• 19 اپریل, 2024

’’تاج محل‘‘

آگرہ میں واقع تاج محل دنیا کے سات عجائبات میں شامل ہے،1983 میں یونیسکو کا عالمی ثقافتی ورثہ بھی بن گیا تھا ۔ یہ بیوی سے انتہا کی محبت کی لازوال نشانی ہے جو سفید سنگ مرمر سے تیار کی گئی تھی، تاج محل اپنے دور کی ایسی تعمیر تھی جو مسلم آرٹ اور انسانی ذہن کا بہترین شاہکار ٹھہری اور صدیوں بعد بھی دنیا اس کے حسن اور اس کی دلکشی کے سحر میں جکڑی ہوئی ہے ۔ چار صدیاں گزر جانے کے بعد بھی آج اگر تاج محل کی دلکشی اور اس کے جادوئی سحر میں کمی واقع نہیں ہوئی تو تعمیر ہونے کے بعد اس کو دیکھنے والوں کی کیا حالت ہوگی ؟ ریکارڈ کے مطابق دنیا بھرسے 30 لاکھ سیاح ہر سال اس عجوبہ کو دیکھنے بھارت جاتے ہیں اور بھارت میں اور دنیا کی دیگر بڑی عمارتوں میں سب سے زیادہ مقام جو دیکھا جاتا ہے وہ تاج محل ہی ہے ۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ تاج محل دن اور رات میں رنگ بدلتا ہے، سحر کے وقت اس کا رنگ گلابی اور شام کے وقت دودھیا ہو جاتا ہے، سیاحوں کی بڑی تعداد چاند رات کو خاص طور پر اس کا نظارہ دیکھنے جاتی ہے ۔ حقیقت میں یہ ایک مقبرہ ہے جو اب ایک ثقافت کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔ برطانوی سیاح ایڈورڈ نے1874 میں تاج محل بارے لکھا تھا کہ ‘‘دنیا کے باشندوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، ایک وہ جنہوں نے تاج محل کا دیدار کیا اور دوسرے وہ جو اس سے محروم رہے۔’’ دنیا کے محققین، تاریخ دانوں ، شاعروں اور ادیبوں نے تاج محل اور شاہ جہاں کی محبت کےبارےمیں بہت کچھ اس کی تعریف میں لکھا ہے، کہیں اس پر تنقید بھی ہوئی ہے ۔ انیسویں صدی کے معروف انگریز شاعر سر ایڈون آرنلڈ نے تاج محل کےبارے میں کہا تھا کہ‘‘فن تعمیر کا ایک ٹکرا نہیں ، جیسا کہ دیگر عمارتیں ہیں ، لیکن ایک شہنشاہ کی محبت کا فخر جذبہ زندہ پتھروں میں پھیل گیا’’ ۔ ٹیگور نے کہا تھا کہ ‘‘تاج محل محبت کے رخسار پر بہتا ہوا آنسو ہے’’ ۔ نامور فلمی شاعر نے اس پر تنقید کرتے ہوئے لکھا تھا کہ‘‘ اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لیکر ۔ ۔ ۔ ۔ ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مزاق’’ ایک اور فلمی شاعر شکیل بدایونی نے تاج محل کو محبت کی نشانی قرار دیا تھا اور لکھا کہ ‘‘‘ اک شہنشاہ نے بنوا کے حسین تاج محل ۔۔۔ ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے۔’’ سچ یہی ہے کہ ‘‘ تاج محل’’ ازدواجی عقیدت کا ایک شاہکار ہے جو کئی صدیوں پہلے آگرہ میں تخلیق ہوا تھا ۔ تاج محل کی تعمیر کے بعدجہاں دنیا کے تمام شوہر ،بیوی سے شاہ جہاں کی ایسی محبت پر حیران و پریشان ہیں ، وہیں دنیا کی بیویاں بھی تاج محل کو حسرت یاس کی نگاہوں سے دیکھتی اور ٹھنڈی آہیں بھرتی ہیں ۔ ممتاز محل کوئی انتہائی غیر معمولی حسن کا پیکر نہ تھیں بلکہ اصل حسن اس کی ذہانت، فراست اور دور اندیشی تھی جو شاہ جہاں کے مملکت کے امور چلانے میں کام آ رہی تھی ۔ سچ مچ کی اندھی محبت نے بادشاہ کی خوشیوں کا جگمگاتا چراغ گل کردیا ۔ 19 سال کی ازدواجی رفاقت میں 13 بچوں کی پیدائش بھی بادشاہ سلامت کی محبت کا بال بیکا نہ کرسکی اور بالآخر بیوی سے یہی جنونی محبت اس کی موت کا سبب بھی بن گئی اور محض39سال کی عمر میں داغ مفارقت دے گئی،ممتاز محل کو پہلے برہانپور میں امانتا ًدفن کیا گیا تھا، تاج محل کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد اس کو وہاں دفن کیا گیا، بعد میں اس کی قبر کے ساتھ ہی شاہ جہاں کی قبر بنی ۔ ممتاز کی ناگہانی اور اچانک موت نے بادشاہ کو کہیں کا نہ چھوڑا تھا،اس کے دل و دماغ پر غیر معمولی اثر پڑاتھا اور اس کی زندگی مکمل طور پر بدل گئی تھی ،کہا جاتا ہے کہ اس نے دو سال بیگم کی موت کا سوگ منایا،اس کی یاد میں مسلسل روتے رہنے سے جہاں اس کی آنکھوں کی بینائی متاثر ہوئی،وہیں حکومتی معاملات میں اس کی دلچسپی میں بھی بتدریج کمی ہوتی گئی اور اسی غم میں بالآخر جنوری1666 میں محبت کے اس دیوتا کی وفات ہو گئی ۔ ملکہ کے وفات کے غم کی شدت میں شاہ جہان نے ملک بھر میں بدھ کے روز ہر قسم کی تقریبات پر پابندی لگا دی تھی کیونکہ ان کی لاڈلی بیوی کا انتقال بدھ کو ہوا تھا ۔ تاریخ دانوں کے مطابق ممتاز محل نے مرنے سے پہلے مزید نئی شادی نہ کرنے اور اس کی یاد میں ایک محل بنانے کا وعدہ لیا تھا، یہیں سے ملکہ ممتاز کی دور اندیشی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ممتاز محل نے اپنی متعدد خوبیوں کی بدولت خود کو دوسری بیویوں سے ممتاز ثابت کردیا تھا اور متعدد کڑے امتحانوں میں اس نے شاہ جہاں کا نہ صرف بھرپور ساتھ دیا بلکہ اہم مشوروں سے اس کی مدد کرکے ان مسائل سے نجات بھی دلائی تھی ۔ تاریخ یہی ثابت کرتی ہے کہ ایک عورت کی سب سے بڑی دشمن اس کی خوبصورتی نہیں بلکہ ذہانت ہوتی ہے ۔ اور یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا اور یہ ممتاز محل کی ذہانت ہی تھی جس نے محبت کا رنگ پکڑ رکھا تھا جو بالآخر اس کی موت کا سبب بنی ۔
شاہ جہان کا پورا نام شہاب الدین محمد شاہ جہاں ہے لیکن کہیں ان کو مرزا شہاب الدین بیگ محمد خان خرم بھی لکھا گیا ہے، وہ سلطنت مغلیہ کے پانچویں بادشاہ تھے ،1628 سے1658 تک ہندوستان پر حکمرانی کی ۔ ان کی چہتی بیگم ممتاز محل کا پورا نام ارجمند بانو ممتاز تھا،1593 میں آگرہ میں پیدا ہوئی تھیں ،اپریل1612 میں ان کی شادی شاہ جہاں سے ہوئی ۔ ممتاز کی یہ پہلی جبکہ شاہ جہان کی تیسری شادی تھی ۔ ان کے 13 بچے تھے اور چودھویں بچے کی پیدائش پر زچگی میں پیچیدگی کی وجہ سے ممتاز محل کی جون 1631 میں وفات ہوگئی۔

تاریخ کے مطابق شاہ جہاں کو تعمیرات سے غیر معمولی دلچسپی تھی اور تاریخ میں اس کی وجہ شہرت تاج محل اور ممتا محل ہی ہیں ۔ اپنی محبوب بیوی کی یاد میں بنائے گئے تاج محل کی تعمیر میں شاہ جہاں نے پانی کی طرح پیسا بہایا اور اس دور کے بہترین کاریگروں اور معماروں کا انتخاب کیا جنہوں نے بلاشبہ ایک لازوال عمارت کی تعمیر کی تھی، تحقیق کی کتب و مضامین کے مطابق اس دور میں ساڑھے چارکروڑ روپے تاج محل کی تعمیر پر خرچ ہوئے تھے ، اورتاج محل کی پوری عمارت سنگ مرمر سے تعمیر کی گئی ہے،کہیں ہاتھی کے دانتوں کے استعمال کا بھی ذکر ملتا ہے ۔ تاج محل بیالیس ایکڑ پر مشتمل ہے ،جو دریائے جمنا کے کنارے واقع ہے تاج محل کی تعمیر1632 میں شروع ہوئی تھی اور اس کی بنیادی عمارت1648 میں مکمل ہو چکی تھی ۔ تاہم کئی سال تک اس کی تزہین و آرائش کا کام جاری رہا تھا، اس کی لمبائی اور چوڑائی130 فٹ جبکہ بلندی200 فٹ ہے، چاروں کونوں پر ایک ایک مینار ہے۔ اس کی تعمیر میں 20000 سے زائد مزدوروں اور معماروں کی محنت شامل تھی،اس کے علاوہ ایک ہزار ہاتھی بھی تعمیری سامان لانے، لےجانے کے لئے استعمال کئے گئے تھے ۔ تاج محل چکور شکل میں تعمیر ہوا جو ایک پلیٹ فارم پر کھڑا ہے، تاج محل دو منزلہ عمارت ہے جس کے اوپر ایک بڑا گنبد تعمیر کیا گیا ہے جس کی سطح زمین سے بلندی200 فٹ بتائی جاتی ہے ۔ مقبرہ کی دیواریں انتہائی قیمتی پتھروں سے بنائی گئیں تھیں اور اس کی اندرونی سجاوٹ اور تزئین آرائش میں 28 مختلف اقسام کے زرو و جواہر اور قیمتی پتھر استعمال کئے گئے تھے ، اس کے علاوہ بھارت سمیت عرب، افغانستان، سری لنکا، چین سے 30 مختلف رنگوں کے قیمتی پتھرمنگوائے گئے تھے جو اندرونی سجاوٹ میں استعمال ہوئے تھے ۔ مقبرے کی اندرونی دیواروں پر قرآنی آیات اور 99 اللہ کے اسماء گرامی کندہ ہیں ۔ تاج محل کی عمارت میں ترک، فارسی، بھارتی اور اسلامی کلچر کی جھلک بھی نظر آتی ہے ۔

تاج محل کے سامنے انتہائی خوبصورت باغ بھی ہے جس میں فوارے لگے ہوئے ہیں ۔ تاج محل کی دلکشی کو بڑہانے میں ان باغوں کا بہت حصہ ہے جو وہیں اس کے سامنے تعمیر کئے گئے ہیں ۔ ان باغوں میں نہریں بہتی ہیں قیمتی اور چمکنے والے پتھروں سے نہروں کی دیواریں بنائی گئی ہیں ، جب یہ فوارے چلتے ہیں تو ماحول اور سحر انگیز ہوجاتا ہے اور وہاں اپنی بیوی بھی پیاری لگنے لگتی ہے ۔ تاج محل کے معماروں میں استاد احمد لاہوری کا نام تاریخ کی کتب میں لکھا ملتا ہے ۔ تاج محل کو مختلف ادوار میں اس کی اوریجنل تعمیرات کو کافی نقصان پہنچا یا گیا خصوصاً باغات کو، ماحول کی آلودگی نے بھی تاج محل کے حسن کو گہنا دیا ہوا ہے لیکن اس کے باوجود اس کے مقام اور اہمیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ۔ تاج محل متعدد بار مختلف وجوہات کی بناہ پر سیاحوں کے لئے بند رہا، جس میں سیلاب اور موجودہ کرونا کی وبا شامل ہے ۔ تاریخ کے مطابق تاج محل کی اب تک پانچ بار مکمل صفائی کی جا چکی ہے لیکن2020 میں شاہ جہان اور اس کی بیگم کی قبروں کی بھی پہلی بار ملتانی مٹی کے ساتھ صفائی کی گئی تھی، جو سنگ مرمر میں چمک پیدا کرتی ہے اور یہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تاج محل کی سیر کے موقع پر کی گئی تھی۔ خبر کے مطابق بادشاہ اور ملکہ کی اوریجنل قبر تک پہنچنے کے لئے جس دروازہ سے گزرنا پڑتا تھا اس کی اونچائی محض پانچ فٹ تھی اور گزرنے کے لئے لازمی طور پر جھکنا پڑنا تھا، سیکورٹی اداروں نے کہا کہ وہ جھکنا پسند نہیں کریں گے لہذا اس کو رہنے دیں اور بالآخر مہمانوں کو وہی قبر دکھائی گئی جو اوپر سنگ مرمر کی بنائی گئی ہیں۔

(منور علی شاہد (جرمنی))

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 مارچ 2021