آؤ! اُردو سیکھیں
سبق نمبر45
کوئی بھی زبان سیکھنے کے دو ہی طریقے ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ زبان کو اس طرح سیکھا جائے جس طرح ایک بچہ اپنی مادری زبان سیکھتا ہے یعنی لاشعوری طور پہ نقل کرتے ہوئے۔ یعنی وہ جو سنتا ہے اسے بولتا ہے اور جو لکھا دیکھتا ہے اسے لکھتا ہے جبکہ اس سے پہلے اس کے ذہن میں کوئی اور زبان موجود نہیں ہوتی۔دوسرا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ زبان کو بطور ایک سائنس یعنی علم کے سیکھا جائے جیسے ہم کوئی بھی علم سیکھتے ہیں اور اس میں مہارت حاصل کرتے جاتے ہیں۔ یہ طریقہ ہمیں اس وقت اختیار کرنا پڑتا ہے جب ہمارے ذہن میں ایک سے زائد زبانوں کی یاداشت موجود ہو۔ نیز ہمارے سیکھنے کا عمل لاشعوری سے زیادہ شعوری ہو۔تاہم ایسے بچے جو ایک ایسی زبان سیکھنا چاہتے ہوں یا اس میں مہارت حاصل کرنا چاہتے ہوں جو ان کے والدین کی مادری زبان ہو مگر ان بچوں کی وہ مادری زبان نہ ہو جیسا کہ مغربی ممالک میں پیدا ہونے والے بچے ہیں تو ایسے بچوں یا طالب علموں کے لئے ضروری ہے اور فائدہ مند ہے کہ وہ زبان سیکھنے کے لئےدونوں طریق اپنائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غیر ممالک میں بچے والدین سے اردو صرف بولنے اور سن کر سمجھنے کی حد تک سیکھتے ہیں مگر ان کی مہارت کا درجہ بلکل سطحی ہوتا ہے۔ آپ کو یہ یاد رکھنا چاہیے آپ کے والدین نے تعلیم پاکستان یا بھارت میں حاصل کی ہے اور وہاں انھوں نے اردو کو باقاعدہ ایک سائنس کے طو ر پہ پڑھا ہے۔ ان کا اردو کے متعلق علم صرف لاشعوری نہیں ہے بلکہ اس میں شعوری کوشش اور محنت کا دخل ہے۔ جیسے مضمون نگاری، خط لکھنا، درخواست لکھنا، گرامر کے اصول، شاعری کی تشریحات کرنا، مختلف اردو لکھاریوں کے مضامین کو پڑھنا اور سمجھنا، تحریر و تقریر کی مہارت وغیرہ شامل ہے۔ پس آپ کو اردو سیکھنے کے لئے دونوں ہی طریق اختیار کرنے ہوں گے۔ لاشعوری طریق سے اردو کا میعار بلند کرنے کے لئے آپ کو اپنے والدین، اردو بولنے والے لکھنے والے احباب سے ایک مضبوط علمی تعلق بنانا ہوگا۔ ان کے ساتھ اردو میں گفتگو کرنی ہوگی۔ آپ کی وہ زبان جو اس ملک میں بولی جاتی ہے جہاں آپ ہجرت کے بعد رہتے ہیں آپ کو اسکول میں، مقامی دوستوں میں، ٹیلیویژن پروگراموں میں سننے اور بولنے کو مل جاتی ہے۔ آپ اسے لاشعوری اور شعوری طور پہ سیکھ چکے ہیں اور سیکھ رہے ہیں۔ اس لئے اردو بولنے والوں سے آپ کو اردو بولنی چاہئے تاکہ آپ اردو میں اپنا علم بڑھا سکیں۔ ہمارے ان اسباق کا مقصد اردو زبان کو بطور ایک علم یا سائنس کے پڑھانا ہے تا کہ آپ کا اردو زبان کا علم، راسخ، یقینی اور منطقی ہو۔ اس طرح آپ حضرت مسیح موعود ؑ اور خلفاء حضرت مسیح موعودؑ کی کتب سے وہ علم حاصل کرنے کے قابل ہوسکیں جو کئی اقسام کا ہے۔ ان کتب میں فلسفہ، تاریخ، ادب، نفسیات، روحانی علوم، سیاست، اقصادیات جیسے علوم بیان ہوئے ہیں۔ یہ علوم کی چند مثالیں ہیں جب آپ ان کتب سے استفادہ حاصل کریں گے تو حیران رہ جائیں گے کس قدر بیش قیمت خزانہ ہے جو آپ کو اردو زبان میں میسر ہے۔ کیونکہ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ
وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے
اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے امیدوار
آج کے سبق میں ہم فعل کی ان حالتوں اور قواعد کے بارے میں پڑھیں گے جو زمانہ مستقبل سے متعلق ہیں۔ فعل مستقبل یعنی Future Tense کی پہلی حالت مستقبل مطلق کہلاتی ہے۔
مستقبل مطلق Future Indefinite
اس کو انگریزی میں Future Indefinite کہا جاتا ہے۔ اس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ ایک کام ہوگا تاہم وقت کی کوئی مخصوص قید نہیں ہوتی۔ جیسے کھائے گا، آئے گا۔ البتہ اگر ہونا جو کہ ایک مصدر یعنی infinitive ہے، سے یہ زمانہ بنانا ہو تو ہوئے گا کی بجائے ہو گا کہا جائے گا، یعنی کھانا سے کھائے گا آنا سے آئے گا تو ٹھیک ہے مگر ہونا سے ہوئے گا اب استعمال نہیں ہوتا۔ یہ ایک استثنائی معاملہ ہے۔ قدیم اردو میں ہوئے گا بھی استعمال ہوتا تھا مگر اب یہ انداز ترک کردیا گیا ہے یا محض علاقائی رہ گیا ہے۔
بعض اوقات ہوگا حال کے معنی دیتا ہے جیسے تجھ سے بڑھ کر بھی کوئی بےوقوف ہوگا۔یعنی جس کی بات ہورہی ہے وہ بےوقوف ہے۔
مستقبل مدامی
اس میں آئندہ زمانہ میں یعنی مستقبل میں کام کا جاری رہنا پایا جاتا ہے۔ جیسے وہ دو ماہ تک اس کتاب پر کام کرتا رہے گا۔ یہ انجن چلتا رہے گا۔
بنانے کا طریقہ: حالیہ ناتمام کے بعد رہے گا بڑہانے سے یہ زمانہ بن جاتا ہے۔ جیسے لکھنا مصدر infinitive ہے اور لکھتا حالیہ ناتمام Present indefinite پس لکھتا کے بعد رہے گا کا اضافہ کردیا جائے تو مستقبل مدامی بن جاتا ہے۔ جیسے to write ایک مصدر یعنی Infinitive ہے اور writes اس کی ناتمام یعنی indefinite شکل ہے۔
البتہ انگریزی میں جب مستقبل مدامی یعنی بنانا ہو تو will/shall کے بعد keep/continue کا اضافہ کیا جاتا ہے اور پھر Present Participle لگا دی جاتی ہے۔ جیسے اردو کا فقرہ کے وہ لکھتا رہے گا کو اگر انگریزی زبان میں دیکھیں تو یہ ایسے ہوگا He will keep writing.
مصدر مرکب
ایسے تمام مصادر یعنی Gerund کو جو دوسری زبانوں کے الفاظ کے آخر میں مصدر کی علامت ’’نا‘‘ زیادہ کر کے یا دوسری زبانوں کے الفاظ کے بعد اُردو مصدر لگا کر بنا لیے جاتے ہیں۔ انہیں مصدر جعلی یا مصدر مرکب کہتے ہیں۔ جیسے تشریف لانا، فلمانا، سیر کرنا، گرمانا، کفنانا وغیرہ۔ یہاں ہم مثال لیتے ہیں جاتا رہنا یہ ایک مصدر مرکب ہے۔ پس اگر اس سے مستقبل کا جملہ بنائیں جیسے اس کا کام جاتا رہے گا۔ یعنی ملازمت کھو دینا۔ تو یہ مستقبل مدامی نہیں ہے بلکہ مستقبل مطلق یعنی Future Indefinite ہے۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ آپ جان لیں کہ مصدر مرکب کیا ہوتا ہے۔
مصدر Gerund
انگریزی گرامر میں Gerund سے مراد ہے فعل یعنی verb کی پہلی حالت یا Form کے ساتھ Ing کا اضافہ کرکے دو مقاصد حاصل کرنا۔ ایک یہ کہ فعل یعنی verb سے اسم یعنی noun بنایا جائے۔ جیسے write ایک verb کی پہلی فارم ہے اور یہ فعل ہے اب اگر Writing کردیں تو یہ ایک اسم یعنی noun بھی ہے۔ یعنی یہ ایک فعل کا نام ہے۔ جیسے I like writing کا مطلب ہے کہ مجھے لکھنا (نثر، نظم) پسند ہے۔ تو یہاں لکھنا ایک اسم ہے۔ دوسرا مقصد اس کا یہ ہوتا ہے کہ اسم صفت یعنی adjective بنایا جائے۔ جیسے writing table, writing pad وغیرہ میں writing ایک اسم صفت یعنی adjective ہے۔
استغنا: رہے گا، سے ایک قسم کی لاپرواہی یا استغنا بھی ظاہر کیا جاتا ہے جیسے آپ جائیے وہ آتا رہے گا۔ آپ چپ رہیے وہ خود ہی پڑھتا رہے گا۔
حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں:
تکمیل اشاعت ہدایت کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ آنحضرت ﷺ پر جو اتمام نعمت اور اکمال الدین ہوا تو اس کی دو صورتیں ہیں۔ اول تکمیل ہدایت۔ دوسری تکمیل اشاعت ہدایت۔ تکمیل ہدایت من کل الوجوہ آپؐ کی آمد اوّل سے ہوئی اور تکمیل اشاعت ہدایت آپؐ کی آمد ثانی سے ہوئی کیونکہ سورۃ جمعہ میں جو اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ (الجمعہ: 7) والی آیت آپؐ کے فیض اور تعلیم سے ایک اور قوم کے تیار طیار کرنی کی ہدایت کرتی ہےاس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ ایک بعثت اور ہےاور یہ بعثت بروزی رنگ میں ہے جو اس وقت ہورہی ہے پس یہ وقت تکمیل اشاعت ہدایت کا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اشاعت کے تمام ذریعے اور سلسلے مکمل ہورہے ہیں۔ چھاپہ خانوں کی کثرت اور آئے دن ان میں نئی باتوں کا پیدا ہونا، ڈاکخانوں، تار برقیوں، ریلوں، جہازوں، کا اجرا اور اخبارات کی اشاعت ان سب امور نے مل ملا کر دنیا کو ایک شہر کے حکم میں کردیا ہے پس یہ ترقیاں بھی دراصل آنحضرت ﷺ کی ہی ترقیاں ہیں کیونکہ اس سے آپ کی کامل ہدایت کے کمال کا دوسرا جزو تکمیل اشاعت ہدایت پورا ہورہا ہے۔
(ملفوظات جلد2 صفحہ238-239 ایڈیشن 2016)
اقتباس کے مشکل الفاظ کے معنی
تکمیل: مکمل کرنا
اتمام نعمت: انعام کا پورا ہونا
من کل الوجوہ: ہر پہلو سے، پوری طرح۔
آمد اوّل: پہلی بارآنا۔
آمد ثانی: دوسری بار آنا۔
بروزی: بروز سے اسم صفت ہے، ظہور، کسی مخفی شے کے نظر آنے کا عمل یا کیفیت۔
چھاپہ خانہ: پریس جہاں کتابیں، اخبارات پرنٹ ہوکر چھاپے جاتے ہیں Printing press
ڈاکخانہ: پوسٹ آفسPost office
تار برقی: ٹیلی گرامTelegram
اجرا: جاری کرنا issuance/ to launch
دنیا کو ایک شہر کے حکم میں کرنا: یعنی مواصلات اور معلومات کے انقلاب کے باعث جغرافیائی سرحدیں صرف علامتی رہ گئی ہیں اور دنیا ایک گلوبل شہر بن گئی ہے۔ آج دنیا کے تمام بڑے شہروں سے بلاواسطہ دوسرے ملکوں کے بڑے شہروں سے کاروبار ہوتا ہے۔ ہر گلوبل شہر میں پورے بازار مخصوص ہیں جہاں ہر ملک کا بینک موجود ہوتا ہے اور حکومتی روک ٹوک کے بغیر قوانین کے اندر رہتے ہوئے دوسرے ماملک کے گلوبل شہروں کے ساتھ اس طرح کاروبار ہوتا ہے جیسے مقامی کاروبار ہورہا ہو۔ پس حضرت مسیح موعود ؑ نے گلوبل یا سائبر شہروں کی تشکیل کی پیش از وقت خبر دی کیونکہ تکمیل اشاعت ہدایت کے لئے یہ ضروری تھا۔
(عاطف وقاص۔ ٹورنٹو کینیڈا)