• 12 مئی, 2024

خلاصہ خطبہ جمعۃ المبارک مؤرخہ 18؍فروری 2022ء

خلاصہ خطبہ جمعۃ المبارک

امیر المؤمنین سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیحِ الخامس ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مؤرخہ 18؍فروری 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد؍ٹلفورڈ یوکے

ہر سال ہم بیس فروری کو پیشگوئی مصلح موعود کے حوالہ سے  جلسے بھی کرتے ہیں اور اِس دن کو یاد بھی رکھتے ہیں ۔۔۔پس پیشگو ئی تو پوری ہوئی، آپؓ نے اپنا دَور بھی گزارا لیکن یہ پیشگوئی کے جو الفاظ ہیں یہ اُس وقت تک قائم ہیں اور یہ اِنۡ شَآء اللہ! اُس وقت تک قائم رہیں گے اور چلتی چلی جائے گی جب تک حضرت مسیحِ موعودؑ کا مشن پورا نہ ہو جائے اور اسلام کا جھنڈا تمام دنیا میں نہ لہرانے لگ جائے۔ پس ہمیں یاد رکھنا چاہیئے کہ اِس پیشگوئی پر ہمارے جلسے اور اِس کو یاد رکھنا تبھی فائدہ مند ہے جب ہم اِس مقصد کو ہمیشہ سامنے رکھیں کہ ہم نے آنحضرتؐ کی عزّت اور وَقار کو دنیا میں قائم کرنا ہے اور اسلام کی سچائی دنیا پر ظاہر کر کے آنحضرتؐ کے جھنڈے تلے لیکر آنا ہے سب کو۔ آج حضرت مسیحِ موعودؑ کے ماننے والوں کے سواء اَور کوئی نہیں جس کے ذریعہ اسلام کا جھنڈا دنیا میں دوبارہ لہرائے اور دنیا میں اسلام پھیلے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اِس کام کے کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔

حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشہّد، تعوّذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد ارشاد فرمایا! ہر سال ہم بیس فروری کو پیشگوئی مصلح موعود کے حوالہ سے جلسے بھی کرتے ہیں اور اِس دن کو یاد بھی رکھتے ہیں۔ یہ پیشگوئی ایک بیٹے کی پیدائش کی، حضرت مسیحِ موعود علیہ السّلام نے دشمنوں کے اسلام پر اعتراضات کے جواب میں اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر کی تھی کہ دشمنانِ اسلام کہتے ہیں کہ اسلام کوئی نشان نہیں دکھاتا۔ آپؑ نے فرمایا کہ میں خدا تعالیٰ سے اطلاع پا کر کہتا ہوں کہ ایک بڑا نشان اسلام کی صداقت کا جو میرے ذریعہ سے پورا ہو گا وہ میرے ایک بیٹے کی پیدائش ہے جو لمبی عمر پائے گا، اسلام کی خدمت کرے گا اور بتایا کہ یہ یہ خصوصیات اِس میں ہوں گی اور تقریبًاباون، ترپن خصوصیات بیان فرمائیں۔

یہ کوئی معمولی پیشگوئی نہیں تھی

اور یہ کوئی معمولی پیشگوئی نہیں تھی، بہرحال ایک معینہ عرصہ بھی بتایا اور اُس میں وہ بیٹا پیدا ہؤا ، اُس نے لمبی عمر بھی پائی اور اُسے اسلام کی غیر معمولی خدمت کی توفیق بھی ملی۔

لمبی عمر پانے والے بچہ کی حالتِ صحت کا اندازہ

پیشگوئی لمبی عمر پانے والے بچہ کے بارہ میں تھی،اِس لمبی عمر پانے والے بچے کی صحت کی حالت کا اندازہ آپ اِس بات سے کر سکتے ہیں کہ کیا حالت تھی اِس بچے کی صحت کی۔ حضرت المصلح الموعودؓ خودہی فرماتے ہیں کہ بچپن میں میری صحت نہایت کمزور تھی۔ پہلے کالی کھانسی ہوئی ، پھر میری صحت ایسی گر گئی کہ گیارہ ، بارہ سال کی عمر تک میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہا اور عام طور پر یہی سمجھتا جارہا کہ اِس کی زیادہ لمبی عمر نہیں ہو سکتی۔

حساب کے اُستاد ماسٹر فقیر اللہ صاحِب آف لاہور کی شکایت

 اُنہوں نے نے ایک دفعہ میرے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کے پاس شکایت کی کہ پڑھنے نہیں آتا یہ اور اکثر غائب رہتا ہے اِسکول سے۔ بیان فرماتے ہیں کہ میں ڈرا کہ شاید آپؑ ناراض ہوں گےمگر فرمانے لگے کہ ماسٹر صاحب ! اِس کی صحت کمزور رہتی ہے، ہم اِتنا ہی شکر کرتے ہیں کہ یہ کبھی کبھی مدرسہ میں چلا جاتا ہے اور کوئی بات اِس کے کانوں میں پڑ جاتی ہے، زیادہ زور اِس پر نہ دیں۔ بلکہ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ آپؑ نے یہ بھی فرمایا کہ ہم نے حساب سکھا کر اِسے کیا کرنا ہے، کیا ہم نے اِس سے کوئی دکان کروانی ہے؟ قرآن اور حدیث پڑھ لے گا تو کافی ہے۔

دنیا یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہے

غرض میری صحت ایسی کمزور تھی کہ دنیا کے علم پڑھنے میں بالکل ناقابل تھا کہ میں پرائمری، مڈل اور انٹرنس کے امتحان میں فیل ہؤا ، کسی امتحان میں پاس نہیں ہؤا۔ مگر خدا نے میرے متعلق خبر دی تھی کہ میں علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جاؤں گا۔ چنانچہ باوجود اِس کے دنیوی علوم میں سے کوئی علم میں نے نہیں پڑھا، اللہ تعالیٰ نے ایسی عظیم الشّان کتابیں میرے ہاتھوں لکھوائی ہیں کہ دنیا اِن کو پڑھ کر حیران ہے اور وہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ اِس سے بڑھ کر اسلامی مسائل کے متعلق اور کچھ نہیں لکھا جا سکتا۔

سورۂ فاتحہ ہی سے میں تمام اسلامی علوم بیان کر سکتا ہوں

اپنی ایک رؤیا کے حوالہ سے خدا تعالیٰ کے فرشتہ کے آپؓ کو قرآنِ کریم کی تفسیر سکھائے جانے کے ضمن میں بیان فرماتے ہیں ۔ اُس نے سورۂ فاتحہ کی تفسیر سکھانی شروع کر دی ، وہ سکھاتا گیا، سکھاتا گیا اور سکھاتا گیا یہاں تک کہ جب وہ  اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَاِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ تک پہنچا تو کہنے لگا آج تک جتنے مفسّر گزرے ہیں اُن سب نے صرف اِس آیت تک تفسیر لکھی ہے لیکن میں تمہیں اِس کے آگے بھی تفسیر سکھاتا ہوں چنانچہ اُس نے ساری سورۂ فاتحہ کی تفسیر مجھے سکھا دی۔ اِس رؤیا کے معنی درحقیقت یہی تھے کہ فہمِ قرآن کا ملکہ میرے اندر رکھ دیا گیا ہے۔ چنانچہ یہ ملکہ میرے اندر اِس قدر ہے کہ میں یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ جس مجلس میں چاہو میں یہ دعویٰ کرنے کے لیئےتیار ہوں کہ سورۂ فاتحہ ہی سے میں تمام اسلامی علوم بیان کر سکتا ہوں۔

مجھے قرآنی علوم کی کُنجی مل چکی ہے

اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتے کے ذریعہ مجھے قرآنِ کریم کا علم عطاء فرمایا ہے اور اُس نے میرے اندر ایسا ملکہ پیدا کر دیا ہے جس طرح کسی کو خزانہ کی کنجی مل جاتی ہے، اِسی طرح مجھے قرآنِ کریم کے علوم کی کنجی مل چکی ہے۔ دنیا کا کوئی عالم نہیں جو میرے سامنے آئے اور میں قرآن ِکریم کی افضلیت اُس پر ظاہر نہ کرسکوں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ، آپؓ کے بارہ میں کیا خیالات رکھتے تھے

جس کا اظہار آپؓ نے فرمایا ہے اُس سے لگتا ہے کہ آپؓ یہی سمجھتے تھے کہ یہ بچہ مصلح موعود ہو گا، مصلح موعود کا مصداق بنے گا۔ رسالہ تشحیذ الاذہان کو روشناس کرانے کے لیءے اِس کے اغراض و مقاصد پر مبنی لکھے گئے مضمون کی اشاعت پر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ نے حضرت مسیحِ موعودؑ کے حضور اُس کی خاص تعریف کی اور عرض کیا کہ یہ مضمون اِس قابل ہے کہ آپؑ اِسے ضرور پڑھیں۔ بعد ازاں ذاتی طور پر فرمایا کہ میاں تمہارا مضمون بہت اچھا تھا مگر میرا دل خوش نہیں ہؤا نیز مشہور مثل اونٹ چالیس کا اور ٹوڈا (اونٹ کا بچہ) بتالی تم نے پوری نہیں کی۔ اِس طرح تمہارے سامنے حضرت مسیحِ موعودؑ کی تصنیف براہینِ احمدیہ موجود تھی ، جب یہ تصنیف کی گئی اُس وقت آپؑ کے سامنے کوئی ایسا اسلامی لٹریچر موجود نہ تھا مگر تمہارے سامنے یہ موجود تھی اور امید تھی کہ تم اِس سے بڑھ کر کوئی چیز لاؤ گے۔

بعد میں آنے والی نسلوں کا کام

حضرت المصلح الموعودؓ کہتے ہیں کہ مامورین سے بڑھ کرعلم توکوئی کیا لا سکتا ہے سوائے اِس کے کہ اُن کے پوشیدہ خزانوں کو نکال نکال کر پیش کرتے رہیں۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ کا مطلب یہ تھا کہ بعد میں آنے والی نسلوں کا کام یہ ہوتا ہے کہ گزشتہ بنیاد کو اونچا کرتے رہیں۔ اب خلیفہ اوّلؓ آپؓ کی صحت کی حالت کو بھی جانتے  اورعلم کوبھی ،  اُس کے باوجود اتنے اعلیٰ خیالات آ پؓ کے بارہ میں رکھنا، یقینًا اُن کو پتہ تھا کہ یہ بچہ ایسا ہے کہ اتنی صلاحیت ہے اِس لڑکے میں کہ یہ اعلیٰ ترین مضامین لکھ سکتا ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں اور یہ ایک ایسی بات ہے کہ جسے آئندہ نسلیں اگر ذہنوں میں رکھیں تو خود بھی برکات اور فضل حاصل کر سکتی ہیں اور قوم کے لیئے بھی برکات اور فضلوں کا موجب ہو سکتی ہیں۔ مگر اپنے آباء سے آگے بڑھنے کوشش نیک باتوں میں ہونی چاہیئے۔

میری تعلیم کے سلسلہ میں مجھ پر سب سے زیادہ احسان

میری تعلیم کے سلسلہ میں مجھ پر سب سے زیادہ احسان حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کا ہے۔ آپؓ چونکہ طبیب بھی تھے اور اِس بات کو جانتے تھے کہ میری صحت اِس قابل نہیں کہ میں کتاب کی طرف زیادہ دیر تک دیکھ سکوں۔ اِس لیئے آپؓ کا طریق یہ تھا کہ آپؓ مجھے اپنے پاس بٹھا لیتے اور فرماتے میاں میں پڑھتا جاتا ہوں تم سنتے جاؤ۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ بچپن میں میری آنکھوں میں سخت کُکرے پڑ گئے تھے اور متواتر تین چار سال تک میری آنکھیں دُکھتی رہیں اور ایسی شدید تکلیف ککروں کی وجہ سے پیدا ہو گئی کہ ڈاکٹروں نے کہا کہ اِس کی بینائی ضائع ہو جائے گی۔ اِس پر حضرت مسیحِ موعودؑ نے میری صحت کے لئے خاص طور پر دعائیں کرنی شروع کر دیں اور ساتھ ہی آپؑ نے روزے رکھنے شروع کر دیئے، مجھے اُس وقت یادنہیں کہ آپؑ نے کتنے روزے رکھے بہرحال تین یا سات روزے آپؑ نے رکھے۔ جب آخری روزے کی آپؑ افطاری کرنے لگے اور روزہ کھولنے کے لیئے منہ میں کوئی چیز ڈالی تو یکدم میں نے آنکھیں کھول دیں اور میں نے آواز دی کہ مجھے نظر آنے لگ گیا ہے۔ لیکن اِس بیماری کی شدت اور اِس کے متواتر حملوں کا نتیجہ یہ ہؤا کہ میری ایک آنکھ کی بینائی ماری گئی۔ چنانچہ میری بائیں آنکھ میں بینائی نہیں ہے۔ میں رستہ تو دیکھ سکتا ہوں مگر کتاب نہیں پڑھ سکتا۔ ۔۔صرف دائیں آنکھ کام کرتی ہے مگر اِس میں بھی کُکرے پڑ گئے اور وہ ایسے شدید ہو گئے کہ کئی کئی راتیں میں جاگ کر کاٹا کرتا تھا۔ حضرت مسیحِ موعودؑبار ہا مجھے صرف یہی فرماتے کہ تم قرآن کا ترجمہ اور بخاری حضرت مولوی صاحب سے پڑھ لو اِس کے علاوہ آپؑ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ کچھ طب بھی پڑھ لو کیونکہ یہ ہمارا خاندانی فن ہے۔

اِن حالات سے ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے

غرض اِس رنگ میں میری تعلیم ہوئی اور میں درحقیقت مجبور بھی تھا کیونکہ بچپن میں علاوہ آنکھوں کی تکلیف کے مجھے جگر کی خرابی کا بھی مرض تھا۔ چھ، چھ مہینے مونگ کی دال کا پانی یا ساگ کا پانی مجھے دیا جاتا رہا، پھر اِس کے ساتھ تلی بھی بڑھ گئی تھی۔ (Red Iodide of Mercury) کی تلی کے مقام پر مالش کی جاتی تھی۔ اِسی طرح گلے پر بھی اِس کی مالش کی جاتی کیونکہ مجھے خنازیر کی بھی شکایت تھی، غرض آنکھوں میں کُکرے، جگر کی خرابی، عظم طہال (تلی کی بیماری) کی شکایت اور پھر اِس کے ساتھ بخار کا شروع ہو جانا جو چھ، چھ مہینے تک نہ اترتا اور میری پڑھائی کے متعلق بزرگوں کا فیصلہ کر دینا کہ یہ جتنا پڑھنا چاہے پڑھ لے اِس پر زیادہ زور نہ دیا جائے اِن حالات سے ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ میری تعلیمی قابلیت کا کیا حال ہو گا۔

نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحِب ؓ کی شکایت پر ردّعمل

اردو خط کے حوالہ سے شکایت اور خلیفہ اوّلؓ کو بلانے کے تناظر میں بیان ہؤا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا! مولوی صاحب، میں نے آپ کو اِس غرض کے لئے بلایا ہے کہ میر صاحِب کہتے ہیں کہ محمود کا لکھا ہوا پڑھا نہیں جاتا۔ میرا جی چاہتا ہے کہ اِس کا امتحان لے لیا جائے، یہ کہتے ہوئے آپؑ نے قلم اُٹھائی اور دو تین سطر میں ایک عبارت لکھ کر مجھے دی اور فرمایا اِس کو نقل کرو۔بس یہ امتحان تھا جو حضرت مسیح ِ موعودؑ نے لیا۔ میں نے بڑی احتیاط سے اور سوچ سمجھ کر اُس کو نقل کر دیا۔ اوّل تو وہ عبارت کوئی زیادہ لمبی نہیں تھی،  دوسرے میں نے صرف نقل کرنا تھا اور نقل کرنے میں تو اَور بھی آسانی ہوتی ہے کیونکہ اصل چیز سامنے ہوتی ہے پھر میں نے آہستہ آہستہ نقل کیا، الف اور باء وغیرہ احتیاط سے ڈالے۔ جب حضرت مسیح موعودؑنے اِس کو دیکھا تو فرمانے لگے مجھے تو میر صاحِب کی بات سے بڑا فکر پیدا ہو گیا تھا مگر اِس کا خط تو میرے خط کے ساتھ ملتا جلتا ہے۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ  تو پہلے ہی میرے حقّ میں تھے اور میری تائید میں اُدھار کھائے بیٹھے تھے فرمانے لگے حضور! میر صاحِب کو تو یونہی جوش آ گیا ہے ورنہ اِس کا خط تو بڑا اچھا ہے۔

حضرت خلیفہ اوّلؓ ہمیشہ مجھے فرمایا کرتے تھے

حضرت خلیفہ اوّلؓ ہمیشہ مجھے فرمایا کرتے تھے کہ میاں تمہاری صحت ایسی نہیں کہ تم خود پڑھ سکو۔ میرے پاس آ جایا کرو میں پڑھتا جاؤں گا اور تم سنتے رہا کرو۔ چنانچہ انہوں نے زور دے دےکر پہلے قرآن پڑھایا اور پھر بخاری پڑھا دی۔ یہ نہیں کہ آپؓ نے آہستہ آہستہ مجھے قرآن پڑھایا ہوبلکہ آپؓ کا طریق یہ تھا کہ آپؓ قرآن پڑھتے جاتے اور ساتھ ساتھ اِس کا ترجمہ کرتے جاتے۔ کوئی بات ضروری سمجھتے تو بتا دیتے ورنہ جلدی جلدی پڑھاتے جاتے۔ آپؓ نے تین مہینے میں مجھے سارا قرآن پڑھا دیا تھا۔ ۔۔غرض میں نے آپؓ سے طب بھی پڑھی اور قرآن ِکریم کی تفسیر بھی، تفسیر آپؓ نے دو مہینے میں ختم کرا دی۔ آپؓ مجھے اپنے پاس بٹھا لیتے اور کبھی نصف اور کبھی پورا پارہ ترجمہ سے پڑھ کر سنا دیتے،کسی کسی آیت کی تفسیر بھی کر دیتے۔ اسی طرح بخاری آپؓ نے دو ،تین مہینے میں مجھے ختم کرا دی۔ ایک دفعہ رمضان کے مہینے میں آپؓ نے سارے قرآن کا درس دیا تو اِس میں بھی میں شریک ہو گیا، چند عربی کے رسالے بھی مجھے آپؓ سے پڑھنے کا اتفاق ہؤا۔ غرض یہ میری علمیت تھی۔

آپؓ کی پہلی پبلک تقریر پر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کا اظہارِ پسندیدگی

1907ءمیں سب سے پہلی دفعہ میں نے پبلک تقریر کی، جلسے کا موقع تھا، بہت سے لوگ جمع تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓبھی موجود تھے، میں نے سورۂ لقمان کا دوسرا رکوع پڑھا اور پھر اِس کی تفسیر بیان کی۔ میری اپنی حالت اُس وقت یہ تھی کہ جب میں کھڑا ہؤا تو چونکہ اِس سے پہلے میں نے پبلک میں کبھی لیکچر نہیں دیا تھا اور میری عمر بھی اُس وقت صرف اٹھارہ سال کی تھی۔ پھر اُس وقت حضرت خلیفہ اوّل ؓبھی موجود تھے، انجمن کے ممبران بھی تھے اور بہت سے اَور دوست بھی آئے ہوئے تھے۔ اِس لیئے میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ اُس وقت مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ میرے سامنے کون بیٹھا ہے اور کون نہیں۔ تقریر آدھ گھنٹے یا پون گھنٹے جاری رہی۔ جب میں تقریر ختم کر کے بیٹھا تو مجھے یاد ہے کہ حضرت خلیفہ اوّلؓ نے کھڑے ہو کر فرمایا!میاں، میں تم کو مبارکباد دیتا ہوں کہ تم نے ایسی اعلیٰ تقریر کی۔ میں تمہیں خوش کرنے کے لیئےیہ نہیں کہہ رہا، میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ واقعی اچھی تھی۔

حضرت مسیحِ موعودؑ کی پیشگوئی بڑی شان سے پوری ہوئی

پس اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو علوم سے ایسا پُر کیا کہ آپؓ کی باون سال زندگی اِس پر گواہ ہے کہ چاہے وہ دینی مضامین کاسوال ہے یا کسی دنیاوی مضمون کا ، جب بھی آپؓ کو کسی موضوع پر لکھنے اوربولنے کا کہا گیا، آپؓ نے علم و عرفان کے دریا بہا دیئے۔ بے شمار موقعوں پر آپؓ کی تقاریر کو غیروں نے بھی سراہا اور یہ بھی ریکارڈ پر موجود ہے اور برملا پبلک کے سامنے اُن کی تعریف کی، اخباروں نے بھی خبریں جمائیں اور اِس بات سے واضح ہوتا ہے حضرت مسیحِ موعودؑ کی پیشگوئی بڑی شان سے پوری ہوئی۔بہرحال آپؓ کا لٹریچر اور خُطبات ایک قیمتی خزانہ ہیں ، ہزاروں صفحات میں شاید لاکھ کے قریب صفحات ہوں گے ، اب انگریزی میں بھی اور دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہو رہا ہے۔ ہمارا بھی کام ہے کہ اِس سے استفادہ کریں۔

اب دشمنانِ اسلام پر اللہ تعالیٰ نے کامل حجّت کر دی ہے

آپؓ اپنے آپ کو مصلحِ موعود کی پیشگوئی کا مصداق ٹھہراتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کے رحم سے کہ وہ پیشگوئی کہ جس کا ایک لمبے عرصہ سے پورا ہونے کا انتظار کیا جا رہا تھا ، اللہ تعالیٰ نے اُس کے متعلق اپنے الہام اور اِعلام کے ذریعہ سے مجھے بتا دیا ہے کہ پیشگوئی میرے وجود میں پوری ہو چکی ہے اور اب دشمنانِ اسلام پر اللہ تعالیٰ نے کامل حجّت کر دی ہے اور اُن پر یہ اَمر واضح کر دیا ہے کہ اسلام خدا تعالیٰ کا سچا مذہب اور محمد رسول اللہؐ خدا تعالیٰ کے سچے رسول اور حضرت مسیحِ موعودؑ خدا تعالیٰ کے سچے فرستادے ہیں۔ جھوٹے ہیں وہ لوگ جو اسلام کو جھوٹا کہتے ہیں، کاذب ہیں وہ لوگ جو محمد رسول اللہ ؐ کو کاذب کہتے ہیں۔

 اسلام اور رسولِ کریمؐ کی صداقت کا ایک زندہ ثبوت

خدانے اِس عظیم الشّان پیشگوئی کے ذریعہ اسلام اور رسولِ کریمؐ کی صداقت کا ایک زندہ ثبوت لوگوں کے سامنے پیش کر دیا ہے، بھلا کس شخص کی طاقت تھی کہ وہ 1886ء میں آج سے پورے اٹھاون سال قبل اپنی طرف سے یہ خبر دے سکتا کہ اُس کے ہاں نو سال کے عرصہ میں ایک لڑکا پیدا ہو گا ، وہ جلد جلد بڑھے گا، وہ دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا ، وہ اسلام اور رسولِ کریمؐ کا نام دنیا میں پھیلائے گا، وہ علومِ ظاہری او رباطنی سے پُر کیا جائے گا، وہ جلالِ اِلہٰی کے ظہور کا موجب ہو گا اور خدا تعالیٰ کی قدرت اور اُس کی قربت اوراُس کی رحمت کا وہ ایک زندہ نشان ہو گا۔ یہ خبر دنیا کو کوئی انسان اپنے پاس سے نہیں دے سکتا، خدا نے یہ خبر دی اور پھر اُسی خدا نے اِس خبر کو پوراکیا اُس انسان  کے ذریعہ جس کے متعلق ڈاکٹر یہ اُمید نہیں رکھتے تھے کہ وہ زندہ رہے گا یا لمبی عمر پائے گا۔

 اِس زمانہ میں اُس نے قرآن سکھانے کے لیئے مجھے دنیا کا استاد مقرر کیا ہے

پھرآپؓ بچپن میں اپنی خرابیٔ صحت کے تناظر میں بیان فرماتے ہیں، غرض ایساانسان جس کی صحت کبھی ایک دن بھی اچھی نہیں ہوئی اُس انسان کو خدا نے زندہ رکھا اور اِس لیئے زندہ رکھا کہ اُس کے ذریعہ اپنی پیشگوئیوں کو پورا کرے اور اسلام اور احمدیت کی صداقت کا ثبوت لوگوں کے سامنے مہیا کرے، پھر میں وہ شخص تھا جسے علومِ ظاہری میں سے کوئی علم حاصل نہیں تھا مگر خدا نے اپنے فضل سے فرشتوں کو میری تعلیم کے لیئے بجھوایا اور مجھے قرآن کے اُن مطالب سے آگاہ فرمایا جو کسی انسان کے واہمہ اور گمان میں بھی نہیں آ سکتے تھے۔ وہ علم جو خدا نے مجھے عطاء فرمایا، وہ چشمۂ روحانی جو میرے سینہ میں پُھوٹا، وہ خیالی یا قیاسی نہیں ہے بلکہ یہ قطعی اور یقینی ہے کہ میں ساری دنیا کو چیلنج کرتا ہوں کہ اگر اِس دنیا کے پردہ پر کوئی شخص ایسا ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اُسے قرآن سکھایا گیا ہے تو میں ہر وقت اُس سے مقابلہ کرنے کے لیئے تیار ہوں (لیکن کوئی نہیں آیا مقابلہ کو) لیکن میں جانتا ہوں کہ دنیا کے پردہ پر آج سوائے میرے اور کوئی شخص نہیں جسے خدا تعالیٰ کی طرف سے قرآنِ کریم کا علم عطاء فرمایا گیا ہو۔ خدا نے مجھے علمِ قرآن بخشا ہے اور اِس زمانہ میں اُس نے قرآن سکھانے کے لیئے مجھے دنیا کا استاد مقرر کیا ہے۔خدا نے مجھے اِس غرض کے لیئے کھڑا کیا ہے کہ میں محمد رسول اللہ ؐ اور قرآنِ کریم کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں اور اسلام کے مقابل میں دنیا کے تمام باطل اَدیان کو ہمیشہ کی شکست دے دوں۔ اور آپؓ نے اِس کام کو کیا اور آپؓ کے زمانہ میں کافی حدّ تک تراجم قرآنِ کریم کے شائع ہوئے اور اُسی کام کو اب تک آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ سترہ، اٹھارہ زبانوں میں تراجم ہو گئے تھے آپؓ کی زندگی میں ، اِسی طرح اسلام کی تبلیغ دنیا کے کناروں تک آپؓ کے زمانہ میں پہنچی۔

میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ میرے مقابلہ میں ناکام رہیں گے

فرمایا! دنیا زور لگالے، وہ اپنی طاقتوں اور جمیعتوں کو اکٹھا کر لے ، عیسائی بادشاہ بھی اور اُس کی حکومتیں بھی مل جائیں، یورپ بھی اور امریکہ بھی اکٹھا ہو جائے، دنیا کی تمام بڑی بڑی مالدار اور طاقتور قومیں اکٹھی ہو جائیں اور مجھے اِس مقصد میں ناکام کرنے کے لیئے متحد ہو جائیں، پھر بھی میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ میرے مقابلہ میں ناکام رہیں گیں اور خدا میری دعاؤں اور تدابیر کے سامنے اُن کے تمام منصوبوں اور مکروں اور فریبوں کو ملیا میٹ کر دے گا اور خدا میرے ذریعہ سے یا میرے شاگردوں اور اِتباع کے ذریعہ سے اِس پیشگوئی کی صداقت ثابت کرنے کے لیئے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے نام کے طفیل اور صدقے اسلام کی عزّت کو قائم کرے گا اور اُس وقت تک دنیا کو نہیں چھوڑے گا جب تک اسلام پھر اپنی پوری شان کے ساتھ دنیا میں قائم نہ ہو جائے اور جب تک محمد رسول اللہؐ کو پھر دنیا کا زندہ نبی تسلیم نہ کر لیا جائے۔

پیشگوئی کے الفاظ اُس وقت تک قائم رہیں گے اِنۡ شَآء اللہ!

پس پیشگوئی تو پوری ہوئی، آپؓ نے اپنا دَور بھی گزارا لیکن یہ پیشگوئی کے جو الفاظ ہیں یہ اُس وقت تک قائم ہیں اور یہ اِن شاء اللہ! اُس وقت تک قائم رہیں گے اور چلتی چلی جائے گی جب تک حضرت مسیحِ موعودؑ کا مشن پورا نہ ہو جائے اور اسلام کا جھنڈا تمام دنیا میں نہ لہرانے لگ جائے۔

اِس پیشگوئی پر ہمارے جلسے اور اِس کو یاد رکھنا تبھی فائدہ مند ہے

پس ہمیں یاد رکھنا چاہیئے کہ اِس پیشگوئی پر ہمارے جلسے اور اِس کو یاد رکھنا تبھی فائدہ مند ہے جب ہم اِس مقصد کو ہمیشہ سامنے رکھیں کہ ہم نے آنحضرتؐ کی عزّت اور وَقار کو دنیا میں قائم کرنا ہے اور اسلام کی سچائی دنیا پر ظاہر کرکے آنحضرتؐ کے جھنڈے تلے لیکر آنا ہے سب کو۔ آج حضرت مسیحِ موعودؑ کے ماننے والوں کے سواء اَور کوئی نہیں جس کے ذریعہ اسلام کا جھنڈا دنیا میں دوبارہ لہرائے اور دنیا میں اسلام پھیلے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اِس کام کے کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔

(خاکسار قمر احمد ظفر۔ نمائندہ روزنامہ الفضل آنلائن جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 فروری 2022

اگلا پڑھیں

حمدرب العالمین