• 27 اپریل, 2024

درازی عمر کا راز

سیرالیون کے شہر Bo کے قیام میں خدمت دین کرتے ہوئے اگر شام کو کوئی جماعتی پروگرام نہ ہوتا تو ہم پاکستانی ایک دو گھنٹے اکھٹے بیٹھ جاتے یا سیر وغیرہ کرلیتے۔ ایک دن مکرم پروفیسر عبدالسلام ظافر مربی ہاؤس میں آئے اور کہنے لگے کہ آئیں آج ڈاکٹر ادریس بنگورا کو مل کر آتے ہیں۔ (ڈاکٹر بنگورا ایک افریقن ڈاکٹر تھے۔ موصی، متقی اور باعلم انسان تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اکثر کتب پڑھ رکھی تھیں۔ بعد میں نائب امیر کے عہدہ پر بھی فائز رہے۔ گزشتہ سال حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی نمائندگی میں سیرالیون کے دورہ کے دوران Masiaka Town میں واقع قطعہ موصیان میں آپ کی قبر پر خاکسار کو دُعا کرنے کا موقع میسر آیا) ان کے کلینک میں ملاقات کے دوران مکرم ظافر صاحب نے دریافت کیا کہ ڈاکٹر صاحب! کیا آپ کے پاس کوئی ایسا نسخه ہے جس کے استعمال سے انسان لمبی عمر پائے اور صحت مند رہے تو ڈاکٹر صاحب نے فوراً ہاں میں جواب دیتے ہوئے سورۃ الرعد کی آیت 18 کی تلاوت فرمائی اَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِى الْاَرْضِ کہ جو مخلوق خدا کے لئے نفع رساں وجود بنتی ہے وہ زمین پر زیادہ دیر تک رہتی ہے۔

اس عنوان کے تحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات ہدیہ قارئین الفضل ہیں۔

• آپؑ فرماتے ہیں:
’’ہر ایک شخص چاہتا ہے کہ اس کی عمر دراز ہو، لیکن بہت ہی کم ہیں وہ لوگ جنہوں نے کبھی اس اصول اور طریق پر غور کی ہو جس سے انسان کی عمر دراز ہو۔ قرآن شریف نے ایک اصول بتایا ہے۔ وَاَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِى الْاَرْضِ (الرعد: 18) یعنی جو نفع رساں وجود ہوتے ہیں۔اُن کی عمر دراز ہوتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے ان لوگوں کو درازیٔ عمر کا وعدہ فرمایا ہے جو دوسرے لوگوں کے لیے مفید ہیں ۔حالانکہ شریعت کے دو پہلو ہیں۔ اوّل خدا تعالیٰ کی عبادت۔ دوسرے بنی نوع سے ہمدردی۔ لیکن یہاں یہ پہلو اس لیے اختیار کیا ہے کہ کامل عابد وہی ہوتا ہے جو دوسروں کو نفع پہنچائے ۔ پہلے پہلو میں اوّل مرتبہ خدا تعالیٰ کی محبت اور توحید کا ہے۔ اس میں انسان کا فرض ہے کہ دوسروں کو نفع پہنچائے۔ اور اس کی صورت یہ ہے۔ اُن کو خدا کی محبت پیدا کرنے اور اس کی توحید پر قائم ہونے کی ہدایت کرے۔‘‘

(ملفوظات جلد 3صفحہ 92-93 ایڈیشن 2016ء)

• پھر آپؑ فرماتے ہیں:
’’جو لوگ دین کے لیے سچا خوش رکھتے ہیں۔اُن کی عمر بڑھائی جاوے گی اور حدیثوں میں جو آیا ہے کہ مسیح موعود کے وقت عمریں بڑھادی جاویں گی۔ اس کے معنے یہی سمجھائے گئے ہیں کہ جولوگ خادمِ دین ہوں گے اُن کی عمریں بڑھائی جاویںگی جو خادم نہیں ہو سکتا وہ بڈھے بیل کی مانند ہے۔کہ مالک جب چاہے اُسے ذبح کر ڈالے۔ اور جو سچے دل سے خادم ہے۔ وہ خدا کا عزیز ٹھہرتا ہے اور اس کی جان لینے میں خدا تعالیٰ کو تردد ہوتا ہے۔ اس لیے فرمایا وَ اَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِى الْاَرْضِ (الرعد : 18)‘‘

(ملفوظات جلد 3صفحہ 166-167 ایڈیشن 2016ء)

• مسیح موعود کے دور میں درازئ عمر کاراز بیان کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:
’’احادیث میں جو آیا ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں عمریں لمبی ہو جائیں گی۔ اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ موت کا دروازہ بالکل بند ہو جائے گا اور کوئی شخص نہیں مرے گا ۔ بلکہ اس سے معلوم ہو تا ہے کہ جو لوگ مالی ،جانی نصرت میں اس کے مخلص احباب ہوں گے۔ اور خدمت دین میں لگے ہو ئے ہوں گے ۔اُن کی عمریں درازکردی جائیں گی ۔اس واسطے کہ وہ لوگ نفع رساں وجود ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے وَاَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِى الْاَرْضِ (الرعد:18)

یہ امر قانون ِقدرت کے موافق ہے کہ عمریں درازکر دی جائیں گی۔ اس زمانہ کو جو دراز کیا ہے یہ بھی اس کی رحمت ہے اور اس میں کوئی خاص مصلحت ہے ۔‘‘

(ملفوظات جلد 5صفحہ223 ایڈیشن 2016ء)

• تعلیم و تربیت درازئ عمر کا گر ہے۔

آپؑ نے فرمایا:
’’یہ سچی بات ہے کہ اگر انسان توبتہ النصوح کرکے اللہ تعالیٰ کے لیے اپنی زندگی وقف کردے اور لوگوں کو نفع پہنچاوے تو عمر بڑھتی ہے اعلاء کلمتہ الاسلام کرتا رہے اور اس بات کی آرزو رکھے کہ اللہ تعالیٰ کی تو حید پھیلے۔ اس کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان مولوی ہو یا بہت بڑے علم کی ضرورت ہے بلکہ امربالمعروف اور نہی عن المنکرکرتا رہے یہ ایک اصل ہے جو انسان کو نافع الناس بناتی ہے اور نافع الناس ہو نا درازی عمر کا اصل گُرہے۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ233۔234 ایڈیشن 2016ء)

• درازی عمر کے بارے میں خدا کا مجھے الہام ہوا۔

فرمایا:
’’تیس سال کے قریب گذرے کہ مَیں ایک بارسخت بیمار ہوا۔ اور اس وقت مجھے الہام ہوا اَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِى الْاَرْضِ۔ اس وقت مجھے کیا معلوم تھا کہ مجھ سے خِلق خدا کو کیا کیا فوائد پہنچنے والے ہیں لیکن اب ظاہر ہوا کہ ان فوائد اور منافع سے کیا مراد تھی۔ غرض جو کوئی اپنی زندگی بڑھانا چاہتا ہے اسے چاہئیے کہ نیک کاموں کی تبلیغ کرے اور مخلوق کو فائدہ پہنچاوے۔

جب اللہ کسی دل کو ایسا پاتا ہے کہ اس نے مخلوق کی نفع رسانی کا ارادہ کر لیا ہے تو وہ اسے توفیق دیتا اور اس کی عمر دراز کرتا ہے جس قدر انسان اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس کی مخلوق کے ساتھ شفقت سے پیش آتا ہے اسی قدر اس کی عمر دراز ہوتی اور اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہوتا اور اس کی زندگی کی قدر کرتا ہے ،لیکن جس قدر وہ خدا تعالیٰ سے لا پروااور لا ابالی ہوتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی پروا نہیں کرتا ۔انسان اگر اللہ تعالیٰ کے لیے اپنی زندگی وقف نہ کرے اور اس کی مخلوق کے لیے نفع رساں نہ ہو تویہ ایک بیکار اور نکمی ہستی ہو جاتی ہے بھیڑبکری بھی پھر اس سے اچھی ہے جو انسان کے کام تو آتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 5صفحہ235 ایڈیشن 2016ء)

• پھر آپؑ فرماتے ہیں:
’’غرض نری باتیں کام نہ آئیں گی پس چاہیئے کہ انسان پہلے اپنے آپ کو دکھ پہنچائے تا خدا تعالیٰ کو راضی کرے اگر وہ ایسا کرے گا تواللہ تعالیٰ اس کی عمر بڑھا دے گا۔ اللہ تعالیٰ کے وعدوں میں تخلف نہیں ہوتا۔ اس نے جو وعدہ فرمایا ہے کہ اَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِى الْاَرْضِ (الرعد:18) یہ بالکل سچ ہے عام طور پر بھی قاعدہ ہے کہ جو چیز نفع رساں ہواس کو کو ئی ضائع نہیں کرتا یہا نتک کہ کو ئی گھوڑا بیل یا گائے بکری اگر مفید ہواور اس سے فائدہ پہنچتا ہو کون ہے جو اس کو ذبح کر ڈالے، لیکن جب وہ ناکارہ ہو جاتا ہے اورکسی کام نہیں آسکتا تو پھر اس کا آخری علاج ہی ذبح ہے اور سمجھ لیتے ہیں کہ اگر اور نہیں تو دو چار روپیہ کو کھال ہی بک جائے گی اور گو شت بھی کام آجائے گا اسی طرح پر جب انسان خدا تعالیٰ کی نظر میں کسی کام کا نہیں رہتا اور اس کے وجود سے کو ئی فائدہ دوسرے لوگوں کو نہیں ہو تا تو پھر اللہ تعالیٰ اس کی پروا نہیں کرتا بلکہ خس کم جہاں پاک کے موافق اس کو ہلاک کر دیتا ہے غرض یہ اچھی طرح یادرکھو کہ نری لاف وگزاف اور زبانی قیل وقال کو ئی فائدہ اور اثر نہیں رکھتی جب تک کہ اس کے ساتھ عمل نہ ہو اور ہاتھ پاؤں اور دوسرے اعضاء سے نیک عمل نہ کئے جاویں۔‘‘

(ملفوظات جلد 5صفحہ611-612 ایڈیشن 1988ء)

• پھر فرماتے ہیں:
’’میرے اپنے الہام میں بھی یہ ہے وَ اَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِى الْاَرْضِ تیس برس سے زیادہ عرصہ ہوا جب میں تپ سے سخت بیمار ہوا۔ اس قدر شدید تپ مجھے چڑھی ہوئی تھی گویا بہت سے انگارے سینے پر رکھے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔ اس اثنائے میں مجھے الہام ہوا۔ وَ اَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِى الْاَرْضِ، یہ جو اعتراض کیا جاتاہے بعض مخالف ِ اسلام بھی لمبی عمر حاصل کرتے ہیں ۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ میرے نزدیک اس کا سبب یہ ہے کہ اُن کا وجود بھی بعض رنگ میں مفید ہی ہوتا ہے۔ دیکھو ابو جہل بدر کی جنگ تک زندہ رہا۔ اصل بات یہ ہے کہ اگرمخالف اعتراض نہ کر تے تو قرآن شریف کے تیس سپارے کہاں سے آتے۔ جس کے وجود کو اللہ تعالیٰ مفید سمجھتا ہے اسے مہلت دیتا ہے۔ ہمارے مخالف بھی جو زندہ ہیں۔ اور وہ مخالفت کر تے ہیں ۔ ان کے وجود سے بھی یہ فائدہ پہنچتا ہے کہ خدا تعالیٰ قرآن شریف کے حقائق و معارف عطا کرتا ہے۔ اب اگر مہر علیشاہ اتنا شو رنہ مچاتا تو نزول مسیح کیسے لکھاجاتا۔‘‘

(ملفوظات جلد 3صفحہ107 ایڈیشن 2016ء)

• آپؑ اپنی درازی عمر کا اللہ سے وعدہ پانے کے حوالے سے فرماتے ہیں:
’’ایک بار میں نے اخبار میں پڑھا تھا کہ ایک ڈپٹی انسپکٹر پنسل سے ناخن کا میل نکال رہا تھا۔ جس سے اس کا ہاتھ ورم کر گیا۔ آخر ڈاکٹر نے ہاتھ کاٹنے کا مشورہ دیا۔اس نے معمولی بات سمجھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ہلاک ہو گیا۔ اسی طرح ایک دفعہ میں نے پنسل کو ناخن سے بنایا۔ دوسرے دن جب میں سیر کو گیا،تو مجھے اس ڈپٹی انسپکٹر کا خیال آیا اور ساتھ ہی میرا ہاتھ ورم کر گیا۔ میں نے اسی وقت دعا کی اور الہام ہوا۔ اور پھر دیکھا تو ہاتھ بالکل درست تھا۔ اور کوئی ورم یا تکلیف نہ تھی۔غرض بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ جب اپنا فضل کرتا ہے،تو کوئی تکلیف باقی نہیں رہتی ،مگر اس کے لیے یہ ضروری شرط ہے کہ انسان اپنے اندر تبدیلی کرے۔ پھر جس کو وہ دیکھتا ہے کہ یہ نافع وجود ہے، تو اس کی زندگی میں ترقی دے دیتا ہے۔ ہماری کتاب میں اس کی بابت صاف لکھا ہے وَ اَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِى الْاَرْضِ (الرعد:18) ایسا ہی پہلی کتابوں سے بھی پایا جاتا ہے۔ حزقیاہ نبی کی کتاب میں بھی درج ہے۔ انسان بہت بڑے کام کے لیے بھیجا گیا ہے، لیکن جب وقت آتا ہے اور وہ اس کام کو پورا نہیں کرتا۔ تو خدا اس کا تمام کام کر دیتا ہے۔ خادم کو ہی دیکھ لو کہ جب وہ ٹھیک کام نہیں کرتا،تو آقا اس کو الگ کر دیتا ہے۔پھر خدا تعالیٰ اس وجود کو کیوں کر قائم رکھے،جو اپنے فرض کو ادا نہیں کرتا۔‘‘

(ملفوظات جلد 3صفحہ117 ایڈیشن 2016ء)

پھر فرمایا:
’’خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَاَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِى الْاَرْضِ (الرعد:18) پس جو شخص اپنے وجود کو نا فع الناس بناویں گے ان کی عمریں خدا زیادہ کر ے گا خدا تعالیٰ کی مخلوق پر شفقت بہت کرو اور حقوق العباد کی بجاآوری پورے طور پر بجالانی چا ہیئے۔‘‘

(ملفوظات جلد 5صفحہ124 ایڈیشن 2016ء)

ایک اعتراض اور اس کا جواب

بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ بسا اوقات نیک اور صالح لوگ لمبی عمر نہیں پاتے اس کے جواب میں آپؑ فرماتے ہیں:
’’اس جگہ ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ بعض لوگ جو نیک اور برگزیدہوتے ہیں چھوٹی عمر میں بھی اس جہان سے رخصت ہوتے ہیں اور اس صورت میں گویا یہ قاعده اور اصل ٹوٹ جاتا ہے۔ مگر یہ ایک غلطی اور دھوکا ہے دراصل ایسا نہیں ہوتا۔ یہ قاعده کبھی نہیں ٹوٹتا مگر ایک اور صورت پر درازی عمر کا مفہوم پیدا ہوجاتا ہے اور وه یہ ہے کہ زندگی کا اصل منشاء اور درازی عمر کی غایت تو کامیابی اور بامراد ہونا ہے۔ پس جب کوئی شخص اپنے مقاصد میں کامیاب اوربامراد ہو جاوے اور اس کو کوئی حسرت اور آرزو باقی نہ رہے اور مرتے وقت نہایت اطمینان کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہو تو وه گویا پوری عمر حاصل کرکے مرا ہے اور درازی عمر کے مقصد کو اس نے پا لیا ہے۔ اس کو چھوٹی عمر میں مرنےوالا کہنا سخت غلطی اور نادانی ہے۔

صحابہؓ میں بعض ایسے تھے جنہوں نے 20،22 برس کی عمر پائی مگر چونکہ ان کو مرتے وقت کوئی حسرت اور نامرادی باقی نہ رہی بلکہ کامیاب ہو کر اٹھے تھے اس لیے انھوں نےزندگی کا اصل منشاء حاصل کر لیا تھا۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ236-237 ایڈیشن 2016ء)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے پیدائش کے مقاصد پورا کرنے اور مخلوق کے حقوق ادا کرنے کی توفیق دے۔ آمین

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 مئی 2021