• 18 مئی, 2024

اللہ کی راہ میں خرچ کرو

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں مومنوں کو مختلف طریقوں سے اس کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دلاتاہے اور اس کے طریقے بھی بتاتا ہے۔ کہیں فرماتاہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو یہ تمہارے لئے بہترہے۔ کہیں فرمارہاہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے اپنے ہاتھ روک کر کہیں اپنے اوپر ہلاکت وارد نہ کرلینا۔ کبھی فرماتاہے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے تم ذاتی طورپر بھی تباہی سے محفوظ رہوگے اور اگر قوم میں قربانی کا جذبہ ہے اور قوم قربانی کر رہی ہے توقوم بحیثیت مجموعی بھی مجھ سے تباہی سے بچنے کی ضمانت لے۔ پھر فرمایاہے کہ اپنی پاک کمائی میں سے خرچ کرو تاکہ اس میں اور برکت پڑے۔ چھپا کر بھی خرچ کرو اور اعلانیہ بھی خرچ کرو۔ غریبوں کا بھی خیال رکھو، ان کی ضرورتیں بھی پوری کرو اور زکوٰۃ کی طرف بھی توجہ دوتاکہ قومی ضرورتیں بھی پوری ہوں اور غریبوں کی ضرورتیں بھی پوری ہوں۔ اور جب تم خرچ کررہے ہو تو یاد رکھو کہ تم اپنے فائدے کا سوداکر رہے ہو اس لئے کبھی دل میں احسان جتانے کا خیال بھی نہ لاؤ۔ اورجب فائدے کا سودا کررہے ہو تو پھر عقل تو یہی کہتی ہے کہ بہتر ین حصہ جو ہے وہ سودے میں استعمال کیا جاتاہے تاکہ فائدہ بھی بہترین شکل میں ہو۔ تو اس سے مال میں جواضافہ ہونا ہے وہ تو ہونا ہی ہے تمہیں اس نیکی کا ثواب بھی ملناہے۔ اوراس لئے محبوب چیزوں میں سے خرچ کرو، جو تمہاری پسندیدہ چیزیں ہیں ان میں سے خرچ کرو، جو بہترین مال ہے اس میں سے خرچ کرو۔ اور جتنی کمزوری کی حالت میں یعنی وسعت کی کمی کی حالت میں خرچ کروگے اتناہی ثواب بھی زیادہ ہوگا۔ توفرمایا کہ بہرحال اللہ تعالیٰ تو ہراس شخص کو اپنی رحمتوں اور فضلوں سے نوازتاہے اور نوازتا رہے گا جو اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، اس کی راہ میں قربانی دیتے ہیں۔ اور ہر شخص اپنی ایمانی حالت کے مطابق خرچ کرتاہے۔ ہرکوئی اپنے مرتبے اور توکل کے مطابق خرچ کرتاہے اور اس لحاظ سے انبیاء کا ہاتھ سب سے کھُلا ہوتاہے اور انبیاء میں بھی سب سے زیادہ ہمارے نبی اکرمﷺ کا ہاتھ سب سے زیاہ کھلا تھا۔ تبھی تو آپ ؐ نے ایک موقع پر فرمایاکہ میرا دل چاہتاہے کہ احد پہاڑ جتنا سونا میرے پاس ہو تو وہ بھی مَیں تقسیم کردوں۔ انبیاء کے بعد درجہ بدرجہ ہر کوئی اس نیک کام میں حصہ لیتاہے، اس کا اس کو ثواب بھی ملتاہے اور اس کے مطابق وہ خرچ بھی کرتاہے۔ ایک موقع پرحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خیال آیا کہ آج میرے گھرمیں کافی مال ہے مَیں جا کر آنحضرتﷺ کی خدمت میں پیش کروں اور آدھا مال لے کر حضور ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دل میں خیال کیا کہ آج تو حضرت ابوبکر ؓ سے بڑھنے کے قوی امکانات ہیں، ان سے زیادہ قربانی پیش کروں گا۔ لیکن تھوڑی دیربعد حضرت ابوبکر ؓ اپنا مال لے کر آئے تو آنحضرتﷺ نے پوچھاکہ گھرمیں کیا چھوڑ آئے ہو؟ تو عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول !۔ اس پر حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے کہا اپنے آپ سے کہ تم کبھی ابوبکرؓ سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ بہرحال میں یہ عرض کررہا تھا کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو اس کی راہ میں خرچ کرنے کے مختلف ذرائع سے ترغیب دلاتاہے۔

۔۔۔۔ حضرت منشی ظفر احمد صاحب ؓکپورتھلوی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک واقعہ کہ ابتدائی ایام میں، جو شروع کے دن تھے، چندے وغیرہ مقرر نہ ہوئے تھے اور جماعت کی تعداد بھی تھوڑی تھی۔ ایک دفعہ کثیر تعداد میں مہمان آگئے۔ اس وقت خرچ کی دقت تھی۔ حضرت میر ناصرنواب صاحب نے میرے روبرو حضرت اقدس علیہ السلام سے خرچ کی کمی کا ذکرکیا۔ اور یہ بھی کہا کہ مہمان زیادہ آگئے ہیں۔ آپ گھر گئے، حضرت ام المومنین کا زیور لیا اور میر صاحب کو دیا کہ اس کو فروخت کرکے گزارہ چلائیں۔ پھردوسرے تیسرے دن، وہ زیورکی جو آمد ہوئی تھی، روپیہ آیاتھا، ختم ہوگیا۔ میر صاحب ؓ پھر حاضرہوئے اور اخراجات کی زیادتی کے بارہ میں ذکرکیا۔ حضورعلیہ السلام نے فرمایاکہ ہم نے مسنون طریقے پر ظاہر اسباب کی رعایت کرلی ہے اب وہ خود انتظام کرے گا۔ یعنی جو مسنون طریقہ تھا، جو ہمارے پاس تھا وہ تو ہم نے دے دیاہے، خرچ کر لیا ہے اب خداتعالیٰ خود انتظام کرے گاجس کے مہمان ہیں۔ کہتے ہیں کہ دوسرے ہی دن اس قدر روپیہ بذریعہ منی آرڈر پہنچا کہ سینکڑوں تک نوبت پہنچ گئی۔ اس زمانہ میں سینکڑوں بھی بہت قیمت رکھنے والے تھے۔ پھر آپ ؑ نے توکل پر تقریر فرمائی، فرمایا:جبکہ دنیا دار کو اپنے صندوق میں رکھے ہوئے روپے پر اعتبار ہوتاہے کہ حسب ضرورت جس قدر چاہے گا صندوق کھول کر نکال لے گا۔ ایسا ہی متوکل کو خداتعالیٰ پر یقین اور بھروسہ ہوتاہے کہ جس وقت چاہے گا نکال لے گا۔ اور اللہ کا ایسا ہی سلوک ہوتاہے۔

تو دیکھیں اس سے ہمیں سبق مل رہاہے کہ اللہ تعالیٰ تواپنے بندوں کی ضرورتیں پوری کر لیتاہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہماری بہتری کی خاطر، ہماری بھلائی کے لئے، ہمیں بھی ان خوش قسمتوں میں شامل کر لیاہے جو ان نیک کاموں میں شامل ہوتے ہیں اور ثواب حاصل کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت حکیم نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کے بارہ میں ذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’اگر مَیں اجازت دیتا تو وہ سب کچھ اس راہ میں فدا کر کے اپنی روحانی رفاقت کی طرح جسمانی رفاقت اور ہر دم صحبت میں رہنے کاحق ادا کرتے۔ ان کے بعض خطوط کی چند سطریں بطور نمونہ ناظرین کو دکھلاتاہوں۔ لکھتے ہیں: ’’مَیں آپ کی راہ میں قربان ہوں۔ میرا جو کچھ ہے میرانہیں آپ کا ہے۔ حضرت پیرومرشد میں کمال راستی سے عرض کرتاہوں کہ میرا سارا مال و دولت اگر دینی اشاعت میں خرچ ہوجائے تو مَیں مراد کو پہنچ گیا۔ اگر خریدار براہین کے توقف طبع کتاب سے مضطرب ہوں تو مجھے اجازت فرمائیے کہ یہ ادنیٰ خدمت بجا لاؤں کہ ان کی تمام قیمت ادا کردہ اپنے پاس سے واپس کردوں‘‘

(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 35-36)

یعنی جو خریدار ہیں براہین احمدیہ کے اس وقت اگر وہ ادائیگی نہیں کر پا رہے تو مجھے اجازت دیں مَیں وہ ساری ادائیگی اپنی طرف سے کر دیتاہوں۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’مَیں جو باربار تاکیدکرتاہوں کہ خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو۔ یہ خداتعالیٰ کے حکم سے ہے کیونکہ اسلام اس وقت تنزّل کی حالت میں ہے۔ بیرونی اور اندرونی کمزوریوں کو دیکھ کر طبیعت بے قرار ہو جاتی ہے اور اسلام دوسرے مخالف مذاہب کا شکار بن رہاہے۔ جب یہ حالت ہو گئی ہے تو کیااب اسلام کی ترقی کے لئے ہم قدم نہ اٹھائیں ؟ خداتعالیٰ نے اسی غرض کے لئے تو اس سلسلہ کو قائم کیاہے۔ پس اس کی ترقی کے لئے سعی کرنا یہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور منشاء کی تعمیل ہے۔ اس لئے اس راہ میں جو کچھ بھی خرچ کروگے وہ سمیع وبصیر ہے۔

یہ وعدے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں کہ جو شخص خداتعالیٰ کے لئے دے گامَیں اس کو چند گنا برکت دوں گا۔ دنیا ہی میں اسے بہت کچھ ملے گااورمرنے کے بعد آخرت کی جزا بھی دیکھ لے گا کہ کس قدر آرام میسر آتاہے۔ غرض اس وقت مَیں اس امرکی طرف تم سب کو توجہ دلاتاہوں کہ اسلام کی ترقی کے لئے اپنے مالوں کو خرچ کرو۔‘‘

(الحکم 31 جولائی 1906ء، ملفوظات جلد نمبر 8 صفحہ 393-394)

(خطبہ جمعہ 7نومبر 2003)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 اپریل 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ