• 25 اپریل, 2024

پہلی خلافتِ راشدہ کا تسلسل تبھی ٹوٹا تھا کہ مسلمان اطاعت سے باہر ہوئے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو اطاعت ہے یہ تمہارے لئے ضروری ہے۔ وَاِنْ تُطِیْعُوہُ تَھْتَدُوْا۔ کہ اگر تم اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤ گے اور ہدایت پاتے رہو گے۔ اس کے بعد خدا تعالیٰ نے خلافت سے متعلق احکام دئیے جو آیتِ استخلاف میں درج ہیں۔ اللہ فرماتا ہے کہ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا مِنکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ۔ کہ اللہ تعالیٰ کا اُن لوگوں کے ساتھ یہ وعدہ ہے جو ایمان لائے اور اعمالِ صالحہ بجا لائے۔ ایمان اور عمل صالح کا معیار جو ہے وہ پہلی آیت میں بیان فرما دیا کہ کامل اطاعت کا جُؤآ اپنی گردن پر رکھو، تبھی حقیقی مومن کہلاؤ گے۔ کامل اطاعت کا جُؤآ اپنی گردن پر رکھ کر تبھی نیک اعمال بجا لانے کی طرف بڑھنے والے ہو گے۔ اور جب یہ معیار حاصل ہو جائے گا تو پھر خلافت کی نعمت سے فیض پاؤ گے ورنہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ضرور مسلمانوں میں خلافت جاری رہے گی بلکہ وعدہ فرمایا ہے جو بعض شرائط کے ساتھ مشروط ہے اور اُن میں سے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ کامل اطاعت ہو۔ پہلی خلافتِ راشدہ کا تسلسل تبھی ٹوٹا تھا کہ مسلمان اطاعت سے باہر ہوئے۔ مسلمان حقیقی خلافت سے اُس وقت محروم کئے گئے جب وہ اطاعت سے باہر ہوئے۔ اطاعت سے باہر نکل کر بعض گروہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہم اپنی بیعت کو بعض شرائط کے ساتھ مشروط کرتے ہیں جن میں ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ حضرت عثمان کی شہادت کا بدلہ لینا تھا یا بعض فتنہ پردازوں کی باتوں میں آ کر اطاعت سے باہر نکلنے والے بنے۔ باوجود اس کے کہ اُس وقت صحابہ بھی موجود تھے لیکن جب کامل اطاعت سے باہر نکلے تو خلافت سے محروم کر دئیے گئے۔ اور کیونکہ خلیفہ بنانے کا فیصلہ خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے تو پھر اختلافات کے بعد، اطاعت سے نکلنے کے بعد خلیفہ بننے یا بنانے کی ان کی سب کوششیں ناکام ہو گئیں۔ اور خلافت نے ملوکیت کی شکل اختیار کر لی۔

اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ جس طرح نظامِ خلافت پہلے اللہ تعالیٰ نے جاری فرمایا تھااس طرح جاری کرے گا، تو اللہ تعالیٰ نے پہلا نظامِ خلافت نبوت کی صورت میں جاری فرمایا تھا۔ اور پہلی قوموں میں نبی خود خدا تعالیٰ بھیجتا تھا۔ اب کیونکہ شریعت کامل ہو گئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تا قیامت شرعی نبی ہیں اس لئے خلافتِ راشدہ کا اجراء فرما دیا جس کا ظاہری طور پر چناؤ کا طریق تو بیشک لوگوں کے ہاتھ میں رکھا لیکن اپنی فعلی شہادت اور تائیدات سے اللہ تعالیٰ نے اس خلافت کو اپنی پسند کی طرف منسوب فرمایا۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے کیونکہ آخری غلبہ اور کامل شریعت اسلام کے ذریعے سے ہی قائم فرمانی تھی اس لئے یہ پیشگوئی بھی فرما دی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں ایک نبی مبعوث ہو گا جس کی تفصیل وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ: 4)۔ میں بیان فرما دی اور جس کی وضاحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر فرما دی کہ میرے اور مسیح کے درمیان کوئی نبی نہیں۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مسیح و مہدی بھی ہیں، نبی بھی ہیں اور خاتم الخلفاء بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال کے بعد مومنین کے ساتھ اپنے وعدے کو پورا کرنے کے لئے پھر اس خلیفہ کو بھیجا جو اُمتی ہونے کی وجہ سے نبوت کا اعزاز پا کر پھر خلافت جاری کرنے کا ذریعہ بن گیا۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بیشک دینِ اسلام تو تمہارے لئے اللہ تعالیٰ نے پسند فرمایا ہے لیکن خوف کو امن کی حالت میں بدلنے کے لئے کامل اطاعت کے ساتھ اور خلافت کے نظام کے ساتھ جُڑ کر ہی تم اس کا حقیقی فیض حاصل کر سکو گے اور یہ ضروری ہے۔ اور جو اس نظام سے جڑے رہیں گے اُن کے حق میں اس کے ذریعے سے ہر خوف کی حالت امن میں بدلتی چلی جائے گی اور اُن خلفاء کے ذریعے سے ہی غلبہ اسلام کے دن بھی قریب آتے چلے جائیں گے۔ لیکن یہاں یہ فرما دیا کہ خلیفۂ وقت اور خلافت سے منسلک ہونے والوں کا یہ کام ہے اور اُن کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی عبادت کی طرف خالص ہو کر توجہ دینے والے بنیں۔ نمازوں کا قیام اور توحیدِ خالص کا قیام اور اس کے لئے کوشش اُن کو خلافت کے انعام سے فیضیاب کرتی رہے گی۔ اُن کی دعاؤں کو خدا تعالیٰ سنے گا۔ اُن کی پریشانیوں کو دور فرمائے گا۔ اپنے انعامات سے انہیں نوازے گا۔ لیکن جو یہ سب دیکھ کر پھر بھی خلافتِ حقہ کے ساتھ منسلک نہیں ہوں گے، فرمایا وہ نافرمان ہیں۔ اُن کی نافرمانی کی سزا ملے گی۔ وہ اُن انعامات سے محروم ہوں گے جو مومنین کے ساتھ وابستہ ہیں۔ مَیں اکثر کہا کرتا ہوں اور آج آپ عامۃ المسلمین کو دیکھ لیں کہ بے چینیوں نے انہیں گھیرا ہوا ہے اور غیروں کے دباؤ میں آ کر اتنی بے حسی طاری ہو گئی ہے کہ مسلمانوں کو مروانے کے لئے مسلمان خود غیروں کی مدد حاصل کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُمت کو حق پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے۔

پھر اس تسلسل میں جو آخری آیت مَیں نے پڑھی ہے، اُس میں پھر تین باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے کہ نماز کا قیام، زکوٰۃ کی ادائیگی اور کامل اطاعت تاکہ اللہ تعالیٰ رحم فرماتے ہوئے اپنے انعام جاری رکھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ جو اپنے انعام کا سلسلہ جاری فرمایا ہے، اس سے فیض پانے کے لئے ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو یاد رکھنا چاہئے کہ اُس کا وعدہ کامل اطاعت کرنے والوں کے ساتھ ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھتے ہیں۔ کیونکہ کامل اطاعت کرنے والا وہی ہے جو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کو یاد رکھے اور اُس کی عبادت کرنے والا ہو۔ اور عبادت کرنے کے لئے بہترین ذریعہ جو ہمیں بتایا گیا وہ نمازوں کا قیام ہے۔ پس الٰہی جماعت کا حقیقی حصہ وہی بن سکتا ہے جو نمازوں کے قیام کی بھرپور کوشش کرتا ہو۔

نمازوں کے قیام کی ایک بڑی اعلیٰ تشریح اور وضاحت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس طرح فرمائی ہے کہ صلوٰۃ کا بہترین حصہ جمعہ ہے جس میں امام خطبہ پڑھتا ہے اور نصائح کرتا ہے۔ اور خلیفہ وقت دنیا کے حالات دیکھتے ہوئے دنیا کی مختلف قوموں کی وقتاً فوقتاً اُٹھتی ہوئی اور پیدا ہوتی ہوئی ضروریات کے پیشِ نظر نصائح کرتا ہے جس سے قومی وحدت اور یکجہتی پیدا ہوتی ہے۔ سب کا قبلہ ایک طرف رکھتا ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی اصل تصویر ہمارے سامنے ہے۔ اور جماعت احمدیہ میں یہ تصویر ہمیں نظر آتی ہے۔ جبکہ خلیفہ وقت کا خطبہ بیک وقت دنیا کے تمام کونوں میں سُنا جا رہا ہوتا ہے۔ اور مختلف مزاج اور ضروریات کے مطابق بات ہوتی ہے۔ میں جب خطبہ دیتا ہوں، جب نوٹس لیتا ہوں تو اُس وقت صرف آپ جو میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں، وہی مدّ نظر نہیں ہوتے۔ بلکہ کوشش یہ ہوتی ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک کی جو مجھے رپورٹس آتی ہیں اُن کو سامنے رکھتے ہوئے کبھی زیادہ زور یورپ کے حالات کے مطابق خطبہ میں ہو۔ کبھی ایشیا کے کسی ملک کے حالات کے مطابق ہو یا عمومی طور پر اُن کے حالات کے مطابق ہو۔ کبھی افریقہ کے مطابق ہو۔ کبھی جزائر کے مطابق ہو۔ لیکن اسلام چونکہ ایک بین الاقوامی مذہب ہے اس لئے ہر بات جو بیان ہو رہی ہوتی ہے وہ ہر ملک اور ہر طبقے کے احمدیوں کے لئے نصیحت کا رنگ رکھتی ہے۔ چاہے کسی کو بھی مدّنظر رکھ کر بات کی جارہی ہو کچھ نہ کچھ پہلو اُن کے اپنے بھی اُس میں موجود ہوتے ہیں۔ مجھے خطبے کے بعد دنیا کے مختلف ممالک سے خط بھی آتے ہیں، روس کی ریاستوں کے مقامی باشندوں کی طرف سے بھی آتے ہیں، افریقہ کے مقامی باشندوں کی طرف سے بھی آتے ہیں اور دوسرے ممالک کے مقامی باشندوں کی طرف سے بھی آتے ہیں اور یہ اظہار ہوتا ہے کہ یوں لگتا ہے یہ خطبہ جیسے ہمارے لئے ہے۔ بہر حال اقامت صلوٰۃ کی ایک تشریح یہ بھی ہے جو خلافت کے ذریعہ سے آج دنیائے احمدیت میں جاری ہے۔

(خطبہ جمعہ 27؍ مئی 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 مئی 2021