• 26 اپریل, 2024

ہمارے نظریہ کی تائید میں پرانے ائمہ میں سے بھی ایک کاحوالہ ہے …

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
ہمارے نظریہ کی تائید میں پرانے ائمہ میں سے بھی ایک کاحوالہ ہے جو مَیں پیش کرتا ہوں۔ اس حدیث کی شرح میں حضرت امام النووی رحمہ اللہ تحریر کرتے ہیں کہ ’’کفر بواح کا مطلب ظاہر کفر ہے، اور اس حدیث میں کفر سے مراد گناہ ہے‘‘۔

پھر مزید فرماتے ہیں کہ ’’تم اربابِ حکومت سے اُن کی حکومت کے اندر رہ کر جھگڑا نہ کرو اور نہ اُن پر اعتراض کرو۔ سوائے اس کے کہ تم اُن سے کوئی ایسی بُری بات دیکھو جو ثابت اور متحقق ہو، جس کا بُرا ہونا تم اسلام کے قواعد یعنی قرآن اور حدیث کی رُو سے جانتے ہو۔ اگر تم ایسا دیکھو تو اُن کی اس بات کا بُرا مناؤ اور تم جہاں بھی ہو حق بات کہو۔ لیکن ایسے حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرنا، اُن کے ساتھ لڑائی کرنا، مسلمانوں کے اجماع سے حرام ہے۔ خواہ وہ حکمران فاسق اور ظالم ہوں‘‘۔ لکھتے ہیں کہ ’’اس حدیث کا معنی جو مَیں نے بیان کیا ہے، دیگر احادیثِ نبویہ اس کی تائید کرتی ہیں۔ اہلِ سنت نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ فسق کے بناء پر حکمران کو معزول کرنا جائز نہیں۔ …… علماء کہتے ہیں کہ فاسق اور ظالم حکمران کو معزول نہ کرنے اور اُس کے خلاف لڑائی نہ کرنے کا سبب یہ ہے کہ ایسی صورت میں مزید فتنے، خونریزی اور آپس میں فساد پیدا ہو گا۔ پس فاسق اور ظالم حکمران کا برسرِ اقتدار رہنا کم فساد پیدا کرے گا بہ نسبت اس کے جو اُسے معزول کرنے کی کوشش کے نتیجے میں پیدا ہو گا‘‘۔

(المنہاج بشرح صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ صفحہ1430دار ابن حزم 2002)

اور یہ بات آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ سچ ثابت ہو رہی ہے۔ دونوں طرف سے لڑائیاں ہو رہی ہیں۔ بندوقیں چل رہی ہیں۔ جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔ مسلمان مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں۔ پھر بخاری کی ایک حدیث ہے کہ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ حدود اللہ میں سستی کرنے والے اور حدود اللہ میں گر پڑنے والے افراد کی مثال اُس قوم کی طرح ہے جنہوں نے کشتی کی بابت قرعہ ڈالا جس کے نتیجے میں بعض کشتی کے اوپر والے حصے پر قیام پذیر ہوئے اور بعض کشتی کے نچلے حصے میں۔ جب کشتی کے نچلے حصے والے لوگ اوپر والوں کے پاس سے پانی لے کر گزرتے تھے تو وہ اس سے تکلیف محسوس کرتے تھے۔ جس پر نچلے حصے والوں میں سے ایک نے کلہاڑا پکڑا اور کشتی کے پیندے میں سوراخ کرنے لگا جس سے اوپر کے حصے والے اس کے پاس آئے اور اُس سے پوچھاتمہیں کیا ہوا ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ میرے اوپر جا کر پانی لانے سے تمہیں تکلیف ہوتی ہے اور پانی کے بغیر میرا گزارا نہیں۔ پس اگر اوپر والے اِس کا ہاتھ پکڑ لیں تو وہ اُسے بھی ڈوبنے سے بچا لیں گے اور اپنے آپ کو بھی ڈوبنے سے بچا لیں گے۔ اگر وہ اسے چھوڑ دیں گے اور کشتی کے پیندے میں سوراخ کرنے دیں گے تو وہ اُسے بھی ہلاک کر دیں گے اور اپنے آپ کو بھی ہلاک کر دیں گے۔

(صحیح بخاری۔ کتاب الشہادات۔ باب القرعۃ فی المشکلات حدیث نمبر2686)

اس حدیث سے بعض لوگ یہ استدلال کرتے ہیں کہ عوام بدی کرنے والوں کو، بدی کے ارتکاب سے یا غلط کاموں سے زبردستی روک دیں جو درست نہیں ہے کیونکہ اس طرح باہم جھگڑا اور فساد پیدا ہو جائے گا۔ اگر اس سے مراد حکومت کے خلاف بغاوت لیں تو وہ بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلافِ ارشاد بات ہوتی ہے۔ حدیث یہ ہے۔ دوبارہ واضح کر دوں۔ اگر کشتی والے اُن کا ہاتھ پکڑ لیں تو وہ اسے ڈوبنے سے بچائیں گے اور اپنے آپ کو بھی ڈوبنے سے بچا لیں گے۔ اگر چھوڑ دیں گے تو پیندے میں سوراخ ہو گا وہ آپ بھی ہلاک ہوگا، اُن کو بھی ہلاک کرے گا، اس سے ایک تویہ لیا جاتا ہے کہ اگر کوئی فساد پیدا ہو رہا ہو، اگر نقصان پہنچ رہا ہو تو اس کا قلع قمع کرنے کے لئے زبردستی روک دینا جائز ہے لیکن یہ باقی احادیث سے خلاف ہے۔ حکومتوں کے معاملے میں یہ چیز نہیں ہے۔ اس کی تائید میں پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور حدیث پیش کی جاتی ہے اور اُس کے حوالے سے یہ استنباط کیا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود سختی کا حکم دیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسی کوئی بات فرما ہی نہیں سکتے جو قرآن کی تعلیم کے خلاف ہو۔ یقینا اس کے سمجھنے میں بھی لوگوں کو غلطی لگی ہے۔

روایت یہ ہے۔ ’’ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ تم میں سے جو کوئی ناپسندیدہ کام دیکھے وہ اُسے اپنے ہاتھ سے بدل دے۔ اگر اسے طاقت نہ ہو تو پھر اپنی زبان سے اور یہ طاقت بھی نہ ہو تو پھر اپنے دل سے اور یہ کمزور ترین ایمان ہے۔ (صحیح مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب بیان کون النھی عن المنکرمن الایمان حدیث نمبر177) (اس حدیث کی شرح میں) امام ملا علی قاری لکھتے ہیں، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ: ہمارے بعض علماء کہتے ہیں کہ ناپسندیدہ کام کو ہاتھ سے تبدیل کرنے کا حکم حکمرانوں کے لئے ہے۔ زبان سے تبدیل کرنے کا حکم علماء کے لئے ہے اور دل سے ناپسندیدہ بات کو ناپسند کرنے کا حکم عوامِ مؤمنین کے لئے ہے۔

(مرقاۃ۔ شرح مشکاۃ۔ جز 9۔ کتاب الاداب باب الامر بالمعروف الفصل الاول حدیث نمبر5137صفحہ نمبر324دار الکتب العلمیۃ بیروت2001)

پس یہ اس حدیث کی بڑی عمدہ وضاحت ہے کہ تین باتیں تو ہیں لیکن تین باتیں تین مختلف طبقوں کے لئے اور صاحبِ اختیار کے لئے ہیں۔ وہاں بھی اگر کشتی میں روکنے کی بات ہے تو اس کو ڈوبنے سے بچانے کے لئے صاحبِ اختیار کو ہی روکنے کا حکم ہے۔ اگر ہر کوئی اس طرح روکنے لگ جائے گا تو پورا ایک فساد پیدا ہو جائے گا۔ اور فساد اور بدامنی کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ۔ سورۃ بقرۃ کی آیت 206 ہے کہ اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا۔ اگر یہ مراد لی جائے کہ عوام حکمران کی کسی بات کو ناپسند کریں تو وہ حکومت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں اور توڑ پھوڑ اور فتنہ و فساد اور قتل و غارت اور بغاوت شروع کر دیں تو یہ مفہوم بھی شریعت کی ہدایت کے مخالف ہے۔ اس بارہ میں قرآنِ کریم کا جو حکم ہے، فیصلہ ہے وہ مَیں پہلے بیان کر آیا ہوں کہ وَیَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْـکَرِ وَالْبَغْیِ (النحل: 91)

انبیاء کا حکومتِ وقت کی اطاعت کے بارے میں کیا نمونہ رہا ہے؟ ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء دنیا میں آئے۔

(کنزالعمال کتاب الفضائل باب الثانی فی فضائل سائر الانبیاء …الفصل الثانی الاکمال جلد6 صفحہ219 حدیث 32274 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004)

قرآنِ کریم نے دو درجن کے قریب انبیاء، بیس پچیس انبیاء کے حالات بیان فرمائے ہیں مگر کسی نبی کی بابت یہ ذکر نہیں فرمایا کہ اُس نے دنیاوی معاملات میں اپنے علاقے کے حاکمِ وقت کی نافرمانی یا بغاوت کی ہے۔ یا اُس کے خلاف اپنے متبعین کے ساتھ مل کر مظاہرے کئے ہوں یا کوئی توڑ پھوڑ کی ہو۔ دینی امور کے بارے میں تمام انبیاء نے اپنے اپنے علاقوں کے حکمرانوں کے غلط عقائد کی کھل کر تردید کی اور سچے عقائد کی پُرزور تبلیغ کی۔ حضرت یوسفؑ کی مثال لیتا ہوں جو عموماً بیان کی جاتی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے بیان کی ہے، حضرت مسیح موعودؑ نے بھی، حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے بھی۔ اس کے شروع میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَآ اَوْحَیْْنَا اِلَیْْکَ ہٰـذَا الْقُرْآنَ وَاِنْ کُنْتَ مِنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الْغٰفِلِیْن (یوسف: 4) کہ ہم نے جو یہ قرآن تجھ پر وحی کیا ہے اس کے ذریعے ہم تیرے سامنے ثابت شدہ تاریخی حقائق میں سے بہترین بیان کرتے ہیں۔ جبکہ اس سے پہلے اس بارہ میں تو غافلوں میں سے تھا۔ ثابت شدہ تاریخی حقائق کیا ہیں جو قرآنِ کریم واضح بیان فرما رہا ہے۔ سورۃ یوسف میں جواکثر حضرت یوسف علیہ السلام کے حالات پر مشتمل ہے، اِن حالات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے مصر کے کافر بادشاہ فرعونِ مصر کی کابینہ میں وزیرِ خزانہ کے طور پر، مال کے نگران کے طور پر کام کیا۔ اگر بادشاہ کو یہ خیال ہوتا کہ یوسف علیہ السلام اس کے وفا دار نہیں ہیں اور نعوذ باللہ محض منافقانہ طور پر اس کی اطاعت کرتے ہیں تو وہ ہرگز اپنی کابینہ میں شامل نہ کرتا۔ اور ویسے بھی حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں یہ خیال کرنا بھی بے ادبی میں داخل ہے کہ نعوذ باللہ وہ دل سے تو فرعونِ مصر کے خلاف بغض و عناد رکھتے تھے مگر ظاہری طور پر منافقانہ رنگ میں اُس کی اطاعت کرتے تھے اور اس سے وفاداری کا اظہار کرتے تھے۔

(خطبہ جمعہ یکم اپریل 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 اپریل 2021