• 18 مئی, 2024

تعلیم القرآن کے متعلق حضرت مصلح موعود ؓ کی شاندار تحریکات

تعلیم القرآن کے متعلق حضرت مصلح موعود ؓ کی شاندار تحریکات
قرآن کریم پڑھنے، عمل کرنے، غور کرنے، حفظ کرنے، عربی سیکھنے اور تراجم قرآن کی باثمر سکیمیں

مصلح موعود کا ایک اہم فرض اور علامت یہ تھی کہ اس کے ذریعہ کلام اللہ کا مرتبہ ظاہر ہوگا۔ اس لئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے خلافت اولیٰ میں ہی تعلیم القرآن کا مقدس کام شروع کر دیا تھا۔ آپ نے درس القرآن کا آغاز فرمایا اور سکولوں اور کالجوں کی تعطیلات کے دوران تربیتی کلاسز کا اجراء کیا۔ خلافت ثانیہ میں حضور نے علم قرآن کے دریا بہائے۔ معارف لٹائے جو تفسیر کبیر اور دوسری متعدد کتب سے چھلک رہے ہیں۔ قرآن سیکھنے اور سکھانے کے نظام کو آپ نے منظم بنیادوں پر قائم کرتے ہوئے متعدد تحریکات جاری فرمائیں۔

تعلیم کتاب و حکمت

حضور نے اپنے عہد کی پہلی مجلس شوریٰ 12؍اپریل 1914ء میں سورة البقرہ آیت 130 کی روشنی میں اپنی خلافت کا لائحہ عمل بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ نبی کے جانشین ہونے کی وجہ سے خلیفہ کا ایک بہت اہم کام تعلیم کتاب و حکمت ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:۔ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ۔ قرآن شریف کتاب موجود ہے اس لئے اس کی تعلیم میں قرآن مجید کا پڑھنا پڑھانا۔ قرآن مجید کا سمجھانا آجائے گا۔ کتاب تو لکھی ہوئی موجود ہے اس لئے کام یہ ہوگا کہ ایسے مدارس ہوں جہاں قرآن مجید کی تعلیم ہو۔ پھر اس کے سمجھانے کے لئے ایسے مدارس ہوں جہاں قرآن مجید کا ترجمہ سکھایا جائے اور وہ علوم پڑھائے جائیں جو اس کے خادم ہوں۔ ایسی صورت میں دینی مدارس کا اجراء اور ان کی تکمیل کا کام ہوگا۔ دوسرا کام اس لفظ کے ماتحت قرآن شریف پر عمل کرانا ہوگا کیونکہ تعلیم دو قسم کی ہوتی ہے ایک کسی کتاب کا پڑھا دینا اور دوسرے اس پر عمل کروانا۔ الحکمة۔ تعلیم الحکمة کے لئے تجاویز اور تدابیر ہوں گی کیونکہ اس فرض کے نیچے احکام شرائع کے اسرار سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔

(انوارالعلوم جلد2ص31)

پھر حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کی وصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:۔
حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے اپنی وصیت میں اپنے جانشین کے لئے فرمایا متقی ہو، ہر دلعزیز ہو، قرآن و حدیث کا درس جاری رہے عالم باعمل ہو۔ اس میں یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَالۡحِکۡمَۃَ کی طرف اشارہ اس حکم میں ہے کہ قرآن و حدیث کا درس جاری رہے کیونکہ الکتٰب کے معنے قرآن شریف ہیں اور الحکمة کے معنے بعض ائمہ نے حدیث کے کئے ہیں۔ اس طرح یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَالۡحِکۡمَۃَ کے معنے ہوئے قرآن و حدیث سکھائے۔

(انوارالعلوم جلد2 ص33)

اصل مقصود

حضور نے تمام جماعتی نظام کا اصل مقصود بیان کرتے ہوئے فرمایا:۔ ہمارا اصل پروگرام تو وہی ہے جو قرآن کریم میں ہے۔ لجنہ اماء اللہ ہو، مجلس انصار اللہ ہو، خدام الاحمدیہ ہو، نیشنل لیگ ہو، غرضیکہ ہماری کوئی انجمن ہو، اس کا پروگرام قرآن کریم ہی ہے اور جب ہر ایک احمدی یہی سمجھتا ہے کہ قرآن کریم میں سب ہدایات دے دی گئی ہیں اور ان میں سے کوئی بھی مضر نہیں تو اس کے سوا اور کوئی پروگرام ہو ہی کیا سکتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اصل پروگرام تو وہی ہے اس میں سے حالات اور اپنی ضروریات کے مطابق بعض چیزوں پر زور دے دیا جاتا ہے۔ لیکن جب روزے رکھے جارہے ہوں تو اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ حج منسوخ ہو گیا بلکہ چونکہ وہ دن روزوں کے ہوتے ہیں اس لئے روزے رکھے جاتے ہیں۔ جب ہم کوئی پروگرام تجویز کرتے ہیں تو اس کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ اس وقت یہ امراض پیدا ہو گئے ہیں اور ان کے لئے یہ قرآنی نسخہ ہم استعمال کرتے ہیں اور یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ سارا پروگرام سامنے ہو اور اس میں سے حالات کے مطابق باتیں لے لی جائیں۔ لیکن اگر سارا پروگرام سامنے نہ ہو تو اس کا ایک نقص یہ ہوگا کہ صرف چند باتوں کو دین سمجھ لیا جائے گا۔

(مشعل راہ جلد اول ص103)

حضور نے 21 نومبر 1947ء کو خاص طور پر اس موضوع پر خطبہ جمعہ دیا کہ اگر ہماری جماعت قرآن کریم کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے تو سارے مصائب آپ ہی آپ ختم ہو جائیں۔ چنانچہ فرمایا:۔ ’’سلسلہ الٰہیہ کو سلسلہ الٰہیہ سمجھنا اور اس کی تعلیم پر عمل نہ کرنا بالکل لغو اور فضول ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات عذاب الٰہی کو بھڑکانے کاموجب بن جاتاہے۔ پس ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ قرآن کریم کے پڑھنے اور پڑھانے کا اتنا رواج دے کہ ہماری جماعت میں کوئی ایک شخص بھی نہ رہے جسے قرآن نہ آتا ہو۔ … ابھی تک جماعت کے بعض لوگ اس سلسلے کو محض ایک سوسائٹی کی طرح سمجھتے ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ بیعت کرنے کے بعد اگر چندہ دے دیا تو اتنا ہی ان کے لئے کافی ہے … حالانکہ … جب تک ہم اپنے ساتھیوں اور اپنے دوستوں اور اپنے رشتہ داروں کو قرآن کریم کے پڑھانے اور اس پر عمل کرانے کی کوشش نہ کریں گے اس وقت تک ہمارا قدم اس اعلیٰ مقام تک نہیں پہنچ سکتا جس مقام تک پہنچنے کے نتیجہ میں انبیاء کی جماعتیں کامیاب ہوا کرتی ہیں‘‘

(الفضل9 دسمبر 1947ء ص6,5)

آپ نے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:۔ ’’میں بھی طلباء سے یہی کہتا ہوں کہ وہ خود غور کرنے کی عادت ڈالیں اور جو باتیں میں نے بیان کی ہیں ان کے متعلق سوچیں پھر دوسرے لوگوں میں بھی انہیں پھیلانے کی کوشش کریں۔ یاد رکھو صرف کتابیں پڑھنا ہی کافی نہیں بلکہ ان میں جو کمی تمہیں نظر آتی ہے اسے دور کرنا بھی تمہارا فرض ہے مثلاً تفسیر کبیر کو ہی لے لو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے قرآن کریم کا بہت کچھ علم دیا ہے لیکن کئی باتیں ایسی بھی ہوں گی جن کا ذکر میری تفسیر میں نہیں آیا۔ اس لئے اگر تمہیں کوئی بات تفسیر میں نظر نہ آئے تو تم خود اس بارہ میں غور کرو اور سمجھ لو کہ شاید اس کا ذکر کرنا مجھے یاد نہ رہا ہو اور اس وجہ سے میں نے نہ لکھی ہو یا ممکن ہے وہ میرے ذہن میں ہی نہ آئی ہو اور اس وجہ سے وہ رہ گئی ہو۔ بہرحال اگرتمہیں اس میں کوئی کمی دکھائی دے تو تمہارا فرض ہے کہ تم خود قرآن کریم کی آیات پر غور کرو اور ان اعتراضات کو دور کرو۔ جو ان پر وارد ہونے والے ہیں‘‘

(مشعل راہ جلد اول ص750)

کلاسز اور درس کی تحریک

آپ نے ذیلی تنظیموں کو بار بار تعلیم القرآن کلاسز لگانے کا ارشاد فرمایا۔ چنانچہ 1945ء میں مجلس خدام الاحمدیہ اور نظارت تعلیم و تربیت کے اشتراک سے پہلی تعلیم القرآن کلاس شروع کی گئی جو ایک ماہ جاری رہی اور 86 نمائندگان نے شرکت کی۔ (الفضل 8 ستمبر 1945ء) خلافت ثانیہ میں ہی نظارت اصلاح و ارشاد کے تحت تعلیم القرآن کلاس کا 1964ء میں آغاز ہوا جو کامیابی سے مسلسل جاری ہے۔ بعد میں خدام الاحمدیہ کے زیر اہتمام سالانہ تربیتی کلاس کا آغاز ہوا جس میں اب ایک ہزار کے قریب طلباء حصہ لیتے ہیں۔حضور نے 27 دسمبر 1927ء کو جلسہ سالانہ پر خطاب میں فرمایا:۔
قرآن کریم پڑھنے کا بہترین طریق یہ ہے کہ درس جاری کیا جائے۔ بہت سی ٹھوکریں لوگوں کو اس لئے لگتی ہیں کہ وہ قرآن کریم پر تدبر نہیں کرتے۔ پس ضروری ہے کہ ہر جگہ قرآن کریم کا درس جاری کیا جائے اگر روزانہ درس میں لوگ شامل نہ ہوسکیں تو ہفتہ میں تین دن سہی اگر تین دن بھی نہ آسکیں تو دو دن ہی سہی۔ اگر دو دن بھی نہ آسکیں تو ایک ہی دن سہی مگر درس ضرور جاری ہونا چاہئے تاکہ قرآن کریم کی محبت لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو۔ اس کے لئے بہترین صورت یہ ہے کہ جہاں جہاں امیر مقرر ہیں وہاں وہ درس دیں۔ اگر کسی جگہ کا امیر درس نہیں دے سکتا تو وہ مجھ سے اس بات کی منظوری لے کہ میں درس نہیں دے سکتا۔ درس دینے کے لئے فلاں آدمی مقرر کیا جائے۔ … تمام امراء کو جنوری کے مہینہ کے اندر اندر مجھے اطلاع دینی چاہئے کہ درس کے متعلق انہوں نے کیا فیصلہ کیا ہے اور درس روزانہ ہوگا یا دوسرے دن یا ہفتہ میں دو بار یا ایک بار۔ میں سمجھتا ہوں درس کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں قرآن کریم کی محبت راسخ ہو جائے گی اور بہت سے فتن کا آپ ہی آپ ازالہ ہو جائے گا۔

(تقریر دلپذیر۔ انوارالعلوم جلد10 ص92)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ نے بھی حضور کے ارشاد پر وسط مارچ 1928ء میں ناظر تعلیم و تربیت کی حیثیت سے عہدیداران جماعت کو مزید توجہ دلائی کہ جہاں جہاں ابھی تک سلسلہ درس شروع نہیں ہوا اس کی طرف فوراً توجہ دیں۔ نیز گھروں میں بھی درس جاری کرنے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:
’’ہمارے احباب کو چاہئے کہ علاوہ مقامی درس کے اپنے گھروں میں بھی قرآن شریف اور حدیث اور کتب حضرت مسیح موعود کا درس جاری کریں اور یہ درس خاندان کے بزرگ کی طرف سے دیا جانا چاہئے۔ اس کے لئے بہترین وقت صبح کی نماز کے بعد کاہے لیکن اگر وہ مناسب نہ ہو تو جس وقت بھی مناسب سمجھا جائے اس کا انتظام کیا جائے۔ اس درس کے موقعہ پر گھر کے سب لوگ، مرد، عورتیں لڑکے، لڑکیاں بلکہ گھر کی خدمت گاریں بھی شریک ہوں اور بالکل عام فہم سادہ طریق پر دیا جائے اور درس کا وقت پندرہ بیس منٹ سے زیادہ نہ ہو، تا کہ طبائع میں ملال نہ پیدا ہو۔ اگر ممکن ہو تو کتاب کے پڑھنے کے لئے گھر کے بچوں اور ان کی ماں یا دوسری بڑی مستورات کو باری باری مقرر کیا جائے اور اس کی تشریح یا ترجمہ وغیرہ گھر کے بزرگ کی طرف سے ہو میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس قسم کے خانگی درس ہماری جماعت کے گھروں میں جاری ہو جائیں تو علاوہ علمی ترقی کے یہ سلسلہ اخلاق اور روحانیت کی اصلاح کے لئے بھی بہت مفید و بابرکت ہو سکتا ہے‘‘

(الفضل16 مارچ 1928ء ص2)

حضور نے خطبہ جمعہ 26 جنوری 1934ء بمقام لاہور فرمایا:۔
میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ قرآن کو اخلاص سے پڑھیں ہر جماعت کو چاہئے کہ درس جاری کرے … بہت سے لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی خود نہیں سمجھ سکتے اس لئے ابتداءً انہیں سہارے کی ضرورت ہوتی ہے جو درس سے حاصل ہو سکتا ہے۔ یا اگر مسجد، ہوسٹل یا جو دوست دور دور رہتے ہیں وہ محلہ وار جمع ہو کر درس کا انتظام کریں اور جن کے لئے محلہ وار جمع ہونا بھی مشکل ہو وہ گھر میں ہی درس دے لیا کریں تو جماعت میں تھوڑے ہی دنوں کے اندر علوم کے دریا بہہ جائیں۔ درس کے لئے بہترین طریق یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود کی تفاسیر کو مدنظر رکھا جائے۔ آپ نے اگرچہ کوئی باقاعدہ تفسیر تو نہیں لکھی مگر تفسیر کے اصول ایسے بتا دیئے ہیں کہ قرآن کو ان کی مدد سے سمجھنا بہت آسان ہو گیا ہے۔

(خطبات محمود جلد15 ص33)

جدید زمانہ میں درس و تدریس کا اہم ذریعہ آن لائن کلاسیں ہیں۔اور جماعت اس سے بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے۔ یوکے میں قائم انٹرنیشنل تعلیم القرآن اکیڈمی میں 15 ممالک کے 464 طلبا٫ قرآن کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں خدام،انصار لجنہ اور مربیان سمیت 145 اساتذہ ہیں اس میں ناظرہ اور باترجمہ قرآن پڑھایا جاتا ہے

(الفضل انٹر نیشنل 9 نومبر 2021٫ ص2)

اسی طرح امریکہ میں بھی بہت منظم کام ہو رہا ہے

جہاد بالقرآن کی اہم تحریک

سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثانی نے جولائی 1928ء کے پہلے ہفتہ میں مسلمانان عالم کو اس طرف توجہ دلائی کہ ترقی و سربلندی کا اصل راز قرآن مجید کے سمجھنے اور اس پر کاربند ہونے میں مضمر ہے۔ چنانچہ حضور نے 6 جولائی 1928ء کو خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا:۔
’’ہر مسلمان کو چاہئے کہ قرآن کریم کو پڑھے۔ اگر عربی نہ جانتا ہو تو اردو ترجمہ اور تفسیر ساتھ پڑھے عربی جاننے والوں پر قرآن کے بڑے بڑے مطالب کھلتے ہیں مگر یہ مشہور بات ہے کہ جو ساری چیز نہ حاصل کرسکے اسے تھوڑی نہیں چھوڑ دینی چاہئے۔ کیا ایک شخص جو جنگل میں بھوکا پڑا ہو، اسے ایک روٹی ملے تو اسے اس لئے چھوڑ دینی چاہئے کہ اس سے اس کی ساری بھوک دور نہ ہوگی۔ پس جتنا کوئی پڑھ سکتا ہو پڑھ لے اور اگر خود نہ پڑھ سکتا ہو تو محلہ میں جو قرآن جانتا ہو اس سے پڑھ لینا چاہئے۔ جب ایک شخص بار بار قرآن پڑھے گا اور اس پر غور کرے گا تو اس میں قرآن کریم کے سمجھنے کا ملکہ پیدا ہو جائے گا۔ پس مسلمانوں کی ترقی کا راز قرآن کریم کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں ہے جب تک مسلمان اس کے سمجھنے کی کوشش نہ کریں گے، کامیاب نہ ہوں گے۔ کہا جاتا ہے دوسری قومیں جو قرآن کو نہیں مانتیں وہ ترقی کررہی ہیں پھر مسلمان کیوں ترقی نہیں کرسکتے۔ بے شک عیسائی اور ہندو اور دوسری قومیں ترقی کرسکتی ہیں لیکن مسلمان قرآن کو چھوڑ کر ہرگز نہیں کرسکتے۔ اگر کوئی اس بات پر ذرا بھی غور کرے تو اسے اس کی وجہ معلوم ہوسکتی ہے اگر یہ صحیح ہے کہ قرآن کریم خداتعالیٰ کی کتاب ہے اور اگر یہ صحیح ہے کہ ہمیشہ دنیا کو ہدایت دینے کے لئے قائم رہے گی تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اگر قرآن کو خدا کی کتاب ماننے والے بھی اس کو چھوڑ کر ترقی کرسکیں تو پھر کوئی قرآن کو نہ مانے گا پس قرآن کی طرف مسلمانوں کو توجہ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کی ترقی کا انحصار قرآن کریم ہو‘‘

(الفضل 13 جولائی 1928ء ص7 کالم3)

حفظ قرآن کی تحریکات

تعلیم القرآن کی ہی ذیلی سکیم حفظ قرآن ہے۔ حضور نے 7 دسمبر 1917ء کو وقف زندگی کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:۔
جو لوگ اپنے بچوں کو وقف کرنا چاہیں وہ پہلے قرآن کریم حفظ کرائیں۔ کیونکہ مبلغ کے لئے حافظ قرآن ہونا نہایت مفید ہے۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں۔ اگر بچوں کو قرآن حفظ کرانا چاہیں تو تعلیم میں حرج ہوتا ہے۔ لیکن جب بچوں کو دین کے لئے وقف کرنا ہے تو کیوں نہ دین کے لئے جو مفید ترین چیز ہے وہ سکھالی جائے۔ جب قرآن کریم حفظ ہو جائے گا تو اور تعلیم بھی ہو سکے گی۔ میرا تو ابھی ایک بچہ پڑھنے کے قابل ہوا ہے اور میں نے تو اس کو قرآن شریف حفظ کرانا شروع کرا دیا ہے۔ ایسے بچوں کا تو جب انتظام ہوگا اس وقت ہوگا اور جو بڑی عمر کے ہیں وہ آہستہ آہستہ قرآن حفظ کر لیں گے۔

(الفضل 22 دسمبر 1917٫۔ خطبات محمود جلد5 ص612)

اپریل، مئی 1922ء میں حضرت مصلح موعود نے جماعت میں حفظ قرآن کی تحریک فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ کم ازکم تیس آدمی قرآن کریم کا ایک ایک پارہ حفظ کریں جس پر کئی احباب نے لبیک کہا۔

(الفضل4 مئی 1922ء ص1)

24اپریل 1944ء کو دعویٰ مصلح موعود کے بعد حضور نے پھر حفاظ پیدا کرنے کی تحریک فرمائی۔

(الفضل 26 جولائی 1944ء ص 3-4)

حضرت مصلح موعود نے 29 اپریل 1946ء کو تحریک فرمائی کہ قرآن کریم کا چرچا اور اس کی برکات کو عام کرنے کے لئے ہماری جماعت میں بکثرت حفاظ ہونے چاہئیں۔ چنانچہ فرمایا:۔
’’صدر انجمن احمدیہ کو چاہئے کہ چار پانچ حفاظ مقرر کرے جن کا کام یہ ہو کہ وہ مساجد میں نمازیں بھی پڑھایا کریں اور لوگوں کو قرآن کریم بھی پڑھائیں۔ اسی طرح جو قرآن کریم کا ترجمہ نہیں جانتے ان کو ترجمہ پڑھا دیں اگر صبح و شام و ہ محلوں میں قرآن پڑھاتے رہیں تو قرآن کریم کی تعلیم بھی عام ہو جائے گی اور یہاں مجلس میں بھی جب کوئی ضرورت پیش آئے گی ان سے کام لیا جاسکے گا۔ بہرحال قرآن کریم کا چرچا عام کرنے کے لئے ہمیں حفاظ کی سخت ضرورت ہے۔ انجمن کو چاہئے کہ وہ انہیں اتنا کافی گزارہ دے کہ جس سے وہ شریفانہ طور پر گزارہ کرسکیں۔ پہلے دو چار آدمی رکھ لئے جائیں پھر رفتہ رفتہ اس تعداد کو بڑھایا جائے‘‘

(الفضل 26اگست1960ء ص4)

چنانچہ حضور کی توجہ اور ہدایات کے تابع جماعت میں حفظ قرآن کی سکیم کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ تاریخی ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ 1920ء سے قبل قادیان میں حافظ کلاس کا آغاز ہوچکا تھا اور حضرت خلیفة المسیح الثالث نے اسی کلاس سے قرآن حفظ کیا۔ قیام پاکستان کے بعد یہ کلاس احمدنگر، پھرمسجد مبارک ربوہ اور جون 1969ء سے جامعہ احمدیہ کے کوارٹر اور کچھ دیر مسجد حسن اقبال جامعہ احمدیہ میں جاری رہی۔ 1976ء میں باقاعدہ مدرسة الحفظ قائم کیا گیا۔ 2000ء میں مدرسة الحفظ کو موجودہ نئی عمارت میں منتقل کیا گیا۔

(الفضل 11اپریل 2001٫)

مدرسة الحفظ سے سینکڑوں بچے اب تک قرآن حفظ کرچکے ہیں۔ اسی طرح بچیوں کے لئے عائشہ دینیات اکیڈمی قائم کی گئی ہے جس سے سینکڑوں بچیاں قرآن حفظ کرچکی ہیں۔ 2 ستمبر 2000ء کو برطانیہ میں مدرسہ حفظ قرآن عمل میں آیا جس میں ٹیلی فون اور جز وقتی کلاسوں کے ذریعہ بچوں کو قرآن حفظ کروایا جاتا ہے۔ اس کا نام الحافظون رکھا گیا ہے۔ یکم مارچ 2005ء کو گھانا میں جامعہ احمدیہ کے ساتھ مدرسة الحفظ کا قیام عمل میں آیا۔اس سے اب تک 71 بچے قرآن حفظ کرچکے ہیں اور 26 حفظ کر رہے ہیں

(الفضل انٹر نیشنل 29 اکتوبر 2021ء)

اسی طرح کئی اور ملکوں میں بھی حفظ کا انتظام ہے یعنی امریکہ، کینیڈا، نائیجیریا، بینن، سیرالیون وغیرہ

عربی سیکھنے کی تحریک

قرآن سیکھنے کے لئے عربی جاننا اول قدم ہے اس لئے حضرت خلیفة المسیح الثانی نے عربی زبان کی ترویج کی طرف خاص توجہ فرمائی اور 19 جون 1944ء کو خطبہ جمعہ کے علاوہ مجلس عرفان میں فرمایا۔
’’عربی زبان کا مردوں اور عورتوں میں شوق پیدا کرنے اور اس زبان میں لوگوں کے اندر گفتگو کا ملکہ پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ۔۔… ایک عربی بول چال کے متعلق رسالہ لکھیں۔ حضرت مسیح موعود نے بھی عربی کے بعض فقرے تجویز فرمائے تھے جن کو میں نے رسالہ تشحیذ الاذہان میں شائع کردیا تھا۔ ان فقروں کو بھی اپنے سامنے رکھ لیا جائے اور تبرک کے طور پر ان فقرات کو بھی رسالہ میں شامل کر لیا جائے۔ درحقیقت وہ ایک طریق ہے جو حضرت مسیح موعود نے ہمارے سامنے پیش فرمایا۔ اب ہمارا فرض ہے کہ ہم اس راستہ پر چلیں اور اپنی جماعت میں عربی زبان کی ترویج کی کوشش کریں۔ میرے خیال میں اس میں اس قسم کے فقرات ہونے چاہئیں کہ جب ایک دوست دوسرے دوست سے ملتا ہے تو کیا کہتا ہے اور کس طرح آپس میں باتیں ہوتی ہیں۔ وہ باتیں تربیت کے ساتھ لکھی جائیں۔ پھر مثلاً انسان اپنے گھر جاتا ہے اور کھانے پینے کی اشیاء کے متعلق اپنی ماں سے یا کسی ملازم سے گفتگو کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے کھانے کے لئے کیا پکا ہے یا کون سی ترکاری تیار ہے؟ اس طرح کی روزمرہ کی باتیں رسالہ کی صورت میں شائع کی جائیں۔ بعد میں محلوں میں اس رسالہ کو رائج کیا جائے۔ خصوصاً لڑکیوں کے نصاب تعلیم میں اس کو شامل کیا جائے اور تحریک کی جائے کہ طلباء جب بھی ایک دوسرے سے گفتگو کریں عربی زبان میں کریں۔ اس طرح عربی بول چال کا عام رواج خداتعالیٰ کے فضل سے پیدا کیا جا سکتا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ یہودیوں نے ایک مردہ زبان کو اپنی کوشش سے زندہ کر دیا ہے۔ عبرانی زبان دنیا میں کہیں بھی رائج نہیں۔ لیکن لاکھوں کروڑوں یہودی عبرانی زبان بولتے ہیں۔ اگر یہودی ایک مردہ زبان کو زندہ کر سکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ عربی زبان جو ایک زندہ زبان ہے اس کا چرچا نہ ہوسکے۔ پہلے قادیان میں اس طریق کو رائج کیا جائے۔ پھر بیرونی جماعتوں میں یہ طریق جاری کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ چھوٹے چھوٹے آسان فقرے ہوں جو بچوں کو بھی یاد کرائے جاسکتے ہیں۔ اس کے بعد لوگوں سے امید کی جائے گی کہ وہ اپنے گھروں میں بھی عربی زبان کو رائج کرنے کی کوشش کریں۔ اس طرح قرآن کریم سے لوگوں کی دلچسپی بڑھ جائے گی اور اس کی آیات کی سمجھ بھی انہیں زیادہ آنے لگ جائے گی۔ اب تو میں نے دیکھا ہے۔ دعائیں کرتے ہوئے جب یہ کہا جاتا ہے۔ ربنا اننا سمعنا … تو ناواقفیت کی وجہ سے بعض لوگ بلند آواز سے آمین کہہ دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ آمین کہنے کا موقعہ نہیں ہوتا۔ یہ عربی زبان سے ناواقفیت کی علامت ہے۔ اگر عربی بول چال کا لوگوں میں رواج ہو جائے گا تو یہ معمولی باتیں لوگ خودبخود سمجھنے لگ جائیں گے اور انہیں نصیحت کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

یہ رسالہ جب شائع ہوجائے تو خدام الاحمدیہ کے سپرد کر دیاجائے تاکہ اس کے تھوڑے تھوڑے حصوں کا وہ اپنے نظام کے ماتحت وقتاًفوقتاً نوجوانوں سے امتحان لیتے رہیں۔ یہ فقرات بہت سادہ زبان میں ہونے چاہئیں۔ مصری زبان میں انشاء الادب نام سے کئی رسالے اس قسم کے شائع ہوچکے ہیں مگر وہ زیادہ دقیق ہیں۔ معلوم نہیں ہمارے سکولوں میں انہیں کیوں جاری نہیں کیا گیا۔

(الفضل یکم جنوری 1945ء ص4 کالم4,3)

تراجم قرآن کی تحریکات

قرآن کریم کے متعلق تحریکات کا ایک بہت اہم سلسلہ تراجم قرآن سے تعلق رکھتا ہے جس کے لئے حضور نے کئی دفعہ تحریکات فرمائیں۔ آپ نے یہ اعلان فرمایا:
’’دنیا میں اس وقت تیرہ سو زبانیں بولی جاتی ہیں اورتیرہ سو زبانوں میں ہی قرآن کریم کا ترجمہ ہونا ضروری ہے کیونکہ قرآن کریم تمام انسانوں کے لئے نازل ہوا ہے اور دنیا کاکوئی فرد ایسا نہیں جسے قرآن کریم مخاطب نہیں کرتا۔ پس دنیا کا کوئی فرد ایسا نہیں ہونا چاہئے جس کی زبان میں ہم اس کا ترجمہ نہ کر دیں۔ تا کہ کوئی فردیہ نہ کہہ سکے کہ اے اللہ! تو نے مجھے فلاں زبان بولنے والے لوگوں میں پیدا کیا تھا اور قرآن کریم تو عربی زبان میں ہے پھر میں قرآن کریم کس سے سیکھتا؟‘‘

(تفسیر کبیر جلد7ص 641)

تراجم کا ایک خصوصی دور 1944ء میں شروع ہوا۔ جوں جوں دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ کا وقت قریب آرہا تھا۔ حضرت خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعود کی توجہ دنیا بھر میں دینی جنگ کے آغاز کی مختلف سکیموں پر بڑھتی جارہی تھی۔ اس سلسلہ میں حضور نے 20اکتوبر 1944ء کو دنیا کی سات مشہور زبانوں انگریزی، روسی، جرمن، فرانسیسی، اطالوی، ڈچ، ہسپانوی اور پرتگیزی زبان میں قرآن مجید کے تراجم کی عظیم الشان تحریک کی اور پھر اپنے عہد خلافت میں اس کی تکمیل کے لئے کامیاب جدوجہد فرمائی۔ اس اہم تحریک کو عملی جامہ پہنانے اور ضروری اخراجات مہیا کرنے کے لئے حضور نے شروع میں یہ اعلان فرمایا کہ ’’اطالوی زبان میں قرآن مجید کے ترجمہ کا خرچ میں ادا کروں گا‘‘ یہ انتخاب خداتعالیٰ کے القاء کے تحت تھا۔ چنانچہ فرمایا:۔ ’’خداتعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ چونکہ پہلے مسیح کا خلیفہ کہلانے والا اٹلی میں رہتا ہے۔ اس مناسبت سے قرآن مجید کا جو ترجمہ اطالوی زبان میں شائع ہو وہ مسیح محمدی کے خلیفہ کی طرف سے ہونا چاہئے۔‘‘

(الفضل 27اکتوبر 1944ء ص4)

اس اعلان کے ساتھ ہی حضور نے جرمن ترجمہ کا خرچ ہندوستان کی لجنہ اماء اللہ کے ذمہ اور ایک ترجمہ قرآن کی رقم جماعت احمدیہ قادیان کے ذمہ ڈالی اور باقی چار تراجم قرآن کے متعلق فیصلہ فرمایا کہ ان کے اخراجات چار شہروں کی جماعتیں یا افراد پیش کریں۔تراجم قرآن مجید کے علاوہ غیر ملکی آٹھ زبانوں میں حضور نے اسلامی لٹریچر کی اشاعت کا پروگرام بھی رکھا اور وہ یہ کہ:

1۔ اسلامی اصول کی فلاسفی، مسیح ہندوستان میں، احمدیت یعنی حقیقی اسلام، رسول کریم ﷺکی سوانح عمری، حضرت مسیح موعود کی سوانح عمری، رسول کریم ﷺ کے متعلق پیشگوئیاں، ترجمہ احادیث، پرانے اور نئے عہد نامہ کی روشنی میں توحید، نظام نو اور تین اور اہم مضامین پر مشتمل بارہ کتب کا سیٹ شائع کیا جائے۔

عربی ممالک کے لئے کتابوں کا الگ سیٹ تجویز ہونا چاہئے۔

2۔عربی سمیت دنیا کی مشہور نو زبانوں میں چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ اور اشتہار چھپوائے جائیں جو چار چار صفحے سے لے کر سولہ سولہ صفحے تک کے ہوں تاکہ کثرت کے ساتھ ان کی اشاعت ہو سکے اور ہر آدمی کے ہاتھ میں پہنچائے جاسکیں۔

(الفضل 27اکتوبر 1944ء ص5,4)

خطبہ کے بعد چودھری محمد ظفراللہ خاں صاحب اور آپ کے چند اور رفقاء نے ایک ترجمہ کا خرچ اپنے ذمہ لیا اب باقی صرف تین تراجم رہ گئے جو حضور نے پوری جماعت پر چھوڑ دیئے اور فرمایا: ’’جو فرد اکیلا ایک ترجمہ کی رقم اٹھانا چاہے وہ اکیلا اٹھالے۔ جو چند دوستوں کے ساتھ مل کر یہ بوجھ اٹھانا چاہتا ہو وہ ایسا کرلے۔ جو جماعت مل کر ایک ترجمہ کی رقم دینا چاہے وہ جماعت اس کا وعدہ کرلے۔ جو صوبہ ایک ترجمہ کی رقم دینا چاہے وہ صوبہ اس کا وعدہ کرلے۔

(الفضل27اکتوبر 1944ء ص4)

اس تحریک کو اللہ تعالیٰ نے حیرت انگیز اور خارق عادت رنگ میں قبولیت بخشی اور تحریک کی اشاعت کے چھ دن کے اندر اندر تین کی بجائے پانچ تراجم کے وعدہ جات حضرت اقدس کے حضور پہنچ گئے۔ چنانچہ حضور نے فرمایا:۔
’’یہ خداتعالیٰ کا کتنا بڑا فضل ہے کہ ادھر بات منہ سے نکلتی ہے اور ادھر پوری ہو جاتی ہے۔ باوجود خطبہ کے دیر سے شائع ہونے کے 6 دن کے اندر سات زبانوں کے تراجم کے اخراجات کے وعدے آگئے۔ خطبہ کے باہر پہنچنے کے چند گھنٹے کے اندر اندر اختر صاحب نے دہلی سے بذریعہ تار اطلاع دی کہ ایک ترجمہ کے اخراجات وہ مع اپنے دوستوں کے دیں گے۔ ایک تار لاہور سے آیا۔ کلکتہ کی جماعت نے یہ اطلاع دی ہے کہ ایک زبان کے ترجمہ کی اشاعت کے اخراجات وہ دے گی۔ ایک تار قصور سے ملک عبدالرحمن صاحب کا آیا تو 9 تراجم کے اخراجات کے وعدے آچکے ہیں۔ گویا جتنی زبانوں میں شائع کرنے کا ارادہ ہے ان سے دو کے زائد، زائد کے لئے چندہ تو نہیں لیا جائے گا مگر یہ خدا کا کتنا بڑا فضل اور انعام ہے کہ جماعت کے ایک تھوڑے سے حصہ نے نہایت قلیل عرصہ میں مطالبہ سے بھی بڑھ کر وعدے پیش کردیئے۔ خاص کر قادیان کی غریب جماعت نے اس تحریک میں بہت بڑا حصہ لیا‘‘

(الفضل 2 نومبر 1944ء ص2 کالم3)

خداتعالیٰ نے سیدنا المصلح الموعود ؓ کو فدائیوں، شیدائیوں اور سرفروشوں کی بے مثال جماعت بخشی تھی۔ جس نے اس موقعہ پر روح مسابقت اور جذبہ اخلاص کے اس نمونہ پر قانع و مطمئن ہونا گوارا نہیں کیا بلکہ نو تراجم کے وعدوں کے بعد مزید درخواستوں کا تانتا بندھ گیا اور یہ نیا مسئلہ پیدا ہو گیا کہ اب تراجم کی تقسیم کی صورت کیا ہو؟ چنانچہ سیدنا المصلح الموعود نے 3نومبر 1944ء کے خطبہ جمعہ میں اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’میں نے پچھلے خطبہ سے پہلے خطبہ میں (20اکتوبر کو) قرآن مجید کے سات تراجم کے متعلق تحریک کی تھی۔ جہاں تک اس کی کامیابی کا سوال تھا مجھے اس میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ اس وقت تک خداتعالیٰ کا میرے ساتھ ہمیشہ یہ معاملہ رہا ہے کہ وہ جب کبھی میرے منہ سے کوئی بات نکلواتا ہے تو اس کی کامیابی کے سامان بھی کر دیتا ہے۔ لیکن اس میں ایک نئی بات پیدا ہوگئی ہے کہ اس تحریک کے بعد جو درخواستیں آئی ہیں وہ ہمارے مطالبہ سے بہت زیادہ ہیں۔ ہمارا مطالبہ تھا سات تراجم کے اخراجات کا اور درخواستیں آئی ہیں بارہ تراجم کے اخراجات کے لئے اور ابھی بیرون جات سے چٹھیاں آرہی ہیں کہ وہ اس چندہ میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔ جہاں تک وسیع علاقوں کا تعلق ہے اور جہاں جماعتیں پھیلی ہوئی ہیں وہ علاقے چونکہ سب کے مشورہ کے بغیر کوئی ذمہ واری نہیں اٹھا سکتے اس لئے ان درخواستوں میں وہ شامل نہیں کیونکہ وہ جلدی مشورہ کرکے اتنے وقت کے اندر اطلاع نہیں دے سکتی تھیں۔ یہ درخواستیں صرف ان جماعتوں کی طرف سے ہیں جو اپنی ذمہ داری پر اس بوجھ کو اٹھا سکتی تھیں یا افراد کی طرف سے ہیں … قادیان کی جماعت کے متعلق مجھے یقین دلایا گیا ہے کہ ایک ترجمہ کی جگہ وہ دو کا خرچ اپنے ذمہ لے گی اور لجنہ کا بھی جس کا رنگ میں چندہ ہورہا ہے اس رنگ میں دو کا بھی سوال نہیں۔ بلکہ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا چندہ دو سے بھی بہت زیادہ ہوگا۔ کیونکہ اس وقت تک لجنہ قادیان کی طرف سے چھ ہزار تین سو کے وعدے آچکے ہیں اور ابھی ہزار بارہ سو روپیہ کے وعدوں کی اور امید ہے (خطبہ ختم کرتے وقت آٹھ ہزار سے زائد کے وعدے ہو چکے ہیں) گو میں نے سارے ہندوستان کی لجنہ کے ذمہ جو ایک ترجمہ کا خرچ لگایا تھا۔ اس سے زیادہ کے وعدے قادیان سے ہی ہوچکے ہیں اور ابھی باہر کی ساری لجنائیں باقی ہیں۔ اسی طرح قادیان کی جماعت کے علاوہ صدر انجمن کے کارکنوں نے بھی ایک ترجمہ کا خرچ اپنے ذمہ لیا ہے۔ کارکنوں کے علاوہ دوسروں کے چندہ کا وعدہ ایک ترجمہ سے زیادہ کا ہوچکا ہے اور ابھی ہورہا ہے۔ اب ان جماعتوں یا افراد کی طرف سے جن کا حصہ نہیں لیا جاسکا، الحاح کی چٹھیاں آرہی ہیں اور وہ اصرار کے ساتھ لکھ رہی ہیں کہ ہمیں بھی اس چندہ میں حصہ لینے کا موقع دیجئے‘‘

(الفضل 8 نومبر 1944ء)

حضور کو مخلصین جماعت کی بیتابی دیکھ کر سات تراجم اور بارہ بارہ کتابوں کے مکمل سیٹ کی ازسر نو تقسیم کا اعلان کرنا پڑا۔ جس کے مطابق ایک ایک ترجمہ قرآن اور ایک ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ طوعی اور اختیاری رنگ میں مندرجہ ذیل سات حلقوں پر تقسیم کر دیا گیا۔

1۔لجنہ اماء اللہ ہندوستان۔2۔ جماعت قادیان 3۔جماعتہائے لاہور، امرت سر، شیخوپورہ، گوجرانوالہ، فیروز پور۔ 4۔ جماعتہائے دہلی، بہار، یوپی، لدھیانہ، ضلع انبالہ، ریاست پٹیالہ۔ 5۔ کلکتہ۔ 6۔ حیدرآباد دکن، میسور، بمبئی، مدراس اور اس کے ساتھ ملحقہ ریاستیں۔ 7۔ صوبہ سرحد و صوبہ سندھ۔(الفضل 8 نومبر 1944 ص1 کالم1 تا4) اس نئی تقسیم کے اعلان پر جماعت کے ان مخلصین کی طرف سے بھی جنہوں نے پورے ترجمہ کے اخراجات کی پیشکش کی تھی اور ان افراد اور جماعتوں کی طرف سے بھی جو اس چندہ میں شمولیت کا ارادہ رکھتی تھیں اور ان کو اس میں شامل ہونے سے محروم کر دیا گیا، اپنے آقا کے حضور التجاؤں اور درخواستوں کے پے درپے خطوط بھیجے گئے۔ جن میں حد درجہ اضطراب اور انتہائی گھبراہٹ کا اظہار کیا گیا کہ ہمیں اس ثواب میں شامل ہونے کا موقعہ نہیں دیا اور یہ امر ان کے لئے انتہائی کرب اور دکھ کا موجب ہے۔

(الفضل 14 نومبر 1944ء ص1)

حضور کی خدمت میں جب اس نوعیت کے مسلسل اور پے درپے خطوط پہنچے تو حضور نے 10 نومبر 1944ء کو مخلصین جماعت کی التجاؤں پر اپنی تجویز فرمودہ پہلی تقسیم بھی کالعدم قرار دے دی اور اس کی بجائے نئی تقسیم کا اعلان فرما دیا جس سے پوری جماعت کے لئے ثواب میں شریک ہونے کا موقعہ فراہم ہو گیا۔

(الفضل 14 نومبر 1944ء ص1)

حضور نے تراجم کے لئے ایک لاکھ 94 ہزار روپیہ چندہ کی تحریک فرمائی اور احباب کو اس میں حصہ لینے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:۔ اور میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس تحریک میں ضرور حصہ لیں خواہ ایک دھیلہ ہی دے سکیں تا جہاں جہاں قرآن کریم کے یہ تراجم چھپ کر جائیں ثواب میں ان کا حصہ بھی ہو۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ ایک کوڑی دے کر بھی آدمی حصہ لے سکتا ہے۔ اتنی رعایت کے باوجود بھی جو حصہ نہیں لیتا وہ اپنے آپ کو بہت بڑے انعام سے محروم رکھتا ہے۔ پس ہر دوست اس میں حصہ لے خواہ ایک پیسہ ایک دھیلہ دے کر ہی حصہ لے سکے۔ غرض یہ ہے کہ ہر شخص اس ثواب میں شامل ہوسکے۔

(انوارالعلوم جلد17 ص493)

حضور کے اندازہ کے مطابق ترجمہ اور چھپوائی کے لئے ایک لاکھ 94 ہزار روپیہ کی ضرورت تھی۔ جس کا آپ نے جماعت سے مطالبہ کیا۔ جماعت کی طرف سے 2 لاکھ 60 ہزار روپے کے وعدے ہوئے اور پھر ان کا اکثر حصہ وصول ہو گیا۔ اور دو سال کے عرصہ میں ساتوں زبانوں میں تراجم مکمل ہو گئے۔ انگریزی زبان میں ترجمہ پہلے ہوچکا تھا۔ حضور فرماتے ہیں:۔ ’’قرآن کے سات مختلف زبانوں میں جو تراجم ہورہے تھے وہ خداتعالیٰ کے فضل سے مکمل ہو گئے ہیں اور ان کی ایک اور نقل بینک میں محفوظ کرلی گئی ہے۔ صرف اس بات کا انتظار ہے کہ ہمارے مبلغین ان زبانوں کو سیکھ کر ان پر نظر ثانی کرلیں۔ تا غلطی کا امکان نہ رہے۔‘‘

(الفضل 28 دسمبر 1946ء)

ترجمہ قرآن کریم انگریزی کے پھیلاؤ کی تحریک

انگریزی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ شائع ہوا تو حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓ نے اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی خاطر جماعت کو تحریک کی کہ اس کی ایک ہزار کاپیاں دنیا کے مشہور علما٫، سیاستدان، لیڈروں اور مملکتوں کے سربراہوں کو دی جائیں اور دنیا کی مشہور لائبریریوں میں رکھی جائیں۔ جماعت کے مخیر اور مخلص احباب ایک یا ایک سے زائد کاپیوں کی قیمت پیش کریں۔ حضور فرماتے ہیں:۔
’’جماعت کو ہمت کر دکھانی چاہئے اور ایک ہزار کتاب خرید کر سلسلہ کے سپرد کر دینی چاہئے تاکہ بڑے بڑے سیاستدانوں، لیڈروں، مذہبی لوگوں اور مستشرقین میں ان کتابوں کو تقسیم کیا جاسکے۔ اگر کتاب کی قیمت بیس روپے ہوئی تو کل بیس ہزار کی رقم بنتی ہے۔ اگر پچیس روپے ہوئی تو پچیس ہزار روپے کی رقم بنتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیس پچیس ہزار کی رقم جماعت کے لئے کوئی بڑا بوجھ نہیں بلکہ جس قسم کا یہ کام ہے اس کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے یہ رقم بہت ہی ادنیٰ ہے۔ کہتے ہیں جو بولے وہی کنڈا کھولے۔ اس لئے میں اپنی طرف سے ایک سو جلد خرید کر محلہ کو تقسیم کرنے کے لئے دینے کا وعدہ کرتا ہوں۔ ایک سو جلدوں کی جو بھی قیمت ہوگی وہ میں دوں گا۔ باقی نو حصے جماعت کو پورنے کرنے چاہئیں۔ لجنہ اماء اللہ نے دو سو جلدوں کا وعدہ کیا ہے۔ اس لئے صرف سات سو جلدیں باقی جماعت کے ذمہ رہ جاتی ہیں۔ ممکن ہے بعض مخلصوں کو اللہ تعالیٰ توفیق بخشے اور یہ حصے بھی لگ جائیں اور باقیوں کو افسوس کرنا پڑے اس لئے اس نیک کام میں حصہ لینے کے لئے دوستوں کو جلدی کرنی چاہئے‘‘

(الفضل 26 فروری 1947ء ص3 کالم3)

جماعت کے احباب نے اپنے پیارے امام کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے اپنے اموال پیش کئے اور کلام اللہ کی اشاعت میں حصہ لیتے ہوئے ترجمہ کی مطلوبہ کاپیاں خرید کر پیش کردیں۔

الغرض حضرت مصلح موعود کی ذات میں کلام اللہ کے مرتبہ کا شاندار ظہور ہوا اور تعلیم القرآن کی تحریکات نے جماعت کو بھی اس میں شامل کر دیا اور محبت اور خدمت قرآن کی ایک عظیم الشان لہر نے دنیا بھر میں اس کے گہرے اثرات مرتب کئے اللہ تعالی اس محبت کو اور بھی بڑھاتا چلا جائے آمین۔

(عبد السمیع خان۔ استاد جامعہ احمدیہ غانا)

پچھلا پڑھیں

’’روزنامہ الفضل کے پہلے صفحہ سے اقتباس بچوں کو پڑھنے کے لئے دیا کریں‘‘

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 فروری 2022