• 15 مئی, 2024

رسول اللہ ﷺ کے صحابہؓ کے اخلاق حضرت بلالؓ کےاوصاف حمیدہ

حضرت بلالؓ آنحضرت ﷺ کے ساتھ غزوہ حنین میں بھی شریک تھے۔ اس سفر سے واپسی کا ایک واقعہ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ مکہ اور مدینہ کے درمیان جعرانہ مقام پر قیام فرماتھے کہ ایک بدو آپؐ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ کیا آپؐ نے جو وعدہ مجھ سے کیا تھا وہ پورا نہیں کریں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمہیں بشارت ہو ۔اس پر اس بدو نے کہا کہ آپؐ مجھے اکثر بشارتوں کے ہی وعدے کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ ابو موسٰیؓ اور بلالؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ اس شخص نے بشارت ردّ کردی ہے تم دونوں قبول کرو۔ دونوں نے کہا ہم قبول کرتے ہیں۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ایک پیالہ منگوایا جس میں پانی تھا پھر اس میں آپؐ نے اپنے ہاتھ اور چہرہ کو دھویا اور اس میں کلی فرمائی اورحضرت بلالؓ اور حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے فرمایا اس میں سے تم دونوں پی لو اور اپنے چہرہ اور سینوں پر بھی انڈیل لو اور بشارت پاؤ۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔حضرت ام سلمہؓ پردے میں سے انہیں پکار کر بولیں کہ تم دونوں اپنی ماں کیلئے بھی اس بابرکت پانی میں سے کچھ بچالینا۔ اس پر انہوں نے حضرت امّ سلمہؓ کو بھی کچھ پانی بھجوادیا۔

(مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب فضائل ابی موسیٰ)

حضرت ام الحصین ؓ بیان کرتی ہیں کہ حضرت اسامہؓ اور حضرت بلالؓ کو ہم نے آنحضرت ﷺ کے ساتھ حجۃ الوداع میں دیکھا ان میں سے ایک نے آپ کی اونٹنی کی باگ پکڑی ہوئی تھی اوردوسرے نے کپڑے کے ساتھ آپؐ کے لئے دھوپ سے سایہ کیا ہوا تھا۔ اس موقع پر آنحضرت ﷺ نے لوگوں کو خاموش کرانے کی ڈیوٹی بھی حضرت بلالؓ کے سپرد فرمائی تھی۔

(مسند احمد جلد6ص402۔ابن ماجہ کتاب المناسک باب الوقوف بجمع)

حضرت مغیرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے آنحضرت ﷺ کی اپنے گھر میں دعوت کی رسول اللہ ﷺ ابھی کھانا تناول فرمارہے تھے۔ بُھنا ہوا گوشت چھری سے کاٹ کر مجھے عطافرمانے لگے کہ اتنے میں بلالؓ کی آواز آ گئی ’’یا رسول اللہ ﷺ! نماز کا وقت ہوگیا ہے۔‘‘ رسول اللہ ﷺ کو بلالؓ کی اس مستعدی پر کیا ہی پیارآ یا ہوگا (فرمایا مَالَہُ تَرِبَتْ یَدَاہُ اللّٰہ اس کا بھلا کرے اس کو کیا ہوگیا۔ یعنی ابھی تو ہم نے کھانا بھی نہیں کھایا اور یہ نماز کے لئے بلانے لگے ہیں۔

(مسند احمد جلد4ص252)

مگر یہ بھی بلال ؓ کے ساتھ محبت کا ایک اظہار تھا ورنہ آنحضرت ﷺ کی جنت اور آنکھوں کی ٹھنڈک تونماز ہی تھی اور اکثر بلالؓ کو یہی فرمایا کرتے تھے کہ قُمْ یَا بِلالُ وَاَرِحْنَا بِالصَّلٰوۃِ۔ اے بلالؓ! کھڑے ہو۔ اقامت کہو اور نماز کے ساتھ ہمیں تسکین بہم پہنچاؤ کہ رسول اللہ ﷺ کی تمام پریشانیوں کا حل اور نجات نمازمیں ہی تھی۔

(مسند احمد جلد5ص371)

آنحضرت ﷺ کی وفات ہوئی تو حضرت بلالؓ سخت بے چین ہوگئے ابھی آپؐ کی تدفین عمل میں نہیں آئی تھی کہ وہ آخری اور یادگار اذان حضرت بلال ؓنے مدینہ میں کہی اس وقت لوگوں کے دل صدمے سے سخت نڈھال تھے۔ بلال ؓنے اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَّسُولُ اللّٰہ کہا تو ایک عجیب عالم تھا۔ عاشقِ رسول ﷺ بلالؓ کی آواز اپنے آقا کو نہ پاکر گلو گیر ہوگئی۔ لوگ روئے اور بہت روئے اور حضرت بلالؓ کی یہ اذان لوگوں کے لئے ایک یاد بن گئی۔ رسول اللہ ﷺکی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ آپ کو کہتے کہ اذان دیا کریں تویہ عرض کرتے کہ اب رسول اللہ ﷺ کے بعد اذان کہنے کو میرا جی نہیں چاہتا۔ حضرت ابوبکر ؓ بھی ان کی حالت سمجھتے اور فرماتے ٹھیک ہے جیسے آپ کی مرضی۔

(خلاصہ از ابن سعد جلد3ص236)

آپ نے حضرت ابوبکرؓ سے عرض کیا اجازت ہو تو شام کے علاقوں میں جہاں جہاد ہورہا ہے میں وہاں چلا جاؤں تا راہِ خدا میں جامِ شہادت نوش کرسکوں حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا ’’میں بوڑھا ہوگیا ہوں میرا بھی تم پر کوئی حق ہے میرے پاس رک جاؤ۔‘‘ چنانچہ وہ کچھ عرصہ آپؓ کے پاس رک گئے۔ پھر باصرار عرض کیا کہ اگر تو آپ نے مجھے خدا کی خاطر آزاد کیا تھا تو پھر میں جہاد پر جانا چاہتا ہوں مجھے جانے دیجئے۔ تب حضرت ابوبکرؓ نے آپؓ کو روکا نہیں اور آپؓ شام تشریف لے گئے۔ تاہم بعض دوسری روایات کے مطابق بلالؓ حضرت ابوبکرؓ کی وفات تک مدینہ میں ہی رہے۔ پھر حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ان سے اجازت لے کر جہاد کیلئے شام چلے گئے۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا آپ کے بعد اذان کون دے گا تو حضرت بلالؓ نے حضرت سعدؓ قرظی کے بارہ میں مشورہ دیا جو رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بھی اذان دیتے رہے تھے۔

(خلاصہ از اسد الغابہ جلد1ص307۔بخاری کتاب المناقب باب مناقب بلالؓ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 مارچ 2020