سرانجام دے سکتا ہے۔ ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا تعالی ٰ نے حضرت مصلح موعود ؓکو اس حملے کے بعد زندگی عطا فرمائی نہ کہ سورة الحاقہ کی آیات کے مطابق ہلاک کیا۔

6 ۔ بالفرض حضرت مصلح موعود ؓ کو مدعی ءالہام کی حیثیت سے ان آیات پر پرکھنا مطلوب ہو تو پھر اُن کا عرصہ، تئیس برس بھی اُسی معیار کے مطابق گنا جائے گا جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیس سال گنے جاتے ہیں یعنی پہلے الہام اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ سے لے کر اُن کی وفات تک نہ کہ کسی اور دعوے سے یہ مدت شمار کی جائے گی۔ مثال کے طور پر خاتم النبیین کے دعوے سے اگر مدت شمار کی جائے تو یہ آیات سورة الاحزاب میں اتری ہیں اور یہ سورة مدنی ہے۔ اس طرح آپ کے خاتم النبیین ہونے کے دعوے کا عرصہ تو چند سال بنتا ہے۔ چنانچہ آپ کے تئیس برس غار ِ حرا کی پہلی وحی سے ہی شروع ہو ں گے ورنہ تو تئیس برس پورے ہی نہیں ہوتے۔ اسی طرح حضرت مصلح موعودؓ کو پہلا الہام حضرت مسیح موعود ؑ کی زندگی میں ہوا اور آپ نے اسے ملاحظہ فرمایا اور یہ رسالہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ میں شائع بھی ہوا۔ اس طرح یہ عرصہ پینسٹھ ستر سال کے قریب بنتا ہے جوکہ تئیس برس کی معینہ مدت سے تین گنا زیادہ ہے۔

7۔ میڈیکل سائنس کی جدید تحقیق پایہء ثبوت تک پہنچ چکی ہے کہ ’’وتین‘‘ یعنی ’’ایورٹا‘‘ (Aorta) انسانی گردن میں تو ہوتی ہی نہیں بلکہ جسم کی یہ سب سے بڑی شریان دل سے نکلتی ہے اور نیچے پیٹ کی طرف جاتی ہے ۔ یہ تحقیق ڈاکٹر مقبول احمد صاحب اور ڈاکٹر خالد ایم ڈی صاحب کی مرہونِ منت ہے۔

8۔ انسانی جسم میں ’’ایورٹا‘‘ (Aorta) صرف ایک ہی ہے جبکہ گردن میں ’’جُگلر وینز‘‘ (Jugular Veins) چھ ہوتی ہیں ۔ دو انٹرنل جُگلرز، دو ایکسٹرنل جُگلرزاور دو اینٹیر یئر جُگلرز۔ اگر ’’جُگلروین‘‘ ہی ’’وتین‘‘ ہوتی تو پھران چھ وینز کے لیئے جمع کا صیغہ استعمال ہونا چاہیَے تھا ۔۔۔! یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ وتین سے مراد ’’ایورٹا‘‘ ہی ہے ’’جگلر وین‘‘ نہیں ہے ۔۔۔۔۔ !!

اختصار سے بیان کیے گئے درج بالا نکات سے واضح ہوتا ہے کہ آیت مذکورہ کو خلیفۃ المسیح الثانی ؓ پر منطبق کرنا محض کدورت وعداوت پر مبنی ہے ورنہ ان کی کوئی عقلی وعلمی بنیاد نہیں ہے۔

حملے کے دوسال بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓیورپ کے دورے پر گئے تو آپ نے کانفرنسز منعقد کرنے اور دیگر جماعتی سرگرمیوں کے علاوہ اپنا طبی معائنہ بھی کرایا۔

اس معائنے کی کوئی میڈیکل ایویڈنس یا قابل تصدیق (Verifiable) رپورٹ ریکارڈ موجود نہیں ہے ۔ یعنی کوئی ایکسرے، ریڈیو لاجیکل رپورٹ یا کسی میڈیکل بورڈ کی کنسلٹیشن رپورٹ وغیرہ، کچھ بھی دستیاب نہیں ہے ۔ نہ ہی معائنہ کرنے والے کسی ڈاکٹر یا سرجن کا اپنا لکھا ہوا کوئی ڈاکومینٹ ہے

حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓنے The Renaissance of Islam کے صفحہ331 پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ پر ہونے والے اس حملے کا ذکر کیا ہے ۔ آپ نے بعد ازاں یورپ میں ہونے والے حضورؓ کے طبی معائنے کے بارے میں لکھا کہ ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق چاقو کی نوک ٹوٹ کر ’’جگلر وین‘‘ میں پھنس گئی تھی لیکن اسے نکالنے کا فیصلہ اس لیئے نہیں کیا گیا کہ اس سے خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔

موجودہ دور کے ماہرین اور سرجنز اس بیان کو میڈیکل سائنس کے شعبے سے وابستہ کسی ڈاکٹر کے منہ سے نکلے یا قلم سے لکھے گئے الفاظ ماننے پر تیار نہیں۔ وہ اسے ایک نان میڈیکل بیانیہ سمجھتے ہیں اور اُن کے پاس اس کے ٹھوس علمی دلائل ہیں۔ مثلاً

(چاقو کی نوک کا، ایک ملی میٹر سافٹ ٹشو کی الا سٹک وال Elastic Wall سے ٹچ ہو کر ٹوٹ جانا ممکن ہی نہیں۔)

جگلر وین کو کاٹنا ایسا خطرناک عمل نہیں ہے کہ جس سے انسانی زندگی کو خطرہ لاحق ہو سکے ۔علاوہ ازیں ایسی میڈیکل ایویڈنسز بکثرت سامنے آتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’جگلر وین‘‘ کے کٹنے سے موت واقع نہیں ہوتی ۔

چوہدری ظفراللہ خان صاحب ؓکے بیان کو اکیسویں صدی کے ڈاکٹروں کی رائے سے ہٹ کر اگر من وعن تسلیم بھی کر لیا جائے تب بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ چاقو کی نوک کے کسی رگ کے اندر رہ جانے کے باوجود بھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی زندگی کو کوئی خطرہ نہیں تھا، اس بیان کے مطابق صرف اس نوک کو نکالنے کی صورت میں ہی یہ خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ کسی ذرّے کے ایک رگ کے اندر رہ جانے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ رگ قطع ہو گئی یا کٹ گئی۔ جیسا کہ انسان کے بازو یا ٹانگ میں لگی ہوئی گولی کو ڈاکٹر نہ نکالنے کا فیصلہ کریں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ بازو یا ٹانگ ٹوٹ گئی ہے جبکہ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ کے مطابق وتین کا قطع ہونا بھی شرط ِ لازم ہے اور اس کے نتیجے میں ہلاک ہونا بھی لازم امر ہے ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ پر قاتلانہ حملے میں یہ دونوں صورتیں وقوع پذیر نہیں ہوئیں۔

تقریباً پانچ برس قبل محترمی ڈاکٹر مقبول احمد صاحب نے تحقیق کی کہ ’’وتین‘‘ سے کیا مراد ہے اور یہ انسانی جسم کے کس حصّے میں پائی جاتی ہے۔ انہوں نے اس مسئلے کو انتہائی سادہ زبان میں اس طرح واضح کیا کہ اوسط درجے کی تعلیم اور ذہانت رکھنے والے شخص کے لیے بھی اسے سمجھنا آسان ہو گیا کہ وتین دراصل (Aorta) ’’ایورٹا‘‘ ہی ہے اور اس کا مقام انسانی گردن نہیں بلکہ دل اور سینے کے قریب ہے۔

انہوں نے عقلی اور منطقی دلائل سے واضح کیا کہ جب ’’وتین‘‘ گردن میں ہوتی ہی نہیں اور حملہ خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی گردن پر ہوا تھا تو پھر یہ سوچنا ہی فضول ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی ’’وتین‘‘ قطع ہوئی تھی کہ نہیں۔ اب ڈاکٹر خالد ایم ڈی صاحب نے ڈاکٹر مقبول صاحب کے کام سے استفادہ کرتے ہوئے اسے آگے بڑھایا ہے اور مزیدقابل ِ قدر معلومات فراہم کی ہیں۔ خدا تعالی ٰ ان دونوں دوستوں کو جزائے خیر دے۔ آمین

اس بحث میں نہایت اہم اور قابل ِ توجہ پہلو یہ ہے کہ دو امور کا تعین کیا جائے۔ نمبر ایک یہ کہ انسانی زندگی کے لیئے ’’وتین‘‘ کی اہمیت کیا ہے؟ اور نمبر دو یہ کہ انسانی جسم میں ’’وتین‘‘ کا مقام کیا ہے؟

ان دو ایشوز میں ایک اصل ہے اور دوسرے ایشو کو اس اصل کی فرع کہا جا سکتا ہے ۔اصل، اہمیت ہے، کہ اس کے کٹنے سے موت واقع ہوتی ہے کہ نہیں ؟یہ بات اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں جھوٹے مدعی کی وتین کاٹ کر اسے ہلاک کر دیتا ہوں ۔ اس ارشاد ِ خداوندی کے اندر ہی یہ اشارہ مضمر ہے کہ وتین کے کٹ جانے سے انسانی زندگی کو خطرہ لاحق ہوجانا ایک یقینی امر ہے ۔ اللہ تعالی ٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ میں جھوٹے مدعی کے ناخن یا بال کاٹ کر اُسے ہلاک کر دوں گا ۔ اس لیے کہ ان کے کاٹنے سے کوئی ہلاک ہوتا ہی نہیں ۔ لہذا اس حقیقت کو ماننا پڑتا ہے کہ ’’وتین‘‘ انسانی جسم کا وہ حصّہ ہے جس کے کٹ جانے سے موت واقع ہو جاتی ہے۔ ’’وتین‘‘ کا انسانی زندگی کے لیے ناگزیر ہونا اصل حقیقت ہے اور انسانی جسم میں اس کا مقام ایک فروعی بات ہے۔ اگر اصل اور فرع کے قضیّہ کو مدِنظر رکھا جائے تو پھر باآسانی اس حقیقت کو جانا جاسکتا ہے کہ کیا سینے میں موجود ’’ایورٹا‘‘ کا کٹ جانا موت کا باعث بنتا ہے یا گردن میں پائی جانے والی ’’جگلر وین‘‘ کے کٹنے سے موت واقع ہوجا تی ہے؟ ان دونوں میں سے نسبتاً انسانی زندگی کا دارومدار کس پر ہے؟

’’اصل‘‘ اور ’’فرع‘‘ کی بحث سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ ’’وتین‘‘ کا انسان کی ’’جان‘‘ سے گہرا تعلق ہے اور یہی اصل ہے۔ اس اصل کی ’’فرع‘‘ یہ ہے کہ وتین انسانی جسم کے کس حصّے میں واقع ہے؟ مقام کا تعین کرنا مفسرین ِ قرآن کا نہیں بلکہ میڈیکل سائنس کے ماہرین کا کام ہے۔ اور ان کی تحقیق نے بدرجہء اتم ثابت کردیا ہے کہ وتین کا مقام سینہ ہے نہ کہ گردن۔

جیسا کہ میں ایک سے زائد بار عرض کر چکا ہوں کہ ’’وتین‘‘ کے حوالے سے گفتگو کی اصل ’’جان‘‘ ہے نہ کہ ’’مقام‘‘۔ اگر اس حوالے سے جائزہ لیا جائے تو حضرت مسیح موعودؑ نے بھی سورة الحاقہ کی آیات 45 تا 47 کاترجمہ کرتے ہوئے ’’وتین‘‘ کو بکثرت ’’رگ ِ جان‘‘ ہی قرار دیا ہے۔ لہذا میں ایک بار پھر یہی عرض کروں گا کہ اگر ’’ایورٹا‘‘ اور ’’جگلر وین‘‘ میں سے کسی ایک رگ پر ’’وتین‘‘ کا اطلاق کرنا ہے تو ایسا کرتے وقت اِس بنیاد اور اصل کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ دونوں رگوں میں سے کس رگ کے کٹ جانے سے انسانی زندگی خطرے میں پڑجاتی ہے۔ ماہرین ِ طب بتاتے ہیں وہ ’’جگلر وین‘‘ تو آئے دن کاٹتے رہتے ہیں اور اکثر اسے سٹچ کیئے بغیر ہی چھوڑ دیتے ہیں لیکن ’’ایورٹا‘‘ کے بارے میں ایسا تصور کرنا بھی محال ہے۔ علاوہ ازیں ایسی میڈیکل ایویڈنسز بکثرت سامنے آتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’جگلر وین‘‘ کے کٹنے سے موت واقع نہیں ہوتی۔

جب علمی اور سائنسی سطح پر یہ ثابت ہو گیا کہ وتین کا مقام انسانی گردن ہے ہی نہیں تو دشمنان ِ خلافت نے ایک اور جھوٹ کو پھیلانے کی کوشش کی اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود ؑ اور حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓیہ سمجھتے تھے کہ وتین انسانی گردن میں واقع ہوتی ہے۔ یہ سفید جھوٹ ہے، ایسا کوئی حوالہ موجود نہیں جس میں دونوں میں سے کسی ایک نے بھی یہ کہا ہو کہ وتین گردن میں پائی جاتی ہے۔ ان دونوں برگزیدہ ہستیوں نے وتین سے مراد ’’رگ ِ جان‘‘ ہی لیا ہے یعنی ایسی رگ جس کے کٹ جانے سے انسان کی جان کو خطرہ لاحق ہوجائے ۔ جیساکہ بیان کیا جا چکا ہے کہ گردن میں موجود جس رگ کا نام لیا جاتا ہے، یعنی جگلر وین، اس کے کٹنے سے جان کو خطرہ لاحق نہیں ہوتا اس لیئے اس سے مراد گردن میں پائی جانے والی رگ یعنی جگلر وین نہیں بلکہ دل سے نکلنے والی وہ شریان ہے جسے ایورٹا کہا جاتا ہے اور جس کے کٹ جانے سے واقعی جان کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ اور حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ، دونوں نے وتین کا ترجمہ رگ ِ جان کیا ہے یعنی ایسی رگ جس کے کٹ جانے سے انسان کی جان جاتی رہے اور وہ رگ گردن میں موجود جگلر وین نہیں ہے بلکہ دل سے نکلنے والی شریان ایورٹا ہے۔

حضرت مسیح موعود ؑ کا وہ حوالہ دیکھیئے جس سے معاندین ِ خلافت گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ آپؑ نے 1904 میں فرمایا:
’’پیغمبرؐ صاحب کو تو یہ حکم کہ اگر تو ایک افتری ٰ مجھ پر باندھتا تو میں تیری رگ ِ گردن کاٹ دیتا جیسا کہ آیت ہے وَ لَوۡ تَقَوَّلَ عَلَیۡنَا بَعۡضَ الۡاَقَاوِیۡلِ۔ لَاَخَذۡنَا مِنۡہُ بِالۡیَمِیۡنِ۔ ثُمَّ لَقَطَعۡنَا مِنۡہُ الۡوَتِیۡنَ سے ظاہر ہوتا ہے‘‘

(الحکم جلد 8۔ نمبر 19۔20مورخہ 10تا 17 جون 1904صفحہ 6)

یہاں حضرت مسیح موعودؑ نے وتین کا ترجمہ رگ ِ گردن اُن معروف معنوں کے طور پر کیا ہے جو معاشرے میں مروج اور مشہور ہو چکے تھے۔ یہاں پر ’’رگ ِ گردن‘‘ سے ان کی مراد ’’رگ ِ جان‘‘ ہی ہے جیسا کہ میں حضرت اقدس کے حوالوں سے ثابت کروں گا۔ سورة الحاقہ کی ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:
اگر یہ رسول کچھ اپنی طرف سے بنا لیتا اور کہتا کہ فلاں بات خدا نے میرے پر وحی کی ہے حالانکہ وہ کلام اس کا ہوتا نہ خدا کا تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے اور پھر اس کی رگ ِ جان کاٹ دیتے اور کوئی تم میں سے اس کو بچا نہ سکتا۔

(اربعین، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 389۔388)

خدا تعالی ٰ قرآن ِ شریف میں ایک شمشیر ِ برہنہ کی طرح یہ حکم فرماتا ہے کہ اگر یہ نبی میرے پر جھوٹ بولتا اور کسی بات میں افترا کرتا تو میں اس کی رگ ِ جان کاٹ دیتا ۔

(اربعین، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 392۔391)

اگر یہ نبی ہمارے پر افترا کرتا تو ہم اس کو دہنے ہاتھ سے پکڑ لیتے پھر اس کی وہ رگ کاٹ دیتے جو جان کی رگ ہے ۔

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 214۔213)

اگر یہ نبی ہمارے اوپر بعض باتیں جھوٹی بنا لیتا تو ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے اور اس کی رگ ِ جان کو کاٹ ڈالتے ۔

(الحکم جلد 11۔ نمبر 9 مورخہ 17 مارچ 1907 صفحہ 10)

جو غیور خدا اپنے پیارے نبی کی نسبت فرماتا ہے کہ ہے وَ لَوۡ تَقَوَّلَ عَلَیۡنَا بَعۡضَ الۡاَقَاوِیۡلِ۔ لَاَخَذۡنَا مِنۡہُ بِالۡیَمِیۡنِ۔ ثُمَّ لَقَطَعۡنَا مِنۡہُ الۡوَتِیۡنَ اگر ہم پر افتری ٰ کرتا تو ہم اس کی رگ ِجان کاٹ دیتے تو اسے ایک مجھ سے ادنی ٰ کی کیا پروا ہ تھی۔

(البدر جلد 7۔ نمبر 25مورخہ 25 جون 1908 صفحہ 10۔9)

حضرت مسیح موعودؑ نے پانچ بار ’’وتین‘‘ کا ترجمہ ’’رگ ِ جان‘‘ کیا ہے اور ایک بار اسے ’’رگ ِ گردن‘‘ بھی کہا ہے کیونکہ معروف رنگ میں اسے رگ ِگردن بھی کہا جاتا تھا لیکن رگ ِگردن کو بھی ہمیں ’’رگ ِ جان‘‘ کے معنوں میں ہی لینا پڑے گا جسے مسیح موعودؑ نے کثرت سے استعمال کیا ہے۔ یہاں پر خاکسار غوروفکر کے لیے تین نکات پیش کرتا ہے:
نمبر ایک: علم التفسیر کی رُو سے تفصیل اجمال پر فوقیت رکھتی ہے ۔ اس لیئے مسیح موعودؑ کی تفسیر کی رُو سے بھی ’’وتین‘‘ کے معنے ’’رگ ِ جان‘‘ ہی قرار پاتے ہیں ۔

نمبر دو: بعض اوقات کوئی مترجم یا مصنف اپنے کسی پہلے سے بیان کردہ موقف میں ترمیم بھی کر لیتا ہے، یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں اس لیے ایک ہی موضوع پر مصنف کی دو آراء میں سے بعد میں دی گئی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے ۔ اس اصول کی رُو سے حضرت مسیح موعودؑ نے ’’رگ ِ گردن‘‘ 1904 میں فرمایا اور ’’رگ ِ جان‘‘ مارچ 1907میں ۔معلوم ہوتا ہے کہ آخری بار آپ نے یہ الفاظ 1908میں استعمال فرمائے جو آپ کی وفات کے بعد ’’البدر‘‘ میں شائع ہوئے ۔ لہذا ’’وتین‘‘ سے مراد ’’رگ ِ جان‘‘ ہی لینا ہو گا۔

نمبر تین: مذکورہ بالا تینوں آیات کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ نے یہ کہیں بھی نہیں فرمایا کہ ’’وتین‘‘ انسانی گردن میں پائی جاتی ہے ۔

آخر میں دیکھتے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓنے ’’وتین‘‘ کا کیا ترجمہ کیا ہے ۔ آپ ثم لَقَطَعۡنَا مِنۡہُ الۡوَتِیۡنَ کا ترجمہ اور تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اگر یہ رسول کچھ اپنی طرف سے بنا لیتا اور کہتا کہ فلاں بات خدا نے میرے پر وحی کی ہے حالانکہ وہ اس کا اپنا کلام ہوتا، نہ خدا کا تو ہم اسے دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے اور پھر اس کی رگ ِ جان کاٹ دیتے ۔

(الحکم 31 جنوری 1902 صفحہ 6-7)

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓنے بھی حضرت مسیح موعود ؑ کے ترجمہ ’’رگ ِ گردن‘‘ اور ’’رگ ِ جان‘‘ میں سے ’’رگ ِجان‘‘ کا ہی انتخاب فرمایا ہے جس کا مطلب ہے کہ مسیح موعودؑ اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ دونوں متفق ہیں کہ ’’وتین‘‘ کا مطلب ’’رگ ِ جان‘‘ ہی ہے۔

خلیفۃ المسیح اوّل ؓ نے ایک جگہ فرمایا کہ ’’وتین‘‘ وہ رگ ہے جو دل سے دماغ کی طرف جاتی ہے۔

(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۔ 15 دسمبر 1911)

کچھ کم فہم لوگ اس جملے کا یہ مطلب نکالتے ہیں کہ دماغ کی طرف جو چیز جائے گی وہ گردن سے ہوکر ہی تو جائے گی اس لیے یہ رگ یعنی ’’وتین‘‘ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے مطابق گردن میں ہی پائی جاتی ہے ۔ ایسی تاویل محض کم علمی اور نالائقی پر دلالت کرتی ہے ۔حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے یہ نہیں فرمایا کہ ’’وتین‘‘ دل سے نکل کر دماغ میں جاتی ہے بلکہ آپ نے فرمایا کہ یہ دل سے دماغ کی طرف جاتی ہے ۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جس طرح کسی کار کے بارے میں کہا جائے کہ یہ ربوہ سے سرگودہا کی طرف جارہی ہے تو سرگودہا کی طرف کا مطلب سرگودہا نہیں ہے، یہ لالیاں بھی جاسکتی ہے اور چک چھیالیس یا پُل گیارہ بھی جاسکتی ہے ۔ ڈاکٹر حضرات جانتے ہیں کہ انسانی جسم میں سر کو اوپر اور پاؤ ں کو نیچے کی سمت کہا جاتا ہے ۔ اگر ’’ایورٹا‘‘ کی تصویر دیکھی جائے تو یہ دل سے نکلتی، اوپر سر کی طرف جاتی ہے لیکن گردن سے پہلے ہی ’’یوٹرن‘‘ بناکر واپس آتی اورجسم کے نچلے حصّے کی طرف چلی جاتی ہے ۔خلیفۃ المسیح الاوّل کا یہ فرمانا کہ وتین دل سے سر کی طرف جاتی ہے، اس کا یہ مطلب اخذکرنا کہ یہ سر میں جاتی ہے اس لیے گردن میں ہوتی ہے،ایک سراسر باطل سوچ ہے۔

تمام تر گفتگو کو سمیٹے ہوئے عرض کروں گا کہ اس ضد پر اڑے رہنا کہ ’’وتین‘‘ سے مراد ’’ایورٹا‘‘ نہیں بلکہ ’’جگلر وین‘‘ ہے محض حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالی ٰ عنہ کے خلاف دل میں موجود عناد اور بغض وکدورت کی عکاسی ہے ورنہ اس کی تائید نہ قرآن ِ پاک سے ہوتی ہے، نہ فرمودات ِحضرت مسیح موعود ؑ سے اور نہ ہی جدید طبی اور سائنسی تحقیق سے ۔ ایک ایسا وجود جو حضرت ِ اقدس مسیح موعودؑ کو ملنے والی بشارات ِ مقدسہ کا مصداق تھا، اس کے بارے میں یہ گمان کرنا کہ معاذاللہ ہے وَ لَوۡ تَقَوَّلَ عَلَیۡنَا کا اطلاق اس پر ہوتا ہے کھلی کھلی جہالت اور گمراہی کے سوا کچھ بھی نہیں۔

(اکرم محمود۔ میری لینڈ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 فروری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ